سورۃ الانشقاق

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
سورۃ الانشقاق
بِسۡمِ اللہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ
﴿اِذَا السَّمَآءُ انۡشَقَّتۡ ۙ﴿۱﴾ وَ اَذِنَتۡ لِرَبِّہَا وَ حُقَّتۡ ۙ﴿۲﴾ وَ اِذَا الۡاَرۡضُ مُدَّتۡ ۙ﴿۳﴾ وَ اَلۡقَتۡ مَا فِیۡہَا وَ تَخَلَّتۡ ۙ﴿۴﴾ وَ اَذِنَتۡ لِرَبِّہَا وَ حُقَّتۡ ؕ﴿۵﴾﴾
احوالِ قیامت کا بیان:
جب آسمان پھٹ پڑے گا۔ آسمان اللہ کی بات کو سنے گا اور مان لے گااور وہ اسی لائق ہے کہ سنے اور مان لے۔ اور جب زمین پھیلا دی جائے گی اور جو کچھ زمین میں ہے نکال کر باہر کرے گی اور خود خالی ہوجائے گی اور اللہ کے حکم کو سنے گی اور مانے گی اور زمین کو حکم ماننا بھی چاہیے۔
اللہ رب العزت کے حکم دو قسم کے ہیں :
1: حکم تشریعی 2: حکم تکوینی
حکمِ تشریعی کا معنی کہ جس میں اللہ مکلف کو کرنے نہ کرنے کا کچھ اختیار بھی دیں، کرنے پر اس کو اچھا اجر ملے اور نہ کرنے پر اس کو سزا ملے اور حکمِ تکوینی کہ جس میں مکلف کا کوئی اختیار نہیں ہوتا، اس کو کرنا ہی کرنا ہوتا ہے اور اس میں یہ شامل نہیں ہوتا کہ اسے کرنے پر اچھا بدلہ ملے گا اور نہ کرنے پر عذاب ملے گا۔ آسمان اور زمین کو جو حکم ملیں گے وہ حکم تکوینی ہوں گے، حکم تشریعی نہیں ہوں گے۔
قیامت کے دن زمین کو پھیلا دیا جائے گا۔ حدیث پاک میں ہے جیسے چمڑے کو کھینچ کر بڑا کرتے ہیں۔ آج کے دور میں ربڑ سمجھیں کہ اسی زمین کو کھینچ کے بڑا کر دیا جائے گا۔ آدم علیہ السلام سے لے کر قیامت تک آنے والے سب انسان اس زمین پر جمع ہوں گے اور ہر آدمی کو اتنی جگہ ملے گی جہاں وہ پاؤں رکھ کر کھڑا ہو سکے۔ اللہ ہم سب کی حفاظت فرمائے۔ آمین
انسانی محنت اور اس کا ثمرہ:
﴿یٰۤاَیُّہَا الۡاِنۡسَانُ اِنَّکَ کَادِحٌ اِلٰی رَبِّکَ کَدۡحًا فَمُلٰقِیۡہِ ۚ﴿۶﴾﴾
اے انسان! تم نے اپنے رب تک مشقت اٹھا کر پہنچنا ہے اور مشقت اٹھاتے اٹھاتے اللہ تک پہنچ جانا ہے۔ مسلمان ہو یا کافر دنیا میں ہر کسی نے مشقت اٹھانی ہے۔ اگر مشقت نیک کام کی ہو گی تو اچھا بدلہ ملے گا اور برے کام کی ہو گی تو ظاہر ہے کہ انجام برا ہو گا۔
﴿فَاَمَّا مَنۡ اُوۡتِیَ کِتٰبَہٗ بِیَمِیۡنِہٖ ۙ﴿۷﴾ فَسَوۡفَ یُحَاسَبُ حِسَابًا یَّسِیۡرًا ۙ﴿۸﴾ وَّ یَنۡقَلِبُ اِلٰۤی اَہۡلِہٖ مَسۡرُوۡرًا ؕ﴿۹﴾﴾
جس شخص کو اعمال نامہ دائیں ہاتھ میں دیں گے تو اس کا حساب آسان ہو جائے گا۔ حساب آسان ہونے کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ اللہ صرف پیشی فرمائیں، اعمال نامہ دیکھیں اور اس کو چھوڑ دیں اور ایک صورت یہ بھی ہے کہ اس کے عذاب کو کم کر دیں۔ دونوں اس میں شامل ہیں۔ جب اعمال نامہ دائیں ہاتھ میں ملے گا تو یہ اپنے تعلق والوں کے پاس خوش ہو کر آئے گا کہ میری جان بچ گئی، میں تو چھوٹ گیا۔
﴿وَ اَمَّا مَنۡ اُوۡتِیَ کِتٰبَہٗ وَرَآءَ ظَہۡرِہٖ ﴿ۙ۱۰﴾ فَسَوۡفَ یَدۡعُوۡا ثُبُوۡرًا ﴿ۙ۱۱﴾ وَّ یَصۡلٰی سَعِیۡرًا ﴿ؕ۱۲﴾ اِنَّہٗ کَانَ فِیۡۤ اَہۡلِہٖ مَسۡرُوۡرًا ﴿ؕ۱۳﴾ اِنَّہٗ ظَنَّ اَنۡ لَّنۡ یَّحُوۡرَ ﴿ۚ۱۴﴾ بَلٰۤی ۚۛ اِنَّ رَبَّہٗ کَانَ بِہٖ بَصِیۡرًا ﴿ؕ۱۵﴾﴾
وہ شخص جس نے مشقت اٹھائی ہو گی لیکن گناہوں میں اور اللہ کی نافرمانی میں تو اس کا نامہ اعمال بائیں ہاتھ میں دیں گے۔ ہاتھ پیچھے بندھے ہوئے ہوں گے اور بائیں ہاتھ میں نامہ اعمال پکڑا دیا جائے گا۔اس وقت یہ موت کو پکارے گا جس طرح آدمی مصیبت میں موت کو پکارتا ہے لیکن جہنم میں داخل ہو گا، موت نہیں آئے گی۔ یہ وہ شخص تھا کہ دنیا میں بہت خوش تھا۔ اس کا خیال تھا کہ میں دوبارہ نہیں اٹھوں گا، لوٹ کر وہاں نہیں جاؤں گا۔ اللہ فرماتے ہیں: ”بَلٰى“ کیوں نہیں، وہاں تو جانا ہی ہے۔ اللہ تمہارے اعمال سے باخبر ہے۔
﴿فَلَاۤ اُقۡسِمُ بِالشَّفَقِ ﴿ۙ۱۶﴾ وَ الَّیۡلِ وَ مَا وَسَقَ ﴿ۙ۱۷﴾ وَ الۡقَمَرِ اِذَا اتَّسَقَ﴿ۙ۱۸﴾ لَتَرۡکَبُنَّ طَبَقًا عَنۡ طَبَقٍ ﴿ؕ۱۹﴾ ﴾
پھر اللہ نے چار قسمیں کھائی ہیں، فرمایا: ”فَلَاۤ“ تمہارا خیال ہے کہ نہیں اٹھیں گے تمہاری یہ بات صحیح نہیں ہے، میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ تم نے اٹھنا ہے۔ یہ
”لَا“
زائد کا مطلب ہے۔ آگے چار قسمیں کھا ئی ہیں۔ چونکہ چار قسم کے احوال ہیں کہ پہلے سورج غروب ہوتا ہے اور رات شروع ہوتی ہے اس کو
”الشَّفَقِ“
کہتے ہیں تو اس کی قسم کھائی، پھر اس کے بعد کچھ اندھیرا ہو جائے تو اس کو
”الَّیْلِ“
کہتے ہیں تو اس کی قسم کھائی، پھر جب رات مزید گہری ہو جائے تو لوگ رات میں چھپ جاتے ہیں یعنی آدمی سوگئے ہیں، جانور ہیں، اور بھی چیزیں ہیں رات کا اندھیرا ان کو چھپا لیتا ہے تو اسے فرمایا
”وَ مَا وَسَقَ“
کہہ کر اس کی قسم کھائی، پھر جب چاند نکلتا ہے تو چاند بھی اپنے اندر چیزوں کو سمیٹ لیتا ہے، رات آتی ہے تو اپنی تاریکی میں لے لیتی ہے اور چاند آتا ہے تو اپنی روشنی میں لے لیتا ہے تو
”وَ الْقَمَرِ اِذَا اتَّسَقَ “
کہہ کر اس کی قسم کھائی ہے ۔ یہ چار قسمیں کھا کر فرمایا۔
پیدائش سے جنت و جہنم تک کے مرحل:
﴿لَتَرۡکَبُنَّ طَبَقًا عَنۡ طَبَقٍ﴾
قسم کھا کر فرمایا کہ تم ایک مرحلے سے دوسرے مرحلے کی طرف چڑھتے جاؤ گے!
جب کوئی چیز تہہ بہ تہہ ہو تو اس کی ایک تہہ کو طبقہ کہتے ہیں اور مجموعے کو ”طبقات“ کہتے ہیں۔ تو فرمایا کہ تم نے بھی تہہ بہ تہہ آگے جانا ہے، اور یہ انسان کی پیدائش سے لے کر جنت تک کے مراحل ہیں۔ ایک وقت ہوتا ہے کہ انسان نطفہ ہوتا ہے، پھر ایک مرتبہ ماں کے رحم میں جاتا ہے، پھر ایک وقت آتا ہے کہ آدمی جما ہوا خون بنتا ہے، پھر گوشت بنتا ہے، پھر ہڈیاں ہوتی ہیں، پھر ہڈیوں پر گوشت چڑھتا ہے، پھر اس میں اعضاء بنتے ہیں، پھر اس میں روح آتی ہے، پھر یہ بطورِ خوراک ماں کے پیٹ کے حیض کو استعمال کرتا ہے، پھر وقت آتا ہے کہ ماں کے دودھ کو استعمال کرتا ہے، پھر اچھی خورا ک کھاتا ہے، پھر اس کی جوانی آتی ہے، پھر بڑھاپا آتا ہے، پھر موت ہے، پھر برزخ ہے، پھر حشر ہے، پھر جنت ہے یا جہنم ہے۔ یہ لمبا سلسلہ ہے۔
﴿فَمَا لَہُمۡ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ ﴿ۙ۲۰﴾ وَ اِذَا قُرِئَ عَلَیۡہِمُ الۡقُرۡاٰنُ لَا یَسۡجُدُوۡنَ ﴿ؕٛ۲۱﴾ بَلِ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا یُکَذِّبُوۡنَ ﴿۫۲۲﴾ وَ اللہُ اَعۡلَمُ بِمَا یُوۡعُوۡنَ ﴿۫۲۳﴾ فَبَشِّرۡہُمۡ بِعَذَابٍ اَلِیۡمٍ﴿ۙ۲۴﴾ اِلَّا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَہُمۡ اَجۡرٌ غَیۡرُ مَمۡنُوۡنٍ ﴿٪۲۵﴾﴾
ان کو کیا ہو گیا کہ یہ ایمان نہیں لاتے؟ اور جب ان کے سامنے قرآن پڑھا جاتا ہے تو سجدہ نہیں کرتے۔ ان کو ایسا کرنا چاہیے تھا بلکہ یہ عجیب لوگ ہیں کہ الٹا تکذیب کرتے ہیں۔ اللہ ان کے اعمال کو محفوظ کرتے ہیں۔ ان کو درد ناک عذاب کی خبر دے دو، سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے نیک اعمال کیے تو ان کے لیے اجر ہو گا، ایسا اجر ہو گا جو ختم بھی نہیں ہوگا۔
آیت سجدہ:
﴿وَ اِذَا قُرِئَ عَلَیۡہِمُ الۡقُرۡاٰنُ لَا یَسۡجُدُوۡنَ﴾
یہ آیت سجدہ ہے۔ حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے ہاں اس آیت کو جو پڑھے یا سنے اس پر سجدہ کرنا واجب ہے۔ بعض ائمہ سجدے کے قائل نہیں۔ ہمارے امام صاحب سجدہ کرنے کے قائل ہیں۔ حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے پیچھے میں نے عشاء کی نماز پڑھی تو آپ رضی اللہ عنہ نے اس مقام پر سجدہ کیا۔ میں نے پوچھا: سجدہ کیوں کیا؟ فرمایا کہ میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسے سجدہ کرتے ہوئے دیکھا ہے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ دوسری روایت میں فرماتے ہیں: ہم نے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو یہاں اس سورت انشقاق پر بھی سجدہ کرتے دیکھا ہے اور اقرأ باسم ربک پر بھی سجدہ کرتے دیکھا ہے۔ تو امام صاحب یہاں پر سجدے کے قائل ہیں۔
حضرت ابن عربی رحمۃ اللہ علیہ کا معمول یہ تھا کہ حضرت وجوب سجدہ کے قائل تھے لیکن رہتے ایسے لوگوں میں تھے جو سجدہ کے قائل نہیں تھے تو حضرت فرماتے ہیں کہ میں نماز میں اس سورت کی کبھی تلاوت نہیں کرتا چونکہ میرے ہاں سجدہ واجب ہے، میں سجدہ کروں گا اور یہ لوگ سجدہ نہیں کریں گے، اگر میں نہیں کروں گا ان کی رعایت کرتے ہوئے تو مجھے گناہ ہو گا اور اگر اپنے مسئلے کی رعایت پر سجدہ کروں گا تو ان میں اختلاف ہوگا، اس لیے میں اس سورۃ کی تلاوت نماز میں نہیں کرتا تاکہ ہم باہمی اختلاف سے بچ جائیں۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ․