عقیدہ 94

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
خلافتِ راشدہ
عقیدہ 94:
متن:
وَنُثْبِتُ الْخِلَافَةَ بَعْدَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوَّلًا لِأَبِيْ بَكْرٍ الصِّدِّيقِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ تَفْضِيْلًا لَهٗ وَتَقْدِيْمًا عَلٰى جَمِيْعِ الْأُمَّةِ ثُمَّ لِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ ثُمَّ لِعُثْمَانَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ ثُمَّ لِعَلِيِّ بْنِ أَبِيْ طَالِبٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ وَهُمُ الْخُلَفَاءُ الرَّاشِدُوْنَ وَالْأَئِمَّةُ الْمُهْتَدُوْنَ الَّذِیْنَ قَضَوْا بِالْحَقِّ وَکَانُوْا بِہٖ یَعْدِلُوْنَ.
ترجمہ: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد سب سے پہلے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے لیے خلافت مانتے ہیں کیونکہ آپ ہی پوری امت میں سب سے افضل اور مقدم ہیں۔ پھر حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے لیے ، پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے لیے ، پھر حضرت علی ابن طالب رضی اللہ عنہ کے لیے مانتے ہیں ۔ یہی چار خلفاء راشدین اور ہدایت یافتہ امام ہیں جنہوں نے حق وراستی سے اپنی ذمہ داریاں نبھائیں اور برحق فیصلے کیے۔
شرح:
”خلفاء راشدین“ سے مراد وہ خلفاء ہیں جن کی خلافت کا ذکر آیت استخلاف میں موجود ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَعَدَ اللّهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْاَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِيْنَهُمُ الَّذِي ارْتَضٰى لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ اَمْنًا يَّعْبُدُوْنَنِيْ لَا يُشْرِكُوْنَ بِيْ شَيْئًا وَّمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذٰلِكَ فَاُولٰئِكَ هُمُ الْفٰسِقُوْنَ﴾
(سورۃ النور:55)
ترجمہ: تم میں سے جو لوگ ایمان لائے ہیں اور جنہوں نے نیک اعمال کیے ہیں ان سے اللہ نے وعدہ کیا ہے کہ وہ انہیں ضرور زمین میں اپنا خلیفہ بنائے گا جس طرح ان سے پہلے لوگوں کو بنایا تھا اور ان کے لیے اس دین کو ضرور اقتدار بخشے گا جسے ان کے لیے پسند کیا ہے اور ان کو جو خوف لاحق رہا ہے اس کے بدلے انہیں ضرور امن عطا کرے گا۔ وہ میری عبادت کریں، میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں، اور جو لوگ اس کے بعد بھی ناشکری کریں گے تو ایسے لوگ نافرمان شمار ہوں گے۔
اس آیت میں دو باتیں ملحوظ ہیں
۔ ”اٰمَنُوْا“
(صیغہ ماضی) اور
”مِنْكُمْ“
(ضمیر حاضر) یعنی جو ایمان لا چکے ہوں اور خطاب کے وقت موجود ہوں۔ معلوم ہوا کہ خلافت کا وعدہ ان لوگوں سے ہے جو نزولِ آیت کے وقت موجود تھے اور نزول سے پہلے ایمان بھی لا چکے تھے۔ خلفاء اربعہ حضرت ابو بکر صدیق، حضرت عمر بن خطاب، حضرت عثمان اور حضرت علی رضی اللہ عنہم ہی وہ حضرات ہیں جن میں یہ دونوں باتیں پائی جاتی ہیں کہ یہ چاروں نزول آیت کے وقت موجود تھے اور ایمان لا چکے تھے۔ حضرت امیر معاویہ اس وقت مسلمان نہیں ہوئے تھے، حضرت حسن اور حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما اس وقت نا بالغ تھے۔ اس لیے یہ حضرات خلفاء راشدین میں شامل نہیں ہوں گے۔
حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی (ت1362ھ) کے افادات پر مشتمل تفسیر ”احکام القرآن“ میں اس آیت کے تحت ذکر کیے گئے فوائد میں فائدہ نمبر 2 کے تحت لکھا ہے:
فِيْهِ دَلَالَةٌ عَلٰى صِحَّةِ إِمَامَةِ الْخُلَفَاءِ الْأَرْبَعَةِ أَیْضًا لِأَنَّ اللهَ اسْتَخْلَفَهُمْ فِي الْأَرْضِ وَمَكَّنَ لَهُمْ كَمَا جَاءَ الْوَعْدُ وَلَا يَدْخُلُ فِيْهِمْ مُعَاوِيَةُ لِأَنَّهٗ لَمْ يَكُنْ مُؤْمِنًا فِيْ ذٰلِكَ الْوَقْتِ․
(احکام القرآن: ج16ص260)
ترجمہ: یہ آیت خلفاء اربعہ کی امامت (وخلافت) کے صحیح ہونے کی دلیل ہے کیونکہ اس وعدہ کے مطابق انہی چار کو اللہ تعالیٰ نے خلافت وحکومت عطا فرمائی ہے۔ اس خلافت موعودہ میں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ شامل نہیں کیونکہ نزول آیت کے وقت وہ مسلمان نہیں ہوئے تھے۔
خلاصہ یہ کہ ”خلافت راشدہ“ ایک اصطلاح ہے جس سے مراد وہ خلفاء ہیں جن کی خلافت کا وعدہ قرآن مجید میں ہے اور وہ صرف چار ہی ہیں۔
فائدہ: حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا خلیفہ ہونا آپ رضی اللہ عنہ کے پوری امت میں سب سے افضل اور مقدم ہونے کی وجہ سے ہے۔ افضل ہونے کی کئی ایک وجوہ ہیں۔ چند ایک ملاحظہ ہوں:
1: صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی باقی تمام امت پر فضیلت کی وجہ ”صحابیت“ یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت کا میسر ہونا ہے۔ جس صحابی کو یہ صحبت جتنی زیادہ ملی ہو گی وہ اتنا افضل ہوگا۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ وہ واحد صحابی ہیں جنہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت سب سے زیادہ نصیب ہوئی ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ سب سے پہلے ایمان لائے اور پیغمبر پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات تک ساتھ رہے۔ اس لیے باقی صحابہ رضی اللہ عنہم سے افضل ہوئے۔
2: آپ رضی اللہ عنہ ہی وہ واحد صحابی ہیں جنہیں قرآن مجید نے ”صاحب“ (یعنی صحابی) کہا ہے۔ تو آپ رضی اللہ عنہ کا صحابی ہونا قرآن سے ثابت ہوا۔