عقیدہ 45

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
تقدیر
عقیدہ 45:
متن:
وَأَصْلُ الْقَدَرِ سِرُّ اللهِ تَعَالٰى فِي خَلْقِهِ لَمْ يَطَّلِعْ عَلٰى ذٰلِكَ مَلَكٌ مُقَرَّبٌ وَلَا نَبِيٌّ مُرْسَلٌ وَالتَّعَمُّقُ وَالنَّظَرُ فِيْ ذٰلِكَ ذَرِيْعَةُ الْخِذْلَانِ وَسُلَّمُ الْحِرْمَاِن وَدَرَجَةُ الطُّغْيَانِ فَالْحَذَرَ كُلَّ الْحَذَرِ مِنْ ذٰلِكَ نَظَرًا وَفِكْرًا وَوَسْوَسَةً فَإِنَّ اللهَ تَعَالٰى طَوَىٰ عِلْمَ الْقَدَرِ عَنْ أَنَامِهٖ وَنَهَاهُمْ عَنْ مَرَامِهٖ كَمَا قَالَ تَعَالٰى فِيْ كِتَابِهٖ: ﴿ لَا يُسْئَلُ عَمَّا يَفْعَلُ وَهُمْ يُسْئَلُوْنَ﴾ فَمَنْ سَأَلَ: "لِمَ فَعَلَ؟" فَقَدْ رَدَّ حُكْمَ الْكِتَابِ وَمَنْ رَدَّ حُكْمَ الْكِتَابِ كَانَ مِنَ الْكَافِرِيْنَ.
ترجمہ: مخلوق کے بارے میں تقدیر دراصل اللہ کا ایک راز ہے جس کا علم نہ کسی مقرب فرشتے کو ہے اور نہ پیغمبر ورسول کو۔ تقدیر کے معاملات میں غور وفکر اور سوچ وبچار کرنا رسوائی کا سبب،محرومی کا زینہ اور سرکشی کا(پہلا ) درجہ ہے۔ اس لیے تقدیر کے بارے میں غور وفکرکرنے اور خیال ووہم سے کام لینے سے بالکل بچنا چاہیے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے تقدیر کا علم بندوں سےمخفی رکھا ہے اور لوگوں کو اس کے حصول سے بھی منع فرمادیا ہے ۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ اپنی کتاب میں فرماتے ہیں: اللہ تعالیٰ جو کرے اس بارے میں اس سے نہیں پوچھا جاتا اور بندوں سے ان کے کیے کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ اس لیے جو شخص یہ پوچھے کہ اللہ تعا لیٰ نے ایسا کیوں کیا ؟تو اس نے کتاب اللہ کے اس حکم کو نہیں مانااور جو حکم قرآنی کو نہ مانے وہ کافر ہے ۔
شرح:
تقدیر پر یقین کامل رکھنے والے شخص کو کم از کم چار فوائد ضرور حاصل ہوتے ہیں :
1: اس شخص کے لیے مصیبت پر صبر کرنا آسان ہو جاتا ہے ۔
2: جائز اسباب اختیار کرتاہے اورناجائز اسباب سے اجتناب کرتا ہے کیونکہ اسے یقین ہے کہ جو میرے مقدر میں لکھا گیا ہے وہ مجھے ضرور ملے گا تو ناجائز اسباب کیوں اختیار کروں؟!
3: یہ شخص اپنی خداداد خوبی اور اچھائی پر تکبر نہیں کرتا ۔
4: ایسا شخص اسباب جمع تو کرتا ہے لیکن ان پر بھروسہ نہیں کرتا بلکہ بھروسہ مسبب الاسباب پر کرتا ہے ۔