سورۃ النٰزعٰت

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
سورۃ النٰزعٰت
بِسۡمِ اللہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ
﴿وَ النّٰزِعٰتِ غَرۡقًا ۙ﴿۱﴾ وَّ النّٰشِطٰتِ نَشۡطًا ۙ﴿۲﴾وَّ السّٰبِحٰتِ سَبۡحًا ۙ﴿۳﴾ فَالسّٰبِقٰتِ سَبۡقًا ۙ﴿۴﴾ فَالۡمُدَبِّرٰتِ اَمۡرًا ۘ﴿۵﴾﴾
فرشتوں کی پانچ اقسام:
[1]:
”وَ النّٰزِعٰتِ غَرۡقًا“․․
قسم ہے ان فرشتوں کی جو کافروں کی روح کو کھینچ کر نکالتے ہیں۔
[2]:
”وَّ النّٰشِطٰتِ نَشۡطًا “․․
اور قسم ہے ان فرشتوں کی جو مسلمانوں کی روح اتنی آسانی سے نکالتے ہیں کہ جیسے گرہ کھول دی گئی ہو، چمڑے کی مشک میں پانی ہے اس کو کھول دو، غبارےمیں ہوا ہے اس کا منہ کھول دو۔ جس طرح ہوا نکلتی ہے اسی طرح تیزی سے مسلمان کی روح نکل جاتی ہے۔
یہاں ایک بات سمجھ لیں۔ کافر کی روح مشکل سے نکلتی ہے، بظاہر اگر نظر آئے بھی کہ کافر جلدی مر گیا تو بظاہر کا حکم اور ہوتا ہے، اندر کی تکلیف اور ہوتی ہے۔ مسلمان کو بظاہر تکلیف محسوس ہو بھی تو پھر بھی تکلیف نہیں ہوتی۔ اللہ کافر کے لیے موت کے بعد برزخ کا عذاب مستحضر کرتے ہیں اس کو دیکھ کر کافر کی روح کا جسم سے نکلنے کو دل ہی نہیں کرتا، فرشتے کھینچ کر نکالتے ہیں پھر اس کو تکلیف ہوتی ہے، اور مؤمن کے لیے اللہ برزخ کے انعامات سامنے کر دیتے ہیں تو روح دوڑ کر وہاں جاتی ہے۔ اس لیے جو شہید ہے اس کی روح عام انسان کی بنسبت بہت آسانی سے نکلتی ہے، اللہ ہم سب کو شہادت کی موت عطا فرمائے۔(آمین)
[3]:
” وَّ السّٰبِحٰتِ سَبۡحًا“․․
اور قسم ہے ان ملائکہ کی جو تیرتے ہیں۔ تیرنے کا معنی کہ جس طرح زمین ہے اس میں درخت ہیں پہاڑ ہیں رکاوٹیں ہیں اور پانی میں رکاوٹیں نہیں ہیں، کشتیاں بغیر رکاوٹ کے بھاگتی رہتی ہیں، اس لیے فرمایا کہ ملائکہ اللہ کےحکموں کو لے کر تیرتے ہیں یعنی ان کو بھی درمیان میں کوئی رکاوٹ نہیں ہوتی۔
[4]:
”فَالسّٰبِقٰتِ سَبۡقًا“․․
جو حکم ملتا ہے اس کو لے کر دوڑتے ہیں۔
[5]:
”فَالۡمُدَبِّرٰتِ اَمۡرًا“․․
پھر جو حکم خدا ان کو دیتے ہیں ان کے لیے تدبیر اختیار کرتے ہیں۔
قیامت کا منظر:
﴿یَوۡمَ تَرۡجُفُ الرَّاجِفَۃُ ۙ﴿۶﴾ تَتۡبَعُہَا الرَّادِفَۃُ ؕ﴿۷﴾ قُلُوۡبٌ یَّوۡمَئِذٍ وَّاجِفَۃٌ ۙ﴿۸﴾ اَبۡصَارُہَا خَاشِعَۃٌ ۘ﴿۹﴾﴾
جس دن ہلانے والی ہلا کر رکھ دے گی۔ اس سے مراد پہلا صور ہے۔ اس کے پیچھے دوسری آئے گی۔ اس سے مراد دوسرا صور ہے۔ اس دن آدمیوں کے دل لرزتے ہوں گے اور ان کی آنکھیں جھکی ہوئی ہوں گی۔
﴿یَقُوۡلُوۡنَ ءَاِنَّا لَمَرۡدُوۡدُوۡنَ فِی الۡحَافِرَۃِ ﴿ؕ۱۰﴾ ءَ اِذَا کُنَّا عِظَامًا نَّخِرَۃً﴿ؕ۱۱﴾ قَالُوۡا تِلۡکَ اِذًا کَرَّۃٌ خَاسِرَۃٌ ﴿ۘ۱۲﴾ فَاِنَّمَا ہِیَ زَجۡرَۃٌ وَّاحِدَۃٌ ﴿ۙ۱۳﴾ فَاِذَا ہُمۡ بِالسَّاہِرَۃِ ﴿ؕ۱۴﴾﴾
کہتے ہیں کہ کیا ہم دوبارہ پہلی حالت پر لوٹا دیے جائیں گے؟ جب ہم بوسیدہ ہڈیاں بن جائیں پھر بھی؟ مزید یہ کہتے ہیں کہ اگر تمہاری بات سچی ہے پھر تو ہمارا بہت نقصان ہو گا! ہم نے تو قیامت کے لیے کوئی عمل کیا ہی نہیں ہے۔
اللہ فرماتے ہیں:
﴿فَاِنَّمَا ہِیَ زَجۡرَۃٌ وَّاحِدَۃٌ﴾
وہاں تو ایک کڑک ہو گی اور سارے لوگ نکل کر میدان میں آ کھڑے ہوں گے، پھر ان کو سمجھ آئے گی۔
موسیٰ علیہ السلام کی تبلیغ:
﴿ہَلۡ اَتٰىکَ حَدِیۡثُ مُوۡسٰی ﴿ۘ۱۵﴾ اِذۡ نَادٰىہُ رَبُّہٗ بِالۡوَادِ الۡمُقَدَّسِ طُوًی ﴿ۚ۱۶﴾﴾
جس طرح آج یہ لوگ باتیں کر رہے ہیں کہ کیا ہو گا؟ اگر حشر بپا ہوا تو بہت نقصان ہو گا وغیرہ وغیرہ ․․․ تو موسیٰ علیہ السلام کا واقعہ آپ نے سنا؟ انہیں فرعون کی طرف بھیجا گیا تھا اور فرعون بھی سرکشی کرتا تھا، وہ بھی جھٹلاتا تھا! وہ بھی ایسی باتیں کرتا تھا، بالآخر فرعون کا کیا حشر ہوا؟یہ لوگ بھی آج بک بک کرتےہیں ان کا حشر بھی ان سےبدتر ہوگا۔
وادی مقدس جس کا نام طویٰ تھا وہاں اللہ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے گفتگو کی۔
﴿اِذۡہَبۡ اِلٰی فِرۡعَوۡنَ اِنَّہٗ طَغٰی ﴿۫۱۷﴾فَقُلۡ ہَلۡ لَّکَ اِلٰۤی اَنۡ تَزَکّٰی ﴿ۙ۱۸﴾ وَ اَہۡدِیَکَ اِلٰی رَبِّکَ فَتَخۡشٰی ﴿ۚ۱۹﴾﴾
کہ فرعون کےپا س جاؤ! اس نے سرکشی کی ہے۔حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جا کر فرعون سے کہا کہ کیا تو چاہتا ہےکہ تو ٹھیک ہو جائے؟ تو اپنی اصلاح چاہتا ہے؟ میں تیرے رب کے راستے کی رہنمائی کروں تاکہ تجھ میں خوفِ خدا پیدا ہو جائے!
﴿فَاَرٰىہُ الۡاٰیَۃَ الۡکُبۡرٰی ﴿۫۲۰﴾فَکَذَّبَ وَ عَصٰی ﴿۫۲۱﴾ ثُمَّ اَدۡبَرَ یَسۡعٰی ﴿۫۲۲﴾﴾
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس کومعجزات دکھائے، اس نےجھٹلایا اور نافرمانی کی، پھر وہ پیٹھ پھیر کر دوڑا یعنی تخت کی طرف گیا ، وہاں سب کو جمع کیا اور پکار کر کہنے لگا :
”اَنَا رَبُّکُمُ الۡاَعۡلٰی“
میں ہی تمہارا سب سے بڑا رب ہوں۔
﴿فَاَخَذَہُ اللہُ نَکَالَ الۡاٰخِرَۃِ وَ الۡاُوۡلٰی ﴿ؕ۲۵﴾﴾
اللہ نے اسے دنیا اور آخرت کا ایسا عذاب دیا کہ بعد والو ں کے لیے عبرت بن گیا۔ ”نکال“ ایسے عذاب کو کہتے ہیں کہ جو دوسروں کے لیے عبرت کا باعث بنے۔
بعث بعد الموت پر دلیل:
﴿ءَاَنۡتُمۡ اَشَدُّ خَلۡقًا اَمِ السَّمَآءُ ؕ بَنٰہَا ﴿ٝ۲۷﴾ رَفَعَ سَمۡکہہا فَسَوّٰىہَا ﴿ۙ۲۸﴾﴾
یہ لوگ کہتے ہیں کہ ہمیں کیسے اٹھائیں گے؟ اللہ فرماتے ہیں کہ تمہیں اٹھانا کیا مشکل ہے؟ پیدا کرنا کیا مشکل ہے؟ ہم نے آسمان کو پیدا کیا ہے تو تمہیں پیدا کرنا مشکل ہے یا آسمان کو؟ آسمان کی چھت کو اونچا کیا اور پھر اسے برابر کر دیا ہے۔
﴿وَ اَغۡطَشَ لَیۡلَہَا وَ اَخۡرَجَ ضُحٰہَا ﴿۪۲۹﴾﴾
فرمایا: اور اللہ نے اس کی رات کو تاریک بنایا اور اس کے دن کی دھوپ نکالی۔ اصل میں چونکہ سورج جاتا ہے تو رات آتی ہے، سورج آتا ہے تو روشنی آتی ہے اور سورج کا تعلق آسمان سے ہے اس لیے ان سب چیزوں کی نسبت آسمان کی طرف ہو رہی ہے۔
﴿وَ الۡاَرۡضَ بَعۡدَ ذٰلِکَ دَحٰىہَا ﴿ؕ۳۰﴾ اَخۡرَجَ مِنۡہَا مَآءَہَا وَ مَرۡعٰہَا﴿۪۳۱﴾ وَ الۡجِبَالَ اَرۡسٰہَا ﴿ۙ۳۲﴾ مَتَاعًا لَّکُمۡ وَ لِاَنۡعَامِکُمۡ ﴿ؕ۳۳﴾﴾
فرمایا: پھر ہم نے زمین کو پھیلایا ہے، اس سے اس کا پانی نکالا، اس کا گھاس اور نباتات نکالیں اور پہاڑ اس میں قائم کیے تاکہ تم اور تمہارے جانور نفع اٹھائیں۔
وقوعِ قیامت کا بیان:
﴿فَاِذَا جَآءَتِ الطَّآمَّۃُ الۡکُبۡرٰی ﴿۫ۖ۳۴﴾ یَوۡمَ یَتَذَکَّرُ الۡاِنۡسَانُ مَا سَعٰی ﴿ۙ۳۵﴾﴾
جب اچانک بہت بڑا ہنگامہ برپا ہو جائے گا تو اس وقت انسان کو اپنے سارے کرتوت یاد آ جائیں گے۔
﴿وَ بُرِّزَتِ الۡجَحِیۡمُ لِمَنۡ یَّرٰی ﴿۳۶﴾﴾
اس دن دوزخ ہر دیکھنے والے کے سامنے لائی جائے گی۔
﴿فَاَمَّا مَنۡ طَغٰی ﴿ۙ۳۷﴾ وَ اٰثَرَ الۡحَیٰوۃَ الدُّنۡیَا ﴿ۙ۳۸﴾ فَاِنَّ الۡجَحِیۡمَ ہِیَ الۡمَاۡوٰی ﴿ؕ۳۹﴾ وَ اَمَّا مَنۡ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ وَ نَہَی النَّفۡسَ عَنِ الۡہَوٰی ﴿ۙ۴۰﴾ فَاِنَّ الۡجَنَّۃَ ہِیَ الۡمَاۡوٰی ﴿ؕ۴۱﴾﴾
جس شخص نے نافرمانی کی اور دنیا کو آخرت پر ترجیح دی تو جہنم اس کا ٹھکانا ہو گا اور جو شخص اللہ کے حضور پیش ہونے سے ڈر گیا اور اپنے نفس کو خواہشات سے روکا تو جنت اس کا ٹھکانا ہو گا۔
خواہشِ نفس کو روکنے کے تین درجات:
پہلا درجہ : یہ ہے کہ آدمی اچھے عقائد اختیار کرے اور برے عقائد سے بچے، نیک اعمال کرے اور کبھی کبھی گناہ ہو جائے۔
دوسرا درجہ : یہ ہے کہ عقائد بھی اچھے ہو ں، اعمال بھی اچھے ہوں، گناہوں سے بچے اور ساتھ مشتبہات سے بھی بچے۔ مشتبہات کا معنی کہ ایسی چیز جس میں شک ہو کہ شاید یہ گنا ہ ہے یا شاید نیکی ہے تو اس کو چھوڑ دے۔
تیسرا درجہ : کہ آدمی کے عقائد بھی ٹھیک ہوں، اعمال بھی ٹھیک ہوں، گناہوں سے بھی بچے، ذکر اللہ بھی کرے، مراقبہ بھی کرے اور اس کثرت کے ساتھ نفس کی اصلاح کرے کہ نفس گناہو ں کا نام بھی نہ لے۔
﴿یَسۡـَٔلُوۡنَکَ عَنِ السَّاعَۃِ اَیَّانَ مُرۡسٰہَا ﴿ؕ۴۲﴾ فِیۡمَ اَنۡتَ مِنۡ ذِکۡرٰىہَا ﴿ؕ۴۳﴾ اِلٰی رَبِّکَ مُنۡتَہٰىہَا ﴿ؕ۴۴﴾ اِنَّمَاۤ اَنۡتَ مُنۡذِرُ مَنۡ یَّخۡشٰہَا ﴿ؕ۴۵﴾﴾
یہ پوچھتے ہیں کہ قیامت کب آئےگی؟ میرے پیغمبر! قیامت کا حتمی علم تو اللہ کو ہے نا! تو اس کو بیان کرنے سے آپ کو کیا فائدہ؟ اس کا حقیقی علم تو ہم نے نہ آپ کو دیا ہے نہ کسی اور کو دیا تو اس کے تذکرے کا کیا فائدہ؟! اس کا حقیقی علم اللہ کو ہے؟ آپ صرف اس کو ڈرائیں جو ڈرنا چاہتا ہے۔
﴿کَاَنَّہُمۡ یَوۡمَ یَرَوۡنَہَا لَمۡ یَلۡبَثُوۡۤا اِلَّا عَشِیَّۃً اَوۡ ضُحٰہَا ﴿٪۴۶﴾﴾
جب یہ قیامت کے دن اٹھیں گے تو ان کومحسوس ہو گا کہ ایک شام یا ایک صبح ہم دنیا میں رہے تھے، اور اس کو دنیا میں رہ کر سمجھنا بہت آسان ہے۔ جیسے آج دیکھو! کسی آدمی کی عمر پینتیس سال ہے، کسی کی چالیس سال ہے، پچاس سال ہے، آپ میں سے ہر بندہ اپنی عمر دیکھ لے تو یو ں لگتا ہے کہ کل آئے تھے۔ اسی طرح قیامت کے دن بھی اتنی عمر گزار کر یوں لگے گا کہ جیسے کل آئے تھے، اتنی تھوڑی سی زندگی ہے۔
اپنے علم پر عمل کیجیے!
اس لیے ہمیں بھر پور خیال کر کے اپنی آخرت کی فکر اور تیاری کرنی چاہیے۔ یہ بات میں بار ہا کہتا ہوں کہ قرآن کریم اس لیے نہیں ہوتا کہ ہم پڑھ رہے ہیں، سیکھ کر ہم درس دیں گے بلکہ یہ اس لیے ہوتا ہے کہ ہم پڑھ رہے ہیں اور اس پر عمل کریں گے، درس کاموقع ملے نہ ملے․․ پڑھانے کا موقع ملے نہ ملے․․ اصل تو قرآن کریم پڑھا جاتا ہے عمل کرنے کے لیے۔
ہم سب اپنی کوتاہیاں دیکھ لیں۔ اگر کوتاہی ہے تو اصلاح کریں، اچھی حالت ہے تو اس پر اللہ کا شکر ادا کریں۔ جتنا پڑھیں اس پر عمل کریں اور انسان کو قرآن کا فائدہ تب ہوتا ہے جب انسان قرآن کریم کا مخاطب خود کو سمجھے۔ اگر میں درس دے رہا ہوں کیوں کہ میں نے آپ کو سمجھانا ہے، آپ مطالعہ کریں گے کیو ں کہ آپ نے آگے پڑھانا ہے، اپنی اصلاح کے لیے نہ میں مطالعہ کروں نہ آپ مطالعہ کریں تو ہمیں کیا فائدہ ہو گا؟
بس جو پڑھو اس پر عمل کرو! ہم نے پڑھا کہ مسکین اور یتیم پر خرچ کرو، خدا کی راہ میں خرچ کرو تو کسی کو ایک کپ چائے پلا دو، دو روپے گلہ میں ڈال دو تو یہ عمل ہو گیا، اگر ہم نے نہیں کیا تو سوچو ہم نے کیوں نہیں کیا؟ اب دیکھنا! اس محاسبے سے آئندہ عمل کی توفیق کیسے ہوتی ہے۔
اگر ہم تہجد نہیں پڑھتے قرآن کی آیت پڑھی ہے تو اب تہجد شروع کرو کہ اللہ نے ہمیں حکم دیا ہے۔ اللہ کا ذکر نہیں کرتے قرآن کی آیت پڑھی ہے تو اب ذکر اللہ شروع کر دو! دیکھنا آئندہ رغبت کتنی ہوتی ہے۔ بس میں کہتا ہوں کہ قرآن کریم پڑھتے جاؤ اور عمل کرتے جاؤ! پڑھتے جاؤ اور عمل کرتے جاؤ! پڑھتے جاؤ اور عمل کرتے جاؤ! پھر دیکھنا اس کا کتنا فائدہ ہوتا ہے؟! قرآن کریم عمل کی کتاب ہے یہ صرف مطالعہ کی کتاب نہیں ہے۔
اللہ ہم سب کو عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ․