سورۃ العلق

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
سورۃ العلق
بِسۡمِ اللہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ
اِقۡرَاۡ بِاسۡمِ رَبِّکَ الَّذِیۡ خَلَقَ ۚ﴿۱﴾ خَلَقَ الۡاِنۡسَانَ مِنۡ عَلَقٍ ۚ﴿۲﴾ اِقۡرَاۡ وَ رَبُّکَ الۡاَکۡرَمُ ۙ﴿۳﴾ الَّذِیۡ عَلَّمَ بِالۡقَلَمِ ۙ﴿۴﴾ عَلَّمَ الۡاِنۡسَانَ مَا لَمۡ یَعۡلَمۡ ؕ﴿۵﴾﴾
قرآن کریم کی پہلی نازل ہونے والی آیات:
سورۃ العلق کی یہ پہلی پانچ آیتیں سب سے پہلے نازل ہوئی ہیں۔
یہاں ایک بات سمجھ لیں کہ قرآن کریم کی سورۃ النمل میں جو بسم اللہ الرحمٰن ا لرحیم ہے یہ بالاتفاق قرآن کا حصہ ہے:
﴿اِنَّہٗ مِنۡ سُلَیۡمٰنَ وَ اِنَّہٗ بِسۡمِ اللہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ﴿ۙ۳۰﴾﴾
النمل27: 30
اس کے علاوہ جو
”بِسْمِ اللّهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ“
ہے تو اس کے بارے میں ہمارا موقف یہ ہے کہ یہ قرآن مجید کا حصہ ہے اور دو سورتوں کے درمیان فرق کرنے کے لیے نازل ہوئی ہے، یہ لا علی التعیین قرآن کا حصہ ہے یہ ہر سورت کا حصہ نہیں ہے۔ جب تراویح میں قرآن مجید پڑھیں تو ہمارے بعض مشائخ کی رائے یہ ہے کہ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم اس سورت العلق کے شروع میں جہراً پڑھ لیں، کیوں کہ قرآن کریم کے پورے ختم کے لیے کسی سورت کے شروع میں بسم اللہ کا جہراً پڑھنا ضروری ہے۔ اگر کسی ایک رکعت میں بسم اللہ الرحمٰن الرحیم جہراً نہیں پڑھیں گے تو مقتدی قرآن کریم تو سنیں گے لیکن بسم اللہ الرحمٰن الرحیم کا سماع نہیں ہو گا۔ کسی رکعت میں یہ پڑھ لیں تاکہ پورے قرآن کا سماع ہو جائے۔ اب کس سورت کے شروع میں پڑھیں تو میں نے عرض کیا کہ بعض مشائخ کا معمول یہ تھا کہ وہ سورۃ العلق کے شروع میں پڑھتے تھے۔
شانِ نزول:
نبوت کے اعلان سے قبل رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کئی کئی راتیں غار میں رہتے تھے، خلوت آپ کو محبوب ہو گئی تھی، ہر وقت آپ اللہ کی عبادت میں مشغول رہتے تھے۔ دنیا سے کٹ کر خالص اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ رہنا اور اسی میں غور و فکر کرتے رہنا یہ آپ کی عبادت تھی۔ ایک دن اچانک جبرائیل امین علیہ السلام آئے اور کہا
”اِقْرَاْ“
کہ آپ پڑھیں! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”مَا أَنَا بقارئ “
میں تو پڑھا ہوا نہیں ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کیوں فرمایا تھا؟ اس لیے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم یہ سمجھے کہ کوئی لکھی ہوئی چیز ہے جس کے بارے میں کہتے ہیں کہ پڑھو! تو لکھی ہوئی چیز تو میں نہیں پڑھ سکتا۔ اس لیے فرمایا:
” مَا أَنَا بقارئ“
میں کیسے پڑھوں، میں تو پڑھا ہوا نہیں ہوں۔ تو جبرائیل علیہ السلام نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے سینے کے ساتھ ملا کر دبایا، اتنا دبایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سختی محسوس کی۔ پھر کہا:
”اِقْرَاْ“
کہ آپ پڑھیں! ارشاد فرمایا:
” مَا أَنَا بقارئ“
میں کیسے پڑھوں، میں تو پڑھا ہوا نہیں ہوں۔ پھر کہا:
”اِقْرَاْ“
کہ پڑھیں! تین بار دبایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا:
” مَا أَنَا بقارئ“
کہ پڑھا ہوا نہیں ہوں تو پھر جبرائیل امین نے یہ پانچوں آیتیں پڑھیں اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پانچوں آیات کا تلفظ فرمایا۔
صفتِ رب؛ جامع الصفات
﴿اِقۡرَاۡ بِاسۡمِ رَبِّکَ الَّذِیۡ خَلَقَ ۚ﴿۱﴾﴾
پڑھیے اپنے رب کے نام کے ساتھ جس نے آپ کو پیدا کیا۔
دیکھیں! میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ صفتِ رب؛ اللہ تعالیٰ کی ایسی صفت ہے کہ جو تمام صفات کو جامع ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سب سے پہلی وحی میں صفتِ رب بیان فرمائی ہے۔ قرآن کریم کی سب سے پہلی آیت
﴿اَلۡحَمۡدُ لِلہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ﴾
ہے اور قرآن کریم کی سب سے آخری سورت
﴿قُلۡ اَعُوۡذُ بِرَبِّ النَّاسِ﴾
ہے۔ عالمِ ارواح کا سوال
”اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ“
تھا اور عالمِ برزخ کا سوال
”مَنْ رَبُّکَ“
ہو گا! تو ان تمام مقامات میں صفتِ رب کو ذکر کیا ہے کیونکہ یہ صفتِ رب تمام صفات کو جامع ہے۔ اس لیے بعض مقامات میں صفت رب پر اکتفاء کیا جاتا ہے۔
انسان کی پیدائش:
﴿اِقۡرَاۡ بِاسۡمِ رَبِّکَ الَّذِیۡ خَلَقَ ۚ﴿۱﴾ خَلَقَ الۡاِنۡسَانَ مِنۡ عَلَقٍ ۚ﴿۲﴾﴾
پڑھیے اپنے رب کے نام کے ساتھ جس نے پیدا کیا۔ انسان کو جمے ہوئے خون سے پیدا کیا۔
اللہ کی صفات میں سب سے بڑی صفت ؛ صفتِ خلق ہے کہ اللہ نے تمام مخلوق کو پیدا کیا ہے۔ چونکہ اللہ نے اپنے احکامات کا پابند انسان کو بنانا ہے اس لیے پیدائش میں انسان کا ذکر کیا کہ اللہ نے انسان کو جمے ہوئے خون سے پیدا فرمایا ہے۔
یہاں ”علق“ کا ذکر کیوں کیا؟ اس لیے کہ انسان کی پیدائش کے مختلف مراحل ہیں۔ سب سے پہلے خوراک ہے، پھر خوراک سے نطفہ بنتا ہے اور نطفے کے بعد پھر علق ہے، علق کے بعد پھر مضغہ ؛جما ہوا گوشت ہے، پھر اس کے اوپر ہڈی چڑھتی ہے، پھر روح آتی ہے، پھر انسان بنتاہے۔تو پیدائش کے مراحل میں ”علق“ ایک درمیانی حالت ہے تو اس کا یہاں ذکر اس لیے کر دیا تاکہ اس سے ابتدا اور انتہا کی حالتوں کی طرف اشارہ ہو جائے۔
﴿اِقۡرَاۡ وَ رَبُّکَ الۡاَکۡرَمُ ۙ﴿۳﴾﴾
پھر دوبارہ فرمایا اور تاکید سے فرمایا کہ پڑھیں! آپ کا رب بڑا ہی کریم ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم جو فرما رہے تھے کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں تو فرمایا کہ آپ کا رب کریم ہے، آپ نہیں پڑھے ہوئے تو پھر کیا ہوا؟! آپ کا رب کریم ہے اور کریم ہوتا ہی وہ ہے
” اَلَّذِیْ یُعْطِیْ بِدُوْنِ الاِسْتِحْقَاقِ“
جو بغیر استحقاق کے دیتا ہے۔
قلم؛ تعلیم کا ایک اہم ذریعہ
﴿الَّذِیۡ عَلَّمَ بِالۡقَلَمِ ۙ﴿۴﴾ عَلَّمَ الۡاِنۡسَانَ مَا لَمۡ یَعۡلَمۡ ؕ﴿۵﴾﴾
جس نے انسان کو قلم کے ذریعے سکھایا۔ انسان کو وہ کچھ سکھایا جس کو انسان جانتا بھی نہیں تھا۔
اللہ نے پہلے
﴿الَّذِیۡ عَلَّمَ بِالۡقَلَمِ﴾
فرمایا، پھر
﴿عَلَّمَ الۡاِنۡسَانَ مَا لَمۡ یَعۡلَمۡ﴾
فرمایا، حالانکہ
﴿عَلَّمَ بِالۡقَلَمِ﴾
کے بعد
﴿عَلَّمَ الۡاِنۡسَانَ﴾
کہنے کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ انسان وہی چیز سیکھتا ہے جو پہلے سے نہ جانتا ہو تو دوبارہ
”عَلَّمَ“
کیوں فرمایا؟ یہ بتانے کے لیے کہ سیکھنے کا ذریعہ صرف قلم ہی نہیں ہے بلکہ بعضوں کو اللہ تعالیٰ علم دیتے ہیں بذریعہ قلم کہ وہ لکھی ہوئی چیز کو دیکھ کر پڑھ لیتے ہیں اور بعضوں کو علم دیتے ہیں بدونِ القلم کہ وہ لکھے ہوئے سے نہیں سیکھتےبلکہ اللہ تعالیٰ ان کو صدری علوم عطا فرما دیتے ہیں، اللہ تعالیٰ ان کو کسی اور ذریعے سے علوم عطا فرما دیتے ہیں۔
حضرت مولانا رومی رحمہ اللہ اس بات کو یوں سمجھاتے ہیں کہ اہلِ تقویٰ کا علم کبھی ختم نہیں ہوتا، فرمایا کہ جس طرح گھڑے کا پیندا توڑ کر اس گھڑے کو سمندر کے ساتھ جوڑ دیا جائے تو گھڑے میں پانی کبھی ختم نہیں ہوتا بالکل اسی طرح اہلِ تقویٰ کا دل چونکہ اللہ تعالیٰ کی معرفت کے ساتھ جڑا ہوا ہوتا ہے اس لیے وہاں سے علوم نکلتے رہتے ہیں اور کبھی ختم نہیں ہوتے۔
﴿کَلَّاۤ اِنَّ الۡاِنۡسَانَ لَیَطۡغٰۤی ۙ﴿۶﴾ اَنۡ رَّاٰہُ اسۡتَغۡنٰی ﴿ؕ۷﴾ اِنَّ اِلٰی رَبِّکَ الرُّجۡعٰی ؕ﴿۸﴾﴾
فرمایا کہ سچ بات تو یہ ہے کہ انسان بہت سرکش ہے، حدِ آدمیت سے نکل جاتا ہے۔ کیوں کہ وہ اپنے بارے میں یہ سمجھ رہا ہے کہ مجھے کسی کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ ٹھیک ہے تمہیں دنیا میں کسی فرد کی ضرورت نہیں ہے لیکن تم نے اللہ کی طرف تو لوٹ کر جانا ہے۔
یہاں یہ بات اچھی طرح سمجھنا! ایک تو یہ ہے کہ انسان کے پاس ایسے اسباب ہوں کہ انسان ؛انسان کا محتاج نہ ہو، یہ تو ٹھیک ہے لیکن انسان؛ خدا کا محتاج نہ ہو ، یہ نہیں ہو سکتا۔ اسی لیے فرمایاکہ انسان حدِ آدمیت سے نکل جاتا ہے، کیوں کہ وہ خود کو مستغنی سمجھتا ہے، وہ سمجھتا ہے کہ مجھے کسی کی کیا ضرورت ہے!
دو باتیں سمجھنا! ایک یہ کہ اپنی ذات کی حد تک تھوڑا بہت کام کرنے میں ایک بندے کو دوسرے کی ضرورت نہیں ہوتی لیکن اپنی ذات سے بڑھ کر جب آپ تحریک اور کاز کی بات کریں گے تو پھر آپ کو ایک کی نہیں پھر ہر کسی کی ضرورت پڑتی ہے، پھر روابط․․ پھر تعلق․․ پھر جوڑ․․ یہ سب کچھ کرنا پڑتا ہے، جنہوں نے کام نہیں کرنا ان کو تو کوئی ضرورت نہیں ہے اور جنہوں نے کام کرنا ہے ان کو تو ضرورت ہے، ان کو تو حکمت عملی اختیار کرنی پڑتی ہے۔
ابو جہل کی دشمنی:
﴿اَرَءَیۡتَ الَّذِیۡ یَنۡہٰی ۙ﴿۹﴾ عَبۡدًا اِذَا صَلّٰی ﴿ؕ۱۰﴾﴾
کیا آپ نے ایسے شخص کو بھی دیکھا ہے جو بندے کو منع کرتا ہے جب وہ نماز پڑھتا ہے۔
ابو جہل نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو منع کیا کہ میرے سامنے نمازیں نہ پڑھو! میرے سامنے سجدے نہ کیا کرو! اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کہاں چھوڑ سکتے تھے! ایک بار ابو جہل آیا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت سجدہ فرما رہے تھے، ابو جہل کی خواہش تھی کہ میں نماز کے دوران کوئی ایسی حرکت کروں کہ آپ نماز چھوڑ دیں۔ جب یہ حملہ کرنے کے لیے آگے بڑھا تو فوراً پیچھے ہٹ گیا۔ کسی نے پوچھا: کیا ہوا؟ اس نے کہا کہ مجھے آگے خندق نظر آ رہی ہے آگ کی اور اس میں کوئی صورتیں نظر آتی ہیں۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ جہنم کی آگ تھی اور وہ صورتیں ملائکہ تھے، اگر یہ آگے آتا تو فرشتے اس کی بوٹی بوٹی کر کے رکھ دیتے۔
ابو جہل کا انجام بد:
﴿اَرَءَیۡتَ اِنۡ کَانَ عَلَی الۡہُدٰۤی ﴿ۙ۱۱﴾ اَوۡ اَمَرَ بِالتَّقۡوٰی ﴿ؕ۱۲﴾ اَرَءَیۡتَ اِنۡ کَذَّبَ وَ تَوَلّٰی ﴿ؕ۱۳﴾ ﴾
آپ یہ بتائیں کہ اگر وہ نماز پڑھنے والا شخص ہدایت پر ہو، صرف ہدایت پر ہی نہ ہو بلکہ وہ دوسروں کو تقویٰ کا حکم بھی دیتا ہو -یہاں
”اَوْ“
بمعنی
”بَلْ“
ہے- یعنی تقویٰ کی بات بھی کرتا ہو تو کیا پھر بھی تم ا س کو روکو گے؟ اور پھر یہ دیکھو کہ روکنے والا شخص کون ہے؟ یہ روکنے والا شخص جھٹلاتا بھی ہے اور خود رو گردانی بھی کرتا ہے۔
﴿اَلَمۡ یَعۡلَمۡ بِاَنَّ اللہَ یَرٰی ﴿ؕ۱۴﴾ کَلَّا لَئِنۡ لَّمۡ یَنۡتَہِ ۙ لَنَسۡفَعًۢا بِالنَّاصِیَۃِ ﴿ۙ۱۵﴾ نَاصِیَۃٍ کَاذِبَۃٍ خَاطِئَۃٍ ﴿ۚ۱۶﴾﴾
کیا اسے یہ معلوم نہیں کہ اللہ اس کو دیکھ رہے ہیں؟!
﴿کَلَّا﴾
اس کو ایسا ہرگز نہیں کرنا چاہیے،
﴿لَئِنۡ لَّمۡ یَنۡتَہِ﴾
اور اگر یہ باز نہ آیا اور ایسا کام کر لیا تو ہم اس کی پیشانی سے گھسیٹ کر لے آئیں گے -اور پیشانی بھی کیسی ہے؟- ایک جھوٹے آدمی کی پیشانی ہے جوکہ گنہگار ہے۔
﴿فَلۡیَدۡعُ نَادِیَہٗ ﴿ۙ۱۷﴾ سَنَدۡعُ الزَّبَانِیَۃَ ﴿ۙ۱۸﴾ کَلَّا ؕ لَا تُطِعۡہُ وَ اسۡجُدۡ وَ اقۡتَرِبۡ ﴿٪ٛ۱۹﴾﴾
اس بندے کو چاہیے کہ اپنی مجلس والوں کو بلاؤ، ہم اپنی پیادہ فوج ملائکہ کو بلائیں گے۔ اے پیغمبر!
﴿کَلَّا﴾
آپ ان کی بات کو ہرگز نہ مانیں، بس آپ سجدہ کریں اور میرا قرب حاصل کریں۔اللہ تعالیٰ نے یہاں یہ بات سمجھائی ہے کہ اہلِ باطل جتنا بھی زور لگائیں ان کی پروا نہ کریں، بس آپ خدا کی عبادات میں لگے رہیں۔ یہ پہلے کئی بار آ چکا ہے کہ جب اللہ یہ ذکر فرماتے ہیں کہ یہ لوگ آپ کو تنگ کرتے ہیں، یہ آپ کو ستاتے ہیں تو آخر میں یہ بات ارشاد فرماتے ہیں:
”فَسَبِّحْ“
کہ آپ تسبیح کریں اور یہاں فرمایا:
”وَاسْجُدْ“
کہ سجدہ کریں۔ اللہ ہمیں یہ بات سمجھا دے۔
میں آپ سے بار بار کہتا ہوں کہ مخالفین جتنی بھی کوشش کریں اس کا حل جواب دینا نہیں ہے، اس کا حل رجوع الی اللہ ہے، اس کا حل عبادات میں مشعولیت ہے، اس سے انسان بالکل بدل جاتا ہے، ماحول بالکل ساز گار ہو جاتا ہے، انسان کے قلب کو بڑی تسلی ہوتی ہے جب انسان جوابات دینے کے بجائے اللہ کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے، رجوع الی اللہ کرتا ہے اور زبان محفوظ کرتا ہے۔جب یہ آیت پڑھیں تو اس موقع پر سجدہ کرنا چاہیے؛ پڑھنے والے کو بھی او رسننے والے کو بھی۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ․