عقیدہ 56

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
عقیدہ 56:
متن:
وَلَا نُجَادِلُ فِي الْقُرْآنِ وَنَشْهَدُ أَنَّهٗ كَلَامُ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ نَزَلَ بِهِ الرُّوْحُ الْأَمِيْنُ فَعَلَّمَهٗ سَيِّدَ الْمُرْسَلِيْنَ مُحَمَّدًا صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ كَلَامُ اللهِ تَعَالٰى لَا يُسَاوِيْهِ شَىْءٌ مِنْ كَلَامِ الْمَخْلُوْقِيْنَ وَلَا نَقُوْلُ بِخَلْقِ الْقُرْآنِ وَلَا نُخَالِفُ جَمَاعَةَ الْمُسْلِمِيْنَ.
ترجمہ: ہم قرآن کریم کے بارے میں جھگڑا نہیں کرتے بلکہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ یہ رب العالمین کا کلام ہے جو حضرت جبرائیل امین علیہ السلام لے کر نازل ہوئے اور جبرائیل امین علیہ السلام کے ذریعے اللہ نے یہ کلام سید المرسلین حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو سکھایا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا کلام ایسا ہے کہ مخلوق کے کلام میں سے کوئی کلام اس کی برابری نہیں کر سکتا۔ ہم قرآن کے مخلوق ہونے کے قائل نہیں ہیں اور مسلمان جس مسئلہ پر جمع ہو جائیں ہم اس کی مخالفت نہیں کرتے۔
شرح:
نبی کا معلم خود اللہ تعالیٰ ہے۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام؛ اللہ تعالیٰ اور پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان واسطہ ہیں کہ اللہ کا کلام پیغمبر تک پہنچاتے ہیں، اس لیے حضرت جبرائیل علیہ السلام معلم پیغمبر نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ ہی معلم پیغمبر ہیں۔
قرآن مجید اللہ کا کلام اور اللہ کی صفت ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات بھی ازلی ہے اور صفات بھی ازلی ہیں، اس لیے کلام بھی ازلی ہے اور مخلوق و حادث نہیں۔
وہ کلام جو اللہ تعالیٰ کی صفت ہے وہ ازلی ہے اور الفاظ و حروف سے مرکب نہیں ہے کیونکہ اگر اس کلام کو حروف و الفاظ سے مرکب مانا جائے تو ترکیب کا ضابطہ ہے کہ پہلے ایک حرف آتا ہے، اس کے بعد دوسرا ، یوں یکے بعد دیگرے حروف ظاہر ہوتے ہیں اور یہ صفت حادث کی ہے نہ کہ قدیم کی۔ اس لیے ثابت ہوا کہ اللہ کا کلام الفاظ و حروف سے مرکب نہیں۔ اللہ کے کلام کو ہم مخلوق ادا کرتے ہیں تو یہ ہمارا کلام الہی کو ادا کرنا الفاظ و حروف سے مرکب ہوتا ہے اور حادث ہوتا ہے۔ ہمارا پڑھنا یہ کلام اللہ نہیں بلکہ کلام اللہ پر دلیل ہے۔
خلاصہ یہ کہ کلام جو باری تعالیٰ کی صفت ہے وہ قدیم ہے اور ہمارا اس کلام کا تلفظ کرنا حادث ہے۔