عقیدہ 75

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
عقیدہ 75:
متن:
وَنَقُوْلُ: "اَللهُ أعْلَمُ" فِيمَا اشْتَبَهَ عَلَيْنَا عِلْمُهٗ.
ترجمہ: جن چیزوں کا علم ہم پر مشتبہ ہے تو ان کے بارے میں ہم یہی کہتے ہیں کہ اللہ ہی زیادہ جاننے والا ہے۔
شرح:
آیات کی دو قسمیں ہیں ؛ محکمات اور متشابہات
آیات محکمات ان آیات کو کہتے ہیں جن کا معنی ظاہر اور واضح ہے۔ ہم ان پر عمل پیر اہوتے ہیں۔آیات متشابہات وہ آیات ہیں جن کے معانی غیر واضح ہیں، عقلِ انسانی کی وہاں تک رسائی نہیں۔ ہم ان آیات میں تاویلات نہیں کرتے بلکہ ان کا معنی اللہ تعالیٰ کے حوالے کرتے ہیں۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿هُوَ الَّذِيْٓ اَنْزَلَ عَلَيْكَ الْكِتٰبَ مِنْهُ اٰيٰتٌ مُّحْكَمٰتٌ هُنَّ اُمُّ الْكِتٰبِ وَاُخَرُ مُتَشٰبِهٰتٌ فَاَمَّا الَّذِيْنَ فِيْ قُلُوْبِهِمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُوْنَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَآءَ الْفِتْنَةِ وَابْتِغَاۗءَ تَاْوِيْلِهٖ وَمَا يَعْلَمُ تَاْوِيلَهٗٓ اِلَّا اللّهُ وَالرَّاسِخُوْنَ فِي الْعِلْمِ يَقُوْلُوْنَ اٰمَنَّا بِهٖ كُلٌّ مِّنْ عِنْدِ رَبِّنَا وَمَا يَذَّكَّرُ اِلَّا اُولُوا الْاَلْبَابِ﴾.
(آل عمران: 7)
ترجمہ: وہی اللہ ہے جس نے تم پر یہ کتاب نازل کی ہے، اس میں کچھ آیات محکمات ہیں جو کتاب کی اصل بنیاد ہیں اور دوسری متشابہات ہیں۔ اب جن لوگوں کے دلوں میں ٹیڑھ ہے وہ فتنے کی تلاش میں ان متشابہات کے پیچھے پڑے رہتے ہیں اور ان کی تاویلات کرنے میں لگے رہتے ہیں حالانکہ ان آیتوں کا صحیح صحیح مطلب اللہ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا اور وہ لوگ جو علم میں پختہ کار ہیں وہ یہ کہتے ہیں کہ ہم ان پر ایمان لاتے ہیں۔ یہ سب کچھ ہمارے رب کی طرف سے ہے اور نصیحت وہی لوگ حاصل کرتے ہیں جو عقل والے ہیں۔
سوال: اگر متشابہات کا معنی اللہ تعالیٰ کے حوالے کرنا چاہیے تو بعض حضرات نے اس کا معنی کیوں کیا؟ جیسے ید کا معنی قدرت، عین کا معنی حفاظت اور ساق کا معنی شدت سے کیا ہے۔
جواب: متشابہات کا معنی درجہ یقین میں نہیں بلکہ درجہ ظن میں کیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اہلِ بدعت (مجسمہ،جو اللہ تعالیٰ کے لیے جسم مانتے ہیں ) جب ان الفاظ سے عوام الناس کو دھوکا دیتے اور اللہ تعالیٰ کے لیے اعضاء کو ثابت کرتے تو متاخرین اھل السنۃ والجماعۃ نے ان کا یہ معنی بیان کیا تاکہ عوام الناس فرقہ مجسمہ کے فتنے سے محفوظ رہ سکیں۔ علامہ کمال الدین محمد بن عبد الواحد الحنفی المعروف ابن الہمام (ت861ھ) فرماتے ہیں :
’’ھٰذَا التَّاوِیْلُ لِھٰذِہِ الْاَلْفَاظِ لِمَا ذَکَرْنَا مِنْ صَرْفِ فَھْمِ الْعَامَّۃِ عَنِ الْجِسْمِیَّۃِ وَھُوَ یُمْکِنُ اَنْ یُّرَادَ وَلَا یُجْزَ مَ بِاِرَادَتِہٖ‘‘
(المسایرۃ مع المسامرۃ لابن الہمام: ص 48الاصل الثامن)
ترجمہ : ان الفاظ کی یہ تاویل جو ہم نے ذکر کی ہے ‘ عوام کی فہم کو’’ عقیدۂ جسمیت‘‘ سے بچانے کے لیے ہے اور یہ ممکن ہے کہ (ان الفاظ کا تاویلی معنی) مراد لیا جائے اور اس پر جزم(یعنی یقین) نہ کیا جائے ۔
ید، عین، وجہ، ساق وغیرہ کلمات یہ اللہ تعالیٰ کی صفات ہیں۔ اگر ان کا معنی درجہ یقین میں بیان کیا جائے تو اس سے صفت باطل ہو جائے گی۔ درجہ ظن میں معنی بیان کرنے سے صفت بھی باطل نہیں ہوتی اور عوام الناس فرقہ مجسمہ کے فتنے سے بھی محفوظ ہو جاتے ہیں۔