سورۃ الضحیٰ

User Rating: 4 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Inactive
 
سورۃ الضحیٰ
بِسۡمِ اللہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ
﴿وَ الضُّحٰی ۙ﴿۱﴾ وَ الَّیۡلِ اِذَا سَجٰی ۙ﴿۲﴾ مَا وَدَّعَکَ رَبُّکَ وَ مَا قَلٰی ؕ﴿۳﴾﴾
شانِ نزول:
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم طبیعت ناساز ہونے کی وجہ سے ایک دو راتیں تہجد کے لیے نہیں اٹھ سکے تو ابولہب کی بیوی ام جمیل نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف جملے کسے کہ ان کے خدانے ان کو چھوڑ دیا ہے تو اس پر یہ سورت نازل ہوئی اور بعض روایات میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر کچھ دنوں کے لیے وحی نہیں آئی تو ابو لہب کی اس بیوی نے کہا کہ ان کو ان کے ساتھی نے چھوڑ دیا ہے تو اس وقت یہ سورت نازل ہوئی۔
تاخیرِ وحی کے واقعات کئی بار پیش آئے ہیں۔ایک بارجب مشرکینِ مکہ نے یا یہود نے تین سوال کیے تھے کہ روح کیا چیز ہے؟ وہ کون نوجوان تھے جو غار میں چلے گئے تھے؟ اور وہ کون شخص ہے جس نے مشرق اور مغرب پر حکومت کی ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ میں ان کا جواب کل بتاؤں گا۔ چونکہ ان شاء اللہ نہیں کہا تھا اس لیے سترہ دن تک وحی نہیں آئی۔ اس پر بھی مشرکین نے شور مچایا تھا کہ دیکھو! ان کے خدانے ان کو چھوڑ دیا ہے۔ اسی طرح ابتدا میں بھی ایک واقعہ پیش آیا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر تین سال تک وحی بند رہی جسے فترت وحی کا زمانہ کہتے ہیں۔ تو خلاصہ سب کا ایک ہی ہے کہ کچھ دنوں کے لیے وحی نہیں آئی تو اس پر ان لوگوں نے شور مچایا تھا۔
چاشت اور رات کی قسم کھانے کی وجہ:
﴿وَ الضُّحٰی ۙ﴿۱﴾ وَ الَّیۡلِ اِذَا سَجٰی ۙ﴿۲﴾ مَا وَدَّعَکَ رَبُّکَ وَ مَا قَلٰی ؕ﴿۳﴾﴾
قسم ہے سورج کی دھوپ چڑھنے کی اورقسم ہے رات کی جب وہ چھاجائے۔ نہ ہی آپ کے رب نے آپ کو چھوڑا ہے اور نہ ہی آپ کا رب آپ سے بیزار ہوا ہے۔
﴿وَ لَلۡاٰخِرَۃُ خَیۡرٌ لَّکَ مِنَ الۡاُوۡلٰی ؕ﴿۴﴾﴾
آپ کی بعد والی حالت پہلی والی حالت سے بہتر ہے۔
اللہ رب العزت آپ کی ہر بعد والی حالت کو پہلے والی حالت سے بہتر بناتے ہیں، جب اللہ چھوڑ دیں گے تو بعد والی حالت پہلے والی حالت سے بدتر ہو گی لیکن اللہ نے نبوت کے لیے آپ کا انتخاب فرمایا تو پھر یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ اللہ آپ کو چھوڑ دیں؟! تو اللہ رب ا لعزت نے قسمیں کھا کر یہ بات سمجھائی ہے۔
یہاں ایک بات تو یہ سمجھیں کہ یہاں قسم سورج کے نکلتے وقت کی روشنی کی ہے اور قسم رات کے چھا جانے کی ہے، سورج نکلتا ہے تو شروع میں روشنی کم ہوتی ہے پھر آہستہ آہستہ بڑھتی جاتی ہے، رات آہستہ آہستہ پھیلتی ہے اور پھر چھا جاتی ہے۔ اللہ نے یہ قسمیں کھا کر فرمایا:
﴿وَ لَلۡاٰخِرَۃُ خَیۡرٌ لَّکَ مِنَ الۡاُوۡلٰی ؕ﴿۴﴾﴾
آپ کی ہر بعد والی حالت پہلے والی حالت سے مزید بہتر ہوتی ہے۔ جس طرح سورج کی روشنی شروع میں کم ہوتی ہے پھر زیادہ ہوتی جاتی ہے، رات کی تاریکی شروع میں کم ہوتی ہے پھر زیادہ ہو جاتی ہے۔ تو سورج کا کمال دن کو خوب روشن ہونا ہےاور رات کا کمال خوب اندھیرا ہونا ہے، اس طرح آپ کی بعد والی حالت پہلے والی حالت سے مزید بہتر ہوتی ہے، کم نہیں ہوتی۔ تو یوں قسمیں کھا کر اللہ رب العزت نے بات سمجھائی ہے۔
آخرت کے دنیا سے بہتر ہونے کا معنی:
﴿وَ لَلۡاٰخِرَۃُ خَیۡرٌ لَّکَ مِنَ الۡاُوۡلٰی ؕ﴿۴﴾﴾
اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ آخرت کی زندگی دنیا کی زندگی سے بہتر ہے۔ دنیا میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اعزاز ہے اور آخرت میں اعزاز اس سے زیادہ ہو گا۔
اس کا ایک مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر بعد والی حالت پہلے والی حالت سے بڑھ کر ہے۔ اگر اس کو ذہن میں رکھ لیا جائے تو ظاہر ہے کہ ایک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بچپن ہے․․ ایک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جوانی ہے تو جوانی؛ بچپن سے بڑھ کر ہے۔جوانی کے بعد بڑھاپا ہے تو یہ بڑھاپا؛ جوانی سے بڑھ کر ہے۔ اعلان نبوت نہیں ہوا تھا پھر اعلان نبوت ہوا۔ تو اعلانِ نبوت ہونے کی زندگی اعلانِ نبوت نہ ہونے سے زیادہ بڑھ کر ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ کی زندگی میں تھے تو فتوحات کم تھیں اور جب مدینہ میں گئے تو فتوحات بڑھ گئیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدنی زندگی؛ مکی زندگی سے بڑھ کر ہے۔ اسی طرح دنیا میں عبادت بھی ہے اور مشقت بھی ہے اور موت کے بعد مشقت نہیں صرف انعامات ہیں تو آخرت کی زندگی دنیا کی زندگی سے بڑھ کر ہے۔
جب ان سب چیزوں کا موازنہ کریں گے تو پھر یہاں سے استدلال کیا جا سکتا ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حیات وہ ہے جو دنیا میں ہے اور ایک حیات وہ ہے جو برزخ میں ہے، جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دنیاوی حیات عالمِ ارواح کی حیات سے اعلیٰ ہے تو عالمِ برزخ کی حیات؛ عالمِ دنیا کی حیات سے اعلیٰ ہے اور عالمِ آخرت کی حیات؛ عالمِ برزخ کی حیات سے مزید اعلیٰ ہے۔ یہ بات سمجھنا مشکل نہیں ہےکہ عالمِ ارواح کی جو حیات ہے تو اس کے ساتھ دنیا والا جسد نہیں اور دنیا کی جو حیات ہے اس میں روح مبارک بھی ہے اور جسد مبارک بھی ہے تو حیات بڑھ گئی ہے، اسی طرح جو برزخ کی حیات ہے وہ دنیا کی حیات سے مزید بڑھ جاتی ہے کیونکہ دنیا کی حیات میں مشقتیں ہیں اور برزخ کی حیات میں کوئی مشقت نہیں ہے، اور برزخ میں جسم کی حیات بھی ہے اور روح کی حیات بھی ہے اور حشر کے بعد کی جو حیات ہے وہ عالمِ برزخ کی حیات سے بھی بڑھ کر ہے۔ عالمِ برزخ کی حیات حشر پر ختم ہو جائے گی اور حشر کے بعد والی جو زندگی ہے وہ نہ ختم ہونے والی ہے۔ تو عالمِ برزخ کی حیات کی جو مدت ہے اس نے عالمِ حشر پر ختم ہو جانا ہے پھر ایک اگلی زندگی شروع ہونی ہے جو ابدی ہے۔ تو ابدی زندگی یہ غیر ابدی زندگی سے اعلیٰ ہوتی ہے، اس لیے وہ حیات اس حیات سے بھی اعلیٰ ہوتی ہے۔ اس کو ذہن نشین فرما لیں۔
عقیدہ حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم :
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم قبر مبارک میں ہیں۔ کوئی شخص وہاں روضہ مبارک پر سلام بھیجے اور آہستہ آواز سے کہے تو بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سن لیتے ہیں اور دنیا کی حیات میں یوں نہیں ہے۔ دنیا کی حیات میں کوئی شخص آہستہ سے آواز دے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہیں سنتے، تھوڑا سا اونچی بات کرے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سن لیتے ہیں اور برزخ میں کوئی آہستہ بھی کہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سن لیتے ہیں۔ اس کا معنی ہو گا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا جو سماع برزخ کا ہے وہ دنیا کے سماع سے اعلیٰ ہے او ر اس کو بڑے آرام سے عقلی انداز میں سمجھایا جا سکتا ہے۔
جو لوگ سماع فی القبر کا انکار کرتے ہیں ان کی دلیل یہ ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک صحابی کے گھر تشریف لے گئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام کیا تو صحابی نے جواب دیا لیکن آہستہ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سنا نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر سلام کیا انہوں پھر جواب دیا لیکن آہستہ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سنا نہیں، آپ نے تیسری بار جب سلام فرمایا تو انہوں نے جواب دیا لیکن آہستہ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم واپس آنے لگے کہ شاید وہ گھر میں نہیں ہیں تو وہ صحابی باہر نکل کر آ گئے۔ انہوں نے کہا“ یارسول اللہ! آپ نے سلام فرمایا تھا، میں نے سنا تھا اور میں نے جواب آہستہ دیا تھا اس لیے کہ آپ کا سلام ہمارے لیے بہت بڑی دعا ہے، تو میں چاہتا تھا کہ یہ دعا آپ کی بار بار ہو اس لیے میں آہستہ سے جواب دے رہا تھا کہ آپ جواب نہ سنیں اور پھر سلام کریں۔
السنن الکبریٰ للبیہقی: ج 7 ص287 رقم الحدیث 15069
اس روایت سے وہ لوگ دلیل پکڑتے ہیں کہ دیکھو! درمیان میں دیوار حائل تھی اور صحابی نے آہستہ جواب دیا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں سنا اور موت کے بعد ایک دیوار باہر کی ہے، ایک دیوار اندر قبر کی ہے اور ایک دیوار برزخ کی ہے۔ تو تین دیواریں حائل ہیں تو پھر کیسے سنیں گے؟
ہم نے کہا کہ یہ جو آپ دلیل پیش کرتے ہیں یہ خود دلیلِ سماع ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سنتے ہیں۔ دیکھو درمیان میں دیوار حائل تھی، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام فرمایا تو صحابی نے سن لیا نا؟! (جی ہاں۔ سامعین) تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہاں سماع تو ہے نا! اور صحابی نے آہستہ کہا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں سنا، اس کا مطلب کہ سماع ہے لیکن فرق صرف اتنا ہے کہ آہستہ ہو تو نہیں سنتے اور اونچا ہو تو سنتے ہیں۔ اس سے سماع کا انکار تو نہیں ہو رہا۔
آگے رہا یہ مسئلہ کہ یہاں آہستہ جواب دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں سنا اور قبر پر آہستہ کہیں تو پھر بھی سن لیتے ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ دنیا میں اصالۃ اور براہِ راست سماع ہوتا ہے جسم کا اور جسم کے واسطہ سے سماع ہوتا ہے روح کا، اور قبر میں براہِ راست سماع ہوتا ہے روح کا اور روح کے واسطہ سے ہوتا ہے جسم کا۔ اب ظاہر ہے کہ جسم کا سماع کمزور ہےاور روح کا سماع زیادہ ہے، اور پھر قبر میں جو روح کی پرواز ہے وہ اتنی بڑھی ہوتی ہوتی ہے کہ بہت آہستہ کہو تو بھی سن لیتی ہے کیونکہ پرواز بڑھ جاتی ہے۔ اور پرواز کیسے بڑھتی ہے؟ اس کو ذرا سمجھ لیں۔
روح اور جسم کے تین تعلقات:
دنیا میں روح اور جسم کا تعلق تین طرح کا ہے:
1: تعلقِ تصرف
2:تعلقِ تدبیر
3: تعلق ِحیات
تعلقِ تصرف کا معنی روح کا جسم کے ساتھ وہ تعلق جس کی وجہ سے جسم از خود اپنا کام اپنے اختیار سے کرتا ہے جیسے اٹھنا بیٹھنا، چلنا پھرنا، کھانا پینا، جاگنا․․․ یہ کام ہوتےہیں۔
اور تعلقِ تدبیر؛ جس تعلق سے جسم کے کام غیر اختیاری طریقے سے خود بخود ہوتے ہیں جس طرح روح اور جسم کے تعلق سے ہم چاہیں نہ چاہیں کھانا ہضم ہو رہا ہے، ہم چاہیں نہ چاہیں خون کی گردش ہو رہی ہے، ہم چاہیں نہ چاہیں نبض چل رہی ہے تو یہ تدبیر کا تعلق ہے۔ پورے جسم کا جو نظام ہے خود بخود چل رہا ہے، ہمارے اختیا ر کے بغیر چل رہا ہے۔
اور روح اور جسم ایک کا تعلق وہ ہے کہ جس سے جسم کو حیات ملتی ہے۔ جب آدمی جاگ رہا ہوتا ہے تو روح اور جسم کے تینوں تعلق باقی رہتےہیں؛ تعلقِ تصرف، تعلقِ تدبیر اور تعلقِ حیات۔ روح کی رفتار بہت کم ہوتی ہے، روح دور جاتی ہی نہیں اور جب آدمی سو جاتا ہے تو روح کا تعلقِ تصرف ختم ہو جاتا ہے تو دو تعلق رہتے ہیں۔ اب روح کی پرواز بڑھ جاتی ہے۔ اب جب آدمی سوتا ہے تو کسی کی روح مکہ چلی جاتی ہے․․کسی کی مدینہ چلی جاتی ہے․․ کسی کی کہاں․․ کسی کی کہاں․․ جیسی روح ہوتی ہے ویسی جگہ پر چلی جاتی ہے۔
لیکن جب انسان جاگ رہا ہو اور جاگتے ہوئے کہے کہ یار میں نے ابھی مکہ مکرمہ دیکھا ہے تو لوگ اسے کہیں گے کہ تو جھوٹ بول رہا ہے! یہاں بیٹھ کر تو مکہ نظر نہیں آتا۔ اور اگر سونے والا کہے کہ میں دورانِ سبق سو گیا تھا تو میں نے خواب میں دیکھا کہ میں کعبہ کی زیارت کر رہا ہوں، کعبہ کا طواف کر رہا ہوں تو کوئی بھی نہیں کہتا کہ جھوٹ بول رہا ہے۔ کعبہ کا طواف جسم نہیں کر رہا بلکہ روح کر رہی ہے۔ صرف ایک تعلقِ تصرف کم ہوا ہے تو روح کی پرواز کتنی بڑھ گئی ہے!
اور جب آدمی پر موت آتی ہے اور قبر میں چلا جاتا ہے تو تعلقِ تدبیر بھی ختم ہو جاتا ہے، تعلقِ حیات بھی ختم ہو جاتا ہے موت جو آ گئی ہے! اب روح الگ ہے اور جسم الگ ہے لیکن جب دوبارہ روح کا اعادہ ہوتا ہے تو تعلقِ حیات ہو جاتا ہے، تعلقِ تدبیر ختم ہو جاتا ہے۔ اب قبر مبارک میں جو روح اور جسم کا تعلق ہے تو تعلقِ تصرف اور تعلقِ تدبیر کے بغیر ہے۔ تو جب تعلقِ تصرف ختم ہو جائے تو روح کی پرواز اتنی بڑھتی ہے اور جب روح کا تعلقِ تدبیر بھی ختم ہو جائے اب بتاؤ روح کی پرواز کتنی ہو گی؟
اب مدینہ منورہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا جسدِ اطہر ہو اور ہم یہاں سے سلام کریں اور روح مدینہ منورہ میں سن لے یہ عقل کے خلاف نہیں ہے، عقل اس کی نفی نہیں کرتی لیکن چونکہ شرع کی اس پر دلیل نہیں ہے اس لیے ہم اس کے قائل نہیں ہوتے، ہم قائل اس بات کے ہیں کہ روضہ مبارک پر پڑھیں تو خود سنتے ہیں اور دور سے پڑھیں تو فر شتے پہنچاتے ہیں حالانکہ دور سے سماع پر عقل مخالف نہیں ہے۔ جتنا شریعت سے ثابت ہے ہم اتنا مانتے ہیں اور جو ثابت نہیں وہ نہیں مانتے! اسی کا نام اعتدال ہوتا ہے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کب راضی ہوں گے؟
﴿وَ لَسَوۡفَ یُعۡطِیۡکَ رَبُّکَ فَتَرۡضٰی ؕ﴿۵﴾﴾
آپ کا رب آپ کو اتنا دے گا کہ آپ راضی ہو جائیں گے۔
جب یہ آیت نازل ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إِذًا لَّا أَرَضٰى وَوَاحِدٌ مِنْ أُمَّتِيْ فِي النَّارِ.
التفسیر الکبیر للرازی: ج 31 ص192
میرا ایک امتی بھی جہنم میں ہوا تو میں راضی نہیں ہوں گا۔
حدیث پاک میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری امت کے بارے میں اللہ میری شفاعت کو قبول فرمائیں گے۔ اللہ فرمائیں گے
”رَضِيْتَ یَا مُحَمَّدُ؟“
کیا آپ راضی ہو گئے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمائیں گے:
”يَا رَبِّ رَضِيْتُ“
ہاں اللہ میں راضی ہو گیا ہوں، میں خوش ہو گیا ہوں۔
الجامع لاحکام القرآن القرطبی: ج 2ص 3335
پیغمبر پاک پر نعمتِ خداوندی:
﴿اَلَمۡ یَجِدۡکَ یَتِیۡمًا فَاٰوٰی ۪﴿۶﴾﴾
اللہ رب العزت نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنی نعمتوں کا ذکر کیا ہے کہ میں آپ کو کیسے چھوڑ سکتا ہوں؟ ہم نے تو ہمیشہ آپ کی مدد کی ہے، یہ جو لوگ باتیں کر رہے ہیں یہ جھوٹ بولتے ہیں۔ فرمایا: کیا آپ کو اللہ نے یتیم نہیں پایا پھر اللہ نے آپ کو ٹھکانا دیا؟
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت آپ علیہ السلام کے دادا نے کی، وہ فوت ہوئے تو چچا ابو طالب نے کی۔ اب دیکھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ایمان سے محروم ہیں لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اللہ نے اس قدر ان کے دل میں ڈال دی کہ سائے کی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہے اور بہت خیال رکھا۔
﴿وَ وَجَدَکَ ضَآلًّا فَہَدٰی ۪﴿۷﴾﴾
آپ شریعت سے نا واقف تھے، بے خبر تھے، اللہ نے آپ کو شریعت کا راستہ دکھا دیا۔ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر کوئی اعتراض کی بات نہیں ہے، جب تک اعلانِ نبوت نہیں ہوا شریعت آپ کے علم میں نہیں تھی، اللہ نے بعد میں دی ہے۔
﴿وَ وَجَدَکَ عَآئِلًا فَاَغۡنٰی ؕ﴿۸﴾﴾
آپ نادار تھے، آپ کے پاس مال نہیں تھا تو اللہ نے غنی فرما دیا۔
﴿فَاَمَّا الۡیَتِیۡمَ فَلَا تَقۡہَرۡ ؕ﴿۹﴾ وَ اَمَّا السَّآئِلَ فَلَا تَنۡہَرۡ ﴿ؕ۱۰﴾ وَ اَمَّا بِنِعۡمَۃِ رَبِّکَ فَحَدِّثۡ ﴿٪۱۱﴾﴾
اب آپ یتیم پر سختی نہ کریں، سائل کو نہ ڈانٹیں! اور اللہ کی نعمتوں کا تذکرہ کیا کریں۔
تین احسانات اور تین اہم احکامات:
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ نے یہاں تین حکم فرمائے ہیں اور اس سے پہلے اللہ نے تین احسانات یاد کرائے ہیں :
• پہلا حکم دیا ․․․
”فَاَمَّا الۡیَتِیۡمَ فَلَا تَقۡہَرۡ“
کہ آپ نے یتیم پر سختی نہیں کرنی! اس لیے اللہ نے ماضی یاد دلایا، فرمایا:
”اَلَمۡ یَجِدۡکَ یَتِیۡمًا فَاٰوٰی“
جب سامنے کوئی یتیم آئے تو اپنی یتیمی کو اپنے ذہن میں رکھیں! پھر یتیم پر سختی نہ کرنا بہت آسان ہو گا۔
• دوسرا حکم دیا․․․․
”وَ اَمَّا السَّآئِلَ فَلَا تَنۡہَرۡ“
کہ جب کوئی مانگنے والا آئے تو اسے جھڑکنا مت!
اس حکم کا تعلق
”وَ وَجَدَکَ ضَآلًّا فَہَدٰی“
اور
”وَ وَجَدَکَ عَآئِلًا فَاَغۡنٰی“
دونوں کے ساتھ ہے کہ دیکھیں آپ کے پاس شریعت کا علم نہیں تھا اور اللہ نے دیا ہے، آپ کے پاس مال نہیں تھا خدا نے دیا ہے۔ اب
”وَ اَمَّا السَّآئِلَ فَلَا تَنۡہَرۡ“
اگر کوئی سائل آپ کے پاس شریعت کا مسئلہ پوچھنے کے لیے آئے تو ڈانٹیں مت بلکہ اسے مسئلہ سمجھائیں، پہلے آپ کوبھی مسائل نہیں آتے تھے ہم نے بتادیے ہیں۔ ایسے ہی اگر کوئی شخص مانگنے کے لیے آئے، مال کا سوال کرے تو
”فَلَا تَنۡہَرۡ“
اسے بھی مت ڈانٹیں، اس کو مال دیں، کیونکہ آپ کے پاس بھی مال نہیں تھا ہم نے آپ کو مال دیا ہے۔ تو
”وَ اَمَّا السَّآئِلَ فَلَا تَنۡہَرۡ“
کا تعلق دونوں کے ساتھ ہے۔
• تیسرا حکم دیا․․․
”وَ اَمَّا بِنِعۡمَۃِ رَبِّکَ فَحَدِّثۡ“ ․․․
آپ اپنے رب کی نعمتوں کا اظہار فرمائیں، جو اللہ نے نعمتیں آپ کو دی ہیں ان کا آپ زبان سے تذکر ہ بھی کریں۔
ا س حکم کاتعلق پوری سورت کے ساتھ ہے کہ جتنی نعمتیں ہم نے آپ کو دی ہیں، ان سب نعمتوں کا اظہار آپ اپنی زبان سے کریں اور بیان کریں۔ جب اللہ کسی کو دولت عطا فرمائیں تو اس پر دولت کے آ ثار نظر آنا اللہ کو پسند ہے۔ اللہ چاہتا ہے کہ بندہ میری نعمت کا اظہار کرے۔
اس سورۃ الضحیٰ سے لے کر سورۃ الناس تک ہر سورت کے ساتھ تکبیر کہنا سنت ہے۔ تکبیر کے الفاظ ہیں:
”لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَاللہُ اَکْبَرُ“
اس تکبیر کو سورت شروع میں پڑھ لیں یا سورت کے آخر میں پڑھ لیں دونوں طرح سے ثابت ہے۔ آپ سب ایک مرتبہ پڑھ لیں۔
”لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَاللہُ اَکْبَرُ“
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ․