علمائے دیوبند کا قائدانہ کردار

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
علمائے دیوبند کا قائدانہ کردار
9 جون 1947ء ہی کو دہلی میں مشترکہ ہندوستان کی اسمبلی کے مسلم ممبران کا ایک اہم اجتماع ہوا اور اس میں شرکت کے لیے علامہ شبیر احمد عثمانی اور مفتی محمد شفیع کو بطور خاص مدعو کیا گیا۔
11 جون 1947ء کو علامہ شبیر احمد عثمانی، مولانا ظفر احمد عثمانی اور مفتی محمد شفیع قائد اعظم کو پاکستان کی جنگ جیتنے کی مبارکباد دینے کے لیے ان کے مکان پر تشریف لے گئے۔ جونہی یہ حضرات قائد اعظم کے کمرے میں داخل ہوئے انہوں نے کھڑے ہو کر ان کا خیر مقدم کیا، مصافحہ کے بعد اپنے پاس بٹھایا۔ علامہ شبیر احمد عثمانی نے قائد اعظم کو حصول پاکستان پر مبارک باد پیش کی تو قائد اعظم نے برملا کہا: مولانا یہ مبارک باد آپ کو ہے آپ کی ہی کوششوں سے یہ کامیابی ہوئی ہے۔
)تعمیر پاکستان، ص 127(
سرحد / سلہٹ ریفرنڈم:
3 جون1947ء کو تقسیم ہند کے منصوبے میں صوبہ سرحد اور سلہٹ میں ریفرنڈم اور عوام کی مرضی معلوم کرنے کے لیے کہا گیا اس تناظر میں قائد اعظم بہت متفکر تھے کہ یہ علاقے ہمیں کس طرح مل سکتے ہیں؟چنانچہ مولانا ظفر احمد عثمانی لکھتے ہیں:”قائد اعظم نے از خود فرمایاکہ مولانا مجھے تو اس وقت بڑا فکر سلہٹ اور فرنٹیر کے ریفرنڈم کا ہے اگر پاکستان اس ریفرنڈم میں ناکام رہا تو بہت بڑا نقصان ہو گا، ہم نے کہا کہ کیا آپ چاہتے ہیں کہ اس ریفرنڈم میں پاکستان کامیاب ہو جائے؟ اس پر قائد اعظم آبدیدہ ہو گئے اور فرمایا: سرحد پاکستان کی ریڑھ کی ہڈی ہے اور سلہٹ کا علاقہ بھی مشرقی پاکستان کے لیے ایسا ہی ہے۔ میں دل سے چاہتا ہوں کہ پاکستان اس ریفرنڈم میں کامیاب ہو۔ ہم نے کہا کہ ہم آپ کو اطمینان دلاتے ہیں کہ ان شاء اللہ پاکستان اس میں کامیاب ہو گا بشرطیکہ آپ اعلان کر دیں کہ پاکستان میں اسلامی نظام جاری ہو گا اور اس کا دستور اسلامی ہو گا کیونکہ فرنٹیر اور بنگال کا مسلمان سیاسی مصالح کو نہیں جانتا وہ صرف اسلام کو جانتا ہے اور اسی کے نام پر ووٹ دے سکتا ہے۔ )قائد اعظم (کہنے لگے: مولانا!میں تو اس کا بارہا اعلان کر چکا ہوں اور جب پاکستان میں مسلمانوں کی اکثریت ہو گی تو وہاں اسلامی دستور کے سوا اور کون سا دستور ہو سکتا ہے؟ …… جو میں نے پہلے بارہا کہا ہے وہ میں آج بھی کہتا ہوں کہ پاکستان کا نظام حیات اسلامی ہو گا اور اس کا دستور کتاب و سنت کے موافق ہوگا۔ ) ظفر احمد عثمانی کہتے ہیں (اس پر میں نے کہا: میں ان شاء اللہ سلہٹ کا محاذ سنبھال لوں گا اور حضرت مولانا شبیر احمد صاحب )عثمانی(نے فرنٹیر کے محاذ کا وعدہ کیا۔ اس پر قائد اعظم کا چہرہ خوشی سے چمک اٹھا اور کھڑے ہو کر ہم سے مصافحہ کرتے ہوئے کہا: خدا آپ کو اور آپ کے ذریعہ سے پاکستان کو کامیاب کرے۔ “
)روئیداد بحوالہ تعمیر پاکستان ص 129(
علامہ عثمانی کے خطاب کی جھلکیاں:
سرحد ریفرنڈم کے موقع پر علامہ عثمانی کے کننگھمپارک پشاور ) جناح پارک(میں مورخہ 29 جون 1947ء کو ولولہ انگیز خطاب سے چند اقتباسات:
1: جب مسٹر محمد علی جناح اور خان لیاقت علی خان نے اپیل کی کہ الیکشن میں ووٹ پاکستان کو دیے جائیں کیونکہ وہاں شریعت اسلامی کی حکومت ہو گی تو میں بھی ان کی جماعت میں شامل ہو گیا۔
یہ وقت کڑے امتحان کا ہے اسلام کو اس کفر زار میں زندہ کرنے کے لیے آپ لوگ پہلے ہی کافی قربانیاں پیش کر چکے ہیں، دشمنوں نے آپ کو مٹانے کے لیے کافی جدوجہد کی ہے لیکن قدرت نے اسلام میں یہ خصوصیت رکھی ہے یہ دنیا سے فنا نہیں ہو سکتا۔
2: مسلم لیگ کا مقصد ہندوستان کے مسلمانوں کو یکجا کرنا تھا اور وہ پورا ہو گیا۔ میں کہتا ہوں کہ ایک تو رہو مگر نیک بھی بنو نیکی کے بغیر تمہارا ایکا قائم نہیں رہ سکتا۔ بہتر ہے کہ اب گمراہی کے طریقے چھوڑ دو اور غیر اسلامی حرکتیں بند کر دو۔ قرآن پاک میں آیا ہے کہ اگر تم خدا کی طرف لوٹو گے تو خدا تمہاری مدد کرے گا۔
3: پاکستان میں اللہ کی غلامی ہو گی۔ رقص و سرود نہ ہوگا، شراب و کباب نہ ہو گا کیونکہ ہم صرف اپنی نیکی کی بدولت دنیا میں باقی رہ سکتے ہیں اور اپنی بدی سے مٹ سکتے ہیں، تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ مسلمان جہاں بھی تباہ ہوا ہے اپنے ہی ہاتھوں ہوا ہے اور اسے کوئی دوسرا نہیں مٹا سکتا۔
4: پاکستان کو لنگڑا کہا جاتا ہے کہ اس کا ایک پاؤں تقسیم پنجاب سے ٹوٹ گیا دوسرا تقسیم بنگال سے لیکن آپ دیکھتے ہیں کہ سینکڑوں لنگڑے آدمی ہسپتالوں میں داخل ہو کر ٹھیک ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح پاکستان کا لنگڑا پن بھی دور ہو سکتا ہے۔ لیکن سرحد تو پاکستان کا ”سر“ ہے۔ لنگڑا، سر کٹے پاکستان سے تو بہتر ہے۔
)خطبات عثمانی۔ ص 231 تا 235(
الحمد للہ علامہ عثمانی رحمہ اللہ کی کوششیں کامیاب ہوئیں اور اس ریفرنڈم میں پاکستان کو کامیابی نصیب ہوئی اس کے بعد جب علامہ شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ نے قائد اعظم کو اس کی مبارکباد دی تو قائد اعظم برملا کہہ اٹھے:مولانا اس مبارکباد کے آپ مستحق ہیں جن کی مساعی سے صوبہ سرحد پاکستان میں شامل ہوا ہے۔
جمعۃ الوداع 27ویں رمضان 14اگست 1947ء:
” جب 27رمضان المبارک یعنی 14 اگست 1947ء بروز جمعۃ المبارک جشن پاکستان منایا جانے لگا تو ملک کی سب سے بڑی مقتدر ہستی یعنی قائد اعظم محمد علی جناح گورنر جنرل پاکستان نے علماء ربانی کی تاریخی خدمات کے اعتراف کے طور پر پاکستان کے پرچم کشائی کا اعزاز علامہ شبیر احمد عثمانی اور مولانا ظفر احمد عثمانی کو بخشا۔ کراچی میں علامہ شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ نے اور ڈھاکہ میں مولانا ظفر احمد عثمانی نے تلاوت قرآن مجید اور مختصر تقریر کے بعد اپنے متبرک ہاتھوں سے آزاد پاکستان کا پرچم آزاد فضا میں لہرا کر دنیا کی سب سے بڑی اسلامی مملکت کو اسلامی ممالک کی برادری میں شامل کرنے کی رسم کا افتتاح کیا۔ پاکستانی فوجوں نے پرچم پاکستان کو پہلی سلامی دی………اور دنیا نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا کہ اسلامی سلطنت کے قیام کی جو آواز سب سے پہلے جون 1928ء میں دربار اشرفیہ سے بلند ہوئی تھی اس کے خدام نے اگست 1947ء میں اس کی رسم افتتاح ادا کی۔ “
)تعمیر پاکستان، منشی عبدالرحمان ص 136(
حصول وطن کے مقاصد کو سنجیدگی سے دیکھا جائے اور بانیان پاکستان کے افکار کو اگر قریب سے دیکھا جائے تو یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ وہ سب مل کر ایک آزاد، خود مختار اسلامی، نظریاتی، فلاحی اور مثالی ریاست کے خواہاں تھے۔ جس کے لیے ان سب نے مل کر عزم و ہمت اور کامیابی کی ایسی لازوال داستان رقم کی کہ تاقیامت پاکستان میں پیدا ہونے والا ہر فرد ان کااحسان مند، مشکور و ممنون رہے گا۔
دیکھتے ہی دیکھتے دنیا کے نقشے پرایک آزاداسلامی جمہوری نظریاتی فلاحی مملکت پاکستان کی صورت میں بن کر ابھری،جس کےحصول اور قیام کے لیے مسلمانان برصغیر نے قائد اعظم محمد علی جنا ح کی قیادت میں ایک طویل اسلامی، سیاسی و جمہوری حقوق کی جنگ لڑی، یہ اُن نیک جذبوں اور پاکیزہ آرزؤں کی انمٹ تاریخ ہے جہاں برصغیر کی کئی صدیوں پر محیط ظلمت شب کا سینہ چیر کر آزادی کا سورج طلوع ہوا۔