عقیدہ 51

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
عقیدہ 51:
متن:
مُحِيْطٌ بِكُلِّ شَىْءٍ وَ بِمَا فَوْقَهٗ وَقَدْ أَعْجَزَ عَنِ الْإِحَاطَةِ خَلْقَهٗ.
ترجمہ: اللہ تعالیٰ ہر چیز کا اور جو اس چیز کے اوپر ہے اس کا احاطہ کرنے والا ہے اور اس نے مخلوق کو اپنے احاطہ کرنے سے عاجز کر دیا ہے۔
شرح:
امام طحاوی رحمۃ اللہ علیہ کی غرض احاطہ ذاتی، قرب ذاتی اور معیت ذاتیہ کو ثابت کرنا ہے۔ عبارت میں ”مُحِيْطٌ“ کا عطف ”مُسْتَغْنٍ“ پر ہے۔ دونوں کا تعلق ”هُوَ“ کے ساتھ ہے اور ”هُوَ“ سے مراد ذات ہے۔ لہذا جس طرح ذات باری تعالیٰ عرش اور غیر عرش سے مستغنی ہے اسی طرح وہی ذات تمام اشیاء کو محیط بھی ہے۔
 ﴿وَكَانَ اللّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ مُّحِيْطًا﴾.
(النساء: 126)
ترجمہ: اور اللہ تعالیٰ چیز کو محیط ہے۔
 ﴿اَلَا اِنَّهٗ بِكُلِّ شَيْءٍ مُّحِيْطٌ﴾.
(فصلت: 54)
ترجمہ: آگاہ رہو کہ بے شک وہ ہر چیز کا احاطہ کرنے والا ہے۔
ذات باری تعالیٰ اور صفات باری تعالیٰ میں چونکہ تلازم ہے کہ یہ ایک دوسرے سے الگ نہیں ہو سکتیں اس لیے ذات و صفات دونوں کو معیت حاصل ہے یعنی اللہ تعالیٰ کے لیے معیت ذاتیہ، احاطہ ذاتیہ اور قرب ذاتی ثابت ہے اور معیت علمیہ، احاطہ علمیہ اور قرب علمی بھی ثابت ہے۔
یہ بات بھی واضح رہے کہ معیت، قرب اور احاطہ سے مراد ”ذاتی“ لیا جائے اور بلا کیفیت لیا جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں لیکن اس معیت، قرب اور احاطہ کی کیفیات بیان کی جائیں یا ایسی معیت کا عقیدہ رکھا جائے جو جسم کو جسم کے ساتھ ہوتی ہے تو یہ عقیدہ مجسمہ فرقے کا ہے۔ اھل السنۃ والجماعۃ اس عقیدہ تجسیم یا معیت بالکیفیات کے عقیدہ سے بری ہیں۔ اس لیے معیت ذاتیہ، قرب ذاتی اور احاطہ ذاتی بلا کیفیت کا عقیدہ ہی اھل السنۃ والجماعۃ کا عقیدہ ہے۔
معیت، قرب اور احاطہ کے ذاتی مراد ہونے پردرج ذیل علماء کی نصوص ملاحظہ ہوں:
(1): علامہ علی بن احمد بن ابراہیم المہایمی الہندی (ت835ھ) آیت
﴿وَنَحْنُ أَقْرَبُ اِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيْدِ﴾
کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
﴿وَنَحْنُ أَقْرَبُ اِلَيْهِ﴾ لَا بِالْمَکَانِ وَلَا بِالزَّمَانِ وَلَا بِالرُّتْبَۃِ بَلْ بِالذَّاتِ مِنْ غَیْرِ اخْتِلَاطٍ وَلَا حُلُوْلٍ وَلَا اتِّحَادٍ․
(تفسیر تبصیر الرحمٰن: ج2 ص293)
ترجمہ: {ہم بندے کی شہ رگ سے زیادہ قریب ہیں} اللہ کا یہ قرب مکان، زمان اور رتبہ کے اعتبار سے نہیں بلکہ ذات کے اعتبار سے ہے لیکن اختلاط، حلول اور اتحاد کے بغیر ہے۔
(2): علامہ ناصر الدین ابو سعید عبد اللہ بن عمر شیرازی البیضاوی (ت685ھ) آیت
﴿وَنَحْنُ أَقْرَبُ اِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيْدِ﴾
کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
تَجُوْزُ بِقُرْبِ الذَّاتِ لِقُرْبِ الْعِلْمِ لِأَنَّهٗ مُوْجِبُہٗ․
(تفسیر البیضاوی: ج2 ص422)
ترجمہ: اس مقام پر قرب علمی کی وجہ سے قرب ذاتی مراد لینا بھی درست ہے کیونکہ قرب علمی کو قرب ذاتی لازم ہے۔
(3): علامہ ابو العباس احمد بن محمد بن المہدی الفاسی (ت 1224ھ) آیت
﴿وَهُوَ مَعَكُمْ اَيْنَ مَا كُنْتُمْ﴾
کے تحت لکھتے ہیں:
﴿وَهُوَ مَعَكُمْ اَيْنَ مَا كُنْتُمْ﴾ بِالْعِلْمِ وَالْقُدْرَةِ وَالْإِحَاطَةِ الذَّاتِيَّةِ․
(البحر المدید: ج7 ص309)
ترجمہ: { تم جہاں کہیں ہو اللہ تمہارے ساتھ ہے } یعنی اپنے علم، قدرت اور احاطہ ذاتی کے اعتبار سے تمہارے ساتھ ہے۔
علامہ الفاسی مزید لکھتے ہیں:
وَهُوَ مَعَكُمْ اَيْنَ مَا كُنْتُمْ بِذَاتِهٖ وَصِفَاتِهٖ عَلٰى مَا يَلِيْقُ بِجَلَالِ قُدْسِهٖ وَكَمَالِ كِبْرِيَائِهٖ ؛ إِذِ الصِّفَةُ لَا تُفَارِقُ الْمَوْصُوْفَ فَإِذَا كَانَتِ الْمَعِيَّةُ بِالْعِلْمِ لَزِمَ أَنْ تَكُوْنَ بِالذَّاتِ ، فَافْهَمْ ، وَسَلِّمْ إِنْ لَمْ تَذُقْ.
(البحر المدید: ج7 ص311)
ترجمہ: تم جہاں کہیں ہو اللہ اپنی ذات اور صفات کے اعتبار سے تمہارے ساتھ ہے جیسا کہ اس کی عظمت ِ شان اور کمال کبریائی کے لائق ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ صفت موصوف سے کبھی جدا نہیں ہوتی۔ جب اللہ کی معیت علم کے ساتھ ہو تو ذات کے اعتبار سے معیت ضرور ہو گی۔ اس بات کو خوب اچھی طرح سمجھ لیجیے اور اگر ذوق (سلیم) نہ ہو تو (خدا کے) سپرد کر دیجیے!
علامہ فاسی آیت
﴿وَنَحْنُ أَقْرَبُ اِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيْدِ﴾
کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
﴿وَنَحْنُ أَقْرَبُ اِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيْدِ﴾ أَيْ : أَنَا أَقْرَبُ إِلٰى كُلِّ أَحَدٍ مِنْ عُرُوْقِ قَلْبِهٖ ، وَهٰذَا لِأَنَّ قِيَامَ الْفِعْلِ بِالصِّفَاتِ ، وَالصِّفَاتُ لَا تُفَارِقُ الذَّاتَ ، فَالْقُرْبُ بِالْعِلْمِ وَالْقُدْرَةِ ، وَتَسْتَلْزِمُ الْقُرْبَ بِالذَّاتِ ․
(البحر المدید: ج7 ص177)
ترجمہ: {ہم بندے کی شہ رگ سے زیادہ قریب ہیں} یعنی میں (اللہ) ہر شخص کی رگ جان سے بھی زیادہ قریب ہوں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ فعل (یعنی قریب ہونے) کا قیام صفات کے ذریعے ہوتا ہے اور صفات ؛ذات سے جدا نہیں ہوتیں۔ تو یہاں جو قرب ہے وہ علم اور قدرت (صفات) کے اعتبار سے ہے جو قرب ذاتی کو مستلزم ہے۔
(4): قاضی ثناء اللہ پانی پتی (م1225ھ) آیت
﴿إِنَّ اللَّهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْا وَالَّذِينَ هُمْ مُحْسِنُونَ﴾
کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
فَاللهُ مَعَهُمْ بِالْوِلَايَةِ وَالْفَضْلِ وَالْعَوْنِ وَالنَّصْرِ وَمَعِيَّةٌ ذَاتِيَةٌ لَا كَيْفَ لَهَا․
(التفسیر المظہری ج5ص392)
ترجمہ: اللہ تعالیٰ دوستی، فضل و کرم، مدد ونصرت کے اعتبار سے ان کے ساتھ ہے اور یہ معیت ذاتی ہے جس کی کوئی کیفیت نہیں۔
(5): قطب الارشاد حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی (ت1323ھ) فرماتے ہیں:
’’حق تعالیٰ باوجود وراء الوراء کے قریب عبد کے ہے
وَھُوَ مَعَکُمْ اَیْنَ مَا کُنْتُمْ،
ایسے تشاویش کی ضرورت نہیں اور
مَعَکُمْ
علم سے معیت تعبیر کرنا کچھ حاجت نہیں،
ھُوَ
ضمیر ذات ہے، جہاں علم وہاں ذات، پس تکلف کی کیا حاجت ہے ؟ حق تعالیٰ فوق تحت سے بری ہے، فوق اور تحت اور ہر جاموجود ہے، عروج روح و قلب کا فوق کی جانب اس خیال سے نہیں ہے کہ حق تعالیٰ فوق العرش ہے، نہیں! سب جگہ ہے، قلب مومن کے اندر بھی ہے، پس فوق کا خیال مت کرو ۔‘‘
(مکاتیب رشیدیہ :ص 42)
(6): حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی (م1362ھ) ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں:
وَلَوْاُرِیْدَ بِھَا الْمَعِیَّۃُ غَیْرُ الْمُتَکَیَّفَۃِ فَلَا مَحْذُوْرَ فِی الْقَوْلِ بِھَا وَالْاِمْتِنَاعِ فِی اجْتِمَاعِھَا بِالْاِسْتِوَائِ لِاَنَّ الذَّاتَ لَیْسَتْ بِمُتَنَا ھِیَۃٍ وَالْمَعِیَّۃُ لَیْسَتْ بِمُتَکَیَّفَۃٍ ․
(بوادر النوادر: ص50، 51)
ترجمہ: اگر معیت ذاتیہ سے مراد ’’معیت بلاکیف‘‘ لی جائے تو اس نظریہ کا قائل ہونے میں کوئی حرج نہیں ‘اور معیتِ غیر متکیفہ کو استواء (علی العرش) کے ساتھ جمع کرنا ممتنع بھی نہیں ہے ، اس لیے کہ ذات باری تعالیٰ متناہی نہیں اور معیت متکیفہ نہیں۔
حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ آیت
﴿وَاللّهُ مُحِيطٌ بِالْكٰفِرِيْنَ﴾
کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
”اس میں دلیل ہے قولِ صوفیہ کی کہ حق تعالیٰ اپنی مخلوق کو ذاتاً محیط ہے بدون اتصال اور کسی کیفیت کے نہ محض علم ہی سے محیط ہے۔“
(تفسیر بیان القرآن: ج1 ص22)
(7): حضرت مولانا عبد الحق حقانی رحمۃ اللہ علیہ (بانی دار العلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک پشاور) ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں:
”اللہ تعالیٰ کے لیے کائنات کے ساتھ معیت ذاتی وعلمی ماننے میں کوئی تضاد نہیں کیونکہ معیت علمی سے خود معیت ذاتی متحقق ہو جاتی ہے۔“
(فتاویٰ حقانیہ: ج2 ص270)
(8): مفتی محمد فرید رحمۃ اللہ علیہ (دار العلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک پشاور) ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں:
”معیت علمی اور معیت ذاتی کما یلیق بشانہ تعالیٰ میں کوئی تضاد نہیں ہے۔“
(فتاویٰ فریدیہ: ج1 ص392)
(9): امام اھل السنۃ حضرت مولانا محمدسرفراز خان صفدر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
">﴿وَهُوَ مَعَكُمْ اَيْنَ مَا كُنْتُمْ﴾

تم جہاں کہیں بھی ہو وہ تمہارے ساتھ ہے، ایسا نہیں ہے کہ عرش پر ہے اور ساتھ نہیں ہے، وہ ہر ایک کے ساتھ ہے، علم کے لحاظ سے، قدرت کے لحاظ سے، ذات کے لحاظ سے جو اس کی شان کے لائق ہے۔

(تفسیر ذخیرۃ الجنان: ج4 ص239)
(9): مفسر قرآن حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
”اللہ تعالیٰ وجود اور ذات کے اعتبار سے قریب ہے، علم اور قدرت کے اعتبار سے بھی خدا تعالیٰ قریب ہے۔“
(معالم العرفان فی دروس القرآن: ج3 ص 200)
سوال: بہت سے علماء صرف معیتِ وصفیہ کے قائل ہیں۔
جواب: معیت وصفیہ ثابت ہونے سے معیت ذاتیہ خود بخود ثابت ہو جاتی ہے کیونکہ ذات اور صفات میں تلازم ہے کہ جہاں ذات وہاں وصف۔