عقیدہ 88

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
عقیدہ 88:
متن:
وَكُلُّ شَىْءٍ يَجْرِيْ بِمَشِيئَةِ اللهِ عَزَّوَجَلَّ وَعِلْمِهٖ وَقَضَائِهٖ وَقَدَرِهٖ غَلَبَتْ مَشِيْئَتُهُ الْمَشِيْئَاتِ كُلَّهَا وَغَلَبَ قَضَاؤُهُ الْحِيَلَ كُلَّهَا يَفْعَلُ مَا يَشَاءُ وَهُوَ غَيْرُ ظَالِمٍ أَبَدًا﴿لَا يُسْئَلُ عَمَّا يَفْعَلُ وَهُمْ يُسْئَلُوْنَ﴾
ترجمہ: ہر کام اللہ تعالیٰ کی مشیت، علم ، فیصلہ اور تقدیر کے مطابق ہوتاہے۔ اللہ تعالیٰ کی چاہت دیگر تمام لوگوں کی چاہتوں پر غالب ہے اور اللہ تعالیٰ کا فیصلہ انسان کی ساری تدبیروں پر غالب آتا ہے۔ وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے اور کبھی کسی پر ظلم نہیں کرتا۔ (ارشاد باری تعالیٰ ہے) اللہ تعالیٰ جو کرے اس بارے میں اس سے نہیں پوچھا جاتا اور بندوں سے ان کے کیے کے بارے میں پوچھا جائے گا۔
شرح:
امام طحاوی رحمۃ اللہ علیہ نے مشیت، علم ، قضاء اور قدر کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں۔ ان کی مختصر وضاحت پیش ہے:
• مشیت: اللہ تعالیٰ کی مشیت کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ میں بندوں کو نیکی اور برائی کا اختیار دوں، اب بندے کی مرضی کہ نیکی والا اختیار استعمال کر کے نیک کام کرے یا برائی والا اختیار استعمال کر کے گناہ کرے۔ اللہ تعالیٰ کا اپنی چاہت سے دونوں اختیار دینا ” مشیت “ ہے۔
• علم: دنیا میں جو کچھ ہو گا وہ اللہ تعالیٰ پہلے سے جانتے ہیں۔ مثلاً ایک شخص نے اپنے اختیار سے اطاعت والے کام کرنے ہیں یا نا فرمانی کا ارتکاب کرنا ہے، یہ پہلے سے اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے۔
• قضاء: اس سے مراد یہ ہے کہ بندہ جب کسی کام کے لیے اسبابِ خیر یا اسبابِ شر اختیار کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کام کے ہونے کا فیصلہ فرما دیتے ہیں۔
• قدر: اللہ تعالیٰ کو علم تھا کہ بندوں نے فلاں فلاں کام کرنے ہیں تو اللہ تعالیٰ نے اس کو لکھ لیا۔ یہی قدر اور تقدیر ہے۔