عقیدہ 52

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
انبیاء علیہم السلام، ملائکہ اور آسمانی کتب
عقیدہ 52:
متن:
وَنَقُوْلُ: إِنَّ اللهَ اتَّخَذَ إِبْرَاهِيْمَ خَلِيْلًا وَكَلَّمَ مُوسٰى تَكْلِيمًا إِيْمَانًا وَتَصْدِيْقًا وَتَسْلِيْمًا.
ترجمہ: ہمارا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خلیل بنایا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کو شرف کلام سے نوازا۔ اس بات پر ہمارا ایمان ہے اور ہم اس کی تصدیق کرتے اور اسے تسلیم کرتے ہیں۔
شرح:
حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لیے ”خلت“ اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے لیے ”ہمکلامی“ قرآنی نصوص سے ثابت ہے اور ہمارا اس پر ایمان ہے۔ ارشاد باری ہے:
 ﴿وَاتَّخَذَ اللهُ اِبْرَاهِيْمَ خَلِيْلًا﴾.
(النساء: 125)
ترجمہ: اللہ نے حضرت ابراہیم کو خلیل بنایا۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کے لیے فرمایا:
 ﴿ وَكَلَّمَ اللّهُ مُوْسٰى تَكْلِيْمًا﴾.
(النساء: 164)
ترجمہ: اور اللہ نے موسیٰ علیہ السلام سے کلام کیا۔
فائدہ نمبر1: حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لَوْ كُنْتُ مُتَّخِذًا خَلِيْلًا لَاتَّخَذْتُ أَبَا بَكْرٍ خَلِيْلًا وَلٰكِنَّهٗ أَخِىْ وَصَاحِبِىْ․
(صحیح مسلم: ج2 ص273 کتاب فضائل الصحابۃ. باب مِنْ فَضَائِلِ أَبِى بَكْرٍ الصِّدِّيقِ)
ترجمہ: اگر میں کسی کو خلیل بناتا تو ابو بکر کو بناتا لیکن وہ تو میرے بھائی اور ساتھی ہیں۔
اس حدیث میں لفظ ”خلیل“ خلت سے ہے جس کا معنی ہے ”حاجت“۔ اب
حدیث کا معنی یہ ہے کہ اگر میں کسی کو اپنا خلیل بناتا کہ اپنی ساری ضروریات اس سے پوری کرتا اور تمام مشکلات میں اس سے رجوع کرتا تو اس کے لیے میری نظر میں ابوبکر سے بہتر شخص کوئی نہیں لیکن میں چونکہ اپنی تمام حاجات اللہ کے سامنے رکھتا ہوں اس لیے میں خلیل؛ اللہ تعالیٰ ہی کو سمجھتا ہوں اور ابو بکر کو دوست سمجھتا ہوں۔
اور قرآن مجید میں جہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ”خلیل“ کہا گیا ہے تو وہاں خلیل کا لفظ خلت بمعنی خصلت سے ہے یعنی حضرت ابراہیم علیہ السلام میں اللہ نے خصال حسنہ جمع فرما دی تھیں، یا لفظ تخلل سے ہے بمعنی داخل ہونا کہ ابراہیم علیہ السلام کے رگ و ریشہ میں اللہ کی محبت داخل ہو گئی تھی اس لیے آپ اللہ کے خلیل کہلائے۔
ملا علی قاری (ت1014ھ) نے ان معانی کو یوں بیان کیا ہے:
إِنَّ أَصْلَ التَّرْكِيْبِ مِنَ الْخَلَّةِ بِالْفَتْحِ وَهِيَ الْحَاجَةُ وَالْمَعْنٰى لَوْ كُنْتُ مُتَّخِذًا مِنَ الْخَلْقِ خَلِيْلًا أَرْجِعُ إِلَيْهِ فِي الْحَاجَاتِ وَأَعْتَمِدُ إِلَيْهِ فِي الْمُهِمَّاتِ (لَاتَّخَذْتُ أَبَا بَكْرٍ خَلِيْلًا) ، وَلٰكِنَّ الَّذِيْ أَلْجَأُ إِلَيْهِ وَأَعْتَمِدُ عَلَيْهِ فِيْ جُمْلَةِ الْأُمُوْرِ وَمَجَامِعِ الْأَحْوَالِ هُوَ اللّهُ تَعَالٰى وَإِنَّمَا سُمِّيَ إِبْرَاهِيْمُ عَلَيْهِ السَّلَامُ خَلِيْلًا مِنَ الْخَلَّةِ بِالْفَتْحِ الَّتِيْ هِيَ الْخَصْلَةُ فَإِنَّهٗ تَخَلَّقَ بِخِلَالٍ حَسَنَةٍ اخْتَصَّتْ بِهٖ أَوْ مِنَ التَّخَلُّلِ فَإِنَّ الْحُبَّ تَخَلَّلَ شِغَافَ قَلْبِهٖ.
(مرقاۃ المفاتیح: ج 11ص164)
ترجمہ: لفظ خلیل ”خلۃ“ سے مشتق ہے جس کا معنی ہے ”ضرورت“ اب حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اگر میں بندوں میں سے کسی کو خلیل بناتا کہ اپنی ساری ضروریات اس کے سامنے رکھتااوراپنی مشکلات میں اسی پر اعتماد کرتا تو ایسا شخص ابو بکر ہے لیکن تمام امور اور حالات میں جس کو میں اپنا ملجا و ماوی بناتا ہوں وہ اللہ تعالیٰ ہی کی ذات ہے۔ جہاں تک حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خلیل کہنے کا تعلق ہے تو وہاں لفظ خلیل ”خلۃ“ بمعنی خصلت سے مشتق ہے یعنی بعض خصلتیں ایسی تھی جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ خاص تھیں یا لفظ خلیل ”تخلل“ سے ہے (بمعنی داخل ہونا) کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دل میں بھی اللہ کی محبت جاگزین ہو گئی تھی۔
فائدہ نمبر2: حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ”کلیم اللہ“ ہونے کا معنی یہ ہے کہ آپ میں یہ خاص وصف تھا کہ جب اللہ تعالیٰ سے ہم کلام ہونا چاہتے تو کوہِ طور پر چلے جاتے اور اللہ تعالیٰ سے گفتگو فرما لیتے۔