سورۃ العصر

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
سورۃ العصر
بِسۡمِ اللہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ
﴿وَ الۡعَصۡرِ ۙ﴿۱﴾ اِنَّ الۡاِنۡسَانَ لَفِیۡ خُسۡرٍ ۙ﴿۲﴾ اِلَّا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَ تَوَاصَوۡا بِالۡحَقِّۙ وَ تَوَاصَوۡا بِالصَّبۡرِ ٪﴿۳﴾﴾
کامیابی کا راز:
یہاں پر اللہ رب العزت نے قسم کھائی ہے زمانے کی کیونکہ اسی زمانے میں انسان خسارے اور نقصان میں رہتاہے۔ زمانے کی قسم کھا کر فرمایا: کامیاب انسان وہی ہو گا جس کا عقیدہ ٹھیک ہو، اعمال سنت کے مطابق ہوں، حق کی تلقین کرتا ہو اور صبر کی تلقین کرتا ہو۔
اب دیکھیں! اللہ نے ”زمانہ“ مخلوق کی قسم کھائی ہے۔ اس کی مناسبت مضمونِ قسم کے ساتھ یہ ہے کہ انسان کی تباہی اور انسان کی آبادی اسی زمانہ کے ساتھ متعلق ہے۔ اس مدت میں چاہیں تو نیک اعمال کریں اور خود کو آباد کریں اور اللہ کو خوش کریں اور آخرت کی تیاری کر لیں اور چاہیں تو اسی زمانے میں گناہ کریں اور اپنے آپ کو برباد کریں۔
اب دو چیزیں ایسی ہیں جن کا تعلق انسان کی اپنی جان سے ہے اور دو چیزیں ایسی ہیں کہ جن کا تعلق انسان کی اپنی ذات سے نہیں ہے۔
﴿اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ﴾
کا تعلق انسان کی اپنی ذات سے ہے کہ اپنا عقیدہ ٹھیک ہو اور اپنے اعمال سنت کے مطابق ہوں۔
﴿وَ تَوَاصَوۡا بِالۡحَقِّ ۙ وَ تَوَاصَوۡا بِالصَّبۡرِ﴾
کاتعلق اپنی ذات کے ساتھ نہیں بلکہ دوسروں کے ساتھ ہے کہ دوسروں کو حق کی تلقین کریں اور دوسروں کو صبر کی تلقین کرتے رہیں۔ تو کچھ کام ہر بندے کے ذمے ہیں اور کچھ کام بقدرِ طاقت بندے کے ذمہ ہیں۔
تواصی بالحق اور تواصی بالصبر کا معنی:
﴿وَ تَوَاصَوۡا بِالۡحَقِّ ۙ وَ تَوَاصَوۡا بِالصَّبۡرِ﴾
اس کے کئی معانی ہیں۔
[۱]: یہاں حق سے مراد ہے ایمان اور اعمالِ صالحہ اور صبر سے مراد ہے گناہوں سے بچنا۔ اب حکم یہ ہو گا کہ وہ امر بالمعروف بھی کرتے ہیں اور نہی عن المنکر بھی کرتے ہیں۔
[۲]: دوسرا معنی اس کا یہ ہے کہ عقائد میں فساد آتا ہے شبہات کی وجہ سے اور اعمال میں فساد آتا ہے خواہشات کی وجہ سے۔
﴿وَ تَوَاصَوۡا بِالۡحَقِّ﴾
کا معنی ہے کہ یہ لوگ شبہات کو دور کرتے ہیں اور
﴿ وَ تَوَاصَوۡا بِالصَّبۡرِ﴾
کا معنی کہ خواہشات کی اصلاح کرتے ہیں۔ شبہات کے ازالے کا تعلق علم سے ہے اور خواہشات کی اصلاح کا تعلق عمل سے ہے۔ اس کا معنی یہ ہے کہ یہ علمی اصلاح بھی کرتے ہیں اور عملی اصلاح بھی کرتے ہیں، اور علمی و عملی اصلاح یہ عوام کا کام نہیں ہے․․․ یہ علماء کا کام ہے، اس لیے علماء کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ شبہات کا رد کیسے کرنا ہے اور خواہشات کی اصلاح کیسے کرنی ہے۔ اس کا علماء کو بطورِ خاص خیال رکھنا چاہیے۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ․