سورۃ البروج

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
سورۃ البروج
بِسۡمِ اللہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ
﴿وَ السَّمَآءِ ذَاتِ الۡبُرُوۡجِ ۙ﴿۱﴾ وَ الۡیَوۡمِ الۡمَوۡعُوۡدِ ۙ﴿۲﴾ وَ شَاہِدٍ وَّ مَشۡہُوۡدٍ ؕ﴿۳﴾﴾
شانِ نزول:
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت مبارکہ سے 70 سال پہلے ایک بادشاہ تھا - یہ معروف واقعہ ہے آپ نے سنا ہوگا- یوسف ذونواس اس بادشاہ کا نام تھا اور یہ کافر تھا۔ اس کے پاس ایک جادوگر تھا، جادوگر جب بوڑھا ہوا تو اس نے بادشاہ سے کہا کہ مجھے ایک لڑکا دو جس کو میں جادو سکھا دوں تاکہ میرے بعد وہ تمہارے کام آتا رہے۔ اس بادشاہ نے اس کو ایک لڑکا دیا جس کا نام عبد اللہ بن تامر تھا کہ اس کو جادو سکھاؤ۔
یہ بچہ گھر سے جادو سیکھنے کے لیے اس جادوگر کے پاس جاتا تو راستے میں ایک راہب تھا جو عیسائی مذہب پر تھا اور عبادت کرتا تھا، یہ بچہ اس کے پاس رکتا۔ اس کے پاس بیٹھتا، اس کی باتیں سنتا۔ بچہ اس سے بہت متاثر ہوا اور عیسائی مذہب کے مطابق جو اس وقت حق تھا ایمان لے آیا۔ ایک بار یہ بچہ آ رہا تھا تو راستے میں ایک شیر تھا اس نے لوگوں کا راستہ روکا ہوا تھا۔ اس بچے نے پتھر اٹھایا اور شیر کو مارتے ہوئے یہ کہا کہ اے اللہ! اگر راہب کی باتیں جادوگر کی باتوں سے سچی ہیں تو یہ شیر مر جائے۔ یہ کہہ کر اس نے پتھر مارا تو شیر مر گیا۔ اب لوگوں میں اس بچے کی کرامت مشہور ہو گئی۔
ایک نابینا اس کے پاس آیا کہ میری آنکھیں ٹھیک کر دو! لڑکے نے کہا کہ شفا دینے والی ذات تو اللہ کی ہے، تم وعدہ کرو کہ اگر ٹھیک ہو گئے تو للہ کی توحید پر ایمان لاؤ گے! نابینا نے شرط مان لی۔ اس نے دعا کی تو وہ ٹھیک ہوگیا اور اللہ کی توحید پر ایمان لے آیا۔ اس کی وجہ سے اس بچے کی شہرت بہت ہو گئی۔ جب یہ بات کاہن تک پہنچی تو اس نے بادشاہ کو بتایا کہ ہمارے دین کا نقصان ہو رہا ہے۔ تو بادشاہ نے راہب کو بھی اور عبداللہ بن تامر اس بچے کو بھی اور اس نابیناکو جس کی آنکھ ٹھیک کی تھی سے بھی بلایا۔ راہب اور اس نابینے کو فوراً قتل کر دیا اور اس بچے کے بارے میں اس نے اپنے نوکروں کو بھیجا کہ اس کو پہاڑ پر لے جاؤ اور وہاں سے گراؤ۔ جب وہاں لے گئے تو زلزلہ آیا اور جو گرانے کے لیے گئے تھے وہ خود گر کر مر گئے اور یہ بچہ زندہ واپس آ گیا ۔
پھر بادشاہ نے کہا کہ اس کو دریا میں غرق کر دو! جب اس کو دریا میں لے گئے تو پانی میں ہلچل ہوئی اور کشتی الٹ گئی، جو غرق کرنے کے لیے گئے تھے وہ خود غرق ہو گئے اور یہ بچ کر واپس آ گیا۔ اس کو بادشاہ قتل نہیں کر سکا تو اس بچے نے بادشاہ سے کہا کہ ایک صورت تم اختیار کرو تو میں مر جاؤں گا۔ مجھے تیر مارو اور یہ کہہ کے مارو کہ
”بِسْمِ اللہِ رَبِّیْ“
اور لوگوں کے مجمع کے درمیان مارو۔ مجمع موجود ہو تو ظاہر ہے کہ ایسی باتیں مشہور ہو جاتی ہیں۔ تو جب بادشاہ نے ”بِسْمِ اللہِ رَبِّیْ“ کہہ کر تیر مارا تو تیر اس کی کنپٹی پہ لگا اور بچہ شہید ہو گیا۔ اس وقت یہ بات دیکھتے ہی بادشاہ کی سلطنت کے کئی لوگ کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو گئے۔ اصل مذہب یہی سچا ہے جو اللہ کے نام والا ہے۔
بادشاہ نے ان کے لیے آگ کی خندقیں کھدوائیں اور اس میں ان کو ڈال کر مارنا شروع کر دیا۔ 12 ہزار کی تعداد میں بندے اس بے ایمان نے قتل کیے۔ کہتے ہیں کہ اس میں صرف ایک عورت تھی جس کو آگ کی خندق میں گرنے میں ہچکچاہٹ ہوئی۔ اس کی گود میں چھوٹا بچہ تھا۔ انہوں نے اس بچے کو لے کر پھینکا۔ اس بچے نے خندق سے آواز دی
”اَنَا عَلَی الْحَقِّ“
میں حق پر ہوں تم لوگ صبر کرو۔ پھر ماں نے چھلانگ لگا دی تو ماں بھی شہید ہو گئی۔
یہ واقعہ سنایا مسلمانوں کو تسلی دینے کے لیے کہ جس طرح ظالموں نے ظلم کیا تھا اور انجام بد ہوا تھا اسی طرح کفار تمہارے اوپر ظلم کرتے ہیں تو انجام بد کا سامنا ان کو بھی کرنا پڑے گا۔ جنہوں نے خندق کھودی تو اس خندق کی آگ پھیلی اور شہر میں لگ گئی۔ لوگ سارے جل گئے۔ بادشاہ دوڑ کر دریا میں گیا تو غرق ہو گیا۔ سارے ختم ہو گئے۔ مومنین تو جنت میں چلے گئے اور کفار جو اُن کو قتل کرتے رہے اور ظلماً مارتے رہے خود اس آگ میں جل کر جہنم میں چلے گئے۔
حضرت عبد اللہ بن تامر کا یہ واقعہ یمن میں ہوا۔ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے دور میں کسی وجہ سے اس جگہ کو کھودا گیا تو اتفاق سے وہاں ایک بچہ نکلا جس نے ہاتھ اپنی کنپٹی پر رکھا ہوا تھا۔ جب اس کا ہاتھ ہٹایا گیا تو خون بہنا شروع ہو گیا اور ۔ جب ہاتھ اسی جگہ رکھا گیا تو بچے کا خون نکلنا بالکل بند ہو گیا ۔ یمن کے امیر نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو پیغام بھیجا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ہاتھ وہیں پر رکھو اور اسی طرح بچے کو دفن کردو۔
﴿وَ السَّمَآءِ ذَاتِ الۡبُرُوۡجِ ۙ﴿۱﴾ ﴾
قسم ہے آسمان کی جو برجوں والا ہے۔ ”برج“ کہتے ہیں محل کو۔ اصل معنی ہے کھلنا۔ تو کھلی ہوئی چیز کو برج کہتے ہیں۔ یہاں برج سے مراد یا تو آسمان کے سیارے ہیں یا برج سے مراد آسمانوں میں بڑے بڑے محلات ہیں جہاں پر فرشتے رہتے ہیں جو آسمانوں کی حفاظت پر مامور ہیں۔
﴿وَ الۡیَوۡمِ الۡمَوۡعُوۡدِ ۙ﴿۲﴾ وَ شَاہِدٍ وَّ مَشۡہُوۡدٍ ؕ﴿۳﴾﴾ ․․․
اور قسم ہے اس دن کی جس کا وعدہ ہے یعنی قیامت کے دن کی اور قسم ہے اس دن کی جو آتاہے یعنی جمعہ کا دن، اور قسم ہے اس دن کی جس میں لوگ جاتےہیں یعنی عرفہ کا دن، چونکہ عرفہ میں لوگ میدان عرفات میں جاتے ہیں اور جمعہ میں لوگ اپنی جگہ پر ہوتے ہیں اس لیے جمعہ کو شاہد اور عرفہ کو مشہود کہہ دیا۔
اصحابِ اخدود کا انجام:
﴿قُتِلَ اَصۡحٰبُ الۡاُخۡدُوۡدِ ۙ﴿۴﴾ النَّارِ ذَاتِ الۡوَقُوۡدِ ۙ﴿۵﴾ اِذۡ ہُمۡ عَلَیۡہَا قُعُوۡدٌ ۙ﴿۶﴾ وَّ ہُمۡ عَلٰی مَا یَفۡعَلُوۡنَ بِالۡمُؤۡمِنِیۡنَ شُہُوۡدٌ ؕ﴿۷﴾ وَ مَا نَقَمُوۡا مِنۡہُمۡ اِلَّاۤ اَنۡ یُّؤۡمِنُوۡا بِاللہِ الۡعَزِیۡزِ الۡحَمِیۡدِ ۙ﴿۸﴾﴾
ملعون ہوئے ہیں خندقوں والے؛ اس آگ والے جوایندھن سے بھری ہوئی تھی، جب وہ اس آگ کے پاس بیٹھے تھے اور جو کچھ وہ ایمان والوں کے ساتھ کرتے اس کا تماشابھی دیکھتے تھے اور یہ ظلم کیوں کرتے تھے صرف اس وجہ سے کہ وہ لوگ اللہ عزیز وحمید پر ایمان لائے تھے۔
﴿الَّذِیۡ لَہٗ مُلۡکُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ؕ وَ اللہُ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ شَہِیۡدٌ ؕ﴿۹﴾﴾
وہ اللہ جس کے قبضہ قدرت میں آسمانوں اور زمین کی بادشاہت ہے اور اللہ ہر چیز پر گواہ ہے۔
﴿اِنَّ الَّذِیۡنَ فَتَنُوا الۡمُؤۡمِنِیۡنَ وَ الۡمُؤۡمِنٰتِ ثُمَّ لَمۡ یَتُوۡبُوۡا فَلَہُمۡ عَذَابُ جَہَنَّمَ وَ لَہُمۡ عَذَابُ الۡحَرِیۡقِ ﴿ؕ۱۰﴾﴾
وہ لوگ جنہوں نے ایمان والے مردوں اور ایمان والی عورتوں کو تکلیفیں دیں، پھر توبہ نہیں کی تو ان کے لیے جہنم کا عذاب ہے اور جلانے والی آگ ہے۔
حضرت حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ لفظ
”ثُمَّ“
درمیان میں لا کر اللہ نے اپنی شان کریمی بتائی ہے کہ اگر اس کے بعد توبہ کرتے تو یہ عذاب نہ آتا، پھر توبہ بھی نہیں کی۔ یہ
”ثُمَّ“
تراخی کے لیے بھی ہوتا ہے کہ ان کو مہلت ملی کہ توبہ کریں لیکن انہوں نے توبہ بھی نہیں کی۔
اہلِ ایمان کی کامیابی:
﴿اِنَّ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَہُمۡ جَنّٰتٌ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہَا الۡاَنۡہٰرُ ؕ ذٰلِکَ الۡفَوۡزُ الۡکَبِیۡرُ ﴿ؕ۱۱﴾﴾
جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک اعمال کیے ان کے لیے باغات ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں۔ یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔
جہاں ان مجرمین کا ذکر کیا تو ساتھ ایمان والوں کی نعمتوں کا بھی ذکر کیا۔
﴿اِنَّ بَطۡشَ رَبِّکَ لَشَدِیۡدٌ ﴿ؕ۱۲﴾ اِنَّہٗ ہُوَ یُبۡدِئُ وَ یُعِیۡدُ ﴿ۚ۱۳﴾ وَ ہُوَ الۡغَفُوۡرُ الۡوَدُوۡدُ ﴿ۙ۱۴﴾﴾
آپ کے رب کی پکڑ بہت سخت ہے، وہی پہلی مرتبہ پیدا کرتا ہے اور وہی دوبارہ پیدا کرے گا۔ اللہ معاف بھی فرماتے ہیں، محبت بھی فرماتے ہیں۔
﴿ذُو الۡعَرۡشِ الۡمَجِیۡدُ ﴿ۙ۱۵﴾ فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیۡدُ ﴿ؕ۱۶﴾﴾
اللہ عرش کا مالک ہے اور بزرگی والا ہے، جو چاہتا ہے کرتا ہے۔
اہلِ کفر کی ناکامی:
﴿ہَلۡ اَتٰىکَ حَدِیۡثُ الۡجُنُوۡدِ ﴿ۙ۱۷﴾ فِرۡعَوۡنَ وَ ثَمُوۡدَ ﴿ؕ۱۸﴾ بَلِ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا فِیۡ تَکۡذِیۡبٍ ﴿ۙ۱۹﴾ وَّ اللہُ مِنۡ وَّرَآئِہِمۡ مُّحِیۡطٌ ﴿ۚ۲۰﴾ بَلۡ ہُوَ قُرۡاٰنٌ مَّجِیۡدٌ ﴿ۙ۲۱﴾ فِیۡ لَوۡحٍ مَّحۡفُوۡظٍ ﴿٪۲۲﴾﴾
کیا آپ کے پاس لشکر والوں کی بات پہنچی ہے؟ فرعون اور قوم ثمود کی۔ جب یہ خبریں پہنچی ہیں تو اس سے لوگوں کو عبرت حاصل کرنی چاہیے تھی لیکن کافر لوگ پھر بھی تکذیب میں لگے ہوئے ہیں لیکن اللہ ان سب کا احاطہ کیے ہوئے ہیں۔ خدا کی پکڑ سے یہ لوگ کہاں جائیں گے۔ باقی ان لوگوں کے جھٹلانے سے قرآن کی حقانیت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ فرمایا: قرآن مجید ویسی ہی عظمت والی کتاب ہے جو لوحِ محفوظ میں ہے۔ یہ اگر جھٹلاتے ہیں تو اسکا خمیازہ خود بھگتیں گے۔
اللہ ہم سب کو ایمان پر قائم رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ․