عقیدہ 39

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
معراج
عقیدہ 39:
متن:
وَالْمِعْرَاجُ حَقٌّ وَقَدْ أُسْرِيَ بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلّمَ وَعُرِجَ بِشَخْصِهٖ فِي الْيَقَظةِ إِلَى السَّمَآءِ ثُمَّ إِلٰى حَيْثُ شَآءَ اللهُ مِنَ الْعُلٰى وَأكْرَمَهُ اللهُ بِمَا شَآءَ وَأوْحٰى إِلَيْهِ مَا أَوْحٰى ﴿مَا كَذَبَ الفُؤَادُ مَا رَاٰى﴾، فَصَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْآخِرَةِ وَالْأُوْلٰى.
ترجمہ: معراج برحق ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو رات کے وقت (مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک) لے جایا گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم مبارک کو بیداری کی
حالت میں آسمانوں تک لے جایا گیا، پھر وہاں سے بلندیوں کی طرف جہاں تک اللہ تعالیٰ نے چاہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچایا گیا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی چاہت کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو عزت بخشی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف جو وحی فرمانا چاہی، وہ وحی فرمائی۔ جو کچھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا دل نے اسے نہیں جھٹلایا۔ اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر آخرت اور دنیا میں رحمتیں نازل فرمائے۔
شرح:
معراج آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اعزاز بھی ہے اور اعجاز بھی ہے۔ اعزاز اس لیے ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے بعد کائنات کی سب سے بڑی ہستی ہیں اور ابو جہل اس کائنات کا سب سے گھٹیا انسان ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اتنا بڑا ہونے کے باوجود کائنات کے سب سے چھوٹے شخص کی زیادتی کو اللہ تعالیٰ کے لیے برداشت کیا ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس قربانی کا بدلہ یہ دیا کہ عرش جس کے اوپر کوئی اور مکان نہیں ،تک لے جا کر آپ کو عزت دی ہے ۔ یہ اعزاز ہے ۔
معراج؛ اعجاز بھی ہے کہ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایسی نشانی ہے جس نے دوسروں کو اس کی نظیر پیش کرنے سے عاجز کر دیا ہے ۔
سفر معراج نبوت کے گیارھویں سال میں ہوا۔ راجح قول کے مطابق رجب کی 27 ویں تاریخ تھی۔ یہ سفر دو حصوں پر مشتمل ہے:
1: مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک، اسے ”اسراء“ کہتے ہیں۔
2: بیت المقدس سے لے کر ملأ اعلیٰ تک، اسے ”معراج“ کہتے ہیں۔
پہلے حصے کا ذکر قرآن مجید میں ہے (سورۃ الاسراء:1) اور دوسرے حصےکا ذکر احادیث متواترہ میں ہے۔ مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک کا سفر براق کے ذریعے ہوا اور بیت المقدس سے آگے تک کا سفر سیڑھی کے ذریعے ہوا۔
اس سفر کا آغاز یوں ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ام ہانی کے گھر آرام فرما رہے تھے کہ یکایک چھت پھٹی اور حضرت جبرائیل علیہ السلام تشریف لائے۔ آپ کو جگایا اور مسجد حرام کی طرف لے گئے۔ وہاں جا کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم حطیم کعبہ میں لیٹے اور سو گئے۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے آپ کو بیدار کیا اور زمزم کے کنویں پر لے گئے۔ وہاں لٹا کر آپ کے سینہ کو چاک کیا اور قلب مبارک کو نکالا اور زمزم کے پانی سے دھویا۔ ایک سونے کا تشت لایا گیا جس میں ایمان و حکمت بھرا ہوا تھا۔اس ایمان و حکمت سے آپ کے سینے کو بھر دیا گیا اور سینہ کو سی دیا گیا۔ بعد ازاں براق لایا گیا اور آپ کو اس پر سوار کیا گیا۔ براق پر سفر شروع ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیت اللہ سے بیت المقدس پہنچے۔ اس دوران آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ، مدین، طور سیناء اور بیت اللحم اترے اور جبرائیل امین علیہ السلام کے کہنے پر ان مقامات میں دو دو رکعت نماز ادا فرمائی۔
اس زمینی سفر میں کئی واقعات پیش آئے۔ صحیح مسلم میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: معراج کی رات میرا گزرحضرت موسیٰ علیہ السلام پر ہوا، میں نے دیکھا کہ وہ اپنی قبر میں کھڑے ہو کرنماز پڑھ رہے تھے۔ اسی راستہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ایسی قوم پر ہوا جن کے ناخن تانبے کے تھے اور وہ ان ناخنوں کے ساتھ اپنے چہروں اور سینوں کو چھیل رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جبرائیل سے پوچھا کہ یہ کون ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ یہ غیبت کرنے والے لوگ ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو دیکھا جو نہر میں تیر رہا تھا اور پتھروں کو لقمہ بنا بنا کر کھا رہاتھا۔ پوچھنے پر حضرت جبرائیل امین نے بتایا کہ یہ سود خور ہے۔ غرض اس طرح کے کئی واقعات پیش آئے۔
بیت المقدس پہنچنے پر دو رکعت تحیۃ المسجد پڑھی۔ تمام انبیاء علیہم السلام پہلے ہی سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے انتظار میں موجود تھے۔ ایک مؤذن نے اذان دی، پھر اقامت کہی۔ تمام انبیاء علیہم السلام صف باندھ کر انتظار میں کھڑے تھے کہ کون امامت کرے گا؟! حضرت جبرائیل امین نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ پکڑ کر آگے بڑھایا۔ تمام انبیاء علیہم السلام نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء میں نماز ادا کی۔ انبیاء علیہم السلام کی یہ نماز روح مع الجسد تھی۔
اس کے بعد حضرت جبرائیل اور دیگر ملائکہ کے ہمراہ آسمانوں کی طرف عروج فرمایا۔ آسمانوں پر مختلف انبیاء علیہم السلام سے ملاقات ہوئی۔ پہلے آسمان پر حضرت آدم علیہ السلام، دوسرے آسمان پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام، تیسرے آسمان پر حضرت یوسف علیہ السلام، چوتھے آسمان پر حضرت ادریس علیہ السلام، پانچویں آسمان پر حضرت ہارون علیہ السلام، چھٹے آسمان پر حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ساتویں آسمان پر حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ملاقات ہوئی۔ بعد ازاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سدرۃ المنتہیٰ کی طرف لے جایا گیا جو ساتویں آسمان پر ایک بیری کا درخت ہے۔ زمین سے جو چیز اوپر جاتی ہے وہ سدرۃ المنتہیٰ پر جا کر رک جاتی ہے پھر وہاں سے اوپر اٹھائی جاتی ہے اور ملأ اعلیٰ سے جو چیز اترتی ہے وہ سدرۃ المنتہیٰ پر آ کر ٹھہر جاتی ہے، پھر وہاں سے نیچے اترتی ہے۔ اس مقام پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جبرائیل امین کو ان کی اصلی صورت میں دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حق جل مجدہ کے عجیب وغریب انوارات و تجلیات کا مشاہدہ کیا اور بے شمار فرشتے اور سونے کے پتنگے دیکھے جو سدرۃ المنتہیٰ کو گھیرے ہوئے تھے۔ سدرۃ المنتہی کے بعد آپ کو جنت اور جہنم دکھائی گئی۔ اس کے بعد مقام صریف الاقلام پر پہنچے۔لکھنے کے وقت قلم کی جو آواز پیدا ہوتی ہے اسے صریف الاقلام کہتے ہیں۔ ملائکہ امور الٰہیہ کی کتابت کر رہے تھے اور احکام خداوندی کو لوحِ محفوظ سے نقل کر رہے تھے۔
مقامِ صریف الاقلام سے آگے چل کر حجاب طے کرتے ہوئے بارگاہِ قدس میں پہنچے، یہاں دیدار خداوندی اور بلا واسطہ ہمکلامی کا شرف حاصل ہوا۔ یہ زیارت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی آنکھوں سے کی ہے۔ اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تین چیزیں تحفہ دیں؛ (۱) پانچ وقت کی نمازیں، (۲) خواتیم سورۃ البقرۃ یعنی سورۃ البقرہ کی آخری آیتوں کا مضمون اور (۳) یہ کہ آپ کی امت میں سے جو شخص اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائے تو اللہ تعالیٰ اس کے کبیرہ گناہوں سے درگزر فرمائے گا یعنی کبیرہ گناہوں کے مرتکب کو کفار کی طرح ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنم میں نہ ڈالے گا بلکہ اپنے فضل وکرم سے سزا دیے بغیر یا قانونِ عدل سے سزا دے کر جنت میں داخل فرما دے گا۔
اس کے بعد آسمانوں سے واپسی ہوئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اولاً بیت المقدس میں اترے۔ وہاں سے براق پر سوار ہو کر صبح ہونے سے پہلے ہی مکہ پہنچ گئے۔ صبح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ واقعہ قریش کے سامنے بیان کیا تو لوگ حیران ہو گئے، بعض نے تالیاں بجائیں اور ازراہِ تعجب کہا کہ ایک رات میں اتنا لمبا سفر کیسے طے ہو سکتا ہے؟! جن لوگوں نے بیت المقدس دیکھا ہوا تھا تو وہ اس کے متعلق سوال کرنے لگے۔ اللہ تعالیٰ نے حجابات اٹھا کر بیت المقدس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نظروں کے سامنے کر دیا اور آپ نے ان لوگوں کے سوالات کے صحیح صحیح جوابات دیے۔