سورۃ عَبَسَ

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
سورۃ عَبَسَ
بِسۡمِ اللہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ
﴿عَبَسَ وَ تَوَلّٰۤی ۙ﴿۱﴾ اَنۡ جَآءَہُ الۡاَعۡمٰی ؕ﴿۲﴾ وَ مَا یُدۡرِیۡکَ لَعَلَّہٗ یَزَّکّٰۤی ۙ﴿۳﴾﴾
سورت کا شان نزول:
اس آیت کا شانِ نزول یہ ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ مشرکین کے بڑے بڑے رؤساء کو دعوت دے کر توحید کا عقیدہ سمجھا رہے تھے جن میں ابوجہل، عتبہ بن ربیعہ، ابی بن خلف، امیہ بن خلف، شیبہ یہ بڑے بڑے لوگ تھے اور بعض روایات میں حضرت عباس رضی اللہ عنہ کا بھی نام ہے جنہوں نے ابھی تک کلمہ پڑھ کر اسلام قبول نہیں کیا تھا۔
گفتگو کے دوران حضرت عبد اللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ حاضر ہوئے اور انہو ں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن کریم کی کوئی آیت سمجھنا چاہی۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے توجہ نہ دی۔ تو انہو ں نے اصرار کیا، بار بار کہا۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کا یو ں بار بار کہنا ناگوار گزرا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے توجہ ہٹا لی اور مشرکینِ مکہ کی طرف متوجہ رہے۔ جب مجلس سے اٹھ کر آپ تشریف لے گئے تو اٹھتے ہی آثارِ وحی نمودار ہوئے اور یہ سورت مبارکہ آپ پر نازل ہوئی۔
﴿عَبَسَ وَ تَوَلّٰۤی ۙ﴿۱﴾ اَنۡ جَآءَہُ الۡاَعۡمٰی ؕ﴿۲﴾﴾ ․․․
ناگوار گزرا ان کو اور انہوں نے توجہ نہ دی اس لیے کہ آنے والا ان کے پاس ایک نابینا شخص تھا۔
﴿وَ مَا یُدۡرِیۡکَ لَعَلَّہٗ یَزَّکّٰۤی ۙ﴿۳﴾﴾ ․․․
اور آپ کوکیا معلوم کہ وہ اچھی طرح مکمل سنور جاتا یا کسی خاص معاملے میں نصیحت حاصل کرتا
﴿اَوۡ یَذَّکَّرُ فَتَنۡفَعَہُ الذِّکۡرٰی ؕ﴿۴﴾﴾․․․
یا یہ نصیحت اس کو نفع دیتی۔
تو یہاں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بات سمجھائی ہے کہ ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا بلکہ آپ کو عبد اللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کا خیال رکھنا چاہیے تھا۔
عام فہم ترجمہ کی ضرورت و اہمیت:
ایک تو ان الفاظ کے معانی اچھی طرح سمجھ لیں۔ ہمارے ہاں عموماً تفاسیر میں اس کا ترجمہ لکھا ہوا ہوتا ہے کہ ”چیں بجبیں ہوا“ اب یہ ترجمہ آج کی اردو کے موافق نہیں ہے، اس لیے ہم معنی اچھی طرح سمجھ نہیں پاتے تو آگے سمجھانا مشکل ہوتا ہے۔ تو
”عَبَسَ“
کا معنی یہ کریں کہ آپ کو ناگوار گزرا۔
﴿وَ تَوَلّٰۤی﴾․․
اور آپ نے توجہ نہ دی۔ ایک تعبیر یہ ہے کہ ”اعراض کیا“ اور ایک ہے ”توجہ نہ دی“ دونوں میں فرق ہے۔ تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ایسے الفاظ استعمال کریں جو آپ کی شان کے موافق ہوں اور محاورہ اس مفہوم کا ساتھ دیتا ہو۔
طالبِ دین کو مقدم رکھیں!
﴿اَمَّا مَنِ اسۡتَغۡنٰی ۙ﴿۵﴾ فَاَنۡتَ لَہٗ تَصَدّٰی ؕ﴿۶﴾ وَ مَا عَلَیۡکَ اَلَّا یَزَّکّٰی ؕ﴿۷﴾﴾
وہ شخص جو دین کے معاملےمیں لا پرواہی سے کام لیتا ہے آپ اس کی بہت فکر کرتے ہیں حالانکہ آپ کے ذمہ نہیں ہے کہ آپ اس کو سنواریں۔
﴿وَ اَمَّا مَنۡ جَآءَکَ یَسۡعٰی ۙ﴿۸﴾ وَ ہُوَ یَخۡشٰی ۙ﴿۹﴾ فَاَنۡتَ عَنۡہُ تَلَہّٰی ﴿ۚ۱۰﴾﴾
ہاں البتہ جو شخص آپ کے پاس طالب بن کر آتا ہے اور وہ اللہ سے ڈرتا بھی ہے آپ اس پر مکمل توجہ نہیں دیتے۔
اب
”يَسْعىٰ“
کا معنی ہمیشہ ”دوڑنا“ نہیں ہوتا کہ آپ یہ ترجمہ کریں کہ ”آپ کے پاس آتا ہے دوڑتا ہوا“ عبد اللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ تو دوڑتے ہوئے نہیں آئے تھے۔ اصل میں یہاں یہ بات بتانی مقصود ہے کہ جو بہت توجہ دیتا ہے، طالب بن کر آتا ہے اور ڈرتا بھی ہے تو آپ اس کی فکر کم کرتے ہیں۔
﴿کَلَّاۤ﴾
آئندہ ایسے نہ کیجیے،
﴿ اِنَّہَا تَذۡکِرَۃٌ ﴿ۚ۱۱﴾ فَمَنۡ شَآءَ ذَکَرَہٗ ﴿ۘ۱۲﴾ ﴾
یہ قرآن کریم نصیحت ہے لیکن اس شخص کے لیے جو اس سے نصیحت حاصل کرنا چاہے۔
اب دیکھیں! ترجمہ سے محسوس ہوتا ہے کہ قرآن کتنافصیح وبلیغ ہے۔ اس لیے میں آپ کی خدمت میں عرض کرتا ہوں کہ قرآن کریم کا ترجمہ کرتے ہوئے محاورات کا بہت خیال رکھا کریں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اجتہاد:
یہاں یہ بات سمجھیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر اجتہاد فرمایا تھا۔ آپ کا اجتہاد یہ تھا کہ کفر ایک بہت بڑا جرم اور بیماری ہے اور اگر صحابی نے کوئی مسئلہ دریافت کرنا تھا تو یہ بعد میں بھی ہو سکتا تھا۔ پہلے بڑے جرم کا علاج کرنا چاہیے، کفر سے بندے کو بچانا چاہیے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کفر کی اشدیت کا خیال کرتے ہوئے کفار پر توجہ دی ہے اور صحابی پر زیادہ توجہ نہیں دی۔ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اجتہاد تھا اور اس اجتہاد میں خطا کیا ہوئی؟ یہ قرآن کریم کے لفظ بتا رہے ہیں:
﴿وَ مَا یُدۡرِیۡکَ لَعَلَّہٗ یَزَّکّٰۤی ۙ﴿۳﴾ اَوۡ یَذَّکَّرُ فَتَنۡفَعَہُ الذِّکۡرٰی ؕ﴿۴﴾﴾
آنے والا شخص ایسا تھا کہ یا تو تزکیہ کر کے کامل سنور جاتا یا آنے والا شخص ایسا تھا کہ کسی خاص معاملے میں نصیحت حاصل کر لیتا، تو
﴿اَمَّا مَنِ اسۡتَغۡنٰی ۙ﴿۵﴾ فَاَنۡتَ لَہٗ تَصَدّٰی ؕ﴿۶﴾﴾
جو بے پرواہی کرتے ہوں ان کی آپ کو فکر ہے تو صحابی کا طالب بن کر مسئلہ پوچھنا اس بات کی دلیل تھی کہ اس کو یقیناً فائدہ ہوتا اور جو بات سننا نہیں چاہتے تھے آپ ان کو سناتے ہیں، تو وہاں یقین نہیں تھا، ہو سکتا ہے کہ فائدہ ہو، درجۂ ظن ہے، موہوم چیز ہے۔ تو خطا کیا ہوئی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے امرِ متیقن کو چھوڑ دیا امرِ موہوم کی وجہ سے ، یہ خطا ہوئی۔ اللہ رب العزت نے اس اجتہاد پر تنبیہ فرما دی کہ آپ کو ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے اجتہاد میں خطا ہو جائے تو لوگ اعتراض کرتے ہیں، اجتہاد تو پیغمبر کا ہو اس میں بھی خطا ہو جاتی ہے، فرق یہ ہے کہ غیر ِنبی کے اجتہاد میں خطا ہو جائے تو وہ بسااوقات اس پر قائم رہتا ہے چونکہ اس پر وحی نہیں آتی اور نبی کے اجتہاد میں خطا ہو جائے تو نبی اس پر قائم نہیں رہتے چونکہ بعد میں وحی آ جاتی ہے۔ تو یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اجتہاد تھا اور اجتہاد میں خطا تھی۔ اللہ رب العزت کی طرف سے وحی آ گئی کہ آپ کا یہ اجتہاد ٹھیک نہیں تھا، لہذا آپ کو ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔
”یَزَّكّٰی“
اور
”یَذَّكَّرُ“
دونو ں میں فرق یہ ہے کہ تزکیہ یہ کامل اور آخری درجہ ہے یعنی نفعِ اکمل اور
”یَذَّكَّرُ“
یہ ابتدائی درجہ ہے کہ جب آدمی شروع میں آتا ہے تو قرآن کریم پڑھتا ہے، ذکر کرتا ہے، نصیحت حاصل کرتا ہے، گناہوں کو چھوڑتا ہے اور
”یَزَّكّٰی“
یہ کامل درجہ ہوتا ہے۔ تو دونوں درجے قرآن کریم نے بیان کیے ہیں بڑے اہتمام کے ساتھ۔
اپنوں کا خیال پہلے رکھیں:
یہاں جو بات میں سنانا چاہتا ہوں تو اس کے لیے میں معارف القرآن مفتی محمد شفیع صاحب کی ساتھ لایا ہوں تاکہ حضرت کے لفظ نقل کروں اور اس سے آپ کو یہ بات سمجھ میں آئے گی کہ جو کام ہم نے دنیا میں شروع کیا ہے یہ کس حد تک ٹھیک ہے؟ میں نے آپ سے کئی بار کہا کہ میں کئی باتوں کو اصولِ شریعت کی روشنی میں لے کر چلتا ہوں اور میرے سامنے اس کی کوئی تحریر نہیں ہوتی اور جب ہمارے اس طرز اور اسلوب پر اکابر کی کوئی تحریر ملتی ہے تو پھر دل بہت خوش ہوتا ہے۔ حضرت مفتی صاحب نے اس آیت کے تحت یہ لکھا ہے، میں لفظ پڑھ کے سناتا ہوں:
اس موقع میں یہ تو ظاہر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے دو کام بیک وقت آ گئے؛ ایک مسلمان کو تعلیم اور اس کی تکمیل اور دلجوئی، دوسرے غیر مسلموں کی ہدایت کے لیے ان کی طرف توجہ۔ قرآن کریم کے اس ارشاد نے یہ واضح کر دیا کہ پہلا کام دوسرے کام پر مقدم ہے، دوسرے کام کی وجہ سے پہلے کام میں تاخیر کرنا یا کوئی خلل ڈالنا درست نہیں ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ مسلمانوں کی تعلیم اور ان کی اصلاح کی فکر غیر مسلموں کو اسلام میں داخل کرنے کی فکر سے اہم اور مقدم ہے۔
معارف القرآن:ج8 ص 674
ہم پوری دنیا میں یہی کام کر رہے ہیں اور ہمارے اوپر یہی الزام ہوتا ہے کہ تمہیں کفر کی فکر نہیں ہے، تمہیں مسلمانوں کی فکر پڑی ہوئی ہے، لوگ کہتے ہیں کہ ہم کہتے ہیں کہ بات کرو ختمِ نبوت پر کہ قادیانی کافر ہیں، اس پر کہ فلاں کافر ہے اور آپ لوگ کام کرتے ہو فقہ پر، حنفیت پر، اکابر پر، علماء پر․․․ داخلی مسائل کو آپ نے اپنے کام کی محنت کا میدان بنایا ہوا ہے۔ میں نے کہا کہ بھائی! ہم کسی پر بھی تنقید نہیں کرتے ان موضوعات پر جو کام کرتے ہیں وہ ہم سے بڑے ہیں، ہم ان کو اپنے آپ سے بڑا سمجھتے ہیں لیکن جو کام ہم کرتے ہیں ، اکابر کی تحریرات پڑھو وہ کیا کہتے ہیں کہ مقدم کون لوگ ہیں؟ تبلیغی جماعت پوری دنیا میں کام کرتی ہے اور تبلیغ کے اصولوں میں سے ہے کہ کسی کافر کو اسلام کی دعوت نہیں دینی، آپ کو دیکھ کر کلمہ پڑھے اور مسلمان ہو جائے تو الگ بات ہے، دعوت آپ نے اپنوں کو دینی ہے، اپنےٹھیک ہو جائیں گے تو پھر کافر بھی مسلمان ہو جائیں گے، فرق کیا ہے کہ تبلیغ کی دعوت کا اصول تھوڑا سا مختلف ہے اور ہمارا تھوڑا سا مختلف ہے اور کوئی وجہ نہیں! اور اس پر لوگوں کو اشکالات پیدا ہوتے ہیں لیکن جب آپ غور کریں گے تو یہ دونوں کام مختلف بھی نہیں ہیں، وہ فضائل کے ذریعے اعمال پھیلاتے ہیں اور ہم دلائل کے ذریعے اعمال کو پختہ کرتے ہیں، اب اس میں اشکال والی کون سی بات ہے؟
اس سے اگلی بات سمجھیں، حضرت مفتی صاحب فرماتے ہیں:
”اس میں ان علماء کے لیے ایک اہم ہدایت ہے جو غیر مسلموں کے شبہات کے ازالے اور ان کو اسلام سے مانوس کرنے کی خاطر بعض ایسے کام کر بیٹھتے ہیں جس سے عام مسلمانوں کے دلوں میں شکوک شبہات یا شکایات پیدا ہو جاتی ہیں، ان کو اس قرآنی ہدایت کے مطابق مسلمانو ں کی حفاظت اور اصلاحِ حال کو مقدم رکھنا چاہیے، اکبر مرحوم نے خوب فرمایا :
بے وفاسمجھیں

تمہیں اہل حرم اس سے بچو

دَیْر والے کج ادا

کہہ دیں، یہ بدنامی بھلی

معارف القرآن:ج8 ص 674
غیر کہہ دیں کہ یہ بندہ ٹھیک نہیں یہ بدنامی لے لو، اس کی پروا نہ کرو اور ہم اس سے پریشان ہوتے ہیں کہ غیر ہمیں اچھا نہیں سمجھتا، غیر ہمیں کیا کہے گا! چھوڑو غیر کو اپنوں کی فکر کرو!
اب مفتی اعظم پاکستان مفتی محمدشفیع رحمہ اللہ․․مفتی دار العلوم دیوبند ․․ حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ کے دستِ راست کتنی کھل کے بات فرما رہے ہیں کہ ”اس میں ان علماء کے لیے ایک اہم ہدایت ہے ․․․“ اور یہی رونا میں روتا ہوں آپ کفار کو دین کی طرف لاتے ہوئے ایسے کام نہ کرو کہ مسلمانوں کے لیے آئندہ مصیبت پیدا ہو جائے، مسلمان پھر یہ کہیں گے کہ یہ کام ٹھیک تھا، اگر ٹھیک نہ ہوتا تو فلاں حضرت کیوں کرتے! اس لیے یہ مسائل پیدا نہ کرو!
اپنے کام پر شرح صدر:
یہ میں نے اس لیے دو دلیلیں پڑھی ہیں تاکہ آپ کو اپنے کام پر شرح صدر ہو جائے۔ مجھے تو الحمد للہ شرح صدر ہے لیکن بسا اوقات عام بندے کا مزاج ہوتا ہے کہ یہ کس نے لکھا ہے؟ میں نے کہا: جو ہم کام کرتے ہیں آئندہ یہ الجھن نہیں ہو گی کہ یہ کس نے لکھا ہے؟! لوگ خود بتائیں گے کہ جی فلاں نے لکھا ہے! اس کی ہرگز پروا نہ کریں کہ آپ کے ساتھ دو ہیں یا دس ہیں، مسلسل کام کریں، اعتدال کے ساتھ کام کریں، اللہ رب ا لعزت آئندہ نسلوں میں اس آواز کو عام فرما دیں گے۔
رہِ اعتدال پر گامزن رہیں!
میں با رہا کہہ رہا ہوں کہ دیکھو! ہم توڑ نہیں رہے اور اس موقع پر پھر اعتدال کا پہلو ذہن میں رکھیں! ہمارے ہاں الجھنیں یہ ہیں کہ بعض فتنے ہیں چھوٹے یا بڑے، ہمارے اکابر ان فتنو ں کو کسی کام کے لیے ساتھ ملا لیتے ہیں تو دوسرے لوگ جو چھوٹے ہیں ان میں دو طبقے بن جاتے ہیں؛ ایک طبقہ کہتا ہے کہ یہ فتنے ٹھیک ہیں، کیوں کہ اگر یہ غلط ہوتے تو ہمارے اکابر ان کو ساتھ کیوں ملاتے؟! دوسرا طبقہ کہتا ہے کہ اکابر غلط ہیں کیوں کہ انہوں نے فتنو ں کو ساتھ ملا کر مضبوط کیا ہے۔
کوئی فتنوں کو ٹھیک کہہ دیتا ہے اور کوئی اکابر کو غلط کہہ دیتا ہے اور آپ دیکھیں کہ ہم کتنے راہِ اعتدال پر ہیں کہ فتنوں کو فتنہ سمجھتے ہیں اور بڑوں کو بڑا سمجھتے ہیں، اپنوں کو اپنا سمجھتے ہیں اور غیر کو غیر سمجھتے ہیں۔ پھر لوگ ہمیں کہتے ہیں کہ آپ پھر ان کو ساتھ کیوں نہیں ملاتے؟ میں نے کہا کہ بھائی! ہم چھوٹے ہیں، ان فتنو ں سے کام نہیں لے سکتے، ہمارے بڑے وہ بڑے ہیں ان فتنو ں سے کام لے سکتے ہیں۔
اس کی مثال ایسے سمجھو کہ جیسے مدرسہ کے مہتمم صاحب کسی طالب علم کو بھیجیں کہ فلاں بھنگی عیسائی کو بلاکر لاؤ، میں ذرا سبق پڑھا رہا ہوں، اس کو دفتر میں بٹھا کر چائے پلاؤ! اب باقی طلبہ کو الجھن ہوتی ہے کہ استاذ جی عیسائی کی کتنی قدر کرتے ہیں، ہمیں آج تک چائے کا کپ نہیں پلایا لیکن بھنگی کو دفتر میں بٹھا کر چائے پلا رہے ہیں! جب تھوڑی دیر میں استاد سبق سے فارغ ہوتے ہیں تو بھنگی سے کہتے ہیں کہ یہاں طلبہ بہت ہیں، ہمارا نکاسی کا نظام ذرا کمزور ہے، ذرا گٹر صاف کر دو! پھر طالب علموں کو بات سمجھ آتی ہےکہ اس کو چائے کیوں پلائی ہے۔
مہتمم صاحب آپ کو چائے پلاتے اور کہتے کہ گٹر کو صاف کر دو! تو آپ نے کہنا تھا کہ کسی بھنگی کو بلا لیں۔ اب بھنگی کو بلائیں اور پہلے چائے پلائیں ابھی گٹر صاف کرنے کا کہا نہیں تو آپ کو اشکالات شروع ہو گئے۔ ہم کہتے ہیں کہ ہم بھنگی کو بھنگی سمجھتے ہیں اور مہتمم صاحب کو مہتمم صاحب سمجھتے ہیں، اس بھنگی کو چائے پلانے کی وجہ سے مہتمم صاحب کو بھنگی کے ساتھ نہیں ملاتے اور چائے پینے کی وجہ سے ہم بھنگی کو مہتمم صاحب کے ساتھ نہیں ملاتے۔ بھنگی؛ بھنگی رہے گا اور مہتمم صاحب؛ مہتمم صاحب رہیں گے۔
اسی طرح ہمارے بڑے حضرات اگر کسی بڑے کام کے لیے کسی فتنے کو ساتھ ملائیں گے تو نہ ہم فتنو ں کو صحیح کہہ سکتے ہیں اور نہ ہی ہم اکابر کو فتنہ کہہ سکتے ہیں، میں تمہیں قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ تم بتاؤ اس سے زیادہ اعتدال کا کوئی راستہ ہو سکتا ہے اور پھر بھی بدنام ہم ہوتے ہیں کہ مولانا گھمن صاحب بہت سخت ہیں! عجیب بات ہے۔
بتاؤ اس سے زیادہ اعتدال کیا ہو سکتا ہے! میں اس لیےکہتا ہوں کہ جو ہمارے قریب نہیں بلکہ دور ہیں ان کو شکوک وشبہات پیدا ہوتے ہیں۔ جب ہمارے ساتھ رہتے ہیں تو یہ شبہات ختم ہو جاتے ہیں۔ اللہ ہمیں بات سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
موت؛ مؤمن کاتحفہ
﴿ثُمَّ اَمَاتَہٗ فَاَقۡبَرَہٗ ﴿ۙ۲۱﴾﴾
پھر انسان کو موت دی اور اسے قبر میں پہنچا دیا۔
یہاں پر اللہ رب العزت نے موت کو مقامِ نعمت میں بیان کیا ہے کہ یہ بہت بڑی نعمت ہے۔ حدیث پاک میں ہے، اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
تُحْفَةُ الْمُؤمِنِ ؛ اَلْمَوْتُ․
المستدرک علی الصحیحین:ج5 ص 455 رقم الحدیث 7970
کہ مؤمن کا تحفہ موت ہے۔
رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما تھے۔ ایک جنازہ گزرا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”مُسْتَرِيحٌ أَوْ مُسْتَرَاحٌ مِنْهُ“
یہ مستریح ہے یا مستراح منہ ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے پوچھا: اے اللہ کے رسول! مستریح یامستراح منہ کا کیا معنی ہے؟ فرمایا کہ یہ مرنے والا یا تو لوگوں کے شر سے بچ گیا ہے یا لوگ اس کے شر سے بچ گئے ہیں۔
شعب الایمان للبیہقی: ج7 ص8 رقم الحدیث 9264
موت مؤمن کے لیے تحفہ ہے۔ مؤمن جیسابھی ہو وقتی طور پر طبعی تقاضے کی وجہ سے موت سے گھبراتا ہے لیکن درحقیقت ہر مؤمن موت سے پیار کرتا ہے کیوں کہ دنیا میں محبوب ترین چیز مؤمن کی اللہ ہے اور اللہ ملے گا موت کے بعد، دنیا میں ملتا ہے لیکن پتا نہیں چلتا اور وہا ں ملے گا ایسے کہ محسوس بھی ہو گا۔
اس لیے حیان بن اسود کہتے ہیں:
اَلْمَوْتُ جِسْرٌ يُوْصِلُ الْحَبِيْبَ إلَى الْحَبِيْبِ․
التذکرۃ للقرطبی: ص13 باب النہی عن تمنی الموت
موت وہ پل ہے جو یار کو یار سے ملاتا ہے۔
کون شخص ہے جو موت سے پیار نہ کرتا ہو، موت سے ہر مؤمن پیار کرتا ہے۔ موت سے ڈریں بھی مت اور مانگیں بھی مت، موت کی تیاری کریں۔ بس اللہ برکت والی عمر عطا فرمائے، تھوڑی عمر میں اللہ زیادہ کام لے لے۔ آمین
اللہ نے موت کو مقامِ نعمت میں بیان کیا ہے۔ یہ موت ایسی چیز ہے جو انسان کی تمام مصیبتوں سے جان چھڑا دیتی ہے، انسان راحت کی طرف منتقل ہوتا ہے۔
﴿فَاَقۡبَرَہٗ﴾ . ․․
قبر کو بھی اللہ نے مقامِ نعمت کے طور پر بیان کیا ہے کہ ہم تمہیں قبر دیتے ہیں۔
ایک بندہ فوت ہوتا ہے۔ اس کو غسل دو،خوشبو لگاؤ، پھر اس کو سفید رنگ کا کفن دو، پھر اکٹھے ہو کر نمازِ جنازہ کی صورت میں اس کے لیے مغفرت کی دعائیں مانگو، پھر عزت واحترام کے ساتھ اس کو قبر میں دفن کرو۔ موت کے بعد بھی اللہ نے انسان کو کتنی شرافت اور کتنی عزت دی ہے۔ قبر بھی مقامِ نعمت پر ہے اور موت بھی مقام نعمت پر ہے۔
ثواب و عذاب قبر برحق ہے:
ہم اھل السنۃ والجماعۃ قبر کے ثواب اور عذاب کے قائل ہیں۔ ثواب کا معنی کہ جو نیک اعمال کیے تھے ان کا اچھا بدلہ ملے اور عذاب کا معنی کہ جو برے کام کیے تھے ان کا برا بدلہ ملے، اور ہم قائل ہیں کہ قبر میں ثواب یا عذاب اَصالتاً بلا واسطہ براہِ راست روح کو ہوتا ہے، طبعاً و ضمناً با لواسطہ جسم کو ہوتا ہے، موت کے بعد احوال براہ راست روح پر آتے ہیں، روح کے واسطہ سے جسم پر آتے ہیں جیسے دنیا میں احوال براہِ راست جسم پر اور جسم کے واسطہ سے روح پر آتے ہیں۔
قبر کے متعلق بعض اشکالات کے جوابات:
اور یہ جو لوگ اس پر اشکال کرتے ہیں کہ جسم تو ہوتا نہیں ہے تو احوال آتے کیسے ہیں؟ جانور نے جسم کو کھا لیا اور پاخانے کے راستہ سے باہر نکال دیا، اب کس کو عذاب و ثواب ہو گا؟ کسی میت کو جلایا اور راکھ کو ہوا میں اڑایا، پانی میں بہایا تو عذاب وثواب کس کو ہو گا؟ اگر کوئی شخص پانی میں گر گیا اور مر گیا اس کے جسم کے اعضا پانی میں تحلیل ہو گئے تو اب ثواب وعذاب کس کو ہو گا؟
لوگوں نے یہ سارے شبہات پیدا کیے یہ بتانے کے لیے کہ جسم کو قبر میں ثواب اور عذاب نہیں ہوتا اور قبر یہ نہیں ہے جو زمین والی ہے، قبر وہ ہے جو علیین یا سجین ہے کیوں کہ اس کو تو قبر ملی نہیں ہے، دفن ہوا نہیں تو پھر اس کو ثواب وعذاب کیسے ہو گا؟
جواب یہ ہے کہ ہمارا مخالف قبر کا معنی نہیں سمجھتا اس لیے اشکال کرتا ہے اور ہمیں قبر کا معنی نہیں آتا تو ہم جواب نہیں دے سکتے، وہ بھی سمجھ جاتا اور ہم بھی سمجھ جاتے تو کم از کم دیانت والی لڑائی ختم ہو جاتی اور ضد والی لڑائی کا کوئی علاج نہیں ہے۔ قبر کی تعریف سمجھیں کہ میت اور میت کے اجزاء کے مَقَر کا نام قبر ہے، تو دنیا میں کون سا ایسا شخص ہے کہ جس کو قبر نصیب نہیں ہوتی؟
اگر اس کو جانور نے کھایا اور پھر پاخانے کے راستے سے باہر نکال دیا گیا تو اس کے اجزاء کسی جگہ تو ہوں گے، وہی اس کی قبر ہے۔ اگر جلایا اور اس کی راکھ کو ہوا میں بکھیر دیا یا پانی میں بہا دیا تو وہ ذرے پانی کےساتھ مل کر کہیں تو جائیں گے نا؟ جہاں جائیں گے وہی قبر ہے۔ایک آدمی پانی میں گر کر مر گیا، اجزا ء پانی میں تحلیل ہو گئے تو تحلیل ہو کر کہیں تو گئے ہیں نا؟ جہاں جائیں گے وہی قبر ہے۔
اب میت صحیح سالم ہو اس کے ساتھ روح کا تعلق قائم اللہ نے کرنا ہے اور اگر میت ایک جگہ سالم نہ ہو بلکہ منتشر ہو تو اس کے ساتھ بھی روح کا تعلق قائم اللہ نے کرنا ہے، تو اللہ کی قدرت پرتمہیں کیا اشکال ہے؟ یہ صرف ان لوگوں کی ڈھکوسلہ بازی ہے وگرنہ وہ شخص جو قبر میں ہے تین دن کے بعد اس کی لاش پھٹتی ہے اور چند دن کے بعد سارا جسم مٹی میں ریزہ ریزہ ہو جاتا ہے تو پھر یہ تین سوال کرنے کی ضرورت کیا پڑی ہے؟ پھر تو سب ایک جیسے ہیں، پھر ثواب وعذاب کس کوہو گا؟
اس لیے ہم نے کہا کہ روح کو ہو گا لیکن روح اور جسم کا تعلق کتنا ہونا چاہیے
قَدْرَ مَا یَتَلَذَّذُ وَیَتَاَلَّمُ․․
اتنا تعلق کافی ہے کہ جس سے جسم ثواب اور عذاب کو محسوس کرے، اتنا تعلق نہیں ہے کہ جیسے دنیا میں ہے کہ دوڑتا پھرے۔
برزخ کی تعریف اور اعتراضات کے جوابات:
اسی قبر کو برزخ بھی کہہ دیا جاتا ہے کہ برزخ میں ثواب اور عذاب ہوتا ہے۔ تو لوگ کہتے ہیں کہ برزخ تو اور جہان ہے یہ جہان ہی نہیں ہے تو فرعون تو اس دنیا میں ہے، وہ پھر برزخ میں کیسے ہوا؟ پھر اس کو تو برزخ کا عذاب نہیں ہو رہا۔ میں یہاں پر بھی وہی بات کہتا ہوں کہ معترض کو برزخ کا معنی نہیں آیا تو وہ اعتراض کرتا ہے اور ہمیں برزخ کا معنی نہیں آیا تو جواب نہیں دے سکتے۔
برزخ کسے کہتے ہیں؟ سجین ایک مقام ہے جو سات زمینوں سے نیچے ہے، علیین ایک مکان ہے جو آسمان سے اوپر ہے، سجین سے لے کر علیین تک سارے مکان اور موت سےلے کر حشر تک یہ سارا زمانہ․․ جب یہ جمع ہو جاتے ہیں تو اس کو برزخ کہتے ہیں۔ تو برزخ؛ ظرفِ زمان اور ظرفِ مکان دونوں کے مجموعے کا نام ہے، سجین سے علین تک ظرفِ مکان اور موت سے لے کر حشر تک ظرفِ زمان جب جمع ہوتے ہیں تو پھر برزخ بنتاہے۔ کبھی اعتراض کرتے ہیں: جی فرعون بھی اسی زمین پر ہے اور ہم بھی اسی زمین پر ہیں، فرعون برزخ میں ہے ہم برزخ میں کیوں نہیں ہیں؟ اسی طرح اگر کسی شخص کو قبر میں دفن نہ کریں بلکہ زمین کے اوپر رکھ دیں تو وہ تو برزخ میں ہو گا اور ہم برزخ میں کیوں نہیں ہیں؟
میں نے کہا ہم زمین پر رہتے ہیں، سجین سے علیین تک ہمیں مکان ملا ہے لیکن صرف مکان کا نام برزخ نہیں ہے بلکہ موت سے لے کر حشر تک جب زمان بھی ملے گا تو پھر برزخ بن جائےگا۔فرعون کو دونوں چیزیں ملی ہیں، ظرفِ زمان بھی اور ظرفِ مکان بھی اور ہمیں ظرفِ مکان تو ملا ہے لیکن ظرفِ زمان نہیں ملا، اسی وجہ ہم برزخ میں نہیں ہیں، وہ برزخ میں ہے۔
اب دیکھو! برزخ کو سمجھنا کتنا آسان ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ بہت مشکل ہے۔ میں کہتا ہوں کہ مشکل ہو گا آپ کے لیے اللہ نے ہم پر آسان کیا ہے، تم نہیں سمجھا سکتے تو پھر ہماری درس گاہ کا رخ کرو اور ہماری اردو بھی اتنی عجیب ہے کہ مجھے دور دور سے لوگوں کے میسیج آتے ہیں کہ مولانا صاحب! آپ کی اردو اتنی عجیب ہے کہ مشکل سے مشکل عقیدہ بھی خود بخود سمجھ میں آ جاتا ہے۔ یہ اللہ کا نظام ہے۔ جب بھی کسی چیز کا فقدان ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ افراد پیدا فرما دیتے ہیں، اس فرد سے کام لیتے ہیں، جب کام پورا ہو جائے تو اس فرد نے دنیا سے جانا ہوتا ہے اور وہ چلا جاتا ہے، حجت تام ہو جاتی ہے۔ اب لوگ یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ بات ہمیں کسی نے سمجھائی نہیں۔
کامیابی کا راز؛ محنت اور تقویٰ
اور اب اگلی بات سمجھنا! یہ برزخ اور ما بعد الموت کے مسائل، علوم سے نہیں آتے، یہ اس وقت آتے ہیں جب آدمی صاحبِ حال ہو، صرف صاحبِ قال ہو تو یہ باتیں سمجھ میں نہیں آتیں۔ بعض چیزیں ایسی ہیں جو قول سے سمجھ آتی ہیں اور بعض چیزیں ایسی ہیں جو قول سے نہیں بلکہ ذوق اور وجدان سےسمجھ میں آتی ہیں اور یہ وجدان اور ذوق کی نعمت اللہ دیتے ہیں تقویٰ کی برکت سے اور محنت کی برکت سے۔ صرف تقویٰ ہو تو بھی وجدان ٹھیک نہیں ہوتا اور صرف محنت ہو تب بھی ٹھیک نہیں ہوتا، محنت اور تقویٰ دو چیزیں مل جائیں تو اللہ پاک ذوق عطا فرماتے ہیں، پھر اللہ اس چیز کو بندے کا حال بنا دیتے ہیں اور جب کسی پر حال طاری ہو جائے تو اس کو سمجھانا بہت آسان ہوتا ہے اور ایسا حال ہوتا ہے کہ بسا اوقات بندہ اس حال میں مغلوب ہو جاتا ہے۔ مجھ سے ایک ساتھی نے پوچھا کہ ہم جو مشائخ کے بارے میں کہتے ہیں کہ انہو ں نے مغلوب الحال ہو کر بات کی ہے اس لیے ان کی بات کا اعتبار نہیں ہے تو کیا نبی بھی مغلوب الحال ہوتا ہے؟ میں نے کہا: ہاں کبھی نبی بھی مغلوب الحال ہوتا ہے کبھی ایسا حال ہوتا ہے کہ پیغمبر کی ظاہری بات بظاہر شریعت کے خلاف نظر آ رہی ہوتی ہے حالانکہ وہ بات ٹھیک ہوتی ہے۔ دیکھو! رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ بدر میں گئے، تین سو تیرہ صحابہ کرام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، آپ نے فرمایا:
اَللّٰهُمَّ إِنْ تُهْلِكْ هٰذِهِ الْعِصَابَةَ مِنْ أَهْلِ الْإِسْلَامِ لَا تُعْبَدْ فِي الْأَرْضِ أَبَدًا.
مصنف ابن ابی شیبۃ: ج20 ص315 رقم الحدیث 38839
اے اللہ! اگر یہ تین سو تیرہ شہید ہو گئے تو قیامت تک آپ کی عبادت کوئی نہیں کرے گا۔
ایسے ہو سکتا ہے؟ اللہ کی عبادت تین سو تیرہ پر موقوف ہے ؟ یہ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم مغلوب الحال ہو کر فرما رہے ہیں کہ اللہ! میں پوری جمع پونجی لے کر آ گیا ہوں، میں آخری نبی ہوں۔ تو اللہ کےنبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اعتبار سے بات فرما رہے ہیں۔ اس لیے اگر مشائخ سے کوئی بات مغلوب الحال ہو کر نکل جائے تو الجھن کا شکار کبھی نہ ہوا کرو، مشائخ کو چھوڑو مت! ہاں جو بات سمجھ نہیں آتی تو اسے سمجھو، ایک نہیں سمجھا سکتا تو دوسرے سے سمجھو۔
کبھی لوگ فون کرتے ہیں۔ میں کہتا ہوں کہ فون نہیں سفر کرو، جی! بہت دور ہے ۔ تو میں نے کہا کہ پھر نہ سمجھو، عبارات کو اتنا سمجھنے کی ضرورت کیا پڑی ہے؟ اور اگر ضرورت ہے تو آ جاؤ! ہم تمہیں سمجھاتے ہیں لیکن تھوڑا سا وقت نکالو۔
اللہ ہم سب کو یہ باتیں سمجھنےکی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ․