سورۃ الشمس

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
سورۃ الشمس
بِسۡمِ اللہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ
﴿وَ الشَّمۡسِ وَ ضُحٰہَا ۪ۙ﴿۱﴾ وَ الۡقَمَرِ اِذَا تَلٰىہَا ۪ۙ﴿۲﴾ وَ النَّہَارِ اِذَا جَلّٰىہَا ۪ۙ﴿۳﴾ ﴾
گیارہ قسمیں:
یہاں اللہ رب العزت نے گیارہ قسمیں کھا کر یہ مضمون سمجھایا ہے اور قرآن کریم میں اس سے زیادہ کسی اور مضمون کو سمجھانے کے لیے اتنی قسمیں نہیں اٹھائی گئیں۔
﴿وَ الشَّمۡسِ وَ ضُحٰہَا ۪ۙ﴿۱﴾ ﴾
قسم ہے سورج کی اور اس کی روشنی کی۔ یہ جو واؤ عاطفہ ہے اس کے بعد
”ضُحٰىهَا“
اس شمس کا وصف ہے تو یہ وصف بصورت عطف بیان ہو رہا ہے۔یہ ایسے ہے جیسے ہم کہتے ہیں کہ یار اس بندے کو دیکھو اور اس کا قلم دیکھو اور اس کی زبان دیکھو! اب یہ اس کا وصف بصورت عطف بیان ہو رہا ہوتا ہے۔
فرمایا: سورج کو دیکھو اور سورج کی روشنی کو دیکھو! ترجمہ کرتے ہوئے یہ لہجہ میں اس لیے سمجھا رہا ہوں کہ بسا اوقات بندے کو الجھن ہوتی ہے کہ جب سورج کی قسم کھا لی تو اب روشنی کی قسم کیوں کھائی ہے؟ تو میں با رہا یہ بات سمجھاتا ہوں کہ آپ محاورات میں بات کیا کریں پھر دیکھیں قرآن کیسے سمجھ میں آتا ہے؟! محاورات کو ذہن سے ہٹا دو تو پھر قرآن سمجھ میں نہیں آتا۔
”وَ الشَّمْسِ وَ ضُحٰىهَا“
قسم ہے سورج کی اور سورج کی روشنی کی! یعنی سورج کو دیکھو ․․سورج کا چڑھنا دیکھو․․ سورج کی روشنیاں دیکھو۔
﴿وَ الۡقَمَرِ اِذَا تَلٰىہَا ۪ۙ﴿۲﴾﴾
اور قسم ہے چاند کی جب وہ سورج کے بعد آئے۔ عام طور پہ چاند سورج کے غروب ہونے کے کافی دیر بعد نظر آتا ہے لیکن بطورِ خاص جو چودھویں کا چاند ہوتا ہے وہ سورج کے غروب ہونے کے فوراً بعد نکلنا شروع ہو جاتا ہے۔تو اس جملہ سے مقصود یہ ہے کہ جب چاند درجہ کمال پر ہو۔
﴿وَ النَّہَارِ اِذَا جَلّٰىہَا ۪ۙ﴿۳﴾﴾
اور قسم ہے دن کی جب وہ زمین کو روشن کر کے رکھ دے۔ یہاں ”ھَا“ ضمیر سے مراد زمین ہے جس کا پہلے ذکر نہیں ہوا لیکن عرب کے محاورات میں بھی ہے اور ہمارے محاورات میں بھی ہے کہ بعض چیزوں کا ذکر زبان سے نہیں ہوتا لیکن ذہنوں میں ہوتا ہے جس کو معہودِ ذہنی کہتے ہیں۔
﴿وَ الَّیۡلِ اِذَا یَغۡشٰىہَا ۪ۙ﴿۴﴾﴾
اور قسم ہے رات کی جب وہ سورج کی روشنی پر چھا جائے اور اسے چھپا لے۔
﴿وَ السَّمَآءِ وَ مَا بَنٰہَا ۪ۙ﴿۵﴾﴾
اور قسم ہے آسمان کی اور اس ذات کی جس نے آسمان کو بنایا۔
﴿وَ الۡاَرۡضِ وَ مَا طَحٰہَا ۪ۙ﴿۶﴾﴾
اور قسم ہے زمین کی اور اس ذات کی جس نے زمین کو بنایا۔
﴿وَ نَفۡسٍ وَّ مَا سَوّٰىہَا ۪ۙ﴿۷﴾﴾
اور قسم ہے انسان کی اور اس ذات کی جس نے انسان کو صحیح طرح بنا دیا۔
یہ کل گیارہ قسمیں بنتی ہیں۔ عام مفسرین کے ہاں یہ قسمیں سات ہیں اور حکیم الامت حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ یہ گیارہ قسمیں ہیں۔ عام مفسرین ان جملوں
” مَا بَنٰىهَا “
اور
” وَ مَا طَحٰىهَا “
میں
”مَا“
کو مصدریہ کہتے ہیں تو سات قسمیں بنا لیتے ہیں اور حضرت تھا نوی رحمہ اللہ
”مَا“
بمعنی
”مَنْ“
لے کر ذات کی قسم مراد لیتے ہیں تو اس صورت میں گیارہ قسمیں بن جاتی ہیں۔ اگر
”مَا“
بمعنی
”مَنْ“
ہو اور ذات ہو تو حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کی ذات پر ایک استدلال ہے کیونکہ مصنوع سے استدلال ہوتا ہے صانع کے وجود پر۔ تو پہلے مخلوق کا ذکر کیا ہے جس سے خدا کی ذات پر استدلال ہو سکتا ہے۔
انسان کی فطرت میں تقویٰ اور فجور کی آمیزش:
تو اللہ نے گیارہ قسمیں کھا کر فرمایا:
﴿فَاَلۡہَمَہَا فُجُوۡرَہَا وَ تَقۡوٰىہَا ۪ۙ﴿۸﴾﴾
کہ اللہ نے انسان کی ذات میں گناہ کا تقاضا بھی رکھا ہے اور گناہ کو کنٹرول کرنے کی طاقت بھی اس کے مزاج میں رکھی ہے۔
کامیاب انسان:
﴿قَدۡ اَفۡلَحَ مَنۡ زَکّٰىہَا ۪ۙ﴿۹﴾ وَ قَدۡ خَابَ مَنۡ دَسّٰىہَا ﴿ؕ۱۰﴾﴾
وہ شخص کامیاب ہو گیا جس نے اپنے نفس کی اصلاح کر دی اور وہ شخص برباد ہو گیا جس نے اپنے نفس کو تباہ کر دیا یعنی اس کی اصلاح نہ کر سکا۔
قومِ ثمود کی سرکشی کا انجام:
﴿کَذَّبَتۡ ثَمُوۡدُ بِطَغۡوٰىہَاۤ ﴿۪ۙ۱۱﴾ اِذِ انۡۢبَعَثَ اَشۡقٰہَا ﴿۪ۙ۱۲﴾ فَقَالَ لَہُمۡ رَسُوۡلُ اللہِ نَاقَۃَ اللہِ وَ سُقۡیٰہَا ﴿ؕ۱۳﴾ فَکَذَّبُوۡہُ فَعَقَرُوۡہَا۪ۙ فَدَمۡدَمَ عَلَیۡہِمۡ رَبُّہُمۡ بِذَنۡۢبِہِمۡ فَسَوّٰىہَا ﴿۪ۙ۱۴﴾ وَ لَا یَخَافُ عُقۡبٰہَا ﴿٪۱۵﴾﴾
آگے مثال دی ہے کہ ایسا شخص گزرا تھا جس نے اپنے نفس کو تباہ کیا تھا۔ فرمایا: قوم ثمود نے اپنی سرکشی کی وجہ سے نبی کو جھٹلایا ، جب ان میں ایک بدبخت اونٹنی کو مارنے کے لیے کھڑا ہوا۔ اللہ کے رسول نے کہا کہ یہ اونٹنی اللہ کی ہے، اس کا اور اس کے پانی پینے کا پورا پورا خیال رکھنا!
﴿فَکَذَّبُوۡہُ﴾
پھر بھی انہوں نے پیغمبر کو جھٹلایا اور اس اونٹنی کو کاٹ کے رکھ دیا -اس کے پاؤں کاٹے-
﴿فَدَمۡدَمَ عَلَیۡہِمۡ رَبُّہُمۡ بِذَنۡۢبِہِمۡ فَسَوّٰىہَا﴾
ان کے رب نے ان پر ان کے گناہوں کی وجہ سے مسلسل عذاب برسایا،
﴿فَسَوّٰىہَا﴾
اور سب کو برابر کر کے رکھ دیا۔ یہ عذاب ایسا تھا جو مردوں، بچوں، بوڑھوں، عورتوں سب پر آیا۔
﴿وَ لَا یَخَافُ عُقۡبٰہَا﴾
اور اللہ انجام سے نہیں ڈرتے۔ دنیا کے بادشاہ کسی کو عذاب دیں تو ڈرتے ہیں کہ ہمارے خلاف بغاوت نہ ہو اور اللہ کسی سے نہیں ڈرتے۔ اس لیے کہ اللہ کو بغاوت کا خطرہ نہیں۔ خدا کا عذاب بہت سخت ہوتا ہے۔ اس پر کئی بار میں تقریر کر چکا ہوں اور آپ سن بھی چکے ہیں۔
یہاں ایک اہم باتیں سمجھ لیں:
﴿فَاَلۡہَمَہَا فُجُوۡرَہَا وَ تَقۡوٰىہَا﴾
اللہ نے بندے میں گناہ کا تقاضا بھی رکھا ہے اور گناہ سے بچنے کی صلاحیت بھی رکھی ہے۔
اللہ نے یہاں ”فجور“ کو ”تقویٰ“ پر مقدم کیا یعنی گناہ کو نیکی پر مقدم کیا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ تقویٰ ہوتا ہی تب ہے جب گناہ کا تقاضا ہو اور اگر انسان میں گناہ کا تقاضا ہی نہ ہو تو پھر کنٹرول کی طاقت کی ضرورت ہی نہیں۔ پہلے گناہ کا تقاضا ہو گا تو پھر کنٹرول کی طاقت بھی ہو گی اس لیے فجور کو مقدم کیا لیکن مقصود گناہ کرنا نہیں بلکہ گناہ سے بچنا ہے۔ جب مقصود کی بات آئی تو
﴿مَنۡ زَکّٰىہَا﴾
کو مقدم کیا اور
﴿مَنۡ دَسّٰىہَا﴾
کو مؤخر کیا کہ وہ شخص کامیاب ہوا جس نے اپنے نفس کی اصلاح کی اور وہ تباہ ہوا جس نے اپنے نفس کو مٹی میں ملا دیا، نفس کی اصلاح نہ کر سکا۔ جب مقصد کی بات آئی تو پھر
﴿مَنۡ زَکّٰىہَا﴾
کو مقدم کیا اور
﴿مَنۡ دَسّٰىہَا﴾
کو مؤخر کیا۔
اللہ ہمیں بات سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ․