سورۃ القدر

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
سورۃ القدر
بِسۡمِ اللہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ
﴿اِنَّاۤ اَنۡزَلۡنٰہُ فِیۡ لَیۡلَۃِ الۡقَدۡرِ ۚ﴿ۖ۱﴾ وَ مَاۤ اَدۡرٰىکَ مَا لَیۡلَۃُ الۡقَدۡرِ ؕ﴿۲﴾ لَیۡلَۃُ الۡقَدۡرِ ۙ خَیۡرٌ مِّنۡ اَلۡفِ شَہۡرٍ ؕ﴿ؔ۳﴾﴾
شانِ نزول:
حدیث پاک میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی اسرائیل کے ایک عابد کا ذکر کیا جو ساری رات عبادت میں مشغول رہتا اور دن کو جہاد کرتا تھا۔ اس نے مسلسل ایک ہزار مہینے اسی طرح گزار دیے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہم اس کے مقام کو کیسے پہنچ سکتے ہیں؟ اس پر یہ سورت مبارکہ نازل ہوئی کہ اس امت کا شرف یہ ہے کہ اس امت کو اللہ نے ایک رات ایسی عطا فرمائی ہے جو ہزار مہینوں سے بڑھ کر ہے۔
التفسیر المظہری: ج10 ص310 تفسیر سورۃ القدر
فرمایا: ہم نے قرآن کو لیلۃ القدر میں نازل کیا اور آپ کو کیا معلوم کہ لیلۃ القدر کیا ہے؟! لیلۃ القدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔
”قدر“ کا معنی ہوتا ہے شرف اور عزت یا ”قدر“ کا معنی ہوتا ہے تقدیر۔
لیلۃ القدر کا پہلا معنی :
اگر پہلا معنی ہو تو لیلۃ القدر سے مراد ہے شرف، عزت اور عظمت والی رات۔ چونکہ یہ ایک رات ہزار مہینوں سے بڑھ کر ہے اس لیے یہ عزت اور عظمت والی رات ہے۔ یہ رات رمضان المبارک کی آخری دس راتوں میں سے کوئی ایک رات ہے اور ان میں بھی زیادہ ترجیح اس بات کو ہے کہ طاق راتوں میں سے کوئی ایک رات ہے؛ اکیس، تئیس ، پچیس، ستائیس اور انتیس۔
کیا پہلی امتوں میں بھی امر بالمعروف تھا؟
یہاں ایک سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم آج تک یہ سنتے آ رہے ہیں کہ یہ امت پہلی امتوں کی بہ نسبت افضل ہے
﴿کُنۡتُمۡ خَیۡرَ اُمَّۃٍ اُخۡرِجَتۡ لِلنَّاسِ﴾
کہ یہ امت بہترین امت ہے، خیر امت ہے اور اس امت کے خیر امت ہونے کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ
﴿تَاۡمُرُوۡنَ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَ تَنۡہَوۡنَ عَنِ الۡمُنۡکَرِ﴾
آل عمران 3: 110
کہ یہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرتی ہے۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر تو پہلی امتوں میں بھی تھا۔حدیث پاک میں ہے کہ اللہ رب العزت نے ایک فرشتے کو- غالباً جبرائیل علیہ السلام تھے- ان کو بھیجا کہ جا کر فلاں بستی کو تباہ کر دو! جبرائیل امین آئے، دیکھا کہ ایک شخص عبادت کر رہا تھا، جبرائیل امین نے اللہ تعا لیٰ سے عرض کیا :
إِنَّ فِيْهِ عَبْدَكَ فُلَانًا لَمْ يَعْصِكَ طَرْفَةَ عَيْنٍ
اس میں ایک ایسا بندہ بھی ہے جس نے پلک جھپکنے کے برابر آپ کی نافرمانی نہیں کی تو کیا اس کے ہوتے ہوئے تباہ کر دوں؟
قَالَ: اِقْلِبْهَا عَلَيْهِ وَعَلَيْهِمْ فَإِنَّ وَجْهَهُ لَمْ يَتَمَعَّرْ لِي سَاعَةً قَطُّ․
فرما یا کہ پہلے اس کو تباہ کر و اور پھر اس بستی کو تباہ کرو، اس لیے کہ یہ ہماری نافرمانی کو ہوتے ہوئے دیکھتا ہے لیکن اس کے چہرے پر بل تک نہیں آتا۔
المعجم الاوسط للطبرانی: ج5 ص376 رقم الحدیث7661
اگر امر بالمعروف نہیں تھا تو اس کو تباہ کیوں کیا ہے؟
مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ
﴿کُنۡتُمۡ خَیۡرَ اُمَّۃٍ اُخۡرِجَتۡ لِلنَّاسِ﴾
کے تحت لکھتے ہیں کہ اس امت کی وجہِ فضیلت یہ ہے کہ اس میں ایسا امر بالمعروف ہے کہ جس کو رد کرنے کی کوئی صورت موجود نہیں ہے۔ اگر کوئی اس امت کے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو رد کر دے تو پھر اس کی پشت پر جہاد کی طاقت موجود ہے اور پہلی امتوں میں عام طور پر یہ نہیں تھا، بس خاص خاص امتوں میں تھا۔ موسیٰ علیہ السلام کی امت میں جہاد تھا، عام نبیوں کی امتوں میں جہاد نہیں تھا، اس امت کی دعوت چونکہ مقرون بالجہاد ہے اس لیے یہ امت تمام امتوں سے افضل ہے۔
﴿لَیۡلَۃُ الۡقَدۡرِۙ خَیۡرٌ مِّنۡ اَلۡفِ شَہۡرٍ ؕ﴿ؔ۳﴾﴾ ․․․
لیلۃ القدر ایک رات ہے جو ہزار مہینوں سے بڑھ کر ہے۔اس پر بھی اعتراض ہے کہ ہزار مہینوں کے تراسی سال بنتے ہیں۔ تو تراسی سالوں میں سے ہر سال میں لیلۃ القدر بھی آئی ہو گی، تو پھر یہ ایک رات ان تراسی سالوں سے کیسے بڑھ جائے گی؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ تراسی سال وہ مراد ہیں کہ جن میں لیلۃ القد رنہ ہو، یہ لیلۃ القدر ان ایک ہزار مہینوں سے بڑھ کر ہے۔
لیلۃ القدر کا دوسرا معنی :
”لیلۃ القدر “ کو لیلۃ القدر کہنے کی ایک وجہ تو یہ تھی اور ودسری وجہ یہ ہے کہ”لیلۃ القدر “ تقدیر سے ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پورے سال میں جو جو احکام اور اعمال کسی کی تقدیر میں ہوتے ہیں اللہ رب العزت اس رات میں ان احکامات کو لوحِ محفوظ سے نقل کروا کے ملائکہ کے حوالے کر دیتے ہیں۔
اس پر بھی اعتراض ہوتا ہے کہ یہاں دو روایتوں میں تعارض ہے کہ عام طور پر ہم سنتے ہیں کہ لیلۃ البراءۃ جسے ہم شبِ براءت کہتے ہیں یعنی پندرھویں شعبان کی رات، اس رات میں آئندہ سال ہونے والے تمام احوال اللہ رب العزت فرشتوں کے حوالے کر دیتے ہیں؛ کون اچھا ہے، کون برا ہے، کس نے مرنا ہے،کس نے جینا ہے، کس کو کتنا رزق ملنا ہے!
اس کا جواب یہ ہے کہ لیلۃ البراءۃ؛ پندرھویں شعبان کو اللہ تعالیٰ اجمالی فیصلہ فرماتے ہیں کہ پورے سال میں کیا ہونا ہے اور لیلۃ القدر میں لوحِ محفوظ سے نقل کروا کر جس جس فرشتے کے ذمہ جو جو کام ہوتے ہیں ان کے حوالے کیا جاتا ہے۔ تو اجمالی فیصلے شبِ براءت میں ہوتے ہیں اور تفصیلی طور پر لکھ کر فرشتوں کے حوالے لیلۃ القدر میں کیے جاتے ہیں۔
قرآن محفوظ ہے:
ہمارا عقیدہ ہے کہ قرآن کریم محفوظ ہے۔ تورات، زبور اور انجیل محفوظ نہیں ہیں، ان میں تحریف ہو گئی ہے۔ ہمارے پاس اس کی دلیل
﴿اِنَّا نَحۡنُ نَزَّلۡنَا الذِّکۡرَ وَ اِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوۡنَ ﴿۹﴾﴾
ہے۔
الحجر 15: 9
یہاں
”الذِّکْرَ“
سے مراد قرآن کریم ہے کہ قرآن کریم نازل بھی اللہ نے فرمایا ہے اور اس کی حفاظت کا وعدہ بھی اللہ نے کیا ہے۔ اس پر سوال یہ ہے کہ
”الذِّکْرَ“
سے مراد قرآن کریم نہیں ہے کیونکہ جس طرح الذکر قرآن کریم کو کہتے ہیں اسی طرح تورات، زبور اور انجیل کو بھی کہتے ہیں، تو اس پر کیا دلیل ہے کہ الذکر سے مراد قرآن کریم ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ایک ہے باب تفعیل؛
نَزَّلَ یُنَزِّلُ تَنْزِیْلًا
اور ایک ہے باب افعال؛
اَنْزَلَ یُنْزِلُ اِنْزَالًا۔
باب تفعیل میں تدریج ہے، جب تھوڑا تھوڑا کوئی کام کریں تو باب تفعیل ہوتا ہے، جب
”نَزَّلْنَا“
ہو تو اس کا معنی ہے کہ ہم نے تھوڑا تھوڑا کر کے نازل کیا اور جب
”اَنْزَلْنَا“
ہو تو اس کا معنی ہے کہ ایک ہی مرتبہ سب کو نازل کیا ہے۔ تو اللہ نے
﴿اِنَّا نَحۡنُ نَزَّلۡنَا الذِّکۡرَ ﴾
فرمایا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ الذکر سے مراد قرآن کریم ہے، چونکہ باقی کتابیں تھوڑی تھوڑی نہیں بلکہ یکبارگی نازل ہوئی ہیں اس لیے وہ مراد نہیں ہیں۔
نزولِ قرآن دو بار ہوا ہے:
اس پر پھر سوال ہوتا ہے کہ اس سورت میں ہے
﴿اِنَّاۤ اَنۡزَلۡنٰہُ فِیۡ لَیۡلَۃِ الۡقَدۡرِ﴾۔
جس طرح تورات، انجیل اور زبور کے لیے
”اَنْزَلْنَا“
آیا ہے اسی طرح قرآن کریم کے لیے بھی استعمال ہوا ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ قرآن کریم کا نزول دو مرتبہ ہوا ہے۔ایک مرتبہ لوحِ محفوظ سے آسمانِ دنیا پر اور دوسری مرتبہ آسمانِ دنیا سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قلبِ اطہر پر۔
﴿اِنَّاۤ اَنۡزَلۡنٰہُ فِیۡ لَیۡلَۃِ الۡقَدۡرِ﴾
میں یہ نزولِ اوّلی مراد ہے یعنی لوحِ محفوظ سے آسمان دنیا پر اور
﴿فَاِنَّہٗ نَزَّلَہٗ عَلٰی قَلۡبِکَ﴾
میں نزولِ ثانوی ہے یعنی آسمان دنیاسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب اطہر پر۔
﴿تَنَزَّلُ الۡمَلٰٓئِکَۃُ وَ الرُّوۡحُ فِیۡہَا بِاِذۡنِ رَبِّہِمۡ ۚ مِنۡ کُلِّ اَمۡرٍ ۙ﴿ۛ۴﴾ سَلٰمٌ ۟ ہِیَ حَتّٰی مَطۡلَعِ الۡفَجۡرِ ٪﴿۵﴾﴾
”مِنْ كُلِّ اَمْرٍ“
کا تعلق
”سَلٰمٌ “
کے ساتھ ہے یا
”تَنَزَّلُ“
کے ساتھ ہے۔ دونوں صورتوں میں معنی الگ الگ ہو گا۔ اگر
”مِنْ كُلِّ اَمْرٍ“
کا تعلق
”تَنَزَّلُ“
کے ساتھ ہو تو
”مِنْ“
بمعنی با ہو گا۔ معنی یہ ہو گا کہ فرشتے اور روح القدس اس رات میں اللہ کے حکم کے ساتھ اترتے ہیں۔
”كُلِّ اَمْرٍ“
سے مراد خیر کے کام ہیں یعنی تمام امورِ خیر کو لے کر آسمان سے اترتے ہیں۔ چنانچہ جن بندوں کو عبادات میں مشغول دیکھتے ہیں تو ان کے لیے سلامتی کی دعائیں کرتے ہیں۔
اگر
”مِنْ كُلِّ اَمْرٍ“
کا تعلق
”سَلٰمٌ “
کے ساتھ ہو تو پھر ”امر“ سے مراد امرِ شر ہو گا کہ یہ رات امورِ شر سے محفوظ ہے صبحِ صادق کے طلوع ہونے تک۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ․