سورۃ الاِخلاص

User Rating: 3 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar InactiveStar Inactive
 
سورۃ الاِخلاص
بِسۡمِ اللہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ
﴿قُلۡ ہُوَ اللہُ اَحَدٌ ۚ﴿۱﴾ اَللہُ الصَّمَدُ ۚ﴿۲﴾﴾
توحیدِ باری تعالیٰ:
جب مشرکینِ مکہ نے کہا تھا: اللہ کیاہے؟ اللہ کا نسب نامہ کیا ہے؟ تو اللہ نے سورت الاخلاص اتاری۔ فرمایا: آپ فرمائیں کہ اللہ ایک ہے، اللہ صمد ہے-بے نیاز ہے-
”صمد“ کا معنی:
”صمد“ کسے کہتے ہیں؟
”اَلَّذِیْ لَایَحْتَاجُ اِلٰی شَیْئٍ وَیَحْتَاجُ اِلَیْہِ کُلُّ شَیْئ “
صمد اسے کہتے ہیں کہ جس کا ہر کوئی محتاج ہے اور وہ کسی کا مختاج نہیں، اور یہ جو
﴿اَللہُ الصَّمَدُ﴾
کا ہم ترجمہ کرتے ہیں کہ اللہ بے نیاز ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس کو کسی کی ضرورت نہیں ہے، اسے کسی کی حاجت نہیں ہے۔ ایک بات یہ ذہن میں رکھیں کہ بے نیاز کا ایک معنی ہمارے معاشرے میں یہ ہوتا ہے کہ کوئی غلط کرے یا ٹھیک کرے اسے کوئی پوچھنے والا نہ ہو! یہاں قرآن مجید میں صمد اور بے نیاز کا معنی یہ نہیں ہے۔ اس بات کو اچھی طرح سمجھیں! اللہ تعالیٰ ہم سب کو بات سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
اللہ نہ کسی کا باپ نہ کسی کا بیٹا:
﴿لَمۡ یَلِدۡ ۙ وَ لَمۡ یُوۡلَدۡ ۙ﴿۳﴾﴾
نہ اس کی کوئی اولاد ہے اور نہ اس کا کوئی والد ہے۔
﴿وَ لَمۡ یَکُنۡ لَّہٗ کُفُوًا اَحَدٌ ٪﴿۴﴾﴾
اور کوئی اس کا ہمسر نہیں۔
اب دیکھو! انہوں نے سوال کیا تھا کہ اللہ کیا ہے؟ اور ان کو جواب دیا کہ اللہ کون ہے! معلوم ہوا کہ ہمیشہ سائل کے سوال کے مطابق جواب نہیں دیتے بلکہ یہ دیکھتے ہیں کہ سائل کی منشا کیا ہے اور سائل کو جواب کیا دینا چاہیے! انہوں نے پوچھا تھا کہ اللہ کیا ہے؟ اگر یہ بتایا جاتا کہ اللہ کیا ہے تو یہ سمجھنا ان کے بس میں نہیں تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دنیا میں ہر چیز کی تعریف ہوتی ہے وجود سے، اللہ کی تعریف ہوتی ہے سلب سے۔ کیا مطلب کہ دنیا میں کسی چیز کی تعریف کریں گے تو کہیں کے کہ یہ چیز ایسی ہے اور اللہ کی تعریف کریں گے تو کہیں گے کہ اللہ ایسے نہیں ہیں۔ آپ نے پڑھا ہے القواعد فی العقائد میں کہ جب اللہ کے بارے میں پوچھا جائے کہ اللہ کیا ہے؟ تو اس کا جواب یہ دیتے ہیں:
اَللّٰہُ لَیْسَ بِجِسْمٍ وَلَا جَوْھَرٍ وَلَا عَرْضٍ وَلَا طَوِیْلٍ وَلَا عَرِیْضٍ وَلَا یَشْغُلُ الْاَمْکِنَۃُ وَلَا یَحْوِیْہِ مَکَانٌ وَلَا جِھَۃٌ مِنَ الْجِھَاتِ السِّتَّۃِ․
دفع شبہ التشبیہ للامام ابن الجوزی :ص107
اب دیکھو! اللہ جسم بھی نہیں، جوہر بھی نہیں، طویل بھی نہیں، عریض بھی نہیں، مکانات میں اتر کر ان کو بھرتے نہیں، کوئی مکان اللہ کا احاطہ بھی نہیں کر سکتا، جہات ستہ میں سے کوئی جہت اللہ کے لیے ثابت بھی نہیں۔
تو وہاں تعریف ساری سلبی ہے۔ اس لیے اگر ان کے سوال کے جواب میں یہ بتایا جاتا کہ
”اَللّٰہُ لَیْسَ بِجِسْمٍ وَلَا جَوْھَرٍ․․․“
تو ان لوگوں کو کیا سمجھ آتا کہ جوہر کیا ہے! اور اس کا سلب کیا ہے! اس لیے انہوں نے جب پوچھا کہ اللہ کیا ہے؟ تو جواب دیا گیا کہ اللہ کون ہے۔ قرآن کریم میں ہے:
﴿یَسۡـَٔلُوۡنَکَ عَنِ الۡاَہِلَّۃِ ؕ﴾
البقرۃ2: 189
انہوں نے پوچھا کہ چاند کیا ہے؟تو ان کو جواب دیا کہ چاند کیوں ہے؟! فرمایا:
﴿قُلۡ ہِیَ مَوَاقِیۡتُ لِلنَّاسِ وَ الۡحَجِّ ؕ﴾
انہیں بتاؤ؛ چاند اس لیے ہے کہ اس سے تم اپنے معاملات اور حج کے اوقات متعین کرو۔
﴿یَسۡـَٔلُوۡنَکَ مَا ذَا یُنۡفِقُوۡنَ﴾
البقرۃ 2: 215
انہوں نے پو چھا کہ کیا خرچ کریں؟ ان کو جواب دیا کہ تم یہ پوچھو کہ کہاں خرچ کریں!
﴿قُلۡ مَاۤ اَنۡفَقۡتُمۡ مِّنۡ خَیۡرٍ فَلِلۡوَالِدَیۡنِ وَ الۡاَقۡرَبِیۡنَ﴾
کہ جو خرچ کرنا ہے اپنے والدین اور عزیزو اقارب وغیرہ پر خرچ کرو!
تو ہمیشہ ایسا نہیں کرتے کہ جو سوال کیا ہے اسی کا جواب دیں بلکہ جو مناسب ہو وہ جواب دینا چاہیے۔ اللہ ہم سب کو بات سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ․