مسلم لیگ کی اسلامی و فکری تربیت

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
مسلم لیگ کی اسلامی و فکری تربیت
حصول آزادی اور قیام پاکستان کے لیے جو جماعت میدان عمل میں برسرپیکار تھی وہ مسلم لیگ تھی۔ اس جماعت کی فکری و اسلامی تربیت کے لیے حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ کے دل میں جذبہ خیرخواہی موجزن تھا۔ چنانچہ ایک دن مولانا شبیر علی تھانوی رحمہ اللہ سے فرمانے لگے:
”میاں شبیر علی!ہوا کا رخ بتا رہا ہے کہ لیگ والے کامیاب ہوجائیں گے اور جو سلطنت ملے گی وہ ان ہی لوگوں کو ملے گی جن کو آج سب فاسق و فاجر کہتے ہیں، مولویوں کو تو ملنے سے رہی۔ لہٰذاہمیں یہ کوشش کرنی چاہیے کہ یہی لوگ دین دار بن جائیں اور جو سلطنت قائم ہو وہ دین دار لوگوں کے ہاتھ میں ہو۔ تاکہ اللہ کے دین کا ہی بول بالا ہو۔ “
)مقدمہ حیات امدادص 24(
قائد اعظم سے علماء دیوبند کے وفود کی ملاقاتیں:
حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ نےارباب مسلم لیگ بالخصوص قائد اعظم کی طرف اپنے خصوصی تربیت یافتگان کے وفود بھیجے۔ چنانچہ:
24 دسمبر 1938ء کوپٹنہ میں مولانا سید مرتضیٰ حسن چاند پوری رحمہ اللہ کی قیادت میں مولانا مفتی محمد شفیع، مولانا شبیر علی تھانوی، مولانا عبدالجبار ابوہری، مولانا عبدالغنی پھول پوری اورمولانا معظم حسین امروہی رحمہم اللہ پر مشتمل پہلے وفدنے قائد اعظم سے ملاقات کی۔ جس میں مختلف امور پر تبادلہ خیال کیا گیا اور قائد اعظم کو نماز پڑھنے کی تلقین کی گئی۔ قائد اعظم نے فرمایا: ”میں گناہگار ہوں، خطا وار ہوں۔ آپ کو حق ہے کہ مجھے کہیں! میرا فرض ہے کہ اس کو سنوں۔ میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ آئندہ نماز پڑھا کروں گا۔ “
)روئیداد از مولانا شبیر علی تھانوی ص 5(
اس کے بعددوسرا وفد 12فروری 1939ء کو مولانا ظفر احمد عثمانی کی زیر قیادت دہلی پہنچا جس میں مولانا مفتی محمد شفیع دیوبندی، مولانا شبیر علی تھانوی وغیرہ شامل تھے۔ وفد نے نہایت افہام وتفہیم کے ماحول میں قائد اعظم پر یہ بات روز روشن کی طرح واضح کردی کہ اسلام میں سیاست مذہب سے الگ نہیں بلکہ مذہب کے تابع ہے۔ اس موقع پر قائد اعظم نے فرمایا: ”دنیا کے کسی مذہب میں سیاست مذہب سے الگ ہو یا نہ ہو میری سمجھ میں اب خوب آ گیا ہے کہ اسلام میں سیاست مذہب سے الگ نہیں بلکہ مذہب کے تابع ہے۔ “
)روئیداد از مولانا شبیر علی تھانوی ص 7(
اس کے بعد بھی حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی کے معتمد اور سفیر مولانا شبیر علی تھانوی رحمہ اللہ قائد اعظم سے مسلسل ملاقاتیں کرتے رہے چنانچہ ایک ملاقات میں قائد اعظم رحمہ اللہ نے مولانا شبیر علی تھانوی سے فرمایا:
” آپ تو کبھی تشریف لاتے ہیں اور حضرت تھانوی کی باتیں مجھے سمجھاتے ہیں۔ علماء میرے پاس بہت آئے مگر سب مجھ سے موجودہ سیاست میں بات کرتے ہیں جس سے وہ حضرات ناواقف ہیں۔ اور میں مذہب سے ناواقف ہوں۔ حضرت تھانوی نے آپ کو ایک مرتبہ بھی کسی سیاسی امر میں گفتگو کے لیے نہیں بھیجا۔ مجھے آپ کے ذریعہ خاص مذہبی معلومات ہوتی ہیں جو اور جگہ نصیب نہیں ہوتی۔ اگر آپ کو کچھ اور کہنا ہو تو بیٹھ جائیےمجھے کوئی جلدی نہیں ہے میں بڑے شوق سے سنوں گا۔ “
)روئیداد از مولانا شبیر علی تھانوی ص 8،9(