سورۃ الاعلیٰ

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
سورۃ الاعلیٰ
بِسۡمِ اللہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ
﴿سَبِّحِ اسۡمَ رَبِّکَ الۡاَعۡلَی ۙ﴿۱﴾ الَّذِیۡ خَلَقَ فَسَوّٰی ۪ۙ﴿۲﴾ وَ الَّذِیۡ قَدَّرَ فَہَدٰی ۪ۙ﴿۳﴾﴾
سجدوں کی تسبیح:
جب یہ سور ت مبارکہ نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اِجْعَلُوْهَا فِيْ سُجُوْدِكُمْ.
المعجم الکبیر للطبرانی:ج 7 ص 157 رقم الحدیث14303
”سُبْحَانَ رَبِّیَ الْأَعْلٰى“
کو اپنے سجدے میں پڑھا کرو، اور احادیث سے یہ بات ثابت ہےکہ جب سورۃ الاعلیٰ پڑھیں اور حالت نماز میں نہ ہوں تو پھر یہ کہنا چاہیے
”سُبْحَانَ رَبِّیَ الْاَعْلٰى“
۔ سارے ایک بار پڑھ لیں۔ اگر نماز میں ہوں تو پھر نہ پڑھیں۔
﴿سَبِّحِ اسۡمَ رَبِّکَ الۡاَعۡلَی ۙ﴿۱﴾﴾
تم تسبیح بیان کرو اپنے رب کی جو بہت اعلیٰ ہے۔میں پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ جیسے ہم کہتے ہیں اسمِ ذات یک ضربی اللہ․․ اللہ․․ یہ آیت اس پر مستقل دلیل ہے۔ کیونکہ اللہ نے یہ نہیں فرمایا
”سَبِّحْ رَبَّكَ الْاَعْلٰی“
کہ تسبیح بیان کرو اپنے رب کی جو بہت اعلیٰ ہے، بلکہ یہ فرمایا کہ تسبیح بیان کرو اپنے رب کے نام کی جو بہت اعلیٰ ہے اور نام کیا ہے؛ ”اللہ“․․․ تو قرآن کریم کی آیت سے اللہ کا نام جو اسمِ ذات ہے اس کا ذکر کرنا ثابت ہے۔
”سَبِّحْ“
کا معنی کیا ہوتا ہے؟
سَبَّحَ، یُسَبِّحُ، تَسْبِیْحًا
تسبیح پڑھنا اور اسمِ ذات کیاہے؛ اللہ․․․ اس لیے فرمایا کہ تم تسبیح بیان کرو اپنے رب کے نام کی۔ اللہ اللہ کرنا قرآن کریم کی نص سے ثابت ہے۔
﴿ الَّذِیۡ خَلَقَ فَسَوّٰی ۪ۙ﴿۲﴾ وَ الَّذِیۡ قَدَّرَ فَہَدٰی ۪ۙ﴿۳﴾﴾
جس رب نے پیدا کیا یعنی تمہیں عدم سے وجود میں لایا، پھر مناسب انداز سے بنایا جس کو جیسے بنانا چاہیے اسے ویسے بنایا، پھر ہرچیز کےمناسب کچھ چیزیں تجویز فرمائیں، پھر ان چیزو ں کی طرف اس کی رہنمائی بھی فرمائی۔
یہاں اللہ نے چار صفتیں بیان فرمائی ہیں؛
خَلَقَ، فَسَوّٰى، قَدَّرَ، فَہَدٰی۔
کیسی پیاری ترتیب قائم فرمائی ہے!
خالق اور مُوجد میں فرق:
فرمایا: اللہ نے تم کو پیدا کیا۔ خلق کا معنی ہوتا ہے عدم سے وجود میں لانا اور موجود کو نیا ڈیزائن دینے کو ایجاد کہتے ہیں۔ دنیا میں تمام چیزوں کا خالق اللہ ہے اور موجد انسان ہے۔ یہ ہمارے سامنے گھڑی ہے، یہ لوہے سے بنی ہے، تو لوہے کا خالق اللہ ہے لیکن یہ جو گھڑی کی موجودہ صورت ہے اس کا موجد کون ہے؟ انسان۔ تو خالق ہر چیز کا اللہ ہے اور موجد انسان ہوتا ہے۔
اس سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ موجد کچھ وقت کے لیے مالک ہوتا ہے، جب اس چیز کو فروخت کر دے تو اس کی ملکیت ختم ہو جاتی ہے اور خالق ہمیشہ ہر چیز کا مالک ہوتا ہے۔ چونکہ ہمارا خالق اللہ ہے تو موت تک ہمارے وجود کا مالک بھی اللہ ہے، انسان کا موجد تو دنیا میں کوئی نہیں ہے، انسان کے علاوہ باقی چیزوں کا خالق اللہ ہے اور موجد انسان ہے۔ وہ جب چیز کو فروخت کرتا ہے تو اس کی ملکیت ختم ہو جاتی ہے لیکن اللہ کا حقِ ملکیت ختم نہیں ہوتا، اللہ اپنی مخلوق میں جو فیصلے چاہیں صادر فرمائیں۔
یہ دلیل اچھی طرح سمجھنا! خود کشی کرنا حرام ہے ۔ خود کشی اس لیے حرام ہے کہ جسم کا مالک انسان خود نہیں ہے اس کو ضائع نہیں کر سکتا ۔ یہ اللہ کی مِلک میں دخل دے رہا ہے جو اس کے لیے جائز نہیں ہے۔ دلیل اس کی اللہ کا خالق ہونا ہے۔
﴿فَسَوّٰی﴾․․
پھر اللہ رب العزت نے مناسب انداز میں پیدا فرمایا۔ مثلاً جیسے اونٹ بنانا چاہیے اس کو ویسے بنایا، جیسا انسان بنانا چاہیے اس کو ویسا بنایا، جس طرح دوسرے جانوروں کو بنانا چاہیے ان کو بنایا۔ تو جس چیز کی جیسے بنانی چاہیے اللہ پاک نے ویسی شکل بنائی ۔
﴿قَدَّرَ﴾ ․․
پھر اللہ نے ہر جاندار کے مناسب چیزوں کو تجویز فرمایا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کے لیے مناسب ہے کہ گندم کھائے، جانور کے لیے مناسب ہے کہ گھاس کھائے تو جس کے لیے جو چیز مناسب تھی اللہ نے اس کے لیے وہ تجویز فرمائی۔
﴿فَہَدٰی﴾․․
پھر اس کی طرف رہنمائی بھی فرمائی۔ مثلاً انسان کی طبیعت ہی ایسی بنائی کہ خود اس کی طرف چلتا ہے۔ بچے کے لیے دودھ مناسب ہے تو اللہ پاک نے دودھ پیدا فرمایا اور دودھ کے لیے کچھ کہنا نہیں پڑتا بچہ از خود دودھ کا مطالبہ کرتا ہے۔ انسان کے لیے مناسب ہے پانی تو پانی کے لیے اس کو کہنا نہیں پڑتا خود بخود اس کی طلب ہوتی ہے۔ اگر سردی ہو تو سردی میں انسان کے مناسب کیا ہے؛ چادر، جرسی کوئی اور چیز اب یہ کہنا نہیں پڑتا بلکہ انسان کی طبیعت میں ہے کہ یہ خود بخود ان چیزوں کو تلاش کرتا ہے۔ یہ معنی ہے ”فَهَدٰی“ کا۔
﴿وَ الَّذِیۡۤ اَخۡرَجَ الۡمَرۡعٰی ۪ۙ﴿۴﴾ فَجَعَلَہٗ غُثَآءً اَحۡوٰی ؕ﴿۵﴾﴾
اور جس نے زمین سے گھاس اگایا ہے، پھر اس کو سیاہ رنگ کا کوڑا بنا دیا۔ گھاس شروع میں چھوٹا ہوتا ہے پھر بڑا ہوتا ہے، پھر کٹ جاتا ہے، پھر ریزہ ریزہ ہو جاتا ہے۔ یہ قیامت کے احوال بتائے ہیں کہ جس طرح انسان پیدا ہوتا ہے، پھر اسے چیزیں ملتی ہیں، پھر کھاتا پیتا ہے، پھر عمر گذار کر ختم ہوجاتا ہے۔ جیسے گھاس ہے کہ پہلے پیدا ہوتا ہے پھر بڑا ہوکر سرسبز ہوتا ہے پھر زرد ہو جاتا ہے، پھر ختم ہو جاتا ہے۔ یہ حالت تمہاری ہے کہ انسان نطفے سے لے کر بڑھاپے تک کے کئی مراحل سے گزرتا ہے، پھر اس کا دنیا میں وجود ہی نظر نہیں آتا۔
نسخ کی چند صورتیں:
﴿سَنُقۡرِئُکَ فَلَا تَنۡسٰۤی ۙ﴿۶﴾ اِلَّا مَا شَآءَ اللہُ ؕ اِنَّہٗ یَعۡلَمُ الۡجَہۡرَ وَ مَا یَخۡفٰی ؕ﴿۷﴾﴾
ہم آپ کو پڑھائیں گے آپ بھولیں گے نہیں، ہاں جو اللہ چاہے کہ بھول جائیں وہ تو بھول جائیں گے ۔ نسخ کی ایک صورت ہے بھول جانا۔ فرمایا:
﴿مَا نَنۡسَخۡ مِنۡ اٰیَۃٍ اَوۡ نُنۡسِہَا نَاۡتِ بِخَیۡرٍ مِّنۡہَاۤ اَوۡ مِثۡلِہَا﴾
البقرۃ2: 106
ہم جس آیت کو منسوخ کرتے ہیں یا اس کو بھلا دیتے ہیں تو اس سے بہتر آیت لاتے ہیں یا اس جیسی لاتے ہیں۔ نسخ کی ایک صورت تو یہ ہے کہ اللہ بھلا دیتے ہیں اور بسا اوقات ایک آیت کے بد لے میں دوسری آیت لے آتے ہیں۔
پھر فرمایا: اللہ تعالیٰ ان تمام چیزو ں کو جانتے ہیں جو ظاہر ہیں اور جو مخفی ہیں۔
پہلے عادت، پھر عبادت:
﴿وَ نُیَسِّرُکَ لِلۡیُسۡرٰی ۚ﴿ۖ۸﴾﴾
یہ آیت بہت سمجھنے والی ہے۔ یہاں”الْيُسْرٰى“ سے مراد ہے آسان شریعت۔ بظاہر یوں ہونا چاہیے تھا
”نُيَسِّرُ لَكَ الْيُسْرٰى
“ کہ ہم آپ کے لیے شریعت کو بہت آسان کر دیں گے جس پر آپ آرام سے چل سکیں گے لیکن فرمایا کیا؟ کہ
﴿وَ نُیَسِّرُکَ لِلۡیُسۡرٰی﴾
کہ ہم آپ کو آسان کر دیں گے شریعت کے لیے۔ اس کا معنی یہ ہے کہ ہم آپ کی طبیعت میں شریعت پر چلنا بنا دیں گے، شریعت پر چلنے میں آپ کو دقت محسوس نہیں ہو گی، آپ کے مزاج کو شریعت بنا دیں گے۔
حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمہ اللہ فرماتے تھے کہ جب انسان اعمال کرتا ہے تو شروع میں ریا ہوتی ہے، اس کے بعد عادت بنتی ہے، اس کے بعد عبادت بنتی ہے۔ جب یہ جملہ میں نے سنا تو مجھے بھی سمجھ نہیں آتا تھا لیکن ایک وقت آیا کہ پھر سمجھ میں آیا۔ اس لیے میں بسا اوقات سبق میں چھوٹے طلبہ کو بھی بٹھا دیتا ہوں کہ بعض باتیں سمجھ نہیں آئیں گی لیکن یاد ہو جائیں گی اور ایک وقت آئے گا سمجھ بھی آئیں گی۔
حضرت کے اس جملے کا معنی سمجھو! اب ایک طالب علم چھوٹا ہوتا ہے، حفظ کا پھر متوسطہ کا پھر اولیٰ کا، اب تہجد پڑھنے کو اس کا دل نہیں کرتا لیکن پھر بھی پڑھ لیتا ہے اللہ کے لیے یا استاد جی کے لیے؟ استاد جی کے لیے پڑھتا ہے تو یہ ریا ہے۔ ہمارے ہاں ریا کا مفہوم خاص ہے کہ آدمی دکھاوے کے لیے پڑھے یا شہرت کے لیے پڑھے حالانکہ ریا کے مفہوم میں وسعت ہے۔ دکھاوے کا ایک معنی شہر ت ہے اور دکھاوے کا ایک معنی شہرت تو نہیں لیکن خوف ہے کہ لوگوں کو پتا چل جائے کہ نماز پڑھی ہے۔ بسا اوقات چھوٹے بچوں کا وضو بھی نہیں ہوتا لیکن پھر بھی پڑھتے ہیں۔
یہ اعمال شروع میں کیا ہیں؟ ریا ہے۔ اس کے بعد عادت، عادت کا معنی کہ انسان بہت سارا وقت نماز میں ایسا گزارتا ہے کہ اس کے ذہن میں قیامت کا استحضار بھی نہیں ہوتا، جنت اور جہنم کا استحضار بھی بوقت عبادت نہیں ہوتا، بس وہ روٹین سے چل رہا ہوتا ہے کہ نماز بھی پڑھنی ہے، تہجد بھی پڑھنی ہے، تلاوت بھی کرنی ہے۔ اب دیکھیں! جو آپ اسباق پڑھتے ہیں ان کا پڑھنا باعثِ اجر ہے، باعثِ ثواب ہے، اس پر اللہ راضی ہوتے ہیں، قیامت کے بعد جنت ملتی ہے لیکن کوئی طالب علم صَرف پڑھ رہا ہو، کوئی نحو پڑھ رہا ہوتو اس کے حاشیہ خیال میں بھی نہیں ہوتا کہ میں صَرف ونحو پڑھ رہا ہوں اور ا س سے قرآن سمجھ میں آئے گا اور ثواب ملے گا لیکن بس وہ پڑھ رہا ہوتا ہے، یہ اس کی عادت بنی ہوئی ہوتی ہے اور پھر ایک وقت آتا ہے کہ ردِ فِرَقِ باطلہ پر کوئی کتاب پڑھنے کو بھی عبادت سمجھتا ہے کہ اس سے مقصود دشمن کا رد ہے۔
ردِ فِرَق باطلہ ایک مشکل کام ہے:
حضرت مولانا حیات رحمہ اللہ فاتح قادیان یہاں چوکیرہ میں بھی رہے ہیں۔ یوں سمجھیے کہ مرزائیت پر سب سے بڑے مناظر رہے ہیں۔ حضرت نے ایک مرتبہ بنیان پہنی ہوئی ہے اور نیچے لنگی باندھی ہوئی ہے، سخت گرمی میں پسینہ بہہ رہا ہے اور چاروں طرف مرزے کی کتابیں پڑی ہوئی ہیں۔ امیر شریعت رحمہ اللہ یا کوئی اور تشریف لائے تو انہوں نے فرمایا کہ کیا پڑھ رہے ہو؟ اس پر حضرت مولانا حیات رحمہ اللہ نے کہا کہ حضرت! کیا پڑھنا ہے، لوگ قرآن پڑھتے ہیں، تلاوت کرتے ہیں اور میں ہر وقت مرزے کی گالیاں پڑھتا ہوں، ہر وقت اس کے گند کو کھولے بیٹھا ہوں، مجھے تو اپنی زندگی بھی عجیب لگتی ہے۔ فرمایا کہ اس پر اللہ تعالیٰ آپ کو قرآن پڑھنے سے بھی زیادہ اجر دے گا! یہ کتنا مشکل ہے امت کے ایمان کو بچانے کے لیے ایسی باتیں پڑھنا جن کو پڑھنے کے لیے دل بھی تیار نہیں ہو رہا۔ یہ اتنا مشکل کام ہے! اس پر اللہ کی طرف سے بہت مقبولیت ملتی ہے۔
تو خیر میں یہ عرض کر رہا تھا کہ اعمال پہلے ریا ․․پھر عادت․․ پھر عبادت․․ بڑی دیر کے بعد یہ بات سمجھ میں آتی ہے۔ ایک وقت آتا ہے کہ اللہ انسان کی طبیعت کو ایسا بناتا ہے کہ شریعت پر عمل کرنے میں اس کو راحت محسوس ہوتی ہے۔ ظہر کا وقت ہے اور گرمی بہت ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم حضرت بلال سے فرماتے ہیں:
”يَا بِلَالُ أَرِحْنَا“
ہمیں اذان سے راحت پہنچاؤ ۔
مسند احمد: ج 16ص 519رقم الحدیث 22982، وغیرہ
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اس سے راحت ملتی ہے۔
دیکھیں! آج ایک وقت ہے، جوانی کی مستی ہوتی ہے، آدمی دوپہر کو سوتا ہے استاد بھی اٹھائیں تو اٹھنے کو دل نہیں کرتا لیکن آپ اس کو برداشت کریں! ایک وقت آئے گا کہ آپ ظہر پڑھ کر عصر کا انتظار کریں گے کہ اذان کب ہو اور میں عصر کی نماز پڑھوں، کب تہجد کا وقت ہو کہ میں اٹھ جاؤں! اللہ سب کو یہ چیزیں عطا فرمائے۔
نصیحت مؤمنین کے لیے سود مند:
﴿فَذَکِّرۡ اِنۡ نَّفَعَتِ الذِّکۡرٰی ؕ﴿۹﴾﴾
اگر نصیحت کا فائدہ ہے تو آپ نصیحت کرتے رہیں۔
یہاں
”اِنْ“
شرط کے لیے نہیں ہے کہ اگر نصیحت کا فائدہ ہو تو نصیحت کریں اور نہ ہو تو نہ کریں، ایسا نہیں ہے، یہ محاورات ہیں۔ جس طرح ہم کہتے ہیں: بھائی! اگر تم طالب علم ہو تو تمہیں یہ کام کرنا چاہیے، اگر تم انسان ہو تو بات سمجھو! اب اس میں کوئی شک ہے کہ مخاطب انسان نہیں ہے؟ یہ صرف یاددہانی ہوتی ہے، اس میں شرط مقصود نہیں ہوتی۔ یہاں یہ بتانا مقصود ہے کہ نصیحت تو ہوتی ہی نفع کے لیےہے یعنی اے پیغمبر! اگر نصیحت کا فائدہ ہے تو آپ کرتے رہیں یعنی آپ نصیحت کرتے رہیں نصیحت کا فائدہ ہوتا ہے۔
﴿سَیَذَّکَّرُ مَنۡ یَّخۡشٰی ﴿ۙ۱۰﴾ وَ یَتَجَنَّبُہَا الۡاَشۡقَی ﴿ۙ۱۱﴾ الَّذِیۡ یَصۡلَی النَّارَ الۡکُبۡرٰی ﴿ۚ۱۲﴾ ثُمَّ لَا یَمُوۡتُ فِیۡہَا وَ لَا یَحۡیٰی ﴿ؕ۱۳﴾﴾
لیکن نصیحت سے فائدہ وہی حاصل کرتا ہے جو اللہ سے ڈرتا ہے۔بدبخت آدمی نصیحت سے دوڑتا ہے۔ بدبخت وہ شخص ہے جو جہنم میں داخل ہو گا جو بہت بڑی آگ ہے۔
”النَّارَ الْكُبْرٰی“
دنیا کی آگ چھوٹی ہے اور جہنم کی آگ دنیا کی آگ سے بڑی ہے۔ یہ بندہ نہ اس میں مرے گا نہ اس میں زندہ رہے گا۔ ”مرے گا نہیں“ یہ بات تو سمجھ آتی ہے لیکن ”زندہ نہیں رہے گا“ اس کا مطلب کیا ہے؟
”لَا یَحْیٰی“
کا معنی یہ ہے کہ راحت کے ساتھ زندہ نہیں رہے گا، موت تو آئے گی نہیں اور زندہ بھی نہیں رہے گا، مطلب یہ ہے کہ وہ زندگی راحت والی نہیں ہو گی، وہ موت سے بدتر زندگی ہو گی۔ اللہ ہم سب کی حفاظت فرمائے۔ آمین
تزکیہ نفس کامیابی کا ذریعہ:
﴿قَدۡ اَفۡلَحَ مَنۡ تَزَکّٰی ﴿ۙ۱۴﴾ وَ ذَکَرَ اسۡمَ رَبِّہٖ فَصَلّٰی ﴿ؕ۱۵﴾﴾
وہ شخص کامیاب ہے جس نے اپنی اصلاح کر لی اور اپنے رب کے نام کو یاد کیا۔
اب دیکھو! یہاں یہ نہیں آیا کہ جس نے اپنے رب کو یاد کیا بلکہ آ رہا ہے
”وَ ذَکَرَ اسۡمَ رَبِّہٖ فَصَلّٰی“
کہ اپنے رب کے نام کو یاد کیا۔ اس سے اللہ اللہ کا ذکر سمجھ آتا ہے۔ کتنی قرآنی آیات ہیں جن سے اللہ کے نام کا ذکر ثابت ہے۔ بعض لوگ پھر بھی کہتے ہیں کہ اللہ اللہ کرنا بدعت ہے۔
قرآن سے اللہ اللہ کا ثبوت:
یہاں ایک بات اچھی طرح سمجھیں۔ میں کئی بار کہتا ہوں کہ میرے بہت سارے تعجبات ہوتے ہیں۔ مجھے اس پر بہت تعجب ہوتا ہے کہ جب ہم کہیں گے کہ بھائی ذکر کرو! تو فوراً سوال ہوتا ہے کہ اللہ اللہ کہاں سے ثابت ہے؟ ہم نے کہا: ہمارے مشائخ کرتے ہیں، ہمارے بزرگ کرتے ہیں۔ بزرگ کیا ہوتے ہیں؟ قرآن پیش کرو! ہم نے قرآن پیش کیا:
﴿وَ ذَکَرَ اسۡمَ رَبِّہٖ فَصَلّٰی﴾
کہ وہ شخص کامیاب ہے جس نے اپنے رب کا نام لیا۔ کہتا ہے: اس کے تحت کس نے لکھا ہے کہ اس سے مراد اللہ کا ذکر ہے؟ ہم نے کہا: پھر بزرگ آ گئے! جب ہم یہ کہتے ہیں کہ بزرگ ذکر کرتے ہیں تو تم نے کہا کہ آیت پیش کرو! جب ہم نے آیت پیش کی ہے تو اب کہتے ہو کہ اس کا معنی کس بزرگ نے کیا ہے؟ تعجب والی بات ہے! میں اسی لیے کہتا ہوں کہ جب گفتگو ہوتی ہے تو ایک بنیاد بناؤ۔
جب یہ لوگ دلیل میں امامِ حرمین پیش کرتے ہیں تو میں کہتا ہوں کہ طے کرو کہ دلیل میں امامِ حرمین ہو گا بس! پھر جب ہم امامِ حرم کے مسئلے ان کے خلاف پیش کرتے ہیں تو پھر کہتے ہیں کہ ہم ان کے مقلد ہیں؟ ہم نے کوئی ان کا کلمہ پڑھا ہے؟ اس لیے کہتا ہوں کہ ایک بات طے کرو؛ یا دلائل طے کرو یا شخصیات طے کرو۔
﴿بَلۡ تُؤۡثِرُوۡنَ الۡحَیٰوۃَ الدُّنۡیَا ﴿۫۱۶﴾ وَ الۡاٰخِرَۃُ خَیۡرٌ وَّ اَبۡقٰی ﴿ؕ۱۷﴾﴾
لیکن تم لوگ ایسے ہو کہ دنیا کو آخرت پر ترجیح دیتے ہو، حالانکہ آخرت بہتر بھی ہے اور باقی بھی رہے گی۔ اللہ فرماتے ہیں:
﴿مَا عِنۡدَکُمۡ یَنۡفَدُ وَ مَا عِنۡدَ اللہِ بَاقٍ﴾
النحل16: 96
جو کچھ تمہارے پاس ہے وہ ختم ہو جائے گا اور جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ باقی رہنے والا ہے۔ اس کا ایک معنی تو یہ ہے کہ کان تمہارے پاس ہے اس نے ختم ہو جانا ہے اور اس سے جو تم نے نیک بات سنی ہے وہ اللہ کے پاس چلی گئی اُس نے باقی رہنا ہے۔ آنکھ تمہارے پاس ہے اس نے ختم ہو جانا ہے اور اس سے جو تم نے صحیح دیکھا ہے وہ اللہ کے پاس ہے اُس نے باقی رہنا ہے۔ زبان تمہارے پاس ہے اس نے ختم ہو جانا ہے اور تم نے اس سے جو نیک بات کی ہے، قرآن پڑھاہے، درود شریف پڑھا ہے؛ وہ باقی رہے گا۔
﴿اِنَّ ہٰذَا لَفِی الصُّحُفِ الۡاُوۡلٰی ﴿ۙ۱۸﴾ صُحُفِ اِبۡرٰہِیۡمَ وَ مُوۡسٰی ﴿٪۱۹﴾﴾
یہ مضمون صرف قرآن میں نہیں ہے بلکہ پہلے صحیفوں میں بھی ہے، وہ پہلے صحیفے یعنی ابراہیم علیہ السلام اور موسیٰ علیہ السلام کے صحیفے۔ ابراہیم علیہ السلام کو اللہ نے صحیفے عطا فرمائے تھے اور موسیٰ علیہ السلام کو اللہ نے پہلے دس صحیفے عطا فرمائے اور بعد میں تورات عطا فرمائی۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ․