عقیدہ 81

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
عقیدہ 81:
متن:
وَالْقَبْرُ رَوْضَةٌ مِنْ رِيَاضِ الْجَنَّةِ أَوْ حُفْرَةٌ مِنْ حُفَرِ النِّيْرَانِ.
ترجمہ: قبر جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہوتی ہے یا جہنم کے گڑھوں میں سے ایک گڑھا۔
شرح:
قبر میں جنت یا جہنم کا نظارہ کرایا جاتا ہے ۔اس لیے جنت کا باغ یا جہنم کا گڑھا کہنے سے مراد عرض جنت اور عرض جہنم ہے ۔
عقیدہ حیات الانبیاء علیہم السلام
تمام انبیاء علیہم السلام کے اجساد عنصریہ وفات کے بعد اپنی زمینی قبور مبارکہ میں روح کے تعلق کے ساتھ زندہ ہوتے ہیں۔
دلائل از قرآن مجید:
(1): ﴿وَلَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ يُّقْتَلُ فِيْ سَبِيْلِ اللهِ اَمْوَاتٌ بَلْ اَحْيَاءٌ وَّلٰكِنْ لَّا تَشْعُرُوْنَ﴾․
( البقرۃ :154)
ترجمہ: اور جو لوگ اللہ تعالیٰ کی راہ میں قتل کیے گئے اُن کو مردہ نہ کہو بلکہ وہ زندہ ہیں، لیکن تمہیں ان کی زندگی کا احساس نہیں ہوتا۔
حافظ ابو الفضل احمد بن علی ابن حجر عسقلانی الشافعی (ت852ھ) لکھتے ہیں :
وَإِذَا ثَبَتَ أَنَّهُمْ أَحْيَاءٌ مِنْ حَيْثُ النَّقْلِ فَإِنَّهٗ يُقَوِّيْهِ مِنْ حَيْثُ النَّظْرِ كَوْنُ الشُّهَدَاءِ أَحْيَاءً بِنَصِّ الْقُرْآنِ وَالْأَنْبِيَاءُ أَفْضَلُ مِنَ الشُّهَدَاءِ․
(فتح الباری: ج6ص595باب قول اللہ و اذکر فی الکتاب مریم)
ترجمہ: جب نقلی دلائل سے ان کا زندہ ہونا ثابت ہے تو عقلی دلائل بھی اس کی تائید کرتے ہیں(وہ اس طرح) کہ شہداء؛ نص قرآن کے رو سے زندہ ہیں اور انبیاء کرام علیہم السلام شہداء سے افضل ہیں (تو ان کو حیات بطریق اولیٰ حاصل ہو گی)
(2): ﴿وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِيْنَ قُتِلُوْا فِي سَبِيْلِ اللّهِ اَمْوَاتًا بَلْ اَحْيَاءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُوْنَ﴾.
(آل عمران: 169)
ترجمہ: جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل ہوئے ہیں انہیں مردہ نہ سمجھنا، بلکہ وہ زندہ ہیں، انہیں اپنے رب کے پاس رزق ملتا ہے۔
علامہ شمس الدین محمد بن عبدالرحمٰن سخاوی (ت902ھ) لکھتے ہیں:
وَمِنْ أَدِلَّةِ ذٰلِکَ أَیْضًاقَوْلُہٗ تَعَالٰی: ﴿وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِيْنَ قُتِلُوْا فِي سَبِيْلِ اللّهِ اَمْوَاتًا بَلْ اَحْيَاءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُوْنَ﴾ فَإِنَّ الشَّھَادَۃَ حَاصِلَۃٌ لَہٗ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلٰی أَتَمِّ الْوُجُوْہِ لِأَنَّہٗ شَھِیْدُ الشُّھَدَاءِ وَقَدْ صَرَّحَ ابْنُ عَبَّاسٍ وَابْنُ مَسْعُوْدٍ وَغَیْرُھُمَا رَضِيَ اللهُ عَنْهُمْ بِأَنَّہٗ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَاتَ شَھِیْدًا․
(القول البدیع للسخاوی: ص173 تحت العنوان: رسول اللہ حی علی الدوام)
ترجمہ: اوراس عقیدہ (حیاۃ النبی صلی اللہ علیہ و سلم) کے دلائل میں سے ایک دلیل اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِيْنَ قُتِلُوْا فِي سَبِيْلِ اللّهِ اَمْوَاتًا بَلْ اَحْيَاءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُوْنَ﴾
اس لیے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو شہادت کامل طور پر حاصل ہے، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم شہیدوں کے سردار ہیں اور حضرت ابن عباس اور حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہما نے اس بات کی تصریح کی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو شہادت کی موت عطا ہوئی ہے۔
(3): ﴿وَلَقَدْ اٰتَيْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ فَلَا تَكُنْ فِيْ مِرْيَةٍ مِّنْ لِّقَاۗئِهٖ﴾․
(السجدۃ:23)
ترجمہ: اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو کتاب دی، لہذا (اے نبی!) آپ ان کے
ملنےکے بارے میں کسی شک میں نہ رہیے۔
امام مسلم رحمہ اللہ نے حضرت امام قتادہ بن دعامہ (ت117ھ) سے اس آیت کی یہ تفسیر نقل کی ہے:
﴿ فَلَا تَكُنْ فِيْ مِرْيَةٍ مِّنْ لِّقَاۗئِهٖ﴾ قَالَ: كَانَ قَتَادَةُ يُفَسِّرُهَا أَنَّ نَبِيَّ اللهِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَدْ لَقِيَ مُوْسٰى عَلَيْهِ السَّلَامُ․
(صحيح مسلم: ج1 ص94، باب الاسراء برسول الله الخ)
ترجمہ: (یونس بن محمد فرماتے ہیں کہ) حضرت قتادہ اس آیت
﴿ فَلَا تَكُنْ فِيْ مِرْيَةٍ مِّنْ لِّقَاۗئِهٖ﴾
کی تفسیر یوں فرماتے تھے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نےحضرت موسیٰ علیہ السلام سے (سفر معراج میں) ملاقات کی ہے۔
(4): ﴿وَاسْئَلْ مَنْ أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رُّسُلِنَا﴾.
(الزخرف: 45)
ترجمہ: اور آپ سے پہلے جوپیغمبرہم نے بھیجے ہیں، آپ ان سے پوچھ لیجئے۔
حافظ عماد الدین اسماعیل بن خطیب ابن کثیر دمشقی شافعی (ت774ھ)اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
وَقَالَ عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ: وَاسْأَلْهُمْ لَيْلَةَ الْإِسْرَاءِ فَإِنَّ الْأَنْبِيَاءَ عَلَیْہِمُ الصَّلوٰۃُ وَ السَّلَامُ جُمِعُوْا لَهٗ․
(تفسیر ابن کثیر: ج4ص162)
ترجمہ: عبد الرحمن بن زید بن اسلم فرماتے ہیں کہ اس کلام
﴿وَاسْئَلْ مَنْ أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رُسُلِنَا﴾
کا تعلق معراج کی رات کے ساتھ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم معراج کی رات ان سے سوال کریں، اس لیے کہ انبیاء علیہم السلام کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے جمع کر دیا گیا تھا۔
(5): ﴿يٰاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَأَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ﴾․
(الحجرات: 2)
ترجمہ: اے ایمان والو! اپنی آوازیں نبی کی آواز سے بلند نہ کرو، اور نہ ان سے بات کرتے ہوئے اس طرح زور سے بولا کرو جیسے تم ایک دوسرے سے زور سے بولتے ہو، ایسانہ ہو کہ تمہارے اعمال برباد ہو جائیں اور تمہیں پتہ بھی نہ چلے۔
شارح ابوداؤد مولانا خلیل احمد سہارنپوری (ت1346ھ) فرماتے ہیں:
”آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم حیات ہیں اور ایسی آواز سے سلام کرنا بے ادبی اور آپ کی ایذاء کا سبب ہے۔ لہذا پست آواز سے سلام عرض کرنا چاہیے۔ مسجد نبوی کی حد میں کتنی ہی پست آواز سے سلام عرض کیا جائے اس کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خود سنتے ہیں۔“
(تذکرۃ الخلیل: ص370)
احادیث مبارکہ:
(1): عَنْ اَنَسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنہُ قَالَ:قَالَ رَسُوَلُ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَلْاَنْبِیَاءُ اَحْیَائٌ فِی قُبُوْرِھِمْ یُصَلُّوْنَ․
(مسندابی یعلی الموصلی: ص658 رقم الحدیث 3425 من حدیث انس بن مالک)
ترجمہ: حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: انبیاء علیہم السلام اپنی قبروں میں زندہ ہیں اور نمازیں پڑھتے ہیں۔
(2): عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنہُ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ
مَا مِنْ أَحَدٍ يُسَلِّمُ عَلَىَّ إِلَّا رَدَّ اللهُ عَلَىَّ رُوحِىْ حَتّٰى أَرُدَّ عَلَيْهِ السَّلَامَ․
(سنن ابی داؤد: ج1ص286 کتاب المناسک باب زیارۃ القبور)
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب بھی کوئی آدمی مجھ پر سلام بھیجتا ہے تو اللہ تعالیٰ میری روح مجھ پر لوٹا دیتا ہے (یعنی متوجہ کر دیتا ہے)یہاں تک کہ میں اس کے سلام کا جواب دیتا ہوں۔
(3): عَن اَوْسِ بْنِ اَوْسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: اِنَّ مِنْ اَفْضَلِ اَیَّامِکُمْ یَوْمَ الجُمُعَةِ فِیہِ خُلِقَ اٰدَمُ وَفِیْہِ قُبِضَ وَفِیْہِ النَّفْخَةُ وَفِیْہِ الصَّعْقَةُ فَاَکْثِرُوْاعَلَّیَ مِنَ الصَّلٰوْةِ فِیْہِ فَاِنَّ صَلٰوتَکُمْ مَعْرُوْضَةٌ عَلَّیَ قَالَ قَالُوْا: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ وَکَیْفَ تُعْرَضُ صَلاَ تُنَا عَلَیْکَ وَقَدْاَرَمْتَ قَالَ: یَقُوْلُوْنَ بَلَیْتَ، فَقَالَ: اِنَّ اللہَ عَزَّوَجَلَّ حَرَّمَ عَلَی الْاَرْضِ اَجسَادَالْاَنْبِیَائِ․
(سنن ابی داؤ د: ج1ص157 باب تفریع ابواب الجمعۃ)
ترجمہ: حضرت اوس بن اوس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارے دنوں میں بہتر جمعہ کا دن ہے، اسی دن آدم علیہ السلام پیدا ہوئے، اسی دن ان کا انتقال ہوا، اسی دن صور پھونکا جائے گا، اسی دن دوبارہ اٹھنا ہے اس لئے تم جمعہ کے دن مجھ پر کثرت سے درود پڑھا کرو کیونکہ تمہارا درود مجھ پر پیش کیا جاتا ہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہمارا درود آپ پر کیسے پیش کیا جائے گا جب کہ آپ تو ریزہ ریزہ ہو چکے ہوں گے؟! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے زمین پر حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کے اجساد حرام کردیئے ہیں ۔(یعنی زمین ان کو نہیں کھاتی)
(4): عَنْ أَبِيْ هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَنْ صَلّٰى عَلَيَّ عِنْدَ قَبْرِيْ سَمِعْتُهُ وَمَنْ صَلّٰى عَلَيَّ نَائِيًا أُبْلِغْتُهُ"
(شعب الایمان للبیہقی: ج2ص218 باب فی تعظیم النبی صلی اللہ علیہ و سلم و اجلالہ)
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص میری قبر کے پاس مجھ پر درود پڑھتا ہے میں اس کو خود سنتا ہوں اور جو شخص دور سے مجھ پر درود بھیجتا ہے وہ میرے پاس پہنچا دیا جاتا ہے۔
(5): عَن اَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ اَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: اَتَیْتُ -وَفِیْ رِوَایَةِ ھَدَابٍ: مَرَرتُ- عَلٰی مُوسٰی لَیلَةً اُسرِیَ بِیْ عِنْدَالکَثِیْبِ الاَحْمَرِ وَھُوَ قَائِمُ یُّصَلِی فِی قَبرِہ․
(صحیح مسلم: ج2ص268 کتاب الفضائل باب من فضائل موسیٰ علیہ السلام)
ترجمہ: حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شب معراج میرا گزر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس سرخ ٹیلے کے قریب سے ہوا، تو دیکھا کہ وہ اپنی قبر میں کھڑے نماز پڑھ رہے ہیں۔
اجماع امت:
(1): علامہ محمد بن عبد الرحمٰن سخاوی رحمہ اللہ (م902ھ) فرماتے ہیں:
وَ نَحْنُ نُؤْمِنُ وَ نُصَدِّقُ بِأَنَّہٗ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حَیٌّ یُرْزَقُ فِیْ قَبْرِہٖ وَ أَنَّ جَسَدَہُ الشَّرِیْفُ لَا تَأْکُلُہُ الْأَرْضُ وَالْإِجْمَاعُ عَلٰی ھٰذَا․
(القول البدیع: ص172)
ترجمہ: ہم یہ ایمان رکھتے ہیں اور اس کی تصدیق کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اپنی قبر مبارک میں زندہ ہیں، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو وہاں رزق بھی ملتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے جسد اطہر کو مٹی بھی نہیں کھاتی اور اس عقیدہ پر اجماع ہے۔
(2): شیخ محمد بن علان الصدیق الشافعی (1057ھ) فرماتے ہیں:
وَالْإِجْمَاعُ عَلٰی أَنَّہٗ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حَیٌّ فِیْ قَبْرِہٖ عَلَی الدَّوَامِ.
(دلیل الفالحین لطرق ریاض الصالحین ج:7 ص:195۔196)
ترجمہ: اس بات پر اجماع ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قبر میں دائمی طور پر زندہ ہیں۔
(3): علامہ داؤد بن سلیمان البغدادی (ت1299ھ) فرماتے ہیں:
وَالْحَاصِلُ أَنَّ حَیَاۃَ الْأَنْبِیَاءِ عَلَیْہِمُ السَّلَامُ ثَابِتَۃٌ بِالْإِجْمَاعِ․
(المنحۃ الوہبیۃ: ص7)
ترجمہ: حاصل یہ ہے کہ حضرات انبیاء علیہم السلام کی حیات اجماع سے ثابت ہے۔
(4): حضرت شیخ عبد الحق محدث الدہلوی رحمہ اللہ(ت 1052ھ) فرماتے ہیں:
بباید حیات انبیاء متفق علیہ است ھیچ کس رادروئے خلاف نیست حیات جسمانی دنیاوی حقیقی نہ حیات معنوی روحانی․
(اشعۃ اللمعات: ج1 ص574)
ترجمہ: یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ انبیاء علیہم السلام کی حیات ایک متفق علیہ (اجماعی) عقیدہ ہے اور (اہلِ حق میں سے) کسی کا اس میں اختلاف نہیں اور یہ حیات جسمانی دنیوی اور حقیقی ہے نہ کہ (محض) حیات معنوی اور روحانی۔
(5): قطب الاقطاب حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی (ت 1322ھ) فرماتے ہیں:
مگر انبیاء علیہم السلام کے سماع میں کسی کو اختلاف نہیں۔
( فتاویٰ رشیدیہ ص:173)
(6): حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی (ت1362ھ)فرماتے ہیں:
بہرحال یہ بات باتفاقِ امت ثابت ہے کہ انبیاء علیہم السلام قبر میں زندہ رہتے ہیں۔
( اشرف الجواب ص:321)
(7): حضرت مولانا خیر محمد جالندھری (ت1390ھ) فرماتے ہیں:
عالم برزخ میں جملہ انبیاء علیہم السلام کی حیات حقیقیہ دنیویہ بجسدھم العنصری کا مسئلہ اہل السنت والجماعت میں متفق علیہ مسئلہ ہے ۔
(القول النقی فی حیات النبی: ص30)
(8): مولانا محمد ادریس کاندھلوی (ت 1394ھ) فرماتے ہیں:
تمام اھل السنت والجماعت کا اجماعی عقیدہ ہے کہ حضرات انبیاء کرام علیہم السلام وفات کے بعد اپنی قبروں میں زندہ ہیں ۔
( سیرت المصطفیٰ: ج3 ص249)
(9): مفکراسلام مفتی محمود (ت1400 ھ)فرماتے ہیں:
یہ امر بھی علماء اہل سنت والجماعت کے نزدیک مسلم اورمجمع علیہ ہے کہ بحالت موجود یعنی عالم برزخ میں آپ جسمانی حیات سے زندہ ہیں۔
(القول النقی فی حیات النبی : ص32)
(10): شہید اسلام مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید (ت1413ھ) لکھتے ہیں:
حضرات انبیاء کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام بالخصوص سیدالانبیاء سیدناحضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کااپنی قبرشریفہ میں حیات ہونااورحیات کے تمام لوازم کے ساتھ متصف ہونابرحق اورقطعی ہے اوراس پرامت کااجماع ہے۔
(آپ کے مسائل اور ان کاحل: ج1ص261)