عقیدہ قیامت

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
قیامت:
اللہ تعالی جب اس عالم کو فنا کرنا چاہیں گے تو جناب حضرت اسرافیل علیہ السلام کو حکم ہو گا وہ صور پھونکیں گے جس کی آواز شروع میں نہایت دھیمی اور سریلی ہو گی جو آہستہ آہستہ بڑھتی چلی جائے گی جس سے انسان ، جنات ، چرند ، پرند، سب حیرت کے عالم میں بھاگنے لگیں گے جب آواز کی شدت اور بڑھے گی تو سب کے جگر ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں گے پہاڑ ریزہ ریزہ ہو کر روئی کی طرح اڑنے لگیں گے آسمان پھٹ جائے گا ، ستارے جھڑ جائیں گے اللہ کی ذات کے علاوہ کوئی چیز باقی نہیں رہے گی ۔
کچھ عرصہ بعد اللہ تعالی اسرافیل کو زندہ کر کے دوبارہ صور پھونکنے کا حکم دیں گے جس سے پورا عالم ایک بار پھر وجود میں آ جائے گا ، مردے قبروں سے اٹھیں گے ، یہی قیامت کا دن ہو گا ، ہر بندے کو بار گاہ الہی میں پیش ہونا ہو گا رب کے سامنے آ کر ہم کلام ہونا پڑے گا ، درمیان میں کوئی ترجمان نہیں ہو گا ، دنیا میں کیے ہوئے سب اعمال سامنے ہوں گے ان کے بارے میں جواب دہی ہو گی انسان کا ہر عمل اللہ کے علم ، لوح محفوظ اور کرامً کاتبین کے رجسٹر میں محفوظ ہو گا ۔
جس طرح ٹیپ ریکارڈ انسان کی آواز کو محفوظ کر لیتاہے اسی طرح زمین بھی انسان کے ہر قول و فعل کو ریکارڈ کر رہی ہے اور قیامت کے دن وہ سب کچھ اگل دے گی اور گواہی دے گی کہ اس انسان نے فلاں وقت اور فلاں جگہ یہ کام (اچھا یا برا) کیا تھا ، انسانی اعضاء و جوارح کو بھی اس دن بان مل جائے گی جو انسان کے حق میں یا اس کے خلاف بولے گی ۔ اس دن نبی اکرم ﷺ شفاعت فرمائیں گے آپ ﷺ کے پیروکاروں کو یہ سعادت نصیب ہو گی ، گمراہ اس سے محروم رہیں گے ۔
اس دن ایک ترازو قائم ہو گا جس کے ذریعے اعمال تولے جائیں گے جب کہ جہنم کی پشت پر پل صراط قائم ہو گا جو بال سے زیادہ باریک اور تلوار سے زیادہ تیز ہو گا ، ہر شخص کی رفتار اس کے اعمال کے مطابق ہو گی قیامت کا دن دنیا کے دنوں کے اعتبار سے پچاس ہزار سال کا ہو گا ۔ اس دن موت کو ایک دنبے کی شکل میں لا کر ذبح کر دیا جائے گا جو اس بات کی علامت ہو گی کہ اس کے بعد کسی کو موت نہیں آئے گی ، اہل جنت اور اہل جہنم سب کو ہمیشہ رہنا ہے یہ فیصلے کا دن ہے انجام کار جنتی جنت میں اور دوزخہ دوزخ میں چلے جائیں گے ۔
قیامت کی علامات صغریٰ:
یہ وہ علامات ہیں جن میں بعض کا ظہور تو آج سے کافی عرصہ پہلے ہو چکا ہے اور بعض کا ظہور ہو رہا ہے اور بڑی علامت ظاہر ہونے تک سلسلہ جاری رہے گا علامت صغریٰ بہت ساری ہیں جن میں سے چند یہ ہیں۔
1: چرواہے اور کم درجے کے لوگ فخرو نمود کے طور پر اونچی اونچی عمارتیں بنائیں گے ۔
2: ظلم و ستم عام ہو گا۔
3: شرم و حیااٹھ جائے گی ۔
4: شراب کو "نبیذ" سود کو "خرید و فروخت" اور رشوت کو " ہدیہ " کا نام دے دیا جائے گا ۔
5: علم اٹھ جائے گا اور جہل زیاددہ ہو جائے گا ۔
6: سرکاری خزانوں کو حکومتی لوگ لوٹیں گے ۔
7: زکوٰۃ کو ٹیکس سمجھا جائے گا ۔
8: دین کو دنیا کے لیے استعمال کیا جائے گا ۔
9: شوہر بیوی کی اطاعت کرے گا اور ماں کی نافرمانی کرے گا ۔
10: دوست سے پیار کرے گا اور باپ سے بے توجہی کرے گا ۔
11: ذلیل اور فاسق شخص قوم کے سردار بن جائیں گے ۔
12: گانا گانے والیوں کا بول بالا ہو گا ۔
13: مسجدوں میں زور زور سے باتیں ہوں گی ۔
14: شراب عام ہو گی ۔
15: اس امت کے آخری لوگ پہلے لوگوں پر لعنت کریں گے ۔
16: مردوں میں ریشم عام ہو جائے گا ۔
17: جھوٹ کا رواج عام ہو جائے گا ۔
قیامت کی علامات کبریٰ :
وہ نشانیاں جن کی نسبت آنحضرت ﷺ نے خبر دی کہ وہ قیامت کے قریب ظاہر ہوں گی جیسے امام مہدی کا ظہور اور دجال کا خروج اور حضرت عیسی بن مریم علیہ السلام کا آسمان سے نزول اور یاجوج ماجوج اور دآبۃ الارض کا خروج وغیرہ ۔
1: ظہور مہدی :
قیامت کی علامت کبریٰ میں سے پہلی علامت امام مہدی کا ظہور ہے " مہدی " لغت میں ہر ہدایت یافتہ کو کہتے ہیں لغوی معنی کے لحاظ سے ہر اس عالم کو جس کا علم صحیح ہو اس کو مہدی کہا جا سکتا ہے بلکہ ہر سچے اور پکے مسلمان کو مہدی کہا جا سکتا ہے لیکن جس " مہدی موعود" کا ذکر احادیث میں آیا ہے اور آنحضرت ﷺ نے اخیر زمانہ میں اس کے ظہور کی خبر دی ہے اس سے ایک خاص شخص مراد ہے جو حجرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی اولاد میں سے ہو گا اس کا نام محمد اور اس کے باپ کا نام عبد اللہ وہ گا ۔ سیرت میں رسول اللہ ﷺ کے مشابہ ہو گا مدینہ کا رہنے والا ہو گا مکہ میں ظہور ہو گا شام اور عراق کے اولیاء اور ابدال ان کے ہاتھ پر بیعت کریں گے اور جو خزانہ خانہ کعبہ میں مدفون ہے وہ نکال کر مسلمانوں پر تقسیم فرمائیں گے ۔ پہلے عرب اور پھر تمام روئے زمین کے بادشاہ ہوں گے دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے جیسا کہ اس سے بیشتر ظلم و ستم سے بھری ہو گی شریعت محمدیہ کے مطابق ان کا عمل ہو گا امام مہدی کے زمانہ میں دجال نکلے گا اور انہی کے زمانہ بادشاہت میں حجرت عیسی علیہ السلام آسمان سے دمشق کے مشرقی منارہ پر عصر کی نماز کے قریب نازل ہوں گے اور امام مہدی کے پیچھے نماز ادا فرمائیں گے امام مہدی نصاریٰ سے جہاد کریں گے اور قسطنطینہ کو فتح کریں گے ۔
2: خروج دجال :
قیامت کی علامات کبریٰ میں دوسری علامت خروج دجال ہے جو احادیث متواترہ اور اجماع امت سے ثابت ہے دجال دجل سے مشتق ہے جس کے معنی لغت میں بڑے جھوٹ ، مکرو فریب ، اور حق و باطل کو خلط ملط کرنے کے ہیں ، لغوی معنی کے لحاظ سے ہر جھوٹے اور مکار کو دجال کہہ سکتے ہیں لیکن حدیث شریف میں جس دجال موعود کے خروج کی خبر دی گئی ہے وہ ایک خآص کافر شخص کا نام ہے جو قوم یہود سے ہو گا اور مسیح لقب ہو گا اس لقب کی وجہ یہ ہے کہ وہ کانا ہو گا اور مسیح کا مطلب ہوا کہ جس کی آنکھ ہاتھ پھیر کو صاف اور ہموار کر دی گئی ہو ایک آنکھ میں انگور کے دانے کے برابر ناخو نہ ہو گا ، دونوں آنکھوں کے درمیاں "ک ف ر " لکھا ہوا ہو گا ۔
سب سے پہلے اس کا ظہور شام اور عراق کے درمیان ہو گا اور نبوت کا دعویٰ کرے گا پھر اصفہان آئے گا وہاں ستر ہزار یہودی اس کے تابع ہو جائیں گے بعد ازاں وہ خدائی کا دعویٰ کرے گا اور زمین میں فساد پھیلاتا پھیرے گا حق تعالی بندوں کے امتحان کے لیے اس کے ہاتھ سے قسم قسم کے کرشمے اور شعبدے ظاہر فرمائیں گے لیکن اخیر میں وہ ایک شخص کو قتل کر کے زندہ کرے گا اور پھر اس کو قتل کرنا چاہیے گا لیکن اس کے قتل پر ہرگز قادر نہ ہو گا تو اس سے صاف ظاہر ہو جائے گا کہ یہ شخص دعویٰ خدائی میں بالکل جھوٹا ہے ۔
اول تو اس کا کانا ہونا ہی اس کے خدا نہ ہونے کی نہایت روشن اور بین دلیل تھی۔ دوم یہ کہ اس کی آنکھوں کے درمیان ک ف ر لکھا ہو گا ۔ سوم یہ کہ قتل کرنا ایسا فعل ہے جو بشر کی قدرت میں داخل ہے جب اس میں یہ قدرت باقی نہ رہی وہ دوبارہ قتل کر سکے تو وہ خدا کیونکر ہو سکتا ہے ؟ اور یہ جو چند روز اس کے ہاتھ سے احیاء موتیٰ ظہور ہوتا رہا فی الحقیقت اللہ کا فعل تھا جو اس کے ہاتھ سے محض استدراج ، ابتلاء اور امتحان کے طور پر کرایا گیا۔
خروج دجال کب ہو گا :
امام مہدی ظاہر ہونے کے بعد نصاریٰ سے جہاد قتال کریں گے یہاں تک کہ جب قسطنطینہ کو فتح فرما کر شام واپس ہوں گے اور شہر دمشق میں مقیم ہوں گے اور مسلمانوں کے انتظام میں مصروف ہوں گے اس وقت دجال کا خروج ہو گا دجال مع اپنے لشکر کے زمین میں فساد مچاتا پھرے گا یمن سے ہو کر مکہ مکرمہ کا رخ کرے گا مگر مکہ مکرمہ پر فرشتوں کا پہرہ ہو گا اس لیے دجال مدینہ منورہ کا ارادہ کرے گا ۔ مدینہ منورہ کے دروازوں پر بھی فرشتوں کا پہرہ ہو گا اس لیے دجال مدینہ میں داخل نہ ہو سکے گا بالآخر پھر پھرا کر شام واپس آئے گا حضرت عیسی علیہ السلام دمشق کی جامع مسجد کے شرقی منارہ پر فرشتوں کے بازؤں پر ہاتھ رکھے ہوئے آسمان سے نازل ہوں گے اور اس لعین کو قتل کریں گے جیسا کہ آئندہ علامات کے بیان میں آئے گا ۔
3: نزول عیسیٰ بن مریم علیہ السلام :
قیامت کی علامات کبریٰ میں تیسری علامت یہ ہے کہ قیامت کے قریب حضرت عیسی علیہ السلام کا آسمان سے نازل ہونا اور دجال کر قتل کرنا جو حق اور سچ ہے اور قرآن کریم اور احادیث متواترہ اور اجماع امت سے ثابت ہے اس کی تصدیق کرنا اور اس پر ایمان لانا فرض اور ضروری ہے ۔
کانے دجال کا خروج ہو چکا ہو گا اور امام مہدی دمشق کی جامع مسجد میں نماز کی تیاری میں ہوں گے یکا یک عیسی علیہ السلام آسمان سے دمشق کی جامع مسجد کے شرقی منارہ پر دو فرشتوں کے بازوؤں پر ہاتھ رکھے ہوئے نزول فرمائیں گے اور نماز سے فراغت کے بعد امام مہدی کے معیت میں دجال پر چڑھائی کریں گے ۔
حضرت عیسی علیہ السلام کے سانس میں یہ تاثیر ہو گی کہ کافر اس کی تاب نہ لا سکے گا اس کے پہنچتے ہی مر جائے گا اور دجال حضرت عیسی علیہ السلام کو دیکھتے ہی ایسا پگھلنے لگے گا جیسے نمک پانی میں پگھل جاتا ہے حضرت عیسی علیہ السلام دجال کا تعاقب کریں کریں گے اور اس کا خون مسلمانوں کو دیکھائیں گے بعد از لشکر اسلام دجال کا لشکر کا مقابلہ کرے گا جو یہودی ہوں گے ان کو خوب قتل کرے گا اور اسی طرح زمین دجال اور یہود کے ناپاک وجود سے پاک ہو جائے گی جن کا دعویٰ تھا کہ ہم نے اللہ کے رسول عیسی بن مریم علیہ السلام کو قتل کر دیا وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے کہ حضرت عیسی ٰ علیہ السلام اب تک آسمانوں پر زندہ تھے اور اب آسمان سے ہمارے لیے قتل کے لیے زمین پر اترے ہیں ۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور امام مہدی دو الگ الگ شخصیات ہیں :
ظہور مہدی اور نزول عیسی بن مریم علیہ السلام کے بارہ میں جو احادیث آئی ہیں ان سے یہ امر روز روشن کی طرح واضح ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور امام مہدی دو شخصیتیں علیحدہ علیحدہ ہیں صحابہ کرام اور تابعین عظام کے وقت سے لیکر اس وقت تک کوئی اس کا قائل نہیں ہوا کہ نازل ہونے والا مسیح اور ظاہر ہونے والا مہدی ایک ہی شخص ہوں گے ۔ کیونکہ ،،،،
1: حضرت عیسی بن مریم علیہ السلام نبی اور رسول ہیں اور امام مہدی امت محمدیہ کے خلیفہ ہوں گے ، نبی نہ ہوں گے ۔
2: حضرت مسیح بن مریم علیہ السلام حضرت مریم کے بطن سے بغیر باپ کے نبی اکرم ﷺ سے تقریباً 600 سال پہلے بنی اسرائیل میں پیدا ہوئے اور امام مہدی قیامت کے قریب مدینہ منورہ میں پیدا ہوں گے ان کا نام عبد اللہ ہو گا ۔
3: حضرت عیسیٰ بن مریم علیہ السلام میں سے ہیں اور امام مہدی حضرت فاطمہ الزہرا رضی اللہ عنہا کی اولاد سے ہوں گے ۔
ایک شبہ اور اس کا ازالہ :
ایک روایت میں آیا ہے کہ
لا مھدی لا عیسی بن مریم
نہیں ہیں کوئی مہدی مگر حضرت عیسی بن مریم ۔ اس روایت سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے حضرت عیسی بن مریم علیہ السلام اور مہدی دونوں ایک ہی شخص ہیں ۔
جواب:
یہ ہے اول تو یہ روایت محدثین کے نزدیک ضعیف اور غیر مستند ہے جیسا کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری ج 2 ص358 میں اس کی تصریح کی ہے ۔ دوم یہ کہ یہ روایت ان بے شمار احادیث صحیحہ اور متواترہ کے خلاف ہے جن میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور امام مہدی کا دو شخص ہونا خوب ظاہر ہے اور متواتر کے مقابلہ میں ضعیف اور منکر روایت معتبر نہیں ہوتی ۔
3: خروج یاجوج ماجوج:
حضرت عیسی علیہ السلام کے نزول اور دجال کی ہلاکت کے کچھ عرصہ بعد امام مہدی انتقال فرما جائیں گے حضرت عیسی علیہ السلام ان کی نماز جنازہ پڑھائیں گے بیت المقدس میں ان کا انتقال ہو گا اور وہیں مدفون ہوں گے امام مہدی کی وفات کے بعد تمام انتظام حضرت عیسی علیہ السلام کے ہاتھ میں ہو گا اور زمانہ نہایت سکون اور راحت سے گزر رہا ہو گا کہ یکا یک وحی نازل ہو گی کہ عیسیٰ ! تم میرے بندوں کو کوہ طور پر لے جاؤ ! میں اب ایک ایسی قوم کو نکالنے والا ہوں کہ جس کے ساتھ کسی کو لڑائی کی طاقت نہیں وہ قوم یاجوج ماجوج کی قوم ہے جو یافث بن نوح کی اولاد میں سے ہیں ۔
شاہ ذوالقرنین نے دو پہاڑوں کے درمیان ایک نہایت مستحکم آہنی دیوار قائم کر کے ان کا راستہ بند کر دیا تھا قیامت کے قریب وہ دیوار ٹوٹ جائے گی اور یہ غارت گر قوم ٹڈی دل کی طرح ہر طرف سے نکل پڑے گی اور دنیا میں فساد پھیلائے گی (جس کا قصہ قرآن کریم کی سورہ کہف آیت 93 تا 98 میں مذکور ہے) اس وقت حضرت عیسی ٰ علیہ السلام اپنے ساتھیوں کو لے کر کوہ طور کی طرف چلے جائیں گے بارگاہ خدا وندی میں یاجوج ماجوج کو طاعون کی ہلاکت کی دعا کریں گے جب کہ باقی لوگ اپنے اپنے طور پر قلعہ بند اور محفوظ مکانوں میں بند ہو جائیں گے ۔
اللہ تعالی یاجوج ماجوج کو طاعون کی وباء سے ہلاک کرے گا اور اس بلاء ِ آسمانی سے سب مر جائیں گے بعد ازاں اللہ تعالی لمبی گردن والے پرندے بھیجے گا جو بعض کو تو کھا جائیں گے اور بعض کو اٹھا کر سمندر میں ڈال دیں گے اور پھر بارش ہو گی جس کے سبب ان سب مُرداروں کی بدبو سے نجات ملے گی اور زندگی نہایت راحت اور آرام سے گزرے گی (40) یا (45) سال زندہ رہ کر مدینہ منورہ میں انتقال فرمائیں گے حضرت عیسی علیہ السلام اپنے بعد ایک قحطانی شخص کو اپنا خلیفہ مقرر کر جائیں گے جس کا نام " جھجاہ" ہو گا خوب اچھی طرح عدل و انصاف کے ساتھ حکومت کرے گا مگر ساتھ ہی شر اور فساد پھیلنا شروع ہو جائے گا ۔
5: خروج دُخان یعنی دھویں کا ظاہر ہونا :
جہجاہ کے بعد چند بادشاہ ہوں گے ۔ کفروالحاد شر اور فسادبڑھنا شروع ہو گا یہاں تک کہ ایک مکان مغرب میں اور ایک مکان مشرق میں جہاں منکرین تقدیر رہتے ہوں گے وہ دھنس جائے گا اور انہی دنوں آسمان سے ایک بہت بڑادھواں ظاہر ہو گا جو آسمان نے لیکر زمین تک رہے گا مسلمانوں کو زکام سا معلوم ہو گا اور کافروں پر بے ہوشی طاری ہو جائے گی کسی کو دو دن میں اور کسی کو تین دن میں ہوش آئے گا قرآن کریم میں اس دخان کا ذکر ہے ۔
فَارْتَـقِبْ يَوْمَ تَاْتِي السَّمَاۗءُ بِدُخَانٍ مُّبِيْنٍ۝۱۰ۙ
(سورۃ دخان :10)
ترجمہ: پس اس روز کا انتظار کیجیے کہ آسمان کی طرف سے ایک دھواں نمودار ہو گا حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ یہ دخان کی علامت گزر چکی ہے حضور ﷺ کی بد دعا سے اس زمانہ میں ایک سخت قحط پڑا تھا جس کی شدت سے کفار زمین میں دھواں دیکھتے تھے ۔
6: دآبۃ الارض کا نکلنا :
قیامت کی ایک بڑی نشانی زمین سے دابۃ الارض کا نکلنا ہے جو نص قرآنی سے ثابت ہے
وَاِذَا وَقَعَ الْقَوْلُ عَلَيْہِمْ اَخْرَجْنَا لَہُمْ دَاۗبَّۃً مِّنَ الْاَرْضِ تُكَلِّمُہُمْ۝۰ۙ اَنَّ النَّاسَ كَانُوْا بِاٰيٰتِنَا لَا يُوْقِنُوْنَ۝۸۲ۧ
(سورۃ نمل:82)
ترجمہ: اور جب قیامت کا وعدہ پورا کرنے کا وقت قریب الوقوع ہو جائے گا تو اس وقت ہم لوگوں کی عبرت کے لیے زمین میں ایک عجیب و غریب جانور نکالیں گے جو لوگوں سے باتیں کرے گا ( اور کہے گا اب قیامت قریب آ گئی ہے یہ جانور ہم زمین سے اس لیے نکالیں گے ) کہ لوگ ہماری نشانیوں کا یقین نہیں کرتے تھے ۔
جس روز آفتاب مغرب سے طلوع کرے گا اسی دن یہ عجیب الخلقت جانور زمین سے نکلے گا مکہ مکرمہ کا ایک پہاڑ جس کو کوہ صفا کہتے ہیں وہ پھٹے گا اس میں سے ایک عجیب الخلقت جانور نکلے گا جس طرح اللہ تعالی نے اپنی قدرت سے حضرت صالح علیہ السلام کی اونٹنی کو پتھر سے نکالا تھا اسی طرح اپنی قدرت سے قیامت کی خبر دے گا ۔ مومنوں کے چہروں پر ایک نورانی نشانی لگائے گا جس سے مؤمنین کے چہرے روشن ہو جائیں گے اور کافروں کی آنکھوں کےدرمیان ایک مہر لگائے گا جس سے ان کے چہرے سیاہ ہو جائیں گے اور حسب ارشادوَامْتَازُوا الْيَوْمَ اَيُّہَا الْمُجْرِمُوْنَ۝۵۹ مسلم اور مجرم کا امتیاز اس طرح شروع ہو جائے گا اور پورا امتیاز حساب کتاب کے بعد ہو گا ۔
7: ٹھنڈی ہوا کا چلنا :
دآبۃ الارض کے نکلنے کے کچھ عرصہ بعد ایک ٹھنڈٰ ہوا چلے گی جس سے تمام اہل ایمان اور اہل خیر مر جائیں گے یہاں تک کہ اگر کوئی مؤمن کسی غار یا پہاڑ میں چھپا ہوا ہو گا تو وہاں بھی یہ ہوا پہنچے گی اور وہ شخص اس ہوا سے مر جائے گا ۔ نیک لوگ سب مر جائیں گے اور نیکی اور بدی میں فرق کرنے والا کوئی باقی نہیں رہے گا ۔
8: حبشیوں کا غلبہ اور خانہ کعبہ کو ڈھانا :
بعد ازاں حبشہ کے کافروں کا غلبہ ہو گا اور زمین پر ان کی سلطنت ہو گی ظلم اور فساد عام ہو گا بے شرمی اور بے حیائی کھلم کھلا ہو گی چوپائیوں کی طرح لوگ سٹرکوں پر جماع کریں گے ۔ وہ خانہ کعبہ کی ایک ایک اینٹ کر کے توڑ دیں گے ۔
حدیث مبارکہ میں ہے :
لایستخرج کنز الکعبۃ الا ذوالسویقتین من الحبشۃ
ترجمہ : خانہ کعبہ کے( امام مہدی کے بعد ہونے والے ) خزانے کی چھوٹی پنڈلیوں والا حبشہ کا رہنے والا نکالے گا ۔
9: آگ کا نکلنا :
قیامت کی آخری نشانی یہ ہے کہ وسط عدن سے ایک آگ نکلے گی لوگوں کو گھیر کر ملک شام کی طرف لائے گی جہاں مرنے کے بعد حشر ہو گا ( یعنی قیامت میں جو نئی زمین بنائی جائے گی اس کا وہ حصہ جو موجودہ زمین کے ملک شام کے مقابل ہو گا) یہ آگ لوگوں سے دن رات میں کسی وقت جدا نہ ہو گی اور جب صبح ہو گی اور آفتاب بلند ہو جائے گا تو یہ آگ لوگوں کو ہنکائے گی جب لوگ ملک شام میں پہنچ جائیں گے تو یہ آگ غائب ہو جائے گی ۔
صحیح مسلم میں حضرت حذیفہ بن اسید غفاری سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے قیامت کی دس علامتیں بیان فرمائی ہیں ان میں سے آخری علامت یہ ہے
" نار تخرج من الیمن تطردالناس الی محشرھم "
ایک آگ یمن سے نکلے گی اور لوگوں کو ارض محشر یعنی سرزمین شام کی طرف ہنکا کر لے جائے گی ۔
اس کے بعد کچھ عرصہ نہایت عیش و آرام سے گزرے گا ۔ کفر اور بت پرستی پھیل جائے گی اور زمین پر کوئی خدا کا نام لینے والا باقی نہ وہ گا اس وقت قیامت قائم ہو گی اور حضرت اسرافیل کو صور پھونکنے کا حکم ہو گا ۔
تنبیہ:
اکثر احادیث میں خروج نار کو قیامت کی آخری نشانی بتایا گیا ہے لیکن صحیح بخاری کی ایک روایت میں ہے کہ اول نشانی قیامت کی وہ آگ ہو گی جو لوگوں کو مشرق سے مغرب کی طرف نکالے گی ان دونوں روایتوں میں تطبیق یہ ہے کہ گزشتہ علامتوں کے اعتبار سے یہ آخری نشانی ہے لیکن اس اعتبار سے کہ اس علامت کے ظہور کے بعد اب دنیا کی کوئی چیز باقی نہ رہے گی بلکہ اس کے بعد متصل نفخ صور واقع ہو گا اس کو اول نشانی کہا گیا ہے ۔
اعتبار خاتمہ کا ہے :
عقیدہ:
عمر بھر کوئی کیسا ہی بھلا ہو مگر جس حالت پر اس کا خاتمہ ہوتا ہے اسی کے موافق اس کا اچھا برا بدلہ ملتاہے ۔
عقیدہ:
آدمی عمر بھر میں جب کبھی توبہ کرے یا مسلمان ہو اللہ کے یہاں مقبول ہے البتہ مرتے دم جب سانس ٹوٹنے لگے اور عذاب کے فرشتے دیکھائی دینے لگیں اس وقت نہ توبہ قبول ہوتی ہے اور نہ ہی ایمان۔