سورۃ الطارق

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
سورۃ الطارق
بِسۡمِ اللہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ
﴿وَ السَّمَآءِ وَ الطَّارِقِ ۙ﴿۱﴾ وَ مَاۤ اَدۡرٰىکَ مَا الطَّارِقُ ۙ﴿۲﴾ النَّجۡمُ الثَّاقِبُ ۙ﴿۳﴾﴾
”طارق“ کسے کہتے ہیں؟
قسم ہے آسمان کی اور طارق کی۔ طارق کامعنی ہے جو رات کو آئے۔ فرمایا کہ: آپ کو پتا ہے کہ طارق کیا ہے؟ وہ ستارہ ہے جو بالکل روشن ہے۔ میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ جب قرآن میں
”وَ مَاۤ اَدۡرٰىکَ“
کا لفظ آئے تو اس کا ترجمہ کرنا سیکھو۔ جب ہم اپنے محاورات میں بات کریں تو یوں کہتے ہیں: یہ جو مہمان آئے ہیں پتا ہے کون ہیں؟ یہ فلاں صاحب ہیں۔ اب یہ ہے
”وَ مَاۤ اَدۡرٰىکَ“
جب ہم اس طرز پر بات نہیں کرتے تو
”وَ مَاۤ اَدۡرٰىکَ“
کا مفہوم سمجھ میں نہیں آتا کہ قرآن کریم کیا کہہ رہا ہے۔ اس سے قرآن کی فصاحت اور بلاغت کھل کر سامنے نہیں آتی۔ تو
”وَ مَاۤ اَدۡرٰىکَ“
یہ محاورات میں گفتگو ہو رہی ہے کہ تمہیں معلوم ہے طارق کیا ہے؟ وہ ستارہ ہے جو روشن ہے۔
﴿اِنۡ کُلُّ نَفۡسٍ لَّمَّا عَلَیۡہَا حَافِظٌ ؕ﴿۴﴾﴾
ہر انسان پر ایک نگہبان فرشتہ مقرر ہے۔ یہ
”اِنْ“
نافیہ ہے،
”لَمَّا“
بمعنی
”اِلَّا“
ہے اور یہ حصر کے لیے ہے۔
﴿فَلۡیَنۡظُرِ الۡاِنۡسَانُ مِمَّ خُلِقَ ؕ﴿۵﴾﴾
انسان کو دیکھنا چاہیے کہ وہ کس چیز سے پیدا ہوا ہے؟
تیسویں پارے میں زیادہ تر مضامین کا تعلق قیامت اور معاد کے ساتھ ہے۔ مشرکینِ مکہ کو خطاب ہے جو قیامت کے منکر تھے۔ یہا ں ان کو یہ بات سمجھائی ہے کہ تم قیامت کے منکر ہو کہ انسان دوبارہ کیسے بنے گا؟ ہڈیوں میں جان کیسے آئے گی؟ گوشت کیسے چڑھے گا؟ تم نے دیکھا ہے کہ پانی کے نطفے سے اللہ اتنا بڑا انسان بناتا ہے تو بنے ہوئے انسان کو دوبارہ بنانا کیا مشکل ہے۔
صلب اور ترائب کا معنی:
﴿خُلِقَ مِنۡ مَّآءٍ دَافِقٍ ۙ﴿۶﴾ یَّخۡرُجُ مِنۡۢ بَیۡنِ الصُّلۡبِ وَ التَّرَآئِبِ ؕ﴿۷﴾﴾
انسان اس پانی سے پیدا ہوا ہے جو ٹپکنے والا ہے جو پشت اور سینے سے نکلتا ہے۔
یہ پشت اور سینے سے مراد کیا ہے؟ کیا واقعتاً پشت اور سینہ ہے یا پورا جسم پشت اور سینے سے کنایہ ہے؟ بعض مفسرین کی رائے یہ ہے کہ جب بھی بچہ پیدا ہوتا ہے تو ماں اور والد دونوں کا پانی ملتا ہے تو بچہ پیدا ہوتا ہے، والد کا پانی کمر سے آتا ہے اور ماں کا پانی سینے سے آتا ہے، ا س لیے
”مِنۡۢ بَیۡنِ الصُّلۡبِ وَ التَّرَآئِبِ“
فرما دیا۔
لیکن بعض مفسرین کی رائے یہ ہے کہ ایسا نہیں بلکہ انسان جس نطفے سے پیدا ہوتا ہے وہ نطفہ انسان کے پورے جسم سے بنتا ہے تو نطفے کا وہ حصہ جو سر سے نکلا ہے اس سے سر بنتا ہے، نطفے کا وہ حصے جو پاؤں سے نکلا ہے اس سے پاؤں بنتا ہے، نطفے کا وہ حصہ جو ہاتھ سے نکلا ہے اس سے ہاتھ بنتا ہے تو جمیع اجزائے بدن نطفہ سے بنتے ہیں لیکن انسان کے پورے جسم میں اہم ترین حصےدو ہی ہیں؛ یا انسان کے سامنے کا حصہ یا انسان کے پیچھے کا حصہ، تو سامنے والے حصے کو سینے سے تعبیر کیا جاتا ہے اور پیچھے والے حصے کو کمر سے تعبیر کیا جاتا ہے کیونکہ قرآن کریم کا جو ظاہر ہے وہ یہ نہیں بتا رہا کہ مرد کی پشت اور عورت کا سینہ ہوتا ہے، اس لیے بہتر ہے کہ اس سے مرد کی پشت اور عورت کا سینہ مراد نہ لیا جائے بلکہ یہ کہا جائے کہ پورے جسم سے نطفہ پیدا ہوتا ہے۔
﴿اِنَّہٗ عَلٰی رَجۡعِہٖ لَقَادِرٌ ؕ﴿۸﴾ یَوۡمَ تُبۡلَی السَّرَآئِرُ ۙ﴿۹﴾﴾
وہ اللہ جو اس طرح انسان کو پیدا کر سکتا ہے وہ دوبارہ پیدا کرنے پر بھی قادر ہے۔ دوبارہ وہ دن کون سا ہو گا؟ فرمایا: جس دن تمام مخفی چیزوں کو کھول دیا جائے گا۔
عقائد کا تعلق انسان کے دل کے ساتھ ہے، آدمی زبان سے کلمہ پڑھے لیکن دل میں کفر ہو تو قیامت کے دن یہ کفر کھول دیا جائے گا۔ آدمی کسی سے بہت اچھا تعلق رکھے لیکن اندر سے جڑیں کاٹتا ہو تو قیامت کے دن یہ راز کھل جائے گا۔ آدمی کسی کے ساتھ فساد کرتا ہو اور صورت اصلاح کی ہو تو قیامت کے دن یہ راز کھلے گا۔ تو وہ چیزیں جو دنیا میں انسان چھپا رہا ہے اور پردے ڈال رہا ہے قیامت کو ساری کھول دی جائیں گی۔ اس لیے اللہ ہم کی حفاظت فرمائے۔
کبھی بھی کسی انسان سے منافقانہ تعلق نہیں ہونا چاہیے اور دھوکے سے بچنا چاہیے۔ انسان دنیا میں دھوکہ دے سکتا ہے قیامت میں دھوکہ کیسے دے گا؟ اس بات کو ہمیشہ ذہن میں رکھنا چاہیے۔
﴿فَمَا لَہٗ مِنۡ قُوَّۃٍ وَّ لَا نَاصِرٍ ﴿ؕ۱۰﴾﴾
اور قیامت کا دن ایسا ہو گا کہ نہ انسان کے پاس طاقت ہو گی کہ اللہ کے عذاب سے بچ سکے اور نہ اس کو کوئی بچانے والا کوئی دوسرا مدد گار ہو گا۔ آدمی جب بھی مصیبت سے بچتا ہے تو اس کے بچنے کی دو ہی صورتیں ہیں؛ یا اپنے پاس طاقت موجود ہو یا اس کے پاس معاون ہو۔ قیامت کے دن دونوں صورتیں نہیں ہوں گی۔
امکانِ قیامت اور وقوعِ قیامت:
﴿وَ السَّمَآءِ ذَاتِ الرَّجۡعِ ﴿ۙ۱۱﴾ وَ الۡاَرۡضِ ذَاتِ الصَّدۡعِ ﴿ۙ۱۲﴾﴾
قسم ہے آسمان کی جس سے مسلسل بارش برستی ہے اور قسم ہے زمین کی کہ جب بیج زمین سے نکلتا ہے تو زمین پھٹ جاتی ہے۔
یہاں یہ بات سمجھیں کہ ایک ہے قیامت کا وقوع اور ایک ہے قیامت کا امکان۔ جہاں تک تعلق ہے امکانِ قیامت کا تو اس کا رد منکرین کے پاس کچھ بھی نہیں کہ قیامت واقع ہونا ممکن نہیں ہے، کیوں کہ ان کے پاس اس پر کوئی دلیل نہیں ہے۔ ان آیات میں اللہ نے امکانِ قیامت پر دلیل دی ہے۔
اس کا حاصل یہ ہے کہ اللہ آسمان سے بارش برسا سکتا ہے اور بیج کو زمین پھاڑ کر نکال سکتا ہے ؛ جب یہ ساری باتیں ہو سکتی ہیں تو اللہ دوبارہ انسان کو پیدا کر کے قیامت کیوں نہیں برپا کر سکتا؟! امکانِ قیامت پر بہت سارے دلائل ہیں، یہ امکانِ قیامت کی ایسی عقلی دلیل ہے کہ کوئی عقل مند اس کا انکار نہیں کر سکتا۔ ہاں البتہ ضد کا کوئی علاج نہیں۔
﴿اِنَّہٗ لَقَوۡلٌ فَصۡلٌ ﴿ۙ۱۳﴾ وَّ مَا ہُوَ بِالۡہَزۡلِ ﴿ؕ۱۴﴾﴾
یہ جو اللہ تعالیٰ کا کلام ہے یہ ایسا کلام ہے جو حق اور باطل کے درمیان فرق کرتا ہے، یہ فضول کتاب نہیں ہے۔
یہ وقوعِ قیامت کی دلیل ہے۔ کیوں کہ وقوعِ قیامت کی بات کرنے والا خود قرآن کریم ہے اور قرآن کریم قول فاصل ہےحق اور باطل کے درمیان اور اس کے خلاف تمہارے پاس کوئی دلیل نہیں ہے۔ تو قرآن کریم کا قول فصل ہونا وقوعِ قیامت کی دلیل ہے کہ قیامت ضرور واقع ہو گی۔
کافروں کو مہلت:
﴿اِنَّہُمۡ یَکِیۡدُوۡنَ کَیۡدًا ﴿ۙ۱۵﴾ وَّ اَکِیۡدُ کَیۡدًا ﴿ۚ۱۶﴾﴾
یہ کافر پھر بھی آپ کے خلاف تدابیر اختیار کرتےہیں تو ہم بھی تدابیر اختیار کرتے ہیں۔
”كَيْدًا“
سے مراد ہمیشہ بری تدبیر نہیں ہوتی بلکہ مطلق تدبیر کو بھی
”كَيْدًا“
کہتے ہیں۔ تو وہ بھی تدبیریں کرتے ہیں اور ہم بھی تدبیریں کرتے ہیں۔
﴿فَمَہِّلِ الۡکٰفِرِیۡنَ اَمۡہِلۡہُمۡ رُوَیۡدًا ﴿٪۱۷﴾﴾
آپ کچھ وقت کے لیے ان کو مہلت دیں۔
لیکن وہ مہلت کا معنی یہ سمجھتے ہیں کہ شاید ان کو عذاب نہیں ہو گا، یہ تو ہماری طرف سے ڈھیل ہے جس کو یہ لوگ ہمارا کرم سمجھیں اور جب گرفت کا وقت آئے گا تو ان کو کوئی بھی نہیں بچا سکتا۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ․