سورۃ المطففین

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
سورۃ المطففین
بِسۡمِ اللہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ
﴿وَیۡلٌ لِّلۡمُطَفِّفِیۡنَ ۙ﴿۱﴾ الَّذِیۡنَ اِذَا اکۡتَالُوۡا عَلَی النَّاسِ یَسۡتَوۡفُوۡنَ ۫﴿ۖ۲﴾ وَ اِذَا کَالُوۡہُمۡ اَوۡ وَّزَنُوۡہُمۡ یُخۡسِرُوۡنَ ﴿ؕ۳﴾ ﴾
تطفیف کا معنی:
”تطفیف“کہتے ہیں کمی بیشی کو۔ تطفیف کا تعلق صرف ناپ اور تول کے ساتھ نہیں ہے بلکہ تمام معاملات کے ساتھ ہے۔ مثلاً استاذ ہے پڑھانے میں کمی کرتا ہے اور تنخواہ پوری لیتا ہے تو یہ مُطَفِّف ہے۔ طالب علم داخلہ لیتا ہے، کھانا پورا کھاتا ہے لیکن پڑھنے میں کمی کرتا ہے تو یہ بھی مُطَفِّف ہے۔ یہ سب مُطَفِّف کی صورتیں ہیں۔
لیکن یہاں بطورِ خاص ذکر ہے لین دین کا۔ آدمی جب کسی کو دے تو کم کر کے دے اور جب لے تو مکمل لے۔ مکمل لینا جرم نہیں ہے لیکن مکمل لینا اور کم دینا یہ جرم ہے۔ اگر آدمی دے بھی کم اور لے بھی کم تو پھر جرم کی نوعیت بدل جاتی ہے اور جب لے مکمل لیکن دے کم تو پھر جرم کی نوعیت بڑھ جاتی ہے۔
چونکہ اصل مقصود دینے میں کمی ہے اس لیے کیل اور وزن دونوں کا ذکر کیا اور مکمل حق لینا یہ کوئی عیب نہیں ہے اس لیے یہاں پر صرف کیل ذکر فرمایا ہے اور یہ جو کیل ہوتا ہے کہ پیمانے کے ساتھ ناپنا اس کا ذکر خالص اس وجہ سے کیا ہے کہ مکہ میں عموماً اور مدینہ منورہ میں خصوصا ً تول کا رواج کم تھا اور ناپ کا زیادہ تھا، ڈھیریاں لگانے یا گنتی کرنے کا رواج زیادہ تھا۔
فکر ِآخرت تمام اعمال کی بنیاد:
﴿اَلَا یَظُنُّ اُولٰٓئِکَ اَنَّہُمۡ مَّبۡعُوۡثُوۡنَ ۙ﴿۴﴾﴾
یہ جرم اس وجہ سے کرتے ہیں کہ ان کو اس بات کا اعتقاد نہیں ہے کہ قیامت کے دن ہم اٹھیں گے۔ جس شخص کا یہ اعتقاد ہو کہ قیامت کے دن اٹھیں گے وہ ایسا جرم کبھی نہیں کرتا اور یہ بالکل اپنا ذہن بنا لیں کہ تمام اعمال کی بنیاد آخرت ہے، جب انسان کو پورا یقین ہو کہ موت کے بعد ہر چیز کا حساب ہونا ہے پھر آدمی دینے میں کمی نہیں کرتا، جھوٹ نہیں بولتا، کسی کی عزت پہ حملے نہیں کرتا جب یہ یقین ہو، اور بطورِ خاص ہم جو علماء ہیں ہمیں اس کا بہت زیادہ اہتمام کرنا چاہیے کہ ہمارے قول اور فعل سے نہ کسی کو تکلیف ہو نہ کسی پر الزام ہو، باطل کے ساتھ بھی جنگ ہو تو اتنی ہو جتنی بنتی ہے، ذاتیات پہ بلا وجہ حملہ کرنا مناسب نہیں ہے اور کسی مسلک میں کوئی چیز نہ ہو تو اس کا ذکر کرنا یہ بالکل ٹھیک نہیں ہے۔ اس کا قیامت کے دن ہم سے حساب ہو گا۔ اس کا بہت خیال رکھیں۔
﴿کَلَّاۤ ﴾
یہ جو ان کا خیال ہے قیامت کے دن نہیں اٹھائے جائیں گے یہ خیال بالکل غلط ہے، ہر گز ایسی بات نہیں ہے بلکہ یہ اٹھائے جائیں گے۔
یہ میں کا ہر جگہ پہ ترجمہ قصدا ًکرتا ہوں کہ آپ اس کو سمجھیں کہ یہ یہاں کیوں استعمال ہو رہا ہے۔
﴿کَلَّاۤ ﴾
کا یہاں مطلب یہ ہے ان کا خیال یہ ہے کہ ہم قیامت کو نہیں اٹھائے جائیں گے، فرمایا:
﴿کَلَّاۤ ﴾
ان کی یہ بات ٹھیک نہیں ہے، ہرگز ایسی بات نہیں بلکہ یہ اٹھائے جائیں گے۔
”سجین“ کیا ہے؟
﴿کَلَّاۤ اِنَّ کِتٰبَ الۡفُجَّارِ لَفِیۡ سِجِّیۡنٍ ؕ﴿۷﴾﴾
تمہارے جتنے نامۂ اعمال ہیں وہ محفوظ ہیں، نامہ اعمال کفار کا بھی ہے اور نامہ اعمال ایمان والوں کا بھی ہے۔
”الۡفُجَّارِ“
سے مراد کفار ہیں۔ کفار کا نامۂ اعمال سجین میں ہے اور مؤمنین کا نامہ اعمال علیین میں ہے۔ اسی طرح مؤمنین کی ارواح کا مقام اور مستقر علیین میں ہے اور کفار کی ارواح کا مستقر سجین میں ہے۔
سجین؛ سات زمینوں سے نیچے جگہ کا نام ہے اور علیین سات آسمانوں سے اوپر عرش کے نیچے ایک مقام کا نام ہے۔
﴿کَلَّاۤ اِنَّ کِتٰبَ الۡفُجَّارِ لَفِیۡ سِجِّیۡنٍ﴾
کہ کفار کے اعمال سجین میں محفوظ ہیں اس کی صورت یہ ہے کہ کفار کے اعمال نامے سجین میں محفوظ ہوتے ہیں اور یہ صورت بھی ہو سکتی ہے کہ وہاں ایک جامع رجسٹر ہو جس میں تمام کفار کے اعمال کو لکھا جاتا ہو اور وہ رجسٹر وہاں پہ محفوظ ہوتا ہے۔ ارواح بھی ان کی وہاں پر ہیں اور اعمال بھی وہاں پر ہیں۔
دلوں کا زنگ:
﴿وَیۡلٌ یَّوۡمَئِذٍ لِّلۡمُکَذِّبِیۡنَ ﴿ۙ۱۰﴾ الَّذِیۡنَ یُکَذِّبُوۡنَ بِیَوۡمِ الدِّیۡنِ ﴿ؕ۱۱﴾ وَ مَا یُکَذِّبُ بِہٖۤ اِلَّا کُلُّ مُعۡتَدٍ اَثِیۡمٍ ﴿ۙ۱۲﴾ اِذَا تُتۡلٰی عَلَیۡہِ اٰیٰتُنَا قَالَ اَسَاطِیۡرُ الۡاَوَّلِیۡنَ ﴿ؕ۱۳﴾ کَلَّا بَلۡ ٜ رَانَ عَلٰی قُلُوۡبِہِمۡ مَّا کَانُوۡا یَکۡسِبُوۡنَ ﴿۱۴﴾﴾
قیامت کے دن جھٹلانے والوں کے لیے تباہی و بربادی ہو گی۔ یہ جھٹلانے والے وہ لوگ ہیں جو قیامت کا انکار کرتے ہیں، قیامت کا انکار وہ لوگ کرتے ہیں جو حد سے تجاوز کرنے والے ہیں، جو گناہ کرتے ہیں، جب ان کے سامنے قرآن کریم کی تلاوت کی جائے تو کہتے ہیں کہ یہ پہلے لوگوں کی بے سند قسم کی باتیں ہیں -العیاذ باللہ-
فرمایا:
﴿کَلَّاۤ ﴾
یہ جو تمہارا خیال ہے کہ قرآن کریم بے سند کہانی ہے یہ خیال ٹھیک نہیں ہے، ایسی بات نہیں ہے اور یہ جو کہتے ہیں کہ قرآن کہانی ہے -معاذ اللہ- تو اس پر ان لوگوں کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے دلوں پر زنگ لگ گیا ہے۔ دل سیاہ ہو گئے ہیں اس لیے ایسی باتیں کرتے ہیں۔ اور یہ زنگ کیوں لگا ہے؟
﴿مَّا کَانُوۡا یَکۡسِبُوۡنَ﴾
ان کے اعمالِ بد کی وجہ سے۔
جیسے حدیث پاک میں ہے کہ مؤمن جب گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ نقطہ لگ جاتا ہے۔ اگر یہ بندہ توبہ کر لیتا ہے اور گناہوں کو چھوڑ کر نیک اعمال شروع کر دیتا ہے تو یہ سیاہ نقطہ مٹ جاتا ہے اور دل پہلے کی طرح روشن ہو جاتا ہے۔ لیکن اگر یہ بندہ توبہ نہیں کرتا بلکہ گناہ پر گناہ کرتا چلا جاتا ہے تو یہ نقطے لگتے لگتے انسان کا سارا دل سیاہ ہوجاتا ہے۔
﴿کَلَّاۤ اِنَّہُمۡ عَنۡ رَّبِّہِمۡ یَوۡمَئِذٍ لَّمَحۡجُوۡبُوۡنَ ﴿ؕ۱۵﴾﴾
ان کا خیال ہے کہ نہ قیامت ہو گی نہ ہم اٹھیں گے، نہ ہمارا حساب کتا ب ہو گا نہ اللہ کے سامنے پیش ہوں گے، فرمایا:
﴿کَلَّاۤ ﴾
ہرگز نہیں، یہ بات بالکل غلط ہے۔ یہ لوگ جب قیامت کو اٹھیں گے اور اللہ کے سامنے پیشی ہو گی تو ان کا حشر یہ ہو گا کہ یہ اللہ کا دیدار نہیں کر سکیں گے۔
دیدار الہی:
یہاں ایک بات یوں سمجھیں کہ قیامت کے دن اگر اللہ تعالیٰ کی زیارت ممکن نہ ہوتی یا اہلِ ایمان کو زیارت نہ ہوتی تو یہ بات نہ کہی جاتی کہ
﴿اِنَّہُمۡ عَنۡ رَّبِّہِمۡ یَوۡمَئِذٍ لَّمَحۡجُوۡبُوۡنَ﴾
کفار کو اللہ کی زیارت سے روک دینا اور ان کو اللہ کا دیدار نہ ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ اہلِ ایمان کو دیدار ہو گا۔ اگر اہلِ ایمان کو بھی دیدار نہ ہو اور ان کو بھی دیدا ر نہ ہو تو دونوں میں فرق کیا ہو گا؟ تو کفار کے بارے میں یہ کہنا کہ قیامت کے دن ان کو اللہ کا دیدا ر نہیں ہو گا اس بات کی دلیل ہے کہ مومنین کو اللہ کا دیدا ر ہو گا۔ قرآن کریم میں ہے :
﴿وُجُوۡہٌ یَّوۡمَئِذٍ نَّاضِرَۃٌ ﴿ۙ۲۲﴾ اِلٰی رَبِّہَا نَاظِرَۃٌ ﴿ۚ۲۳﴾﴾
القیامۃ75: 22، 23
اس دن کئی چہرے تر وتازہ ہوں گے، اور وہ اپنے رب کی طرف دیکھ رہے ہوں گے۔
دوسری بات کہ اللہ رب العزت کا دیدار اور اللہ کی زیارت کا شوق اور تقاضا ہر انسان کی فطرت اور طبیعت میں اللہ نے رکھ دیا ہے۔ اللہ کی محبت انسان کی فطرت میں شامل ہے۔ بسا اوقات ماحول کی وجہ سے اس محبت کا اظہار نہیں ہوتا وگرنہ یہ ہر انسان کی طبیعت میں شامل ہے۔ قیامت کے دن جب رکاوٹیں ساری ختم ہو جائیں گی تو فطری تقاضا ہو گا اللہ کی زیارت کا۔
کفار کو اللہ اپنی زیارت نہیں کروائیں گے تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ کی محبت انسان کی فطرت میں شامل ہے، جس سے محبت ہوتی ہے اس کو دیکھنے کو دل بھی کرتا ہے، اللہ کو دیکھنے کو دل اس لیے کرے گا کہ اللہ سے پیار ہے، اللہ سے محبت نہ ہو تو دیکھنے کو دل کیوں کرے گا اور ان کو کیوں روک دیا جائے گا کہ یہ اللہ کا دیدار نہیں کر سکتے۔ تو اللہ کی محبت اور اللہ کی زیارت یہ دونوں چیزیں فطرت میں شامل ہیں۔
﴿ثُمَّ اِنَّہُمۡ لَصَالُوا الۡجَحِیۡمِ ﴿ؕ۱۶﴾ ثُمَّ یُقَالُ ہٰذَا الَّذِیۡ کُنۡتُمۡ بِہٖ تُکَذِّبُوۡنَ ﴿ؕ۱۷﴾﴾
پھر وہ جہنم میں داخل ہوں گے اور انہیں کہا جائے گا یہ وہی جہنم ہے جس کو تم جھٹلاتے تھے۔
﴿کَلَّاۤ اِنَّ کِتٰبَ الۡاَبۡرَارِ لَفِیۡ عِلِّیِّیۡنَ ﴿ؕ۱۸﴾﴾
ان کا خیال یہ تھا کہ ہم دنیا میں ختم ہو جائیں گے، مر جائیں گے، نہیں اٹھائے جائیں گے، جو اعمال ہم کرتے ہیں ان کا حساب نہیں ہو گا، فرمایا: ”كَلَّا“ ہرگز نہیں، حساب ہوگا! نیک لوگوں کا نامۂ اعمال ہم نے علیین میں رکھا ہے ۔
﴿کِتٰبٌ مَّرۡقُوۡمٌ ﴿ۙ۲۰﴾ یَّشۡہَدُہُ الۡمُقَرَّبُوۡنَ ﴿ؕ۲۱﴾﴾
وہ رجسٹر ہے جسے اردو میں دفتر کہتے ہیں۔اس پر مہر لگی پڑی ہے جیسے سرکاری رجسٹر جب بند ہو جائے تو اوپر مہر لگا دیتے ہیں۔ اللہ کے مقرب فرشتے اس کے پاس جاتے ہیں۔
﴿اِنَّ الۡاَبۡرَارَ لَفِیۡ نَعِیۡمٍ ﴿ۙ۲۲﴾ عَلَی الۡاَرَآئِکِ یَنۡظُرُوۡنَ ﴿ۙ۲۳﴾﴾
نیک لوگ نعمتوں میں ہوں گے۔ آرام دہ نشتستوں پر بیٹھے ہوں گے اور نظارے کر رہے ہوں گے۔
جنت کی شرابِ خالص:
﴿یُسۡقَوۡنَ مِنۡ رَّحِیۡقٍ مَّخۡتُوۡمٍ ﴿ۙ۲۵﴾ خِتٰمُہٗ مِسۡکٌ ؕ وَ فِیۡ ذٰلِکَ فَلۡیَتَنَافَسِ الۡمُتَنَافِسُوۡنَ ﴿ؕ۲۶﴾﴾
ان کو خالص شراب پلائی جائے گی جس پر مہر لگی ہو گی اور مہر بھی مشک کی ہو گی۔ اس میں آگے بڑھنے والوں کو آگے بڑھنا چاہیے۔ بڑھنے کی چیزیں یہ ہیں۔
﴿وَ مِزَاجُہٗ مِنۡ تَسۡنِیۡمٍ ﴿ۙ۲۷﴾ عَیۡنًا یَّشۡرَبُ بِہَا الۡمُقَرَّبُوۡنَ ﴿ؕ۲۸﴾﴾
اور اس شراب میں کچھ ”تسنیم“بھی ہو گا۔ تسنیم کیا ہے؟ یہ ایک چشمہ ہے جس سے اللہ کے مقربین پیتے ہیں۔ یعنی ان کو تو خالص تسنیم ملتا ہے اور جو نیچے درجے کے جنتی ہیں ان کو شراب کی اندر کچھ تسنیم ملا دیا جائے گا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ تسنیم تو شراب سے بھی اعلیٰ قسم کا ہے۔
﴿اِنَّ الَّذِیۡنَ اَجۡرَمُوۡا کَانُوۡا مِنَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا یَضۡحَکُوۡنَ ﴿۫۲۹﴾ وَ اِذَا مَرُّوۡا بِہِمۡ یَتَغَامَزُوۡنَ ﴿۫۳۰﴾ وَ اِذَا انۡقَلَبُوۡۤا اِلٰۤی اَہۡلِہِمُ انۡقَلَبُوۡا فَکِہِیۡنَ ﴿۫۳۱﴾ وَ اِذَا رَاَوۡہُمۡ قَالُوۡۤا اِنَّ ہٰۤؤُلَآءِ لَضَآلُّوۡنَ ﴿ۙ۳۲﴾﴾
یہ مجرم لوگ دنیا میں ایمان والوں پر ہنستے تھے، جب ان کے قریب سے گزرتے تو آپس میں آنکھوں سے اشارے کرتے تھے اور جب گھر جاتے تو مزے لے لے کر ان کے تذکرے کرتے اور جب دنیا میں ان ایمان والوں کو دیکھتے تو کہتے کہ یہ بھٹکے ہوئے لوگ ہیں۔
﴿وَ مَاۤ اُرۡسِلُوۡا عَلَیۡہِمۡ حٰفِظِیۡنَ ﴿ؕ۳۳﴾ فَالۡیَوۡمَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنَ الۡکُفَّارِ یَضۡحَکُوۡنَ ﴿ۙ۳۴﴾ عَلَی الۡاَرَآئِکِ ۙ یَنۡظُرُوۡنَ ﴿ؕ۳۵﴾ ہَلۡ ثُوِّبَ الۡکُفَّارُ مَا کَانُوۡا یَفۡعَلُوۡنَ ﴿٪۳۶﴾﴾
حالانکہ یہ کافر ان مسلمانوں پر نگہبان تھوڑے ہیں۔ آج تو یہ ہو گا کہ ایمان والے کفار پر ہنسیں گے۔ جنت میں آرام دہ نشستوں پر بیٹھ کر ان کو دیکھ رہے ہوں گے اور پھر یہ کہیں گے کہ کافروں کو اس کام کا بدلہ مل گیا ہے جو وہ کرتے تھے۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ․