عقیدہ 82

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
بَعْث یوم القیامۃ
عقیدہ 82:
متن:
وَنُؤْمِنُ بِالْبَعْثِ وَجَزَاءِ الْأَعْمَالِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَالْعَرْضِ وَالْحِسَابِ وَقِرَاءَةِ الْكِتَابِ وَالثَّوَابِ وَالْعِقَابِ وَالصِّرَاطِ وَالْمِيزَانِ یُوْزَنُ فِیْہِ أَعْمَالُ الْمُؤْمِنِیْنَ مِنَ الْخَیْرِ وَالشَّرِّ وَالطَّاعَۃِ وَالْمَعْصِیَّۃِ․
ترجمہ: ہم بروز قیامت اٹھائے جانے، اعمال کا بدلہ ملنے، خدا تعالیٰ کے حضور پیش ہونے، حساب کتاب ہونے، اعمال نامہ پڑھے جانے، ثواب وعذاب ملنے، پل صراط پر گزرنے اور اس میزان پر ایمان رکھتے ہیں جس میں مؤمنین کے اچھے وبرے اعمال اور فرمانبرداری ونافرمانی کاوزن کیا جائے گا۔
شرح:
امام طحاوی رحمہ اللہ نے آٹھ چیزیں بیان کی ہیں، ان پر بھی ایمان ضروری ہے۔ بعث سے لیکر جنت وجہنم میں داخل ہونے تک ان مراحل سے گزرنا پڑتا ہے :
۱: بعث: موت آتی ہے اور مردے کو قبر میں رکھا جاتا ہے تو اسے بتعلق؛ روح حیات مل جاتی ہے۔ پھر حشر کے دن صور پھونکاجائے گا تو اسے دوبارہ حیات نہیں ملے گی (کہ وہ تو موجود ہے) بلکہ اس وقت بعث ہو گی ، کیونکہ قبر میں جو حیات ملی تھی وہ محسوس نہ ہونے والی اور مخفی حیات تھی، اب میدان حشر میں بندوں کو جب کھڑا کردیاجائے گا تو جو حیات مخفی تھی اب ظاہر ہو جائے گی۔ اس لیے اسے لفظ ”بعث“ (اٹھانا) سے تعبیر کیا گیا ہے۔ بعض مرتبہ اس بعث کو لفظ ”احیاء“ سے بھی تعبیر کر دیتے ہیں، اس وقت اس کا معنی یہ ہوتا ہے کہ قبر میں جو حیات مخفی تھی اور نظر نہیں آ رہی تھی اب بعث کے بعد وہ حیات ظاہراً ہے اور نظر آ رہی ہے۔ اس لیے لفظ ”احیاء“ سے قبر کی حیات کی نفی ہرگز نہیں ہوتی ۔
 ﴿ثُمَّ اِنَّكُمْ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ تُبْعَثُوْنَ﴾.
(المؤمنون:16)
ترجمہ: پھر قیامت کے دن تمہیں اٹھایاجائے گا ۔
۲: جزاء الاعمال : دنیا دارالعمل ہے اور آخرت دار الجزاء ہے۔اس لیے دنیامیں اچھے اعمال کیے یا برے قیامت کے دن ان کا بدلہ دیاجائے گا۔
 ﴿هَلْ تُجْزَوْنَ اِلَّا مَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ ﴾.
(النمل :90)
ترجمہ :تمہیں تمہارے اعمال کا بدلہ ضرور دیا جائے گا ۔
 ﴿لِيَجْزِيَ الَّذِيْنَ اَسَاۗءُوْا بِمَا عَمِلُوْا وَيَجْزِيَ الَّذِيْنَ أَحْسَنُوْا بِالْحُسْنٰى ﴾.
(النجم :31)
ترجمہ: نتیجہ یہ کہ جنہوں نے برے کام کیے اللہ تعالیٰ ان کو بدلہ دے گا اور جنہوں نے نیک کام کیے ہیں ان کو بہترین بدلہ عطا کرے گا۔
۳: عرض : اللہ کے حضور بندہ اپنے اعمال کے ساتھ پیش ہوگا ،یہ برحق ہے ۔
 ﴿وَعُرِضُوْا عَلٰى رَبِّكَ صَفًّا﴾.
(الکہف :48)
ترجمہ: وہ لوگ آپ کے رب کے سامنے پیش ہو ں گے ۔
 ﴿يَوْمَ يَقُوْمُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعٰلَمِيْنَ﴾.
(المطففین :6)
ترجمہ: جس د ن لوگ پروردگار عالم کے سامنے کھڑے ہوں گے ۔
۴: حساب کتاب : بندے کے تمام اعمال کا حساب ہوگا ۔
 ﴿اَلْيَوْمَ تُجْزٰى كُلُّ نَفْسٍ بِمَا كَسَبَتْ لَا ظُلْمَ الْيَوْمَ اِنَّ اللّهَ سَرِيْعُ الْحِسَابِ﴾.
(الغافر:17)
ترجمہ:آج (قیامت) کے دن ہر شخص کو اپنے کیے کا بدلہ ملے گا ۔آج ظلم نہیں ہوگا۔ بے شک اللہ تعالیٰ جلدی حساب لینے والے ہیں ۔
۵: اعمال نامہ پڑھا جانا :
 ﴿وَنُخْرِجُ لَهٗ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ كِتٰبًا يَّلْقٰهُ مَنْشُوْرًا؁ اِقْرَاْ كِتٰبَكَ كَفٰى بِنَفْسِكَ الْيَوْمَ عَلَيْكَ حَسِيْبًا﴾.
(الاسراء:13، 14)
ترجمہ: ہم اس کا اعمال نامہ قیامت کے دن ایک تحریر کی شکل میں نکال کر اس کے سامنے کر دیں گے جسے وہ کھلاہوا دیکھے گا (اس سے کہا جائے گا کہ) لو! اپنا اعمال نامہ پڑھ لو! آج تم خود اپنا حساب لینے کے لیے کافی ہو۔
۶:ثواب وعذاب : دنیا میں اگر اچھے کام کیے ہو ں تو ان پر ثواب ملے گا اور اگر برے اعمال کیے ہو ں تو بدلہ عذاب کی صورت میں ملے گا ۔
 ﴿فَمَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَّرَهٗ وَمَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَّرَهٗ﴾
(الزلزال:7، 8)
ترجمہ: جس شخص نے ذرہ برابر بھی اچھائی کی ہو گی وہ اسے دیکھے گا اور جس نے ذرہ برابر بھی برائی کی ہو گی وہ بھی اسے دیکھے گا۔
۷:پل صراط : جہنم کے اوپر موجود ایک پل ہے جو بال سے زیادہ باریک اور تلوار سے زیادہ تیز ہے۔ پانچ سو سال چڑھتے ہوئے ، پانچ سو سال گزرتے ہوئے اور پانچ سوسال اترتے ہوئے لگیں گے۔ انسان اپنے اعمال کے اعتبار سے اس پر گزریں گے کوئی بجلی کی کڑک کی طرح تیز ہوں گے، کوئی ہوا کی طرح ،کوئی گھوڑے کی رفتار اور کوئی اونٹ کی رفتار حتی کہ کوئی گھسٹ کر چل رہا ہو گا۔ نافرمان اور کافر اس سے گرکر جہنم رسید ہوں گے ۔
 ﴿وَاِنْ مِّنْكُمْ اِلَّا وَارِدُهَا كَانَ عَلٰى رَبِّكَ حَتْمًا مَّقْضِيًّا ثُمَّ نُنَجِّي الَّذِيْنَ اتَّقَوْا وَّنَذَرُ الظّٰلِمِيْنَ فِيْهَا جِثِيًّا﴾
(مریم :71، 72)
ترجمہ : تم میں سے ہر ایک کا اس جہنم پر گزر ہو گا، اس کا تمہارے رب نے حتمی طور پر ذمہ لے رکھا ہے۔ پھر جنہوں نے تقویٰ اختیار کیا ہے تو ہم انہیں نجات دے دیں گے اور جو ظالم ہیں انہیں اس حالت میں چھوڑ دیں گے کہ وہ (جہنم میں) گھٹنوں کے بل پڑے ہوں گے۔
۸:میزان : قیامت کے دن ایک ترازو قائم کیا جائے گا ، اس میں اعمال کو تولا جائے گا اور وزن کی بنیاد اخلاص پر ہو گی ۔
 ﴿وَالْوَزْنُ يَوْمَئِذِ نِ الْحَقُّ فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِينُهٗ فَاُولٰۗئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ﴾
(الاعراف:8)
ترجمہ:قیامت کے دن اعمال کا وزن ہونا برحق ہے۔ جن کے ترازو کے پلڑے بھاری ہوں گے تو وہی لوگ کامیاب ہوں گے۔
 ﴿وَنَضَعُ الْمَوَازِيْنَ الْقِسْطَ لِيَوْمِ الْقِيٰمَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَيْئًا ۭوَاِنْ كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ اَتَيْنَا بِهَا ۭوَكَفٰى بِنَا حٰسِبِيْنَ﴾.
(الانبیاء :47)
ترجمہ: اور ہم قیامت کے دن ایسے ترازو قائم کریں گے جو سراپا انصاف ہوں گے۔ کسی پر کوئی ظلم نہیں ہو گا اور اگر کوئی عمل رائی کے دانے کے برابر بھی ہو گا تو ہم اسے بھی سامنے لے آئیں گے اور حساب لینے کے لیے ہم کافی ہیں۔