عقیدہ 1

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
توحید وصفات باری تعالیٰ
عقیدہ1 :
متن:
إِنَّ اللهَ تَعَالیٰ وَاحِدٌ لَا شَرِيْكَ لَهٗ.
ترجمہ: بے شک اللہ تعالیٰ ایک ہے، اس کا کوئی شریک نہیں۔
شرح:
توحید کی اقسام:
مختلف حضرات نے توحید کی مختلف اقسام بیان فرمائی ہیں جو درج ذیل ہیں:
(1): امام ابو عبد الله عبید الله بن محمد بن بَطَّۃ العَكْبَری الحنبلی (ت 387ھ) لکھتے ہیں:
أَنَّ أَصْلَ الْإِيْمَانِ بِاللهِ الَّذِيْ يَجِبُ عَلَى الْخَلْقِ اعْتِقَادُهٗ فِيْ إِثْبَاتِ الْإِيْمَانِ بِهٖ ثَلَاثَةُ أَشْيَاۗءَ:
أَحَدُهَا: أَنْ يَعْتَقِدَ الْعَبْدُ إِنِّيَّتَهٗ لِيَكُوْنَ بِذٰلِكَ مُبَايِنًا لِمَذْهَبِ أَهْلِ التَّعْطِيْلِ الَّذِيْنَ لَا يُثْبِتُوْنَ صَانِعًا.
وَالثَّانِيْ: أَنْ يَعْتَقِدَ وَحْدَانِيَّتَهٗ لِيَكُوْنَ مُبَايِنًا بِذٰلِكَ مَذَاهِبَ أَهْلِ الشِّرْكِ الَّذِيْنَ أَقَرُّوْا بِالصَّانِعِ وَأَشْرَكُوْا مَعَهٗ فِي الْعِبَادَةِ غيْرَهٗ.
وَالثَّالِثُ: أَنْ يَعْتَقِدَهٗ مَوْصُوْفًا بِالصِّفَاتِ الَّتِيْ لَا يَجُوْزُ إِلَّا أَنْ يَكُوْنَ مَوْصُوْفًا بِهَا مِنَ الْعِلْمِ وَالْقُدْرَةِ وَالْحِكْمَةِ وَسَائِرِ مَا وَصَفَ بِهٖ نَفْسَهٗ فِيْ كِتَابِهٖ.
(الابانۃ لابن بطۃ: الکتاب الثالث․ ج2 ص172، 173)
ترجمہ: اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے کے لیے بنیادی طور پر تین چیزیں ایسی ہیں جن پر بندوں کا پختہ یقین ضروری ہے:
پہلی چیز: بندہ یہ اعتقاد رکھے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات موجود ہے، اس عقیدہ سے اھلِ تعطیل کے عقیدہ سے امتیاز ہو جائے گا جوصانعِ عالم کے وجود کے قائل نہیں ہیں۔
دوسری چیز: یہ اعتقاد رکھے کہ باری تعالیٰ ایک ہے، اس سے مشرکین کے عقیدہ سے
امتیاز ہو جائے گا جو صانع عالم کے وجو دکے تو قائل ہیں لیکن اس کی عبادت کے ساتھ اوروں کی بھی عبادت کرتے ہیں۔
تیسری چیز: بندہ یہ عقیدہ رکھے کہ اللہ تعالیٰ ان صفات کے ساتھ موصوف ہے جو اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ خاص ہیں جیسے علم، قدرت، حکمت اور دیگر صفات جو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنی ذات کے لیے بیان فرمائی ہیں۔
(2): علامہ محمد بن عبد الكريم بن ابی بكر احمد الشَهْرِسْتانی (ت548ھ) لکھتے ہیں:
إِنَّ اللهَ تَعَالٰى وَاحِدٌ فِيْ ذَاتِهٖ لَا قَسِيْمَ لَهٗ، وَ وَاحِدٌ فِيْ صِفَاتِهِ الْأَزَلِيَّةِ لَا نَظِيْرَ لَهٗ، وَ وَاحِدٌ فِيْ أَفْعَالِهٖ لَا شَرِيْكَ لَهٗ .
(الملل والنحل: ج1 ص55)
ترجمہ: اللہ تعالیٰ اپنی ذات میں یکتا ہے اس کا کوئی جزء نہیں، اپنی صفات ازلیہ میں یکتا ہے اس کی کوئی مثال نہیں اور اپنے افعال میں یکتا ہے اس کا کوئی شریک نہیں۔
(3): بعض لوگوں نے توحید کی درج ذیل تین اقسام بیان کی ہیں اور اس تقسیم کو علامہ تقی الدین احمد بن عبدالحلیم ابن تیمیہ الحرانی الحنبلی (ت728ھ) کی طرف منسوب کیا ہے۔ تین اقسام یہ ہیں:
توحید فی الربوبیت :
اللہ تعالیٰ کی ذات ہی سارے جہان کو پالنے والی ہے، اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی پالنے والا نہیں ہے۔ توحید کی اس قسم میں اللہ تعالیٰ کو خالق، مالک، رازق، مدبر کائنات وغیرہ ماننا بھی شامل ہے۔
توحید فی الالوہیت :
اللہ تعالیٰ کی ذات ہی لائق عبادت ہے، اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کی عبادت کرنا جائز نہیں ہے ۔
توحید فی الصفات :
اللہ تعالیٰ اپنی صفات میں واحد اور اکیلا ہے کوئی دوسرا اللہ تعالیٰ کی صفات میں شریک نہیں جیسے عالم الغیب، مختار کل، قادر مطلق، مشکل کشا، حاجت روا وغیرہ اللہ تعالیٰ کی صفات ہیں، ان صفات کو کسی اور کے لیے ثابت کرنا جائز نہیں ہے ۔
(4): حضرت شاہ ولی اللہ احمد بن عبد الرحیم محدث دہلوی ( ت1176ھ) فرماتے ہیں:
وَاعْلَمْ أَنَّ لِلتَّوْحِيْدِ أَرْبَعَ مَرَاتِبَ :
إِحْدَاهَا : حَصْر وُجُوْبِ الْوُجُوْدِ فِيْهِ تَعَالىٰ ، فَلَا يَكُوْنُ غَيْرُهٗ وَاجِبًا .
وَالثَّانِيَةُ : حَصْرُ خَلْقِ الْعَرْشِ وَالسَّمٰوَاتِ وَالْأَرْضِ وَسَائِرِ الْجَوَاهِرِ فِيْهِ تَعَالىٰ ، وَهَاتَانِ الْمَرْتَبَتَانِ لَمْ تَبْحَثِ الْكُتُبُ الْإِلٰهِيَّةُ عَنْهُمَا وَلَمْ يُخَالِفْ فِيْهِمَا مُشْرِكُو الْعَرَبِ وَلَا الْيَهُوْدُ وَلَا النَّصَارَىٰ بَلِ الْقُرْآنُ الْعَظِيْمُ نَاصٍ عَلٰى أَنَّهُمَا مِنَ الْمُقَدَّمَاتِ الْمُسَلَّمَةِ عِنْدَهُمْ.
وَالثَّالِثَةُ : حَصْرُ تَدْبِيْرِ السَّمٰوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا فِيْهِ تَعَالٰى .
وَالرَّابِعَةُ : أَنَّهٗ لَا يَسْتَحِقُّ غَيْرُهُ الْعِبَادَةَ.
(حجۃ اللہ البالغۃ: ج1 ص59 باب التوحید)
ترجمہ: یہ بات جان لیں کہ توحید کے چار مراتب ہیں:
اول: واجب الوجود صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے، اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی ذات واجب الوجود نہیں ہے۔
دوم: عرش، آسمان، زمین اور سارے جواہر (قائم بالذات اشیاء) کا خالق صرف اللہ تعالیٰ ہے۔
توحید کے یہ دو مرتبے کتب الہیہ میں بیان نہیں ہوئے کیونکہ ان دونوں مرتبوں میں مشرکین عرب نے مخالفت کی ہے نہ یہود نے اور نہ نصاریٰ نے بلکہ قرآن مجید نے تو اس بات کی صراحت کی ہے کہ یہ دو مرتبے ان لوگوں کے ہاں مسلّم تھے۔
سوم: آسمان و زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے، ان سب کا نظام چلانے والی صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔
چہارم: اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی عبادت کے لائق نہیں۔
(5): شیخ عبد الغنی بن طالب الغنیمی المِیدانی الحنفی (ت1298ھ) لکھتے ہیں:
وَالْوَحْدَانِیَّۃُ صِفَۃٌ سَلْبِیَّۃٌ تُقَالُ عَلٰی ثَلَاثَۃِ أَنْوَاعٍ:
اَلْأَوَّلُ: الْوَحْدَۃُ فِی الذَّاتِ وَالْمُرَادُ بِھَا انْتِفَاءُ الْکَثْرَۃِ عَنْ ذَاتِہٖ تَعَالٰی بِمَعْنٰی عَدْمِ قُبُوْلِھَا الِانْقِسَامِ․
وَالثَّانِی: الْوَحْدَۃُ فِی الصِّفَاتِ ، وَالْمُرَادُ بِھَا انْتِفَاءُ النَّظِیْرِ لَہٗ تَعَالیٰ فِیْ کُلِّ صِفَۃٍ مِنْ صِفَاتِہٖ فَیَمْتَنِعُ أَنْ یَکُوْنَ لَہٗ تَعَالٰی عُلُوْمٌ وَقُدْرَاتٌ مُتَکَثِّرَۃٌ بِحَسْبِ الْمَعْلُوْمَاتِ وَالْمَقْدُوْرَاتِ بَلْ عِلْمُہٗ تَعَالٰی وَاحِدٌ وَمَعْلُوْمَاتُہٗ کَثِیْرَۃٌ وَقُدْرَتُہٗ وَاحِدَۃٌ وَمَقْدُوْرَاتُہٗ کَثِیْرَۃٌ وَعَلٰی ھٰذَا جَمِیْعُ صِفَاتِہٖ․
وَالثَّالِثُ: الْوَحْدَۃُ فِی الْأَفْعَالِ ، وَالْمُرَادُ بِھَا انْفِرَادُہٗ تَعَالٰی بِاخْتِرَاعِ جَمِیْعِ الْکَائِنَاتِ عُمُوْمًا وَامْتِنَاعِ إِسْنَادِ التَّاثِیْرِ لِغَیْرِہٖ تَعَالٰی فِیْ شَیْئٍ مِنَ الْمُمْکِنَاتِ أَصْلًا․
(شرح العقیدۃ الطحاویۃ: 47)
ترجمہ: ”وحدت“ سلبی صفت ہے اور اس کا اطلاق تین قسموں پر ہوتا ہے:
پہلی: وحدت فی الذات، یعنی اللہ تعالیٰ اپنی ذات میں یکتا ہے، اس کی ذات تقسیم نہیں ہو سکتی (یعنی ایسا نہیں کہ دو یا زائد چیزیں مل کر ذات باری تعالیٰ بنے)
دوسری: وحدت فی الصفات، یعنی اللہ تعالیٰ کی تمام صفات کی مثال نہیں ہے۔ لہذا اللہ تعالیٰ کی صفت علم اور صفت قدرت کئی ہوں ایسا نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کا علم اس کی ایک صفت ہے اور معلومات کئی ہیں، قدرت ایک صفت ہے اور مقدورات کئی ہیں، اسی طرح باقی صفات کا حال ہے۔
تیسری: وحدت فی الافعال، یعنی اللہ تعالیٰ نے تمام کائنات تنِ تنہا پیدا فرمائی ہے اور کسی بھی ممکن شے میں حقیقی تاثیر کی نسبت غیر اللہ کی طرف کرنا جائز نہیں ہے۔
(6): رئیس المناظرین حجۃ اللہ فی الارض حضرت مولانا محمد امین صفدراوکاڑوی (ت1421 ھ) فرماتے ہیں کہ صوفیاء کے ہاں توحید کی تین اقسام ہیں:
۱:توحید ایمانی:
لَا مَعْبُوْدَ إِلَّا اللہُ
(اللہ کے علاوہ کوئی عبادت کے لائق نہیں) اس کو مانے بغیر کوئی مومن ہو ہی نہیں سکتا۔
۲: توحید خواص:
لَا مَقْصُوْدَ إِلَّا اللہُ
(اللہ کے سوا کوئی چیز مقصود نہیں) کیونکہ ریاء کو حدیث میں شرک قرار دیا گیا ہے۔”توحید خواص“ کو ”توحید اخلاص“ بھی کہتے ہیں۔
۳: توحید شہودی:
لَا مَوْجُوْدَ إِلَّا اللہُ
(اللہ کے سوا کوئی چیز موجود نہیں) جب کسی ولی کامل کو تجلیات باری کا مشاہدہ ہوتا ہے تو ان کو کوئی چیز نظر نہیں آتی، اس لیے وہ
لَا مَوْجُوْدَ إِلَّا اللہُ
پکارتے ہیں۔
توحید ایمانی
(لَا مَعْبُوْدَ إِلَّا اللہُ)
کا منکر کافر ہو گا۔ توحید خواص
(لَا مَقْصُوْدَ إِلَّا اللہُ)
کا منکر کافر نہیں کہلائے گا، ہاں غیر مخلص ہو گا۔توحید شہودی
(لَا مَوْجُوْدَ إِلَّا اللہُ )
کا منکر نہ کافر ہو گا اور نہ اخلاص سے خالی، صرف یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ شخص مقام مشاہدہ سے محروم ہے۔

ص420)

توحید کی تقسیم کے متعلق اکابر ائمہ کی مذکورہ تصریحات سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض اکابرین نے توحید کی تین اور بعض نے چار قسمیں بیان کی ہیں۔نیز جنہوں نے تین قسمیں بیان کی ہیں ان کی ذکر کردہ اقسام بھی باہم مختلف ہیں۔ دراصل توحید کی تقسیم اور ان کی ذیلی اقسام میں اختلاف کوئی حقیقی اختلاف نہیں بلکہ محض تعبیرات کا اختلاف ہے۔تعبیرات کے اختلاف کو نفس توحید کا اختلاف قرار نہیں دیا جا سکتا۔
نیز یہ بات بھی ملحوظ رہے کہ اقسامِ توحید کی تعبیرات منصوص نہیں بلکہ غیر منصوص ہیں۔اہلِ علم نے اپنے اپنے دور میں عوام الناس کو عقیدہ توحید سمجھانے کے لیے اختیار کی ہیں اور عوام کی ذہنی سطح کو ملحوظ رکھتے ہوئے اسے مختلف اقسام میں منقسم کیا ہے۔پھر بعد کے دور کے علماء نے اپنے ذوق اور عوامی ضرورت کے پیش نظراقسام کی نئی تعبیرات اختیار کیں۔ یوں تعبیرات باہم مختلف ہوتی چلی گئیں۔ مقصود ان سب حضرات کا یہی تھاکہ توحید باری تعالیٰ مختلف جہات سے کھل کر واضح ہو اور شرک کسی گوشے سے عقیدہ توحید میں حائل نہ ہو سکے۔
ہمارے ہاں توحید کی تین اقسام ہیں:
1: توحید فی الذات 2: توحید فی الصفات 3: توحید فی الاسماء
(1): توحید فی الذات:
اللہ تعالیٰ اپنی ذات میں اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، نہ وہ کسی کی اولاد ہے اور نہ اس کی کوئی اولاد ہے۔
(2): توحید فی الصفات:
اللہ تعالیٰ اپنی صفات میں اکیلا ہے، صفات میں اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔
فائدہ: صفات کی دو قسمیں ہیں: محکمات اور متشابہات۔ صفات محکمات وہ صفات ہیں جن کا معنی ظاہر اور واضح ہے مثلاً سمع ، بصر ، علم، قدرت وغیرہ ، اور صفات متشابہات صفات ہیں جن کے معانی غیر واضح اور مبہم ہیں، عقل انسانی کی وہاں تک رسائی نہیں۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کی ذات کے لئے ید ، وجہ ، عین وغیرہ کلمات یہ اللہ تعالیٰ کی صفات متشابہات ہیں۔ ان صفات متشابہات کے ظاہری معانی بالکل مراد نہیں۔ پھر متقدمین اھل السنۃ والجماعۃ ان صفات کا معنی بیان نہیں کرتے بلکہ ان کا معنی اللہ تعالیٰ کے حوالے کرتے ہیں جبکہ متاخرین اھل السنۃ والجماعۃ ان صفات کا معنی درجہ یقین میں نہیں بلکہ درجہ ظن میں کرتے ہیں تاکہ عوام الناس فرقہ مجسمہ (جو اللہ تعالیٰ کے لیے جسم مانتے ہیں) کے فتنے سے محفوظ رہ سکیں۔
(3): توحید فی الاسماء:
اللہ تعالیٰ اپنے ناموں میں یکتا ہے۔
فائدہ: بعض اسماء ایسے ہیں جو اللہ تعالیٰ ہی کے لیے بولے جاتے ہیں جیسے رحمٰن، عالم الغیب، مختار کل، قادر مطلق، مشکل کشا، حاجت روا وغیرہ۔ ان اسماء کو مخلوق کے لیے بولنا جائز نہیں۔ بعض اسماء ایسے ہیں جو مخلوق پر بھی بولے گئے ہیں جیسے سمیع، بصیر، متکلم وغیرہ۔ مخلوق کے لیے ان اسماء کا معنی یہ ہے کہ مخلوق سننے میں کان کی، دیکھنے میں آنکھ کی، بولنے میں زبان کی محتاج ہے لیکن اللہ تعالیٰ کا معاملہ یوں نہیں ہے ، اللہ تعالیٰ سمیع یعنی سنتے ہیں لیکن کان کے محتاج نہیں، بصیر یعنی دیکھتے ہیں لیکن آنکھ کے محتاج نہیں، متکلم یعنی بولتے ہیں لیکن زبان کے محتاج نہیں۔تو ان اسماء کا جو معنی مخلوق کے لیے ہے وہ معنی اللہ تعالیٰ کے لیے ہرگز مراد نہیں۔اس لیے معنی خاص کے اعتبار سے یہ اسماء بھی اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہیں۔