عقیدہ 35

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
رؤیت باری تعالیٰ
عقیدہ 35:
متن:
وَالرُّؤْيَةُ حَقٌّ لِأَهْلِ الْجَنَّةِ بِغَيْرِ إِحَاطَةٍ وَلَا كَيْفِيَّةٍ كَمَا نَطَقَ بِهٖ كِتَابُ رَبِّنَا :﴿وُجُوْهٌ يَّوْمَئِذٍ نَّاضِرَةٌ اِلٰى رَبِّهَا نَاظِرَةٌ﴾ وَتَفْسِيْرُهٗ عَلٰى مَا أَرَادَهُ اللهُ تَعَالٰى وَعَلِمَهٗ وَكُلُّ مَا جَاءَ فِيْ ذٰلِكَ مِنَ الْحَدِيْثِ الصَّحِيْحِ عَنِ الرَّسُوْلِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَهُوَ كَمَا قَالَ وَمَعْنَاهُ عَلٰى مَا أَرَادَ لَا نَدْخُلُ فِي ذٰلِكَ مُتَأَوِّلِيْنَ بِآرَائِنَا وَلَا مُتَوَهِّمِيْنَ بِأَهْوَائِنَا فَإِنَّهٗ مَا سَلِمَ فِيْ دِيْنِهِ إِلَّا مَنْ سَلَّمَ لِلهِ تَعَالیٰ وَلِرَسُولِهٖ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرَدَّ عِلْمَ مَا اشْتَبَهَ عَلَيْهِ إِلٰى عَالِمِهٖ.
ترجمہ: اہلِ جنت کا اللہ تعالیٰ کو بغیر احاطہ اور بغیر کیفیت کے دیکھنا برحق ہے جیسا کہ ہمارے رب کی کتاب اس بارے میں فرماتی ہے: ”اس دن کئی چہرے تر وتازہ ہوں گے، اپنے رب کی طرف دیکھ رہے ہوں گے“ اس کا وہی مطلب قابلِ قبول ہو گا جو اللہ تعالیٰ کے ارادہ اور علم کے مطابق ہو گا اور اس بارے میں ہر وہ صحیح حدیث جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہم سے مروی ہو تو اس کا بھی وہی معنی و مطلب ہو گا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا اور مراد لیا ہو۔ ہم (رؤیت کا )معنی بیان کرنے میں اپنی رائے سے کوئی تاویل نہیں کرتے اور نہ ہی اپنی خواہشات کی بنا پر کسی اٹکل پچو سے کام لیتے ہیں، اس لیے کہ دین کے معاملے میں وہی شخص محفوظ رہتا ہے جو اپنے آپ کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کےحوالے کر دے اور جو مسئلہ اس پر مشتبہ ہو جائے تو اس کے لیے کسی عالم کی طرف رجوع کرے۔
شرح:
جنتیوں کو اللہ تعالیٰ کا دیدار بغیر احاطے اور بغیر کیفیت کے ہو گا اس لیے کہ انسانی آنکھ اللہ تعالیٰ کا احاطہ کرنے سے قاصر ہے ۔ ارشاد باری ہے:
 ﴿ لَا تُدْرِكُہُ الْاَبْصَارُ﴾.
ترجمہ: آنکھیں اللہ تعالیٰ کا احاطہ نہیں کر سکتیں۔
اس رؤیت کا وہی معنی قابل قبول ہو گا جو قرآن و سنت ثابت ہے یعنی اس رؤیت سے مراد رؤیت بصری ہے ، رؤیت قلبی نہیں ، اپنی آراء اور خواہشات کی بنا پر رؤیت کا خود ساختہ معنی بیان کرنا جو نصوص قرآن و سنت کے خلاف ہو گمراہی کا سبب ہے۔ اس لیے دین وایمان کی سلامتی اسی میں ہے کہ انسان اپنی آراء کو اللہ تعالیٰ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے تابع کر دے ۔
رؤیت باری تعالیٰ کے دلائل:
(۱): قرآن مجید میں ہے:
﴿وُجُوْهٌ يَّوْمَئِذٍ نَّاضِرَةٌ اِلٰى رَبِّهَا نَاظِرَةٌ﴾.
(سورۃ القیامۃ: 22، 23)
ترجمہ: اس دن کئی چہرے تر وتازہ ہوں گے، اپنے رب کی طرف دیکھ رہے ہوں گے۔
علامہ فخر الدین ابو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسین الرازی (ت606ھ) اس آیت کو اھل السنۃ و الجماعۃ کے موقف کی دلیل بناتے ہوئے لکھتے ہیں:
اِعْلَمْ أَنَّ جُمْهُوْرَ أَهْلِ السُّنَّةِ يَتَمَسَّكُوْنَ بِهٰذِهِ الْآيَةِ فِيْ إِثْبَاتِ أَنَّ الْمُؤْمِنِيْنَ يَرَوْنَ اللهَ تَعَالٰى يَوْمَ الْقِيَامَةِ.
(التفسیر الکبیر للرازی: ج30 ص200)
ترجمہ: جان لیجیے کہ جمہور اھل السنۃ اس آیت کودلیل بناتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ مؤمنین کو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کا دیدار ہو گا۔
(۲): قرآن مجید میں ہے:
﴿لِلَّذِيْنَ اَحْسَنُوا الْحُسْنٰى وَزِيَادَةٌ﴾.
(سورۃ یونس: 26)
ترجمہ: جن لوگوں نے اچھے کام کیےتو بہترین حالت انہی کی ہو گی اور اس سے بڑھ کر کچھ اور بھی!
اس آیت میں موجود الفاظ ”حُسنیٰ“ اور ”زیادۃ“ کی تفسیر خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ”جنت“ اور ”زیارت باری تعالیٰ“ سے فرمائی ہے۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إِنَّ اللهَ يَبْعَثُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مُنَادِيًا يُنَادِيْ: يَا أَهْلَ الْجنَّةِ -بِصَوْتٍ يَسْمَعُهٗ أَوَّلُهُمْ وَآخِرُهُمْ -إِنَّ اللهَ وَعَدَكُمُ الْحُسْنىٰ وَزِيَادَةً فَالْحُسْنىٰ الْجَنَّةُ وَالزِّيَادَةُ النَّظْرُ إِلٰى وَجْهِ الرَّحْمٰنِ․
(تفسیر الدر المنثور: ج3 ص574)
ترجمہ: اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ایک منادی سے بلند آواز میں یہ اعلان کروائے گا کہ اے جنت والو! اللہ تعالیٰ نے تم سے جو ”حُسنیٰ“ اور ”زیادۃ“ کا وعدہ فرمایا تھا تو وہ حسنیٰ جنت ہے اور زیادہ؛ رحمٰن کا دیدار ہے۔
(۳): قرآن مجید میں ہے:
﴿عَلَى الْاَرَاۗئِكِ يَنْظُرُوْنَ﴾.
(المطففین: 23)
ترجمہ: (جنتی) آرام دہ نشستوں پر بیٹھے نظارہ کر رہے ہوں گے۔
حافظ ابو الفداء اسماعیل بن عمر بن کثیر دمشقی شافعی (ت774ھ) اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
﴿عَلَى الْاَرَاۗئِكِ يَنْظُرُوْنَ﴾ أَیْ إِلَی اللہِ عَزَّ وَجَلَّ.
(تفسیر ابن کثیر: ج6 ص417)
ترجمہ: جنتی لوگ آرام دہ نشستوں پر بیٹھ کر اللہ رب العزت کا دیدار کریں گے۔
(۴): حضرت جریر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، فرماتے ہیں:
كُنَّا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذْ نَظَرَ إِلَى الْقَمَرِ لَيْلَةَ الْبَدْرِ فَقَالَ: "أَمَا إِنَّكُمْ سَتَرَوْنَ رَبَّكُمْ كَمَا تَرَوْنَ هٰذَا لَا تُضَامُّوْنَ فِي رُؤْيَتِهٖ".
(صحیح البخاری: ج1 ص81 باب فضل صلاۃ الفجر)
ترجمہ: ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر تھے، آپ علیہ السلام نے چودھویں رات کے چاند کو دیکھ کر فرمایا: تم اپنے رب کو ایسے دیکھو گے جیسے اس چاند کو دیکھ رہے ہو، اس کے نور و جمال کو دیکھنے میں کوئی دشواری پیش نہ آئے گی۔
(۵): حضرت صہیب رومی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
إِذَا دَخَلَ أَهْلُ الْجَنَّةِ الْجَنَّةَ قَالَ يَقُوْلُ اللّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالٰى تُرِيدُوْنَ شَيْئًا أَزِيْدُكُمْ؟ فَيَقُوْلُوْنَ: أَلَمْ تُبَيِّضْ وُجُوْهَنَا أَلَمْ تُدْخِلْنَا الْجَنَّةَ وَتُنَجِّنَا مِنْ النَّارِ قَالَ: فَيَكْشِفُ الْحِجَابَ، فَمَاأُعْطُوْا شَيْئًا أَحَبَّ إِلَيْهِمْ مِنْ النَّظَرِ إِلٰى رَبِّهِمْ․
(صحیح مسلم: ج1 ص100 کتاب الایمان․ باب اثبات رؤیۃ المؤمنین فی الآخرة)
ترجمہ: جب جنتی جنت میں داخل ہوچکیں گے تواللہ تبارک وتعالیٰ ان سے ارشاد فرمائیں گے: اگر تم لوگ کوئی اور نعمت چاہتے ہو تومیں تمہیں عطا کر دوں گا؟ جنتی لوگ عرض کریں گے: یا اللہ! کیا آپ نے ہمارے چہرے بارونق نہیں فرمائے؟ کیا آپ نے ہمیں جنت میں داخل نہیں کیا اور کیا دوزخ سے ہمیں نجات نہیں بخشی؟!آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ پھراللہ تعالیٰ پردہ ہٹائیں گے تو جنت والوں کوکوئی ایسی نعمت نہیں دی گئی جوان کواللہ تعالیٰ کے دیدار سے زیادہ محبوب ہوگی۔
سوال: رؤیت باری تعالیٰ کا عقیدہ قرآن مجید کے خلاف ہے۔قرآن مجید میں ہے:
﴿لَا تُدْرِكُهُ الْاَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْاَبْصَارَ﴾
(سورۃ الانعام: 103)
ترجمہ:آنکھیں اس (اللہ) کا احاطہ نہیں کر سکتیں اور وہ آنکھوں کا احاطہ کرتا ہے۔
جواب: احادیث میں جو رؤیت ثابت ہے وہ ”رؤیت بدون الاحاطہ“ ہے یعنی دیدار باری تعالیٰ تو ہو گا لیکن حق تعالیٰ شانہ کی ذات اور صفات کے کلی احاطہ کے بغیر ہو گا اور آیت میں جس رؤیت کی نفی ہے وہ ”رؤیت بالاحاطہ“ ہے یعنی باری تعالیٰ کو ذات و صفات کے احاطہ کے ساتھ دیکھنا ممکن نہیں ہے۔ امام فخرالدین ابو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسين الرازی الشافعی (ت606ھ) لکھتے ہیں:
اَلْمَرْئِيُّ إِذَا كَانَ لَهُ حَدٌّ وَنِهَايَةٌ وَأَدْرَكَهُ الْبَصَرُ بِجَمِيْعِ حُدُوْدِهٖ وَجَوَانِبِهٖ وَنِهَايَاتِهٖ صَارَ كَاَنَّ ذٰلِكَ الْإِبْصَارَ أَحَاطَ بِهٖ فَتُسَمّٰى هٰذِهِ الرُّؤْيَةُ إِدْرَاكًا أَمَّا إِذَا لَمْ يُحِطِ الْبَصَرُ بِجَوَانِبِ الْمَرْئِيِّ لَمْ تُسَمَّ تِلْكَ الرُّؤْيَةُ إِدْرَاكًا فَالْحَاصِلُ أَنَّ الرُّؤْيَةَ جِنْسٌ تَحْتَهَا نَوْعَانِ: رُؤْيَةٌ مَعَ الْإِحَاطَةِ وَرُؤْيَةٌ لَا مَعَ الْإِحَاطَةِ وَالرُّؤْيَةُ مَعَ الْإِحَاطَةِ هِيَ الْمُسَمَّاةُ بِالْإِدْرَاكِ فَنَفْيُ الْإِدْرَاكِ يُفِيْدُ نَفْيَ نَوْعٍ وَاحِدٍ مِنْ نَوْعَيِ الرُّؤْيَةِ وَنَفْيُ النَّوْعِ لَا يُوجِبُ نَفْيَ الْجِنْسِ فَلَمْ يَلْزَمْ مِنْ نَفْيِ الْإِدْرَاكِ عَنِ اللّه تَعَالٰى نَفْيُ الرُّؤْيَةِ عَنِ اللّه تَعَالٰى.
(التفسیر الکبیر: ج13 ص104 تحت تفسیر سورۃ الانعام)
ترجمہ: دیکھی جانے والی چیز کی جب حد اور انتہاء ہو اور دیکھنے والی نظر تمام حدود، اطراف اور انتہاؤں کو گھیر لے تو گویا اس نظر نے اس چیز کو گھیر لیا۔ اس دیکھنے کو ”ادراک“ کہا جاتا ہے، لیکن جب نظر؛ دیکھی جانے والی چیز کے اطراف کا احاطہ نہ کرے تو اس دیکھنے کا نام ادراک نہیں ہوتا۔ خلاصہ یہ ہے کہ دیکھنا ایک جنس ہے جس کے نیچے دو انواع ہیں، ایک دیکھنا احاطے کے ساتھ اور دوسرا دیکھنا بلا احاطہ کئے، صرف احاطے والے دیکھنے کو ”ادراک“ کہا جاتا ہے۔ اس لیے ادراک کی نفی سے دیکھنے کی ایک قسم کی نفی ثابت ہوئی اور ایک نوع کی نفی سے جنس کی نفی نہیں ہوتی۔ لہذا اﷲ کے ادراک کی نفی سے اﷲ کے دیکھنے کی نفی لازم نہیں آتی۔
تو اس آیت میں ”ادراک“ کی نفی ہے، ”رؤیت“ کی نفی نہیں ہے۔
فائدہ:
اھلِ ایمان کو رؤیت باری تعالیٰ کی نعمت تو جنت میں ملے گی لیکن امام الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے یہ نعمت اسی زندگی میں عطا فرمائی ہے۔
1: عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: "رَأَیْتُ رَبِّیْ عَزَّ وَجَلَّ.
(الخصائص الکبریٰ للسیوطی: ج1ص267)
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے اپنے رب کو دیکھا ہے۔
2: عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: . . . . وَفُتِحَ لِيْ بَابٌ مِنْ أَبْوَابِ السَّمَآءِ وَرَأَيْتُ النُّوْرَ الْأَعْظَمَ․
(مسند البزار: ج14 ص10 رقم الحدیث 7389)
ترجمہ: حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ (طویل حدیث معراج نقل کرتے ہوئے) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے لیے آسمان کے دروازے کھولے گئے اور میں نے(آگے جا کر) نورِ اعظم (اللہ تعالیٰ کے نور) کو دیکھا ہے۔
3: عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ أَنَّ مُحَمَّدًا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَأَىٰ رَبَّهٗ تَبَارَكَ وَتَعَالٰى.
(مسند البزار: ج13 ص426 رقم الحدیث 7165)
ترجمہ:حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب تبارک وتعالیٰ کو دیکھا ہے۔
4: وَحَكَى ابْنُ إِسْحَاقَ أَنَّ مَرْوَانَ سَأَلَ أَبَا هُرَيْرَةَ : هَلْ رَأَىٰ مُحَمَّدٌ رَبَّهٗ؟ فَقَالَ: نَعَمْ.
(الجامع لاحکام القرآن للقرطبی: ج1ص 1219 تحت تفسیر سورۃ الانعام)
ترجمہ: ابن اسحاق نے بیان کیا ہے کہ مروان نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا: کیا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا؟ انہوں نے فرمایا : ”ہاں‘‘
5: عَنِ الْمُبَارَكِ بْنِ فُضَالَةَ قَالَ: كَانَ الْحَسَنُ يَحْلِفُ بِاللهِ ثَلَاثَةً لَقَدْ رَأَىٰ مُحَمَّدٌ رَبَّهٗ.
ترجمہ: مبارک بن فضالہ کہتے ہیں کہ حضرت حسن بصری رحمہ اللہ تین مرتبہ اﷲ کی قسم اٹھا کر کہتے تھے کہ بے شک آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا ہے۔
6: امام ابو عبد اللہ محمد بن احمد الانصا ری القرطبی (ت671ھ) لکھتے ہیں:
وَإِلٰى هٰذَا ذَهَبَ الشَّيْخُ أَبُو الْحَسَنِ الْأَشْعَرِيُّ وَجَمَاعَةٌ مِنْ أَصْحَابِهٖ أَنَّ مُحَمَّدًا صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى اللهَ بِبَصَرِهٖ وَعَيْنَيْ رَأْسِهٖ، وَقَالَہٗ أَنَسٌ وَابْنُ عَبَّاسٍ وَعِكْرِمَةُ وَالرَّبِيْعُ وَالْحَسَنُ.
(الجامع لاحکام القرآن للقرطبی: ج1ص 1219)
ترجمہ: امام ابو الحسن اشعری اور ان کے شاگردوں کی ایک بڑی جماعت کا یہی موقف ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کو اپنے سر کی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ یہی موقف حضرت انس، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما، عکرمہ، ربیع اور حسن بصری رحمہم اللہ کا بھی ہے۔