سورۃ الغاشیہ

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
سورۃ الغاشیہ
بِسۡمِ اللہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ
﴿ہَلۡ اَتٰىکَ حَدِیۡثُ الۡغَاشِیَۃِ ؕ﴿۱﴾﴾
کیا آپ کے پاس اس واقعے کی خبر آئی ہے جو سب کو ڈھانپ لے گا۔ اس واقعے سے مراد قیامت ہے۔
مشقت برداشت کریں لیکن اللہ کے دین کے لیے:
﴿وُجُوۡہٌ یَّوۡمَئِذٍ خَاشِعَۃٌ ۙ﴿۲﴾ عَامِلَۃٌ نَّاصِبَۃٌ ۙ﴿۳﴾ تَصۡلٰی نَارًا حَامِیَۃً ۙ﴿۴﴾﴾
جس دن بعض چہرے ذلیل اور رسوا ہوں گے۔ محنت کر کر کے تھکے ہوں گے اور گرم آگ میں داخل ہوں گے۔
”محنت کر کر کے تھکے ہوں گے“ اس کا کیا معنی ہے؟ اللہ فرماتے ہیں:
﴿یٰۤاَیُّہَا الۡاِنۡسَانُ اِنَّکَ کَادِحٌ اِلٰی رَبِّکَ کَدۡحًا فَمُلٰقِیۡہِ ۚ﴿۶﴾﴾
الانشقاق84: 6
اے انسان! تُو نے مشقت اٹھاتے اٹھاتے اپنے رب تک پہنچ جانا ہے۔
تو ہر آدمی نے مشقت برداشت کرتے کرتے اللہ کے پاس جانا ہے۔اگر بندے نے مشقت میں نیک کام کیے ہوں گے تو بدلہ اچھا ملے گا:
﴿فَاَمَّا مَنۡ اُوۡتِیَ کِتٰبَہٗ بِیَمِیۡنِہٖ ۙ﴿۷﴾ فَسَوۡفَ یُحَاسَبُ حِسَابًا یَّسِیۡرًا ۙ﴿۸﴾﴾
الانشقاق84: 7، 8
اعمال نامہ دائیں ہاتھ میں ملے گا اور حساب آسان ہو گا، اور اگر مشقت اٹھائی ہو گی لیکن گناہوں میں اور اللہ کی نافرمانی میں تو بدلہ برا ہو گا:
﴿وَ اَمَّا مَنۡ اُوۡتِیَ کِتٰبَہٗ وَرَآءَ ظَہۡرِہٖ ﴿ۙ۱۰﴾ فَسَوۡفَ یَدۡعُوۡا ثُبُوۡرًا ﴿ۙ۱۱﴾﴾
الانشقاق84: 10، 11
نامہ اعمال بائیں ہاتھ میں ملے گا، ہاتھ پیچھے بندھے ہوئے ہوں گے۔ اس وقت بندہ موت کو پکارے گا۔
اللہ نے یہاں
”عَامِلَۃٌ نَّاصِبَۃٌ“
میں یہ بات سمجھائی کہ مشقت تو ہر بندہ برداشت کرتا ہے مثلاً ایک شخص نکاح کرتا ہے تو پیسے خرچ کرتا ہے، اب مشقت اس نے بھی کی ہے اور ایک بندہ زنا کرتا ہے اور پیسے خرچ کرتا ہے تو مشقت اس نے بھی کی ہے لیکن جنہوں نے خدا کی نافرمانی میں مشقت اٹھائی تو یہی وہ لوگ ہیں جن کے چہروں پر ذلت اور رسوائی چھائی ہو گی۔یہ لوگ جہنم کا ایندھن بنیں گے۔ محنت بھی کی لیکن خدا کی رضا کو نہ پا سکے۔ اللہ ہم سب کی حفاظت فرمائے۔
حضرت عمر اور عیسائی راہب:
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ملک شام میں گئے۔ آپ سے ملنے کے لیے ایک عیسائی راہب آیا۔ اپنے مذہب کی عبادات، ریاضت اور محنت و مشقت کی وجہ سے اس کا چہرہ سوکھا ہوا تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دیکھا تو رو پڑے۔ کسی نے کہا کہ امیر المؤمنین! آپ کیوں روتے ہیں؟ فرمایا کہ اس کا چہرہ دیکھتا ہوں کہ اس نے کتنی محنت و مشقت کی لیکن اللہ کو پھر بھی راضی نہ کر سکا! کیوں کہ اس کا عقیدہ ٹھیک نہیں ہے، عیسائی ہے، عقائد کو بنیادی دخل ہے اعمال کے قبول ہونے میں۔ اس لیے پوری دنیا میں ہماری تحریک کی بنیاد عقائد ہیں، عقائد میں خلل آ گیا تو اعمال قبول ہوں گے ہی نہیں اور عقائد ٹھیک ہو گئے تو پھر اللہ سے بہت امید ہوتی ہے بخشش کی۔
نیک اعمال کا بدلہ اچھا ہے اور برے اعمال کا بدلہ برا ہے۔ جیسا انسان عمل کرتاہے اسی کےمطابق انسان کو جزااور سزا ملتی ہے۔ جو شخص دنیا میں اللہ کے لیے مشقت برداشت کرتا ہے اللہ قیامت کے دن اس کو عزت دے گا اور جو دنیا میں اللہ کے لیےمشقت برداشت نہیں کرتا تو اللہ قیامت کے دن اس کو ذلیل کر دیں گے۔ اس لیے آدمی اللہ کے لیے مشقت برداشت کرے، اللہ کے لیے باتیں سنے، اللہ کے لیے مار کھائے، اللہ کے لیے تکلیف برداشت کرے تو اللہ تعالیٰ قیامت کی رسوائی سے محفوظ فرمائیں گے۔
﴿نَارًا حَامِیَۃً﴾․․․
اس آگ کی صفت
”حَامِيَةً“
بیان کی ہے جس کا معنی ہے ؛گرم۔ آگ تو ویسے بھی گرم ہوتی ہے پھر اس کو
”حَامِيَةً“
کیوں فرمایا؟ دراصل اس میں اس آگ کی گرمی کے تسلسل کو بیان کیا ہے کہ یہ آگ ایسی ہو گی جو مسلسل گرم رہے گی، اس کی گرمی میں کمی نہیں آئے گی۔
جہنمیوں کی خوراک؛ گرم پانی اور ضریع
﴿تُسۡقٰی مِنۡ عَیۡنٍ اٰنِیَۃٍ ؕ﴿۵﴾ لَیۡسَ لَہُمۡ طَعَامٌ اِلَّا مِنۡ ضَرِیۡعٍ ۙ﴿۶﴾﴾
کھولتے اور ابلتے ہوئے چشموں سے ان کو پانی پلایا جائے گا۔ قیامت کے دن جو ان کو کھانے کے طور پر ملے گا وہ کانٹے دار جھاٹیاں ہوں گی۔
یہاں سوال یہ ہے کہ قرآن کریم میں اہلِ جہنم کے لیے اور کھانے بھی ہیں، کسی جگہ پر ہے کہ ان کو زقوم دیا جائے گا، کسی جگہ ہے کہ ان کو غسلین دیا جائے گا لیکن یہاں حصر کے ساتھ فرمایا کہ ان کا کھانا صرف ضریع ہو گا، کانٹے دار جھاڑیاں ہی ملیں گی۔ تو باقی مقامات پر تو اور کھانے بھی ثابت ہیں تو یہاں حصر کے ساتھ کیوں فرمایا؟
اس کا جواب یہ ہے کہ یہاں پر یہ مقصود نہیں ہے کہ ضریع کے علاوہ ان کو کوئی اور کھانا نہیں ملے گا بلکہ یہاں یہ بتانا مقصود ہے کہ لذت والا اور فائدہ بخش کھانا ان کو کوئی نہیں ملے گا، جو ملے گا وہ نقصان دہ ہی ہو گا جس طرح کہ ضریع ہے۔ تو یہ بطور مثال بیان فرمایا۔
اور بعض حضرات یہ فرماتے ہیں کہ جہنم کے مختلف درجات ہیں، بعض درجات میں ضریع ملے گا اور بعض میں زقوم ملے گا اور بعض میں غسلین ملے گا۔
دوسرا اس پر سوال یہ ہے کہ جہنم تو آگ کا نام ہے اور آگ تو ہر چیز کو جلا کر رکھ دیتی ہے تو وہاں یہ کانٹوں والے درخت کیسے پیدا ہوں گے؟
اس کا جواب یہ ہے کہ یہ تو اللہ کی قدرت ہے، ہو سکتا ہے کہ اس درخت کی خوراک اللہ آگ ہی بنا دے کہ یہ آگ ہی کی وجہ سے زندہ رہے، یہ تو اللہ کا نظام ہے کہ وہ کسی چیز کی خوراک کیا بناتے ہیں۔
﴿لَّا یُسۡمِنُ وَ لَا یُغۡنِیۡ مِنۡ جُوۡعٍ ؕ﴿۷﴾﴾
نہ اس کھانے سے موٹے تازے ہوں گے اور نہ ہی اس کھانے کی وجہ سے ان کی بھوک ختم ہو گی۔
جنت کی نعمتیں:
﴿وُجُوۡہٌ یَّوۡمَئِذٍ نَّاعِمَۃٌ ۙ﴿۸﴾ لِّسَعۡیِہَا رَاضِیَۃٌ ۙ﴿۹﴾ فِیۡ جَنَّۃٍ عَالِیَۃٍ ﴿ۙ۱۰﴾ لَّا تَسۡمَعُ فِیۡہَا لَاغِیَۃً ﴿ؕ۱۱﴾﴾
اب یہاں سے جنتیوں کی صفتیں بیان ہو رہی ہیں۔ فرمایا: قیامت کے دن کئی چہرے تروتازہ ہوں گے۔ اپنی محنت پر خوش ہوں گے۔ وہ بلند جنت میں ہوں گے۔ وہاں کوئی لغو اور بے ہودہ بات نہیں سنیں گے۔
مفسرین نے لکھا ہے جنت کی خوبی ہے کہ وہا ں شور نہیں ہو گا کیونکہ شور ہونے سے بندے کو تکلیف ہوتی ہے۔
﴿فِیۡہَا عَیۡنٌ جَارِیَۃٌ ﴿ۘ۱۲﴾ فِیۡہَا سُرُرٌ مَّرۡفُوۡعَۃٌ ﴿ۙ۱۳﴾ وَّ اَکۡوَابٌ مَّوۡضُوۡعَۃٌ ﴿ۙ۱۴﴾ وَّ نَمَارِقُ مَصۡفُوۡفَۃٌ ﴿ۙ۱۵﴾ وَّ زَرَابِیُّ مَبۡثُوۡثَۃٌ ﴿ؕ۱۶﴾﴾
اس میں چشمے بہتے ہوں گے اور وہا ں اونچے اونچے تخت ہوں گے اور پیالے ترتیب سے رکھے ہوں گے اور گاؤ تکیے بچھے ہوں گے اور قالین بچھائے ہوں گے۔
میزبانی کے آداب :
یہ جو ساری باتیں بتائی ہیں میں پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ اللہ رب العزت نے آداب بتائے ہیں کہ جنت میں پینے کے لیے پیالے ترتیب سے رکھے ہوں گے۔ حضرت مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ ادب کا تقاضا یہ ہے کہ جہاں پانی پینے کے لیے جگہ ہو وہا ں گلاس بھی ہوں، اور استعمال کی وہ چیزیں جو انسان کی ضرورت ہیں ان کو ترتیب کے ساتھ رکھنا یہ آدابِ معاشرت ہے، اور یہ جنت کی صفات میں سے اللہ نے ایک صفت بیان کی ہے کیونکہ جنت؛ اللہ کی طرف سے اہلِ جنت کے لیے مہمان خانہ ہے:
﴿نُزُلًا مِّنۡ غَفُوۡرٍ رَّحِیۡمٍ ﴿٪۳۲﴾﴾
حٰم السجدۃ41: 32
مہمان خانے اور جیل خانے میں فرق:
قرآن کریم نے جو جنت اور جہنم کا ذکر کیا ہے تو یوں فرمایا:
﴿وَ سِیۡقَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اِلٰی جَہَنَّمَ زُمَرًا ؕ حَتّٰۤی اِذَا جَآءُوۡہَا فُتِحَتۡ اَبۡوَابُہَا﴾
الزمر39: 71
کفار کو جہنم کی طرف کھینچا جائے گا، جب کفار جہنم کے قریب آئیں گے تو اس کے دروازے کھل جائیں گے۔
اور جنت کے بارے میں یوں فرمایا:
﴿وَ سِیۡقَ الَّذِیۡنَ اتَّقَوۡا رَبَّہُمۡ اِلَی الۡجَنَّۃِ زُمَرًا ؕ حَتّٰۤی اِذَا جَاءُوۡہَا وَ فُتِحَتۡ اَبۡوَابُہَا﴾
الزمر39: 73
﴿وَ فُتِحَتۡ اَبۡوَابُہَا﴾
میں واؤ حالیہ ہے یعنی جب اہل جنت آئیں گے تو دروازے کھلے ہوئے ہوں گے۔
اس لیے کہ مہمان کے آنے سے پہلے مہمان خانے کا دروازہ کھلا ہونا یہ قرآن کریم نے ادب بتایا ہے۔ مہمان کھڑا ہو اور تم چابی تلاش کر رہے ہو، دروازہ اسی وقت کھل رہا ہو تو بتاؤ یہ مہمان خانہ ہے یا جیل خانہ ہے؟ جیل کا ماحول یہ ہے کہ جب قیدی آتا ہے اس وقت دروازہ بند ہوتا ہے، چابی لائی جاتی ہے اور دروازہ کھلتا ہے، قیدی کو اندر کرتے ہیں اور پھر دروازہ بند کیا جاتا ہے۔ تو مہمان خانوں کو مہمان خانہ بناؤ، مہمان خانہ کو جیل خانہ نہ بناؤ! مہمان خانہ مہمان کے آنے سے پہلے کھلا ہو، مہمان کی ضرورت مہمان کے آنے سے پہلے موجود ہو، مہمان کو کہنا پڑے کہ بھائی! چائے لاؤ․․․ پانی لاؤ․․․ بھائی! ٹشومل جائے گا․․․ تو یہ کون سی مہمان نوازی ہے؟ اس لیے مہمان کے آنے سے پہلے اس کی ضروریات کا انتظام کر لینا چاہیے۔
اونٹ، آسمان، پہاڑ اور زمین:
﴿اَفَلَا یَنۡظُرُوۡنَ اِلَی الۡاِبِلِ کَیۡفَ خُلِقَتۡ ﴿ٝ۱۷﴾ وَ اِلَی السَّمَآءِ کَیۡفَ رُفِعَتۡ ﴿ٝ۱۸﴾ وَ اِلَی الۡجِبَالِ کَیۡفَ نُصِبَتۡ ﴿ٝ۱۹﴾ وَ اِلَی الۡاَرۡضِ کَیۡفَ سُطِحَتۡ ﴿ٝ۲۰﴾﴾
یہ لوگ چونکہ قیامت کے منکر تھے تو ان کو ان کے ماحول کی چیزیں ذکر کر کے یہ بات سمجھائی کہ اللہ کے لیے قیامت کو برپا کرنا کیا مشکل ہے؟! فرمایا: کیا یہ لوگ اونٹ کو نہیں دیکھتے کہ اللہ نے اسے کیسے بنایا ہے؟ آسمان کو نہیں دیکھتے کہ اللہ نے اسے کس طرح بلند فرمایا ہے؟ پہاڑوں کو نہیں دیکھتے کہ کس طرح اسے زمین میں گاڑ دیا ہے؟ اور زمین کو نہیں دیکھتے کہ ہم نے کس طرح اس کو بچھا دیا ہے۔
یہ چار چیزیں اللہ نے اس لیے ذکر فرمائی ہیں کہ عرب کے ہاں جنگلات یا پہاڑ یا پھر اونٹ ہوتے تھے، سامنے دیکھیں تو اونٹ ہے، اوپر دیکھیں تو آسمان ہے، نیچے دیکھیں تو زمین ہے، دائیں بائیں دیکھیں تو پہاڑ ہیں۔ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اپنے اردگرد کا ماحول دیکھو! جب یہ سب کچھ اللہ بنا سکتا ہے تو پھر قیامت برپا کرنا اس کے لیے کیا مشکل ہے؟
اور بطورِ خاص اللہ نے اونٹ کا ذکر کیا، عجیب اللہ پاک کا کرم ہے۔ عرب کے علاقے میں ہاتھی ہوتے تو ان کے لیے پالنا مشکل ہوتا اور اونٹ کو پالنا بہت آسان ہوتا ہے، ایک تو اونٹ اپنی خوراک خود لیتا ہے، درخت ہو تو تمہیں کاٹنا نہیں پڑے گا اونٹ خود اس کے پتے کھائے گا، پتے نہیں ہوں گے تو ٹہنیاں کھائے گا، یہ اونٹ کی صفت ہے۔عرب میں ریگستان ہیں پانی بہت کم ہوتا ہے، کہیں ہوتا ہے اور کہیں نہیں ہوتا، اونٹ کے بدن میں اللہ نے اضافی ٹینکی رکھی ہے، اونٹ اتنا پانی پیتا ہے کہ ایک ہفتے سے بھی زیادہ اس پانی سے گزارہ کر سکتا ہے۔
پھر وہاں سفر کرنا بہت مشکل ہوتا ہے، گرمی بہت سخت ہوتی ہے اور خدا نے اونٹ کی یہ خوبی رکھی ہے کہ وہ شام سے لے کر صبح تک پوری رات سفر کر سکتا ہے، علاقہ ریگستان کا ہے جس پر چلنا مشکل ہے، اللہ نے عرب کو اونٹ دیے ہیں جن کے پاؤں کے نیچے ایسی چیز ہے جس سے ان کے لیے ریت پر چلنا بہت آسان ہے۔ پھر اونٹ اتنا بڑا جانور ہے کہ اس پر سوار ہونا بہت مشکل تھا، عام جانور اور انسان کو دیکھیں تو ان میں ایک گھٹنا ہوتا ہے لیکن اونٹ کی ٹانگ میں دو گھٹنے ہوتے ہیں، ایک آگے ہوتا ہے اور ایک پیچھے نکلا ہوا ہوتا ہے، اس پیچھے والے گھٹنے پر پاؤں رکھو اور اونٹ پر چڑھ جاؤ! سیڑھی کی بھی ضرورت نہیں ہے۔
پھر چلنے میں گرنے کا خطرہ ہوتا ہے تو اس کے لیے اللہ نے کوہان بنا دی ہے کہ اس کو پکڑ لو۔ اللہ تعالی نے کتنی آسانیاں پیدا فرمائی ہیں، اور اس کے مزاج میں اللہ تعالی نے ایسی اطاعت رکھی ہے کہ بچہ نہیں بلکہ پانچ سال کی بچی کو نکیل دے دو تو سو اونٹ اس کے پیچھے چلتے جائیں گے۔
منصبِ نبوت:
﴿فَذَکِّرۡ ۟ؕ اِنَّمَاۤ اَنۡتَ مُذَکِّرٌ ﴿ؕ۲۱﴾ لَسۡتَ عَلَیۡہِمۡ بِمُصَۜیۡطِرٍ ﴿ۙ۲۲﴾ اِلَّا مَنۡ تَوَلّٰی وَ کَفَرَ ﴿ۙ۲۳﴾ فَیُعَذِّبُہُ اللہُ الۡعَذَابَ الۡاَکۡبَرَ ﴿ؕ۲۴﴾ اِنَّ اِلَیۡنَاۤ اِیَابَہُمۡ ﴿ۙ۲۵﴾ ثُمَّ اِنَّ عَلَیۡنَا حِسَابَہُمۡ ﴿٪۲۶﴾﴾
میرے پیغمبر! آپ نصیحت فرمائیں آپ کا کام نصیحت فرمانا ہے، آپ ان پر کوئی نگران تو مسلط نہیں ہیں کہ ان کی زیادہ فکر کریں۔ ہاں جو رو گردانی کرتا ہے اور کفر اختیار کرتا ہے تو اللہ اس کو بڑا عذاب دے گا۔ ان سب نے ہما رے پاس ہی آنا ہے اور ہم نے ہی ان سب کا حساب لینا ہے۔
اللہ ہم سب کو آخرت کی فکر کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ․