اپنی ذمہ داریوں کا احساس کریں!

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
اپنی ذمہ داریوں کا احساس کریں!
اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ اس ذات نے ہمیں کھانے کے لیے خوراک پینےکےلیےمشروبات دیے اور رہنے کےلیے مکانات دئیے ہیں ۔ ہمارے گھروں میں رہنے والے لوگ ہماری رعایا ہیں ان کی صحیح تربیت کے بارے ہم سے پوچھ ہو گی ۔
ہر شخص کی ذمہ دارانہ حیثیت:
عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ أَلَا كُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْؤُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ فَالأَمِيرُ الَّذِي عَلَى النَّاسِ رَاعٍ وَهُوَ مَسْؤُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ وَالرَّجُلُ رَاعٍ عَلَى أَهْلِ بَيْتِهِ وَهُوَ مَسْؤُولٌ عَنْهُمْ وَالْمَرْأَةُ رَاعِيَةٌ عَلَى بَيْتِ بَعْلِهَا وَوَلَدِهِ وَهِيَ مَسْؤُولَةٌ عَنْهُمْ وَالْعَبْدُ رَاعٍ عَلٰى مَالِ سَيِّدِهِ وَهُوَ مَسْؤُولٌ عَنْهُ أَلاَ فَكُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْؤُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ.
صحیح مسلم ، رقم الحدیث :4751
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ بات اچھی طرح ذہن میں رکھو کہ تم میں سے ہر ایک شخص کسی نا کسی اپنے ماتحت کا نگران اور ذمہ دار ہے اور اس سے متعلقہ ذمہ داری و نگرانی کےبارے پوچھا جائے گا ۔ حاکم وقت لوگوں کا نگران اور ذمہ دار ہے اس سے اس کی رعایا کے بارے پوچھا جائے گا ۔ مرد اپنے گھر والوں (بیوی اور بچوں وغیرہ)کا نگران اور ذمہ ہے جن کے بارے اس سے سوال کیا جائے گا۔ اسی طرح عورت اپنے خاوند کے گھر اور اس کی اولاد کی نگران و ذمہ دار ہے اس سے ان کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ اسی طرح غلام اپنے آقاکے مال کا نگران اور ذمہ دار ہے اس سے بھی اس بارے سوال کیا جائے گا ۔ (آخر میں پھر تاکید کے ساتھ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ) یہ بات خوب اچھی طرح سمجھ لو کہ تم میں سے ہر ایک شخص کسی نا کسی اپنے ماتحت کا نگران اور ذمہ دار ہے اور اس سے متعلقہ ذمہ داری و نگرانی کےبارے پوچھا جائے گا ۔
ذمہ داریاں پوری نہ کرنے والے کی سزا:
حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: مَا مِنْ عَبْدٍ يَسْتَرْعِيْهِ اللَّهُ رَعِيَّةًيَمُوتُ يَوْمَ يَمُوتُ وَهُوَ غَاشٌّ لِرَعِيَّتِهِ إِلَّا حَرَّمَ اللهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ.
صحیح مسلم،رقم الحدیث :4757
ترجمہ: میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے خود سنا کہ کوئی بھی ذمہ دار شخص جسے اللہ نے کسی کی ذمہ داری سونپی تھی اگر وہ اپنے ماتحت لوگوں کے بارے اپنی ذمہ داری پوری نہ کرے بلکہ ان کو دھوکہ دے کر یہ جہان چھوڑ جائے تو اللہ تعالیٰ اس پر جنت کی خوشبو تک حرام فرما دیتے ہیں ۔
حاکم کی ذمہ دارانہ حیثیت :
حدیث مبارک میں حاکم وقت کواس کی ذمہ داریوں کا احساس دلاتے ہوئے فرمایا گیا ہے:”فَالأَمِيرُ الَّذِي عَلَى النَّاسِ رَاعٍ وَهُوَ مَسْؤُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ“
ترجمہ: حاکم وقت لوگوں کا نگران اور ذمہ دار ہے اس سے اس کی رعایا کے بارے پوچھا جائے گا ۔
جو جتنے لوگوں کا نگران و ذمہ دار بنتا ہے اس کی ذمہ داریوں کا دائرہ بھی اسی قدر وسیع ہو جاتا ہے ۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ حاکم کی ذمہ داریاں باقی لوگوں کی نسبت زیادہ ہوتی ہیں ۔ ان میں سے چند ایک یہ ہیں:

1.

دینی اقدار کے احیاء کی ممکنہ کوشش کرنا۔

2.

ہر حال میں امن و امان کو قائم کرنا۔

3.

معاشرتی جرائم کا جڑ سے خاتمہ کرنا ۔

4.

عوام کی مکمل دیکھ بھال کرنا ۔

5.

روزگار کے مناسب مواقع فراہم کرنا ۔

6.

دشمنوں سے حفاظت کا بندوبست کرنا ۔

7.

انصاف قائم کرنا اور اسے بحال رکھنا ۔

8.

عوام کو بنیادی ضروریات زندگی مہیا کرنا ۔
مرد کی ذمہ دارانہ حیثیت :
حدیث مبارک میں مرد کو اس کی ذمہ داریوں کا احساس دلاتے ہوئے فرمایا گیا ہے :”وَالرَّجُلُ رَاعٍ عَلَى أَهْلِ بَيْتِهِ وَهُوَ مَسْؤُولٌ عَنْهُمْ“
ترجمہ: مرد اپنے گھر والوں (بیوی اور بچوں وغیرہ)کا نگران اور ذمہ ہے جن کے بارے اس سے سوال کیا جائے گا۔
ایک ذمہ دار حیثیت کے مالک ہونے کے ناطے مرد کا حق بنتا ہے کہ وہ اپنی بیوی اور بچوں کی اچھی تربیت کرے ۔ ہم مستقل طور پر خواتین اوربچوں کے حقوق کے تحت ان باتوں کو تفصیل سے لکھ چکے ہیں۔ تاہم یہاں مختصراً ذکر کیے دیتے ہیں ۔
خاوند کے ذمہ بیوی کے حقوق:

1.

حق مہر ادا کرنا ۔

2.

بنیادی ضروریات زندگی[ رہائش اور خوراک ] فراہم کرنا ۔

3.

معاشی طور پر تحفظ فراہم کرنا ۔

4.

بیوی کے عقائد واعمال اور اخلاق ومعاشرت کی اصلاح کرنا ۔

5.

اگر بیویاں ایک سے زائد ہوں تو ان کے درمیان عدل و انصاف کرنا ۔

6.

حسنِ معاشرت [ نرمی کا برتاؤکرنا]۔

7.

بیوی کے قریبی رشتہ داروں کا احترام کرنا ۔

8.

بیوی کو عزت دینا بالخصوص لوگوں کی موجودگی میں ۔

9.

بیوی کے عیوب کسی کو نہ بتلانا ۔

10.

پریشانیوں سے بچانا ۔

11.

آئی ہوئی پریشانیوں کو دور کرنے کی کوشش کرنا ۔

12.

بیوی کے نامناسب رویوں کو برداشت کرنا اور سمجھاتے رہنا ۔

13.

گناہ کی باتوں اور کاموں سے روکنا ۔

14.

لباس میں اسلامی تہذیب کا پابند بنانا ۔

15.

پردے کا پابند بنانا۔

16.

تفریح اور خوش طبعی کے جائز مواقع فراہم کرنا۔

17.

گھر کے کام کاج میں ہاتھ بٹانا ۔
باپ کے ذمہ اولاد کے حقوق:

1.

اولاد کے لیے پاک دامن اور شریف ماں کا انتخاب کرنا ۔

2.

نیک و صالح اولاد کے حصول کی دعا کرنا ۔

3.

ایک کان میں اذان دوسرے میں اقامت کہنا۔

4.

گھٹی دینا ۔

5.

اچھے نام کا انتخاب کرنا ۔

6.

ختنہ کرانا ۔

7.

عقیقہ کرنا ۔

8.

دودھ اور غذا کا بندوبست کرنا ۔

9.

اولاد کے درمیان انصاف کرنا ۔

10.

اولاد کو نیک لوگوں کی صحبت میں لانا ۔

11.

اولاد کی اچھی تربیت کرنا ۔

12.

دین اور دنیا کی بہتر تعلیم دینا ۔

13.

برے دوستوں سے اسے دور رکھنا ۔

14.

بری عادات سے روکنا ۔

15.

بچوں کو چست رکھنا ۔

16.

اپنی حیثیت کے مطابق ان پر خرچ کرنا ۔

17.

ان کو روزگار کے قابل بنانا۔

18.

مناسب جگہ پر شادی کرانا ۔

19.

ہمیشہ ان کے حق میں دعائیں کرنا ۔
عورت کی ذمہ دارانہ حیثیت :
حدیث مبارک میں عورت کو اس کی ذمہ داریوں کا احساس دلاتے ہوئے فرمایا گیا ہے:
”وَالْمَرْأَةُ رَاعِيَةٌ عَلَى بَيْتِ بَعْلِهَا وَوَلَدِهِ وَهِيَ مَسْؤُولَةٌ عَنْهُمْ“
ترجمہ: عورت اپنے خاوند کے گھر اور اس کی اولاد کی نگران و ذمہ دار ہے اس سے ان کے بارے میں پوچھا جائے گا ۔
بیوی کے ذمہ خاوند کے حقوق:

1.

شرعاً حلال اور جائز امور میں خاوند کی اطاعت کرے ۔

2.

شرعا حرام اور ناجائز امور میں خاوند کی اطاعت نہ کرے ۔

3.

خاوند کے جنسی تقاضے کی تکمیل کرے ۔

4.

خاوند کی نسل کی بقاء کا ذریعہ بنے ۔

5.

گھریلو معاملات کو سمجھ داری سے چلائے ۔

6.

خاوند کا راز کسی کو نہ بتلائے ۔

7.

خاوند کے عیوب کا تذکرہ نہ کرے ۔

8.

خاوند کے مال کی حفاظت کرے ۔

9.

فضول خرچی سے بچے ۔

10.

خاوند پر زائد از ضروریات چیزوں کا بوجھ نہ ڈالے ۔

11.

بچوں کی اچھی تربیت میں خاوند کا ساتھ دے ۔

12.

خاوند کے قریبی رشتہ داروں کا[ بشرط ِمحرم ]احترام کرے ۔
ذمہ داریوں کا احساس کیجیے:
حدیث مبارک میں جس بات کو سمجھایا گیا ہے اس کو اجمالی طور پر احساس ذمہ داری سے تعبیر کیا جا سکتا ہے ۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر ایک شخص کو اپنے ماتحتوں کے اعتبار سے ذمہ دار ٹھہرایا ہے ۔ ساتھ ہی ساتھ اس بارے احساس بھی دلایا ہے کہ اس میں غفلت اور سستی سے کام نہ لو بلکہ اس بارے پوچھا جائے گا کہ تم نے اپنے ماتحتوں کو درست عقائد ، مسنون اعمال ، اسلامی اخلاق اور تہذیب و معاشرت سکھلانے میں کیا کردار ادا کیا ہے ؟
اللہ تعالیٰ ہمیں احساسِ ذمہ داری کی نعمت عطا فرمائے اور ہمارے تمام خیر کے کاموں کے لیے خود ہی مددگار اور کارساز ہوجائے ۔
آمین بجاہ سید النبیین صلی اللہ علیہ وسلم
والسلام
محمدالیاس گھمن
جمعرات ،20 فروری ،2020ء