آزاد کشمیر اسمبلی میں عقیدہ ختم نبوت کا تحفظ

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
آزاد کشمیر اسمبلی میں عقیدہ ختم نبوت کا تحفظ
اللہ تعالیٰ نے خطہ کشمیر کو حسن و جمال، رعنایت اور خوبصورتی سے مالا مال فرمایا ہے، بلندقامت پہاڑ، بہتی آبشاریں، بل کھاتی شفاف نہریں، صافی چشمے، دل موہ لینے والی جھیلیں، اچھلے کودتے دریا، پھلوں کے باغات اور ان میں بسنے والے بااخلاق، ملنسار، محنتی اور جفاکش لوگوں کو دیکھ کر اس حقیقت کو صدق دل سے تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ فطری خوابوں کی قدرتی تعبیر یہی وادی کشمیر ہے۔
کشمیر کے ضلع باغ سے منتخب ہونے والے میجر محمد ایوب رکن آزاد کشمیر اسمبلی جب حج کے لیے تشریف لے گئے، مدینۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضری ہوئی مسجد نبوی کے صحن میں نماز ادا کی مواجہہ شریف کی طرف ہدیہ صلوٰۃ و سلام پیش کرنے کے لیے آگے بڑھے تو یکایک رک گئے، دل میں خیال آیا کہ کس منہ سے حاضری دو گے تمہارے دور اقتدار میں منکرین ختم نبوت قادیانی دندناتے پھر رہے ہیں، کچھ وقت کے لیے جیسے وقت تھم گیا ہو، سوچا اور خدا سے یہ وعدہ کر کے بوجھل قدموں کے ساتھ آگے بڑھے کہ اگر زندگی رہی تو آزاد کشمیر اسمبلی میں قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دلواؤں گا۔
سردار عبدالقیوم خان مرحوم کے دور اقتدار میں 28 اپریل 1973ء کو قرارداد پیش ہوئی، لیکن آئینی طور پر اس کا نفاذ بوجوہ نہ ہو سکا، قادیانی اس عرصے میں اپنے مکروہ عزائم کی تکمیل میں کوشاں رہے، جبکہ دوسری طرف مسلمان وقتا فوقتا اسے آئینی شکل دینے کی کوششیں کرتے رہے۔
12 ستمبر 2014ء کو مختلف مکاتب فکر کے علماء نے حکومت سے اس حوالے سے مذاکرات کیے، مولانا عبدالوحید قاسمی نے ہائیکورٹ آزاد کشمیر میں اسی حوالے رٹ دائر کی، راجہ محمد صدیق رکن اسمبلی آزاد کشمیر نے وزیر اعظم آزاد کشمیر سے مطالبہ کیا کہ ختم نبوت سے متعلق وہ آئینی و قانونی دفعات جو پاکستان میں منظور شدہ ہیں وہ آزاد کشمیر کے آئین و قانون کا حصہ بنائیں، چنانچہ اس حوالے سے ایک کمیٹی بھی بنائی گئی، اجلاس ہوئے جن میں یہ طے پایا کہ آزاد کشمیر اسمبلی میں ایک بل پاس کیا جائے جس میں ختم نبوت کا حلف نامہ، قادیانیوں کے غیر مسلم ہونے کی صراحت مسلم اور غیر مسلم کی تعریف کو آئین و قانون کا حصہ بنایا جائے۔
6 فروری کو آزاد کشمیر اسمبلی اور کونسل کا مشترکہ اجلاس طلب کیا گیا، بل پیش کیا گیا، عبوری ایکٹ 1974ء میں بارہویں ترمیم کے ذریعے ختم نبوت کے متعلق قانون کو آزاد کشمیر کے آئین کا حصہ بنا دیا گیا۔ دی آزادجموں وکشمیر انٹرکانسٹیٹیوشن ایکٹ 2018ء کے نام سے موسوم اس بل میں قادیانیوں سمیت تمام غیر مسلم ادیان اور مذاہب سے آگاہ کرتے ہوئے مسلمان کی بھی تعریف کردی گئی ہے۔اس بل کی منظوری کے بعد قادیانی خود کو مسلمان ظاہر نہیں کر سکتے۔ مسجدطرز پر اپنا عبادت گاہ تعمیر کرنے، اذان دینے اور تبلیغ کرنے پر بھی پابندی عائد کر دی گئی جبکہ جملہ شعائر اسلام جن میں مسجد کے مینار،اپنی عبادت گاہ پر کلمہ اسلام لکھنے سمیت تمام رسومات اور عبادات سرعام کرنے پر قادیانیوں پر پابندی عائدہوگی۔
اس موقع پر وزیر اعظم آزاد کشمیر راجہ فاروق حیدر نے ایوان سے خطاب کے دوران کہا کہ آئین سازی سے نہ ریاست جموں وکشمیر کی ڈیمو کریسی پر کوئی فرق پڑے گا نہ اقوام متحدہ کی قرار دادیں متاثر ہوں گی نہ میں اس سے تحریک آزادی کشمیر پر کوئی فرق پڑے گا، یہ ایمان اور اسلامی تشخص کا معاملہ ہے۔اب قادیانیوں کو اپنی الگ شناخت دیناہو گی۔ مسلمان کے لیے لازم ہے کہ وہ نبی پاک حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری نبی تسلیم کریں اوران کا دل و جان سے احترام کریں جو ایسا نہیں کرے گا وہ مسلمان نہیں ہے آئین میں ترمیم قانون سازی سے کئی فتنے ختم ہو جائیں گے۔
اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشنودی کے لیے عقیدہ ختم نبوت کو آئین کا حصہ بنایا۔ آزاد کشمیر کے سابق وزیراعظم سردار عتیق احمد خان نے کہا کہ دنیا میں مذہب کے نام پر غالب اکثریت کے ساتھ قادیانی، احمدی وغیرہ جال بچھائے ہوئے ہیں، وہ مسلمانوں کے دل سے جذبہ عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور جذبہ جہاد ختم کرنے کی سازشوں میں مصروف ہیں۔ وزیر قانون راجہ نثار احمد خان نے کہا کہ آئین میں ترمیم کے ذریعے مسلم و غیر مسلم کی مکمل نشاندہی کر دی گئی ہے۔ قادیانی نہ تبلیغ کر سکیں گے نہ مسلمانوں کی عبادت گاہوں کو استعمال کر سکیں گے۔
اس موقع پر وزیر اعظم آزاد کشمیر راجہ فاروق حیدر، تمام اراکین اسمبلی آزاد کشمیر، سردار عبدالقیوم خان مرحوم سے لے کر اب تک اس بارے کوشش کرنے والے تمام سیاسی و مذہبی زعماء اور عوام مبارک باد کے مستحق ہیں جن کے حسن انتخاب نے کشمیر کے حسن کو حقیقی حسن عطا کر دیا ہے۔
یہ فیصلہ کر کے انہوں نے عالم اسلام کے دل جیت لیے ہیں، کیونکہ قادیانی لوگ اسلام کے بنیادی عقائد کے بارے اہل اسلام سے الگ نظریات رکھتے ہیں، اس کے ساتھ ساتھ مسئلہ کشمیر پر پاکستانی موقف کے حمایت نہیں کرتے، مزید یہ کہ ان کے بھارت سے وفاداریاں نبھانے کی کئی شہادتیں ریکارڈ پر ہیں، اس تناظر میں آزاد کشمیر کی اسمبلی و کونسل کے متفقہ فیصلہ عالم اسلام کے دل کی آواز اور ترجمانی ہے۔
اگرچہ یہ فیصلہ انہی دنوں ہوجانا چاہیے تھا جب پاکستان میں قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا گیا لیکن دیر آید درست آید۔ جمعۃ المبارک کے اجتماعات میں علماء کرام نے عقیدہ ختم نبوت کے موضوع پر بیان کیے، عوام میں اس عقیدہ کی اہمیت ذکر کی،قادیانیوں نے دنیا بھر میں اہل اسلام آزاد کشمیر جیسے حساس علاقوں میں قادیانیوں کی تخریبی سازشیں آئینی طور پر دم توڑ گئی ہیں، تاہم اس بات کی ضرورت پہلے سے بھی زیادہ ہے کہ اب ان کی کڑی نگرانی کی جائے اور انہیں آئین کا پابند کیا جائے۔