دستور ساز اسمبلی میں علامہ عثمانی کا خطاب

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
دستور ساز اسمبلی میں علامہ عثمانی کا خطاب:
اس کے صرف دو دن بعد9 مارچ1949ء کو علامہ شبیر احمد عثمانی نے دستور ساز اسمبلی میں ایک قرارداد مقاصد پیش کرنے پر جناب لیاقت علی خان کو مبارکباد پیش کی اور تفصیلی خطاب کیا، جو کہ ہدیہ قارئین ہے:
بعد از خطبہ مسنونہ فرمایا:
جناب صدر محترم!
قرار داد مقاصد کے اعتبارسے جو مقدس اور محتاط تجویز آنریبل مسٹر لیاقت علی خاں صاحب نے ایوان ہذا کے سامنے پیش کی ہے، میں نہ صرف اس کی تائید کرتا ہوں، بلکہ آج اس بیسویں صدی میں (جب کہ ملحدانہ نظریات حیات کی شدید کشمکش اپنے عروچ پر پہنچ چکی ہے) ایسی چیز کے پیش کرنے پر موصوف کی عزم و ہمت اور جرأت ایمانی کو مبارک باد دیتا ہوں۔
اگر غور کیا جائے تو یہ مبارک باد فی الحقیقت میری ذات کی طرف سے نہیں، بلکہ اس پسی ہوئی اور کچلی ہوئی روح انسانیت کی جانب سے ہے، جو خالص مادہ پرست طاقتوں کی حریفانہ حرص و آز اور رقیبانہ ہوس ناکیوں کے میدانِ کارزار میں مدتوں سے پڑی کراہ رہی ہے۔ اس کے کراہنے کی آوازیں اس قدر درد انگیز ہیں کہ بعض اوقات اس کے سنگ دل قاتل بھی گھبرا اٹھتے ہیں اور اپنی جارحانہ حرکات پر نادم ہوکر تھوڑی دیر کے لیے مداوا تلاش کرنے لگتے ہیں۔ مگر پھر علاج و دوا کی جستجو میں وہ اس لیے ناکام رہتے ہیں کہ جو مرض کا اصل سبب ہے اسی کو دوا اور اکسیر سے سوا سمجھ لیا جاتا ہے۔
یاد رکھیے، دنیا اپنے خود ساختہ اصولوں کے جس جال میں پھنس چکی ہے، اس سے نکلنے کے لیے جس قدر پھڑ پھڑائے گی، اسی قدر جال کے حلقوں کی گرفت اور زیادہ سخت ہوتی جائے گی۔ وہ صحیح راستہ گم کر چکی ہے۔ جو راستہ اب اختیار کررکھا ہے، اس پر جتنے زور سے بھاگے گی، وہ حقیقی فوزو فلاح کی منزل سے دور ہی ہوتی چلی جائے گی۔
ہمیں اپنے نظام حیات کو درست اور کامیاب بنانے کے لیے ضروری ہے کہ ہمارا انجن جس لائن پر اندھا دھند چلا جا رہا ہے اسے تبدیل کریں، اور جس طرح بعض دفعہ لائن تبدیل کرتے وقت گاڑی کو کچھ پیچھے ہٹانا پڑتا ہے، ایسے ہی صحیح لائن پرآگے بڑھنے کی غرض سے ہم کو پیچھے ہٹنا پڑے تو کچھ مضائقہ نہیں۔ اگر ایک شخص کسی راستے پر بے تحاشا دوڑ رہا ہے اور ہم دیکھیں کہ چند قدم آگے بڑھنے پر وہ کسی ہلاکت کے غار میں جا پڑے گا تو ہم خاموش نہیں رہ سکتے۔ اسے ادھر سے پیچھے ہٹاکر صاف اور سیدھی شاہراہ پر ڈالنے کی کوشش کریں گے۔
یہی حال آج دُنیا کا ہے۔ اگر ہماری اس نئی اور بے چین دنیا کو اپنے تباہ کن مصائب سے چھٹکارا حاصل کرنا ہے، تو اسے حالات کا بالکل جڑ بنیاد سے از سر نو جائزہ لینا ہوگا۔ کسی درخت کی شاخوں اورپتوں پر پانی چھڑکتے رہنا بے کار ہے، اگر اس کی جڑ جوسینکڑوں من مٹی کے نیچے دبی ہوئی ہے مضبوط نہ ہو۔
آج کے بہت سے بکھرے ہوئے مسائل خواہ ان سے آپ کو کتنی ہی دل چسپی اور شغف کیوں نہ ہو، کبھی ٹھیک طور پر سنور اور سلجھ نہیں سکتے، جب تک ان کے اصول بلکہ اصل الاصول درست نہ ہو جائیں۔”قدامت پرستی“ اور”رجعت پسندی“ کے طعنوں سے نہ گھبرائیے،بلکہ کشادہ دل و دماغ کے ساتھ، ایک متجسّسِ حق کی طرح الجھی ہوئی ڈور کا سِرا پکڑنے کی کوشش کیجیے۔ جو باتیں طاقت ور اور ذی اقتدار قوموں کے زبردست پروپیگنڈے یا غیر شعوری طور پر ان کے حاکمانہ اقتدار اور مسحور کن مادی ترقیات کے زور و اثر سے بطور مسلمات عامہ، اصول موضوعہ اور مفروع عنہا صداقتوں کے)طور پر( تسلیم کرلی گئی ہیں، انہی پر تجدید فکر و نظر کی ضرورت ہے۔
اس پکے ارادے کے ساتھ کہ جس چیز پر ہم صدیوں کی کاوشوں کے نتیجے میں اعتقاد جمائے بیٹھے تھے، وضوح حق [یعنی اظہار حق] کے بعد ایک لمحے کے لیے اس پر قائم رہنا ہم جرم عظیم سمجھیں گے۔ اگر دنیا کو انسانیت کی حقیقی فلاح کے لیے کسی نتیجے پر پہنچنا ہے، تو اُسے اُن قدیم اور اٹل نظریات پر ضرور غور کرنا ہوگا، جنھیں مادی اور معاشی مسابقت کی بے تحاشا دوڑ میں بہت سی قومیں پیچھے چھوڑ آئی ہیں۔
اسے یوں خیال کیجیے کہ کتنی صدیوں تک سکون ارض کے متعلق بطلیموس کا نظریہ دُنیا پر مستولی رہا اور فیثا غورث کی آواز پر کسی نے توجہ نہ کی۔ پھر ایک وقت آیا کہ ہزاروں من مٹی کے نیچے دبا ہوا وہ بیج جو فیثا غورث دبا گیا تھا، زمین کے سینے کو چاک کرکے باہر نکلا اور برگ و بار لا کر رہا۔ سچائی کا پرستار کبھی اس کی پروا نہیں کرتا کہ کسی زمانے میں یا طویل عرصے تک لوگ اس کے ماننے سے آنکھیں چرائیں گے، یا ناک بھوں چڑھائیں گے۔حق اکیلا رہ کر بھی حق ہی رہتا ہے۔ اسے یقین ہے کہ ایک دن ضرور آئے گا، کہ جب اس کے جھٹلانے والے زمانے کے دھکے مکے کھاکر اسی کے دامن میں پناہ لینے پر مجبور ہوں گے۔ آج وہ دن قریب آرہا ہے اور جیسا کہ آنریبل جناب لیاقت علی خاں نے فرمایا:”روشنی کی کرنیں اُفق پر ظاہر ہو کر طلوع ہونے والے روز روشن کا پیش خیمہ بن رہی ہیں۔“
ضرورت ہے کہ ہم اپنے کو خفاش [چمگاڈر] صفت ثابت نہ کریں، جو دن کی روشنی کو دیکھنے کی تاب نہیں لاسکتی۔ پاکستان، مادیت کے بھنور میں پھنسی ہوئی اور دہریت و الحاد کے اندھیروں میں بھٹکی ہوئی دنیا کو روشنی کا ایک مینار دکھانا چاہتا ہے۔ یہ دنیا کے لیے کوئی چیلنج نہیں، بلکہ انسانیت کے لیے پر امن پیغام حیات و نجات ہے اور اطمینان اور خوش حالی کی راہ تلاش کرنے والوں کے لیے سہولت مہیا کرتا ہے۔ ہمارا غیر متزلزل عقیدہ ہے کہ دنیا کے لیے عموماً اور پاکستان کے لیے خصوصاً کسی قسم کا نظام تجویز کرنے سے پہلے پوری قطعیت کے ساتھ یہ جان لیناضروری ہے کہ، اس تمام کائنات کا جس میں ہم سب اور ہماری یہ مملکت بھی شامل ہے، مالک اصلی اور حاکم حقیقی کون ہے؟ اور ہے یا نہیں؟
اب اگر ہم اس کا مالک کسی خالق الکل اور مقتدر اعلیٰ ہستی کو مانتے ہیں، جیسا کہ میں خیال کرتا ہوں کہ اس ایوان کے تمام ارکان و اعضا کا یہ عقیدہ ہوگا، تو ہمارے لیے یہ تسلیم کرنا ناگزیر ہوگا کہ کسی مالک کی خصوصاً اس مالک علی الاطلاق کی مِلک میں ہم اسی حد تک تصرف کرنے کے مجاز ہیں، جہاں تک کہ وہ اپنی مرضی سے ہمیں اجازت دے دے۔ ملکِ غیر میں کوئی غاصبانہ تصرف ہمارے لیے جائز نہیں ہوسکتا۔ پھر ظاہر ہے کہ کسی مالک کی اجازت و مرضی کا علم اس کے بتلانے ہی سے ہو سکتا ہے۔ سو، اللہ تعالیٰ نے پیغمبر علیہم السلام اسی لیے بھیجے اوروحی ربانی کا سلسلہ اسی لیے قائم کیا، کہ انسانوں کو اس کی مرضی اور اجازت کے صحیح حدود معلوم کرا دیے جائیں۔ اسی نکتۂ خیال کے پیش نظر ریزولیوشن میں ”اسی کے مقرر کردہ حدود کے اندر“ کے الفاظ رکھے گئے ہیں اور یہی وہ بنیادی نکتہ ہے جہاں سے دینی اور خالص مادی حکومتوں کی لائنیں ایک دوسرے سے الگ ہو جاتی ہیں۔
یہ نظریہ کہ ”دین و مذہب کا تعلق انسان اور اس کے مالک سے ہے، بندوں کے باہمی معاملات سے اسے کچھ سروکار نہیں، نہ سیاست میں اس کا کوئی دخل ہے۔ “ اسلام نے کبھی تسلیم نہیں کیا۔ ممکن ہے دوسرے مذاہب جو آج کل دنیا میں موجود ہیں، ان کے نزدیک یہ نظریہ درست ہو اور وہ خود کسی جامع و حاوی نظام حیات سے تہی دامن ہوں، مگر جہاں تک اسلام کا تعلق ہے ایسے تصور کی اس میں کوئی گنجائش نہیں، بلکہ اس کی تمام تر تعلیمات اس باطل تصور کی دشمن ہیں۔
قائد اعظم مرحوم نے 17 ستمبر1944ء کوگاندھی جی کے نام جو خط لکھا تھا، اس میں لکھتے ہیں:
قرآن، مسلمانوں کا مکمل ضابطہ ٔ حیات ہے۔ اس میں مذہبی اور مجلسی، دیوانی اور فوجداری، عسکری اور تعزیری، معاشی اور معاشرتی، غرض کہ سب شعبوں کے احکام موجود ہیں۔ مذہبی رسوم سے لے کر روزانہ کے امور حیات تک، روح کی نجات سے لے کر جسم کی صحت تک، جماعت کے حقوق سے لے کر فرد کے حقوق و فرائض تک، دنیوی زندگی میں جزا و سزا سے لے کر عقبیٰ کی جزا و سزا تک، ہر فعل، قول اور حرکت پر مکمل احکام کا مجموعہ ہے۔ لہٰذا، جب میں یہ کہتا ہوں کہ مسلمان ایک قوم ہیں تو حیات و مابعد حیات کے ہر معیار اور ہر مقدار کے مطابق کہتا ہوں۔
1945ء میں قائداعظم مرحوم نے عید کا پیغام دیتے ہوئے کہا :
ہر مسلمان جانتا ہے کہ قرآنی تعلیمات محض عبادات اور اخلاقیات تک محدود نہیں، بلکہ قرآن کریم مسلمانوں کا دین و ایمان اور قانون حیات ہے، یعنی مذہبی، معاشرتی، تجارتی، تمدنی، عسکری، عدالتی اور تعزیری احکام کا مجموعہ ہے۔ ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ہم کو یہ حکم ہے کہ ہر مسلمان کے پاس اللہ کے کلام پاک کا ایک نسخہ ضرور ہو اور وہ اس کا بغورمطالعہ کرے، تاکہ یہ اس کی انفرادی و اجتماعی ہدایات کا باعث ہو۔قائداعظم نے ان خیالات وعزائم کا بار باراظہار کیا ہے۔ کیا ایسی واضح اور مکرر تصریحات کے بعد کوئی شخص یہ کہنے کی جرات کرسکتا ہے کہ سیاست و حکومت، مذہب سے کوئی علاقہ نہیں رکھتی، یا یہ کہ اگرآج قائداعظم زندہ ہوتے تو یہ ”قراردادِمقاصد“ پیش نہیں ہوسکتی تھی۔قرآن حکیم میں صاف صاف ارشاد ہے:
فَلَا وَ رَبِّکَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَھُمْ ثُمَّ لَایَجِدُوْا فِیْٓ اَنْفُسِھِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَیُسَلِّمُوْا تَسْلِیْماً
(سورۃ النساء آیت نمبر 65)
ترجمہ: نہیں، اے محمد، تمہارے رب کی قسم یہ کبھی مومن نہیں ہوسکتے جب تک کہ اپنے باہمی اختلافات میں یہ تم کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں۔ پھر جو کچھ تم فیصلہ کرو اس پر اپنے دلوں میں بھی کوئی تنگی نہ محسوس کریں، بلکہ سربسرتسلیم کرلیں۔
اورقرآن کریم مزید یہ کہتا ہے:
وَمَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ فَاُوْلٰٓئِکَ ھُمُ الْکٰفِرُوْنَ
)سورۃ المائدہ آیت نمبر 44(
ترجمہ: جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی کافر ہیں۔
الظّٰلِمُوْنَ۔
۔۔ وہی ظالم ہیں۔
(سورۃ البقرہ آیت 229)
الْفٰسِقُوْنَ……
وہ فاسق ہیں۔
(سورۃ البقرہ 99)
اس موقع پر یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اسلام میں دینی حکومت کے معنی ”پاپائیت“ یا ”کلیسائی حکومت“کے نہیں ہیں۔ بھلا جس بت کو قرآن نے ا
ِتَّخَذُوْٓا اَحْبَارَہُمْ وَرُہْبَانَہُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ
ترجمہ: انہوں نے اپنے علما اور درویشوں کو اللہ کے سوا اپنا رب بنا لیا ہے۔
)سورۃ التوبہ آیت 31(
کہہ کر توڑا ہے، کیا وہ اسی کی پرستش کو جائز رکھ سکتا ہے؟
اسلامی حکومت سے مراد وہ حکومت ہے، جو اسلام کے بتائے ہوئے اعلیٰ اور پاکیزہ اصول پر چلائی جائے۔ اس لحاظ سے وہ ایک خاص قسم کی اصولی حکومت ہوگی۔ ظاہر ہے کہ کسی اصولی حکومت کو چلانا خواہ مذہبی ہو یا غیر مذہبی دراصل انہی لوگوں کا کام ہو سکتا ہے، جو ان اصولوں کو مانتے ہوں۔ جو لوگ ان اصولوں کو نہیں مانتے، ایسی حکومت، انتظام مملکت میں ان کی خدمات تو ضرور حاصل کرسکتی ہے، مگر مملکت کی جنرل پالیسی یا کلیدی انتظام کی باگ ان کے ہاتھ میں نہیں چھوڑ سکتی۔
اسلامی حکومت دراصل نیابتی حکومت ہے۔ اصل حاکم خدا ہے۔ انسان زمین پر اس کا خلیفہ ہے، جو حکومت درحکومت کے اصول پر دوسرے مذہبی فرائض کی طرح نیابت کی ذمہ داریوں کو بھی خدا کی مقرر کردہ حدود کے اندر پورا کرتا ہے۔ مکمل اسلامی حکومت، حکومت راشدہ ہوتی ہے۔ لفظ ’رشد‘ حکومت کے انتہائی اعلیٰ معیارِ حسن و خوبی کو ظاہر کرتا ہے۔ جس کے معنی یہ ہیں کہ حکومت، حکومت کے کارکن، اور مملکت کے عوام کو نیکوکار ہونا چاہیے۔ قرآن نے حکومتِ اسلامی کی یہی غرض و غایت قراردی ہے، کہ وہ انسانوں کو اپنے دائرۂ اقتدار میں نیکیوں کا حکم دے اور برائیوں سے روکے۔اسلام آج کل کی سرمایہ پرستی کے خلاف ہے۔ اسلامی حکومت اپنے خاص طریقوں سے جو اشتراکی طریقوں سے الگ ہیں، جمع شدہ سرمایے کی مناسب تقسیم کا حکم دیتی ہے، اس کو دائر و سائر رکھنا چاہتی ہے۔ مگر اس کام کو اخلاقی، نیز قانونی طریقے پر عام خوش دلی، عدل، اور اعتدال کے ساتھ کرتی ہے۔
اسلامی حکومت شخصی ملکیت کی نفی نہیں کرتی۔ مناسب حد تک ”راس المال“ رکھنے کی اجازت دیتی ہے۔ زائد سرمایے کے لیے ملّی بیت المال قائم کرتی ہے۔ جس میں سب کے حقوق مشترک ہیں اور اس سرمایے کی تقسیم سےسرمایے اور افلاس کے درمیان توازن اور اعتدال کو بحال رکھتی ہے۔
”شوریٰ“ اسلامی حکومت کی اصل ہے:
وَاَمْرُہُمْ شَوْرٰی بَیْنَہُمْ
(سورۃ الشورٰی آیت نمبر 38)
اسلامی حکومت دنیا میں پہلا ادارہ ہے، جس نے شہنشاہیت کو ختم کرکے استصواب رائے عامہ کا اصول جاری کیا، اور بادشاہ کی جگہ عوا م کے انتخاب کردہ امام (سربراہ ریاست ) کو حکومت عطا کی۔ محض توریث [وراثت] یا جبر و استبداد کے راستوں سے بادشاہ بن بیٹھنا اسلام کے منشا کے سراسر خلاف ہے۔ وہ جمہور کی مرضی اور انہی کے ہاتھوں سے اسٹیٹ کو اختیار دلاتا ہے۔
ہاں! انہیں یہ حق نہیں دیتا کہ وہ امارت کی کوئی تنظیم نہ کریں اور اقتدار اپنے ہی پاس روک کر انتشار، ابتری اور طوائف الملوکی پھیلادیں۔ یہ اولیت کا ایسا شرف ہے، جو اسلامی حکومت کو دنیا کی تمام جمہوریتوں پر حاصل ہے۔
اسلامی سلطنت کا بلند ترین منتہائے خیال یہ ہے کہ سلطنت کی بنا جغرافیائی، نسلی، قومی، حرفتی، اور طبقاتی قیود سے بالا تر ہو کر انسانیت اور ان اعلیٰ اصولوں پر ہو، جن کی تشیید و ترویج کے لیے وہ قائم کی جاتی ہے۔
اسلامی حکومت پہلی حکومت ہے، جس نے اس منتہائے خیال کو پورا کرنے کے لیے اپنی خلافت راشدہ کی بنیاد انسانیت پر رکھی۔ یہ حکومت اپنے کاموں میں رائے عامہ، مساوات حقوق، آزادیِ ضمیر، اور سادگی کا امکانی حد تک خیال رکھتی ہے۔
اسلامی حکومت کا فرض ہے کہ اپنے قلمرو میں بسنے والے تمام غیر مسلموں سے جو شرائط طے ہوئے ہوں )ان کے( جان، مال، آبرو، مذہبی آزادی اور عام شہری حقوق کی پوری حفاظت کرے۔ اگر کوئی طاقت ان کے جان و مال وغیرہ پر دست درازی کرے تو حکومت اس سے جنگ کرے، اور ان )غیر مسلم شہریوں( پر کوئی ایسا بار نہ ڈالے، جو ان کے لیے ناقابل تحمل ہو۔ جو ملک صلحاً حاصل ہوا ہو، وہاں کے غیرمسلموں سے جو شرائط طے ہوئے ہوں، ان کی پوری پوری پابندی کی جائے۔
پھرغیر مسلموں کے یہ حقوق محض اکثریت کے رحم و کرم پر نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ کا عائد کیا ہوا ایک فرض ہے، جس سے کسی وقت بھی انحراف جائز نہیں۔ اس کے بعد دینی حکومت کی مزعومہ خرابیوں کا جہاں تک تعلق ہے، جواب میں اتنا کہنا کافی ہوگا کہ علم و تحقیق کی روشنی میں موجودہ ترقی یافتہ حکومتوں کے طور طریقوں کو خلفائے اربعہ رضی اللہ عنہم کے بے داغ عہد حکومت کے مقابلے میں رکھ کر مفاد عامہ کے لحاظ سے وزن کر لیا جائے۔
آج ظلم و جبر، عہدشکنی، مالی دست برد، کشت و خون، بربادی و ہلاکت، انسانی جماعتوں کی باہمی دشمنی، افراد کی عدم مساوات اور جمہور کے حقوق کی پامالی کی جو مثالیں دور بین سے دیکھے بغیر صاف نظر آرہی ہیں، خلفاء )راشدین رضی اللہ عنہم( کے ترقی یافتہ عہد میں اس کا خفیف سا نشان بھی نہ ملے گا۔ غرض یہ کہ بیان کردہ خرابیاں اسلامی حکومت کی خرابیاں نہیں ہیں، بلکہ ان انسانی گمراہیوں سے اخذ کی گئی ہیں، جنہوں نے خالص مادی طرز حکومت کی داغ بیل ڈالی ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ گاندھی جی نے اسی نکتے کی طرف اشارہ کیا تھا، جب 1937ء میں آپ نے کانگرسی وزرا کو یہ ہدایات دیں کہ: ’تم ابوبکر) رضی اللہ عنہ( اور عمر )رضی اللہ عنہ( کی سی حکومت قائم کرو، نیز قائداعظم مرحوم نے دستور کی اسی اساس کی طرف اشارہ کیا تھا، جب1943ء میں بمقام جالندھر، آل انڈیا مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کی صدارت کرتے ہوئے فرمایا کہ:’’میرے خیال میں مسلمانوں کا طرزِ حکومت آج سے ساڑھے تیرہ سو سال قبل قرآن حکیم نے فیصلہ کر دیا تھا‘‘۔
قائداعظم نے نومبر 1945ء میں پیر صاحب مانکی شریف کے نام جو خط لکھا، اس میں صاف صاف لکھ دیا تھا کہ:
”اس بات کے کہنے کی ضرورت ہی نہیں کہ قانون ساز اسمبلی، جس میں بہت زیادہ اکثریت مسلمانوں کی ہو گی، مسلمانوں کے لیے ایسے قانون بنا سکے گی جو اسلامی قانون کے خلاف ہو اور نہ پاکستانی غیر اسلامی قانون پر عمل کر سکیں گے۔“
اس قسم کے اعلانات قیام پاکستان سے پہلے قائد اعظم اور دوسرے زعماء )مسلم( لیگ کی طرف سے برابر ہوتے رہے، جن کا بخوف طوالت ہم استیعاب نہیں کرسکتے۔بہرحال! ان بیانات کے پڑھنے کے بعد کسی مسلم یا غیر مسلم کو ہمارے مقصد اور مطمح نظر کو سمجھنے میں کوئی ابہام و اشتباہ نہیں رہ سکتا، اور جس قدر باتیں آئین و نظام اسلامی کے متعلق بطور اعتراض آج کہی جارہی ہیں، ان سب کے سوچنے کا وقت وہ تھا جب پوری صراحت کے ساتھ یہ اعلانات کیے جارہے تھے۔
جب یہ سب کچھ جان کر اور سمجھ کر دوسری قوم نے تقسیم ہند کے فیصلے پر دستخط کیے اور پاکستان کی اقلیت نے ان مقاصد کو مانتے ہوئے ہمارے ساتھ اشراک عمل کیا۔اب پاکستان قائم ہونے کے بعد اس نقطۂ نظر سے انحراف کی کوئی وجۂ جواز ان کے پاس موجود نہیں۔
انہیں یہ بھی معلوم ہے کہ انڈین یونین کا قیام تو ہندو اور نیشنلسٹ مسلمانوں کی مخلوط مساعی سے عمل میں آیا ہے۔ لیکن پاکستان کا حصول خالص مسلم قوم کی مساعی اور قربانیوں کا رہین منت ہے، اور ان کی قومی خصائص و ممیزات کے تحفظ کا داعیہ اس کا محرک ہوا ہے۔ اب اگر ایسی سیدھی اور صاف بات کو بھی بھلا دیا جائے تو اس کا کچھ علاج ہمارے پاس نہیں۔اس موقع پر یہ بات بھی فراموش نہ کیجیے کہ آج دنیا میں معاشی اختلال اور اقتصادی عدم توازن کی وجہ سے ملحدانہ اشتراکیت (کمیونزم) کا سیلاب ہر طرف سے بڑھتا چلا آرہا ہے۔ اس کا صحیح اوراصولی مقابلہ اگر دنیا میں کوئی نظام کر سکتا ہے تو وہ صرف اسلام کا اقتصادی نظام ہے۔
اگر ہم پاکستان یا عالم اسلام کو اس بھیانک خطرے سے بچانا چاہتے ہیں، تو اس کی واحد صورت یہی ہے کہ پاکستان میں صحیح اسلامی نظام کا اعلان و آغاز کریں، اور تمام اسلامی ممالک کو اسلام کے نام پر اسی کی دعوت دیں۔ اگر اس طرح تمام اسلامی ممالک آئینی طور پر متحدہ ہوگئے تو قدرتی طور پر وہ وحدت اسلامی قائم ہو جائے گی، جس کی ہم سب مدت سے آرزو رکھتے ہیں، اور جو اشتراکیت اور سرمایہ پرستی دونوں کی روک تھام کے لیے مضبوط آہنی دیوار کا کام دے گی۔
بہت سے لوگوں کو یہ خیال گزرتا ہے کہ ابھی تک ہمارا کاروبار جس ڈگر پر چل رہا ہے، اسلام اور اسلامی آئین کا اعلان کرکے ہم اسے ایک دم کیسے بدل سکتے ہیں؟ یہ تو ہمارے اجتماعی حالات میں ایسا انقلاب عظیم ہوگا جو ہماری قومی زندگی کی کایا پلٹ کررکھ دے گا، اور جس کے لیے ہمیں جدید کانسٹی ٹیوشن کے چلانے کے لیے کثیر تعداد میں مناسب رجال کار تیار کرنے پڑیں گے، اور )اس کے لیے( بہت طویل عرصہ درکار ہوگا۔میں کہتا ہوں کہ ان حضرات کا یہ خیال ایک حد تک صحیح ہے، لیکن اسلامی نظام کا مطالبہ کرنے والے بھی اسے بخوبی محسوس کرتے ہیں۔اسلامی آئین و نظام کے اعلان سے غرض یہ ہے کہ مملکت کا اصلی نصب العین اور اس کی انتہائی منزل مقصود واضح اور مستحضر ہو جائے، تاکہ اس کی روشنی میں ہمارا جو قدم اٹھے، وہ ہم کو آخری منزل سے قریب تر کرنے والا ہو۔ یہ کام ظاہر ہے کہ بتدریج ہوگا اور بتدریج ہی ہوسکتاہے۔ جو کام فی الحال کیے جاسکتے ہیں، وہ فوراً کرنے ہوں گے، اور جن کاموں کے لیے سردست حالات ساز گار نہیں ہیں وہ فوراً نفاذ پذیر نہ ہوں گے، بلکہ حکیمانہ اسلوب پر حالات کوساز گار بنانے کی ہر امکانی کوشش عمل میں لائی جائے گی۔
بہرحال انسان اسی چیز کا مکلف ہے، جس کی وہ استطاعت رکھتا ہے۔ یہی وہ بات ہے جو میں تقسیم سے قبل اپنے مختلف بیانات و خطبات میں کھول کر کہہ چکاہوں۔ چنانچہ خطبہ لاہور میں، میں نے عرض کیا تھا کہ: ’جس طرح رات کی تاریکی آہستہ آہستہ کم ہوتی اور دن کی روشنی بہ تدریج پھیلتی ہے، یا جس طرح ایک پر انا مریض دھیرے دھیرے صحت کی طرف قدم اٹھاتا ہے،
دفعۃً وبَغْتَۃً
بیماری سے چنگا نہیں ہوجاتا، اسی طرح پاکستان ہماری قومی صحت اور ہماری مکمل ترین آزادی کے نصف النہار کی طرف تدریجی قدم اٹھائے گا۔
جناب صدر محترم!
آخر میں ایوان ہذا کے معزز ممبران کی خدمت میں، میں عرض کروں گا، کہ اس ڈھیلے ڈھالے ریزولیوشن سے گھبرانے اور وحشت کھانے کی کوئی وجہ نہیں۔ اسلامی فرقوں کے اختلافات تحریک پاکستان کی برکت سے بہت کم ہو چکے ہیں، اور اگرچہ کچھ باقی ہیں تو ان شاء اللہ برادرانہ مفاہمت سے صاف ہو جائیں گے۔ کیونکہ تمام اسلامی فرقے اور ملک، آج اسلامی نظام کی ضرورت کو بہت شدت کے ساتھ محسوس کر رہے ہیں۔ اور میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ ہمارے غیر مسلم دوست بھی اگر ایک مرتبہ تھوڑا سا تجربہ کرکے دیکھ لیں گے، تو اگلی اور پچھلی سب تلخیاں بھول جائیں گے اور بہت مطمئن رہیں گے، بلکہ فخر کریں گے کہ ہم سب پاکستانیوں نے مل کر عام ہیجان اور اضطراب کے زمانے میں انسانیت عامہ کی اس قدر عظیم الشان خدمت انجام دی۔
اب بڑا اہم کام ہمارے سامنے یہ ہے کہ دستور سازی کی مہم ایسے قابل، فہیم، مضبوط اور محتاط ہاتھوں کے سپرد ہو، جو اس ریزولیوشن کے خاص خاص نکتوں کی حفاظت کرسکیں، اس کے فحویٰ )مفہوم( کو بخوبی سمجھ سکیں، اور جو دستور تیار کیا جائے وہ صحیح لائن سے ہٹنے نہ پائے۔ یہ بہت کٹھن مرحلہ ہے، جو اللہ ہی کی توفیق سے آسان ہو گا۔ بہرحال ہم آئندہ کام کرنے میں ہر قدم پر اس چیز کے منتظر رہیں گے۔
قرارداد کی منظوری:
دستورساز اسمبلی میں قرارداد مقاصد پر خوب بحث و تمحیص ہوئی، تائید اور تردید میں بہت کچھ کہا سنا گیا۔ علامہ شبیر احمد عثمانی کی تقریر نے وہاں پر موجود ارکان کے اذہان کو اس طرح مسخر کیاکہ جس کی مثال نہیں ملتی۔ مذہب و سیاست کو جدا جدا سمجھنے والے بھی اس کے معترف ہو گئے کہ قرارداد مقاصد اسلامیہ جمہوریہ پاکستان کی اولین ضرورت ہے۔ چنانچہ 12 مارچ 1949ء کو طویل بحث مباحثہ کے بعد جس میں حزب مخالف کے ہندو ممبران نے قدم قدم پر رکاوٹ ڈالی۔ مجلس دستور ساز پاکستان نے وزیر اعظم پاکستان کی پیش کردہ تجویز قرارداد مقاصد منظور کر لی۔ وزیر اعظم لیاقت علی خان نے حزب مخالف کے مباحثوں کا جواب دیتے ہوئے کہا:
”دنیا مادیت کا شکار ہے اور ہم پاکستان میں ایک ایسے معاشرے کو جنم دینا چاہتے ہیں جو انسانیت کے لیے مشعل راہ ہو اور ہم ان شاء اللہ اس ”قراردادمقاصد“ کے مضمرات کو عملی صورت دینے کی پوری کوشش کریں گے۔ “
)اخبار زمیندار 13 مارچ 1949ء (
نوٹ: قرارداد مقاصد کو صدر جنرل ضیاء الحق مرحوم نے آئین پاکستان کا باضابطہ حصہ قرار دیا۔