سورۃ التین

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
سورۃ التین
بِسۡمِ اللہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ
﴿وَ التِّیۡنِ وَ الزَّیۡتُوۡنِ ۙ﴿۱﴾ وَ طُوۡرِ سِیۡنِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ وَ ہٰذَا الۡبَلَدِ الۡاَمِیۡنِ ۙ﴿۳﴾﴾
انجیر، زیتون، طورِ سینین اور مکہ مکرمہ کی قسم:
اللہ رب العزت نے یہاں چار قسمیں کھائی ہیں :
[1] انجیر کے درخت کی قسم، [2] زیتون کے درخت کی قسم، [ 3] طورِسینین کی قسم، [4] مکہ مکرمہ کی قسم۔
ان قسموں سے یا تو خاص انہی درختوں کی قسمیں مراد ہیں یا ان شہروں کی قسمیں مراد ہیں جہاں یہ درخت اگتے ہیں اور وہ علاقہ شام ہے جہاں پر زیتون بھی ہوتا ہے اور انجیر بھی ہوتا ہے۔ ”طور“ تو پہاڑ کا نام ہے جہاں حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ سے ہمکلام ہوئے تھے اور سینین یا سیناءاس جگہ کا نام ہے جہاں یہ طور پہاڑ ہے۔
﴿ہٰذَا الۡبَلَدِ الۡاَمِیۡنِ﴾
سے مراد شہر مکہ مکرمہ ہے جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہوئے اور اپنی ابتدائی زندگی یہاں گزاری ہے۔ یہ قسمیں کھا کر مضمون بیان فرمایا۔
انسان اللہ کی قدرت کا حسین شاہکار:
﴿لَقَدۡ خَلَقۡنَا الۡاِنۡسَانَ فِیۡۤ اَحۡسَنِ تَقۡوِیۡمٍ ۫﴿۴﴾﴾
ہم نے انسان کو دنیاکی سب سے اچھی صورت میں پیدا کیا ہے۔
﴿ثُمَّ رَدَدۡنٰہُ اَسۡفَلَ سٰفِلِیۡنَ ۙ﴿۵﴾ اِلَّا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ فَلَہُمۡ اَجۡرٌ غَیۡرُ مَمۡنُوۡنٍ ؕ﴿۶﴾﴾
اس کے بعد ہم انسان کو دنیا کی بدترین حالت کی طرف لوٹا دیتے ہیں۔ ہاں وہ لوگ جو ایمان لائے، نیک اعمال کیے تو ان کے لیے ایسا اجر ہے جو کبھی ختم نہیں ہو گا۔
پہلے تو اللہ نے چار قسمیں کھا کر انسان کے حسن صورت کو بیان کیا ہے کہ ہم نے اس کو شکل کتنی اچھی عطا کی ہے! ایک حدیث پاک میں ہے:
"خَلَقَ اللہُ آدَمَ عَلٰى صُورَتِهٖ."
صحیح البخاری، رقم: 6227
اللہ نے انسان کو اپنی صورت پر پیدا فرمایا۔ یہ متَشابہات میں سےہے۔ بعض حضرات اس کا معنی یہ کرتے ہیں کہ اللہ نے اپنی صفات کا کچھ حصہ انسان کو عطا فرمایا ہے۔
آیت کے دو مطلب:
اس آیت کے دو مطلب ہیں:
[1]: ”الانسان“ سے مراد کافر ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جو کافر ہے ہم اس کی بعد کی زندگی کو بدترین بنا دیتے ہیں، ہم نے اس کی شکل وصورت بہت اچھی بنائی ہے لیکن جب وہ ایمان اور عملِ صالح کو اختیار نہیں کرتا تو اس کی ظاہری شکل تو بڑھاپے میں ویسے ہی بدتر ہو جاتی ہے اور اس کی موت کے بعد کی زندگی اس سے بھی بدتر بنا دیتے ہیں،
﴿اِلَّا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ﴾
ہاں جو ایمان والے ہیں اور نیک اعمال کرتے ہیں تو ان کا معاملہ ایسا نہیں ہے۔
ظاہری شکل تو ان کی بھی تبدیل ہو جاتی ہے، بڑھاپے میں شکل وصورت جوانی والی نہیں رہتی لیکن اس کا اثر صرف دنیا پر ہو گا، انجام بہر حال ان کا اچھا ہے
﴿فَلَہُمۡ اَجۡرٌ غَیۡرُ مَمۡنُوۡنٍ﴾
کیونکہ ایمان اور نیک اعمال ان کے موجود ہیں، ظاہری شکل اچھی نہیں بھی رہی تو پھر بھی فرق نہیں پڑتا کیونکہ اس صورت نے تو ختم ہونا ہی ہے، کافر کی بھی اور مؤمن کی بھی لیکن کافر کا آخرت کا انجام بہت برا ہو گا اور مؤمن کو آخرت میں ایسی شکل وصورت ملے گی کہ جس کا دنیا میں کوئی تصور ہی نہیں کر سکتا۔
جس طرح حدیث پاک میں ہے کہ جنت میں ایک بازار ہے جس کا نام ہے؛ سُوق الصُّوَر تصویروں والا بازار، اس میں صرف تصویریں لٹکی ہوئی ہیں، جنتی اس بازار میں جائیں گے سیر کے لیے تو جی چاہے گا کہ بال ایسے ہوں تو بال ویسے ہی بن جائیں گے، شکل ایسی ہو تو ویسی بن جائے گی، ڈیزائن ایسے ہو تو ویسے ہی بن جائے گا۔ جیسے حجاموں کی دکانوں پر آپ نے دیکھا ہو گا کہ بالوں کی کٹنگ کی تصویریں بنی ہوتی ہیں۔ اور مزے کی بات یہ ہے کہ جنتی جو شکل چاہیں گے ویسی بن جائے گی اور جب گھر جائیں گے تو بیگم پہچان بھی لے گی کہ یہ وہی ہے، ایسا نہیں ہو گا کہ بیگم کو پتا ہی نہ چلے کہ یہ میرے گھر میں کون آ گیا! وہاں سب پہچان لیں گے کہ یہ وہی ہے اللہ ایسی صورت پیدا فرما دیں گے۔ ایک معنی تو یہ ہے۔
[2]: اس کا دوسرا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر ایک شخص کو بہت خوب صور ت شکل میں پیدا فرماتے ہیں لیکن جوانی کے بعد شکل بگڑتی ہے، بڑھاپے کی طرف آتے ہیں تو جوانی والی شکل وصورت باقی نہیں بنتی، اعضاء میں وہ طاقت نہیں رہتی، کمزور ہو جاتے ہیں، جسم میں ضعف آ جاتا ہے، بدترین سی حالت انسان کی ہو جاتی ہے، انسان دوسروں کے سہاروں پر ہوتا ہے، چلنے کا محتاج ہوتا ہے، پیشاب پاخانہ کرنے میں دوسروں کا محتاج ہوتا ہے، بسا اوقات ناک اور آنکھوں کو خود صاف نہیں کر سکتا، بسا اوقات اپنے منہ پر لگے پانی کو صاف نہیں کر سکتا ایسی حالت ہو جاتی ہے لیکن اگر ایمان اور اعمالِ صالحہ ہوں تو اللہ اس کے ایمان اور نیک اعمال کی وجہ سے ایسے افراد اس کو عطا فرما دیتے ہیں جو اس کی خدمت کرنے کو سعادت سمجھتے ہیں اور یہ بندہ بدتر حالت سے محفوظ ہو جاتا ہے۔
ہمارے حضرت مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب رحمہ اللہ نے اپنی آخری عمر کے چودہ سال بستر پر گزارے ہیں فالج کی وجہ سے لیکن اللہ نے خدام کی ایسی فوج عطا فرمائی تھی کہ جو ہر وقت حضرت کی خدمت میں لگے رہتے تھے اور ہر بندہ خدمت کو اپنے لیے سعادت سمجھتا تھا، کبھی ناک کے ساتھ ٹشو کو لگاتے تو اس کو اٹھانے والے کئی لوگ ہوتے تھے۔ بندہ جب اپنی جوانی کو اللہ پر لٹاتا ہے تو پھر اللہ بڑھاپے میں ایسے افراد عطا فرما دیتے ہیں۔ حضرت فرماتے تھے کہ میرے ساتھ پھرنے والے یہ جوان خوب صورت لڑکے آپ دیکھتے ہو لیکن یہ نہیں دیکھتے کہ اختر نے اپنی اٹھارہ سالہ جوانی اپنے ستر سالہ بوڑھے شیخ پر فدا کی ہے، اس کا صلہ یہ ہے کہ خدا نے مجھے بڑھاپے میں یہ نوجوان دے دیے ہیں۔ ہم آدمی کی جوانی کی قربانیاں نہیں دیکھتے اس لیے اس کے بڑھاپے کو دیکھ کر تعجب ہوتا ہے۔
”تو چاند سے زیادہ خوبصورت نہ ہوئی تو تجھے تین طلاق!“
آپ نے یہ واقعہ سنا ہو گا جو اس مقام پر مفسرین لکھتے ہیں کہ عیسیٰ بن موسیٰ ہاشمی جو ابو جعفر منصور کا وزیر تھا، اپنی بیوی سے بہت پیار کرتا تھا۔ بعض لوگ بیوی سے پیار ضرورت سے زیادہ کرتے ہیں، بیوی سے پیار تو ہونا چاہیے لیکن ضرورت سے زیادہ نہیں ہونا چاہیے۔ وہ بہت پیار کرتا تھا تو ایک بار چاندنی رات میں یہ بیوی کے ساتھ بیٹھا تھا، اس نے پیار کی مستی میں اپنی بیوی سے کہہ دیا:
أَنْتِ طَالِقٌ ثَلَاثًا إنْ لَّمْ تَكُوْنِيْ أحْسَنُ مِنَ الْقَمَرِ
کہ اگر تو چاند سے زیادہ خوبصورت نہیں تو تجھے تین طلاق۔
یہ کہا تو بیوی فوراً اٹھ کر پردے میں چلی گئی کہ تو نے مجھے طلاق دے دی ہے۔ اس نے تو مذاق میں کہا تھا لیکن طلاق مذاق میں بھی ہو جاتی ہے۔ رات اس نے بڑی مشکل اور بے چینی سے تڑپ تڑپ کر گزاری۔ صبح خلیفہ ابو جعفر منصور سے کہا کہ میں تو رات یہ کام کر بیٹھا ہوں۔ خلیفہ نے فقہائے شہر کو بلایا اور یہ مسئلہ پوچھا۔ تمام نے فتویٰ دیا کہ تمہاری بیوی کو تین طلاق ہو گئی ہیں۔ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے ایک شاگرد وہاں موجود تھے جو بالکل خاموش بیٹھے ہوئے تھے۔ تو خلیفہ نے پوچھا کہ آپ کیوں نہیں بولتے؟ تو انہوں نے یہ آیت تلاوت کی:
﴿لَقَدۡ خَلَقۡنَا الۡاِنۡسَانَ فِیۡۤ اَحۡسَنِ تَقۡوِیۡمٍ﴾
اللہ کا فیصلہ ہے کہ انسان کو دنیا میں سب سے زیادہ خوبصورت بنایا ہے۔ تو ان کی بیوی چاند سے زیادہ خوب صورت ہے اس لیے میری رائے پر طلاق نہیں ہوئی۔ باقی فقہاء نے ان کی رائے سے اتفاق کیا۔ ابو جعفر منصور نے کہا کہ جاؤ! طلاق نہیں ہوئی، تمہاری بیوی تمہارے لیے حلال ہے۔
الجامع لاحکام القرآن للقرطبی:ج2 ص 3344
بیوی سے پیار کرنا جائز ہے لیکن اتنا نہ کریں کہ اس میں نمازیں چلی جائیں، تلاوت چلی جائے اور سب اعمال ختم ہو جائیں۔ بس حدود میں رہ کر پیار کرنا چاہیے۔
﴿فَمَا یُکَذِّبُکَ بَعۡدُ بِالدِّیۡنِ ؕ﴿۷﴾﴾
اس کے بعد کون سی چیز ہے جوتمہیں قیامت کی تکذیب پر مجبور کرتی ہے؟
﴿اَلَیۡسَ اللہُ بِاَحۡکَمِ الۡحٰکِمِیۡنَ ٪﴿۸﴾﴾
کیا اللہ تعالیٰ سب حاکموں سے بڑا حاکم نہیں ہے؟ اس کی بات تم نہیں مانتے!
حدیث پاک میں کہ جب تم یہ سورت پڑھو اور
﴿اَلَیۡسَ اللہُ بِاَحۡکَمِ الۡحٰکِمِیۡنَ﴾
پر پہنچو تو
” بَلٰى وَأَنَا عَلٰى ذٰلِكَ مِنَ الشَّاهِدِيْنَ“
کہا کرو!
شرح السنۃ : ج2 ص233 کتاب الصلاۃ باب ما یقول فی الرکوع والسجود
یعنی اللہ پوچھ رہے ہیں کہ کیا اللہ تعالیٰ سب حاکموں سے بڑا حاکم نہیں ہے؟ تو اس کا جواب یہ دینا چاہیے کہ ”کیوں نہیں! اللہ احکم الحاکمین ہے اور ہم گواہی دیتے ہیں کہ اللہ احکم الحاکمین ہے۔“ آپ بھی پڑھ لیں!
انسان کے اعمال میں کوئی چھوٹی موٹی کوتاہی ہوبھی جائے تب بھی اپنی زبان پر حق کو جاری رکھو، حق کی تائید کرتے رہو تو اللہ اس پر بھی نواز دیتے ہیں۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ․