کامیابی اور ناکامی شریعت کی نظر میں

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
کامیابی اور ناکامی شریعت کی نظر میں
اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نیکیوں کو اپنانے جبکہ گناہوں سے بچنے کا حکم دیا ہے، مزید احسان یہ فرمایا ہے کہ کامیابیوں اور ناکامیوں کی نشاندہی بھی فرما دی ہے ۔
آج دنیا کا ہرشخص کامیابی کو حاصل کرنےکےلیے محنت کرتا ہے اور ناکامی سے بچنے کی تدابیر اختیار کرتا ہے۔ذیل میں ایک حدیث پیش کی جارہی ہے جس میں محسن انسانیت خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کی رہنمائی فرماتے ہوئے مختصر الفاظ میں جامع ہدایات ارشاد فرمائی ہیں:
عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: أَوَّلُ صَلَاحِ هَذِهِ الْأُمَّةِ بِالْيَقِينِ وَالزُّهْدِ وَأَوَّلُ فَسَادِهَا بِالْبُخْلِ وَالْأَمَلِ ۔
شعب الایمان للبیہقی، رقم الحدیث :10350
ترجمہ: حضرت عمرو بن شعیب اپنے والد اور وہ اپنے دادا رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”اس امت کی کامیابی کی بنیادی چیزیں یقین کرنا اوردنیا سے بے رغبتی اختیار کرنا ہے اور اس امت کی بربادی کی بنیادی چیزیں بخل اور دنیا کے بارے لمبی لمبی امیدیں باندھنا ہے ۔“
اس میں پہلی بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ارشاد فرمائی کہ کامیابی کے حصول کے لیے دو راستے ہیں جو شخص ان راستوں پر چلے گا یقیناً وہ کامیاب ہوگا ان میں پہلا راستہ اللہ تعالیٰ کی ذات پر مکمل یقین کرنے کا ہے ۔ اس راستے پر چلنے سے اس کی زندگی میں خوشی ،سکھ ، چین ، راحت اور سکون واطمینان نصیب ہوگااور وہ ترقی کی تمام منزلیں آسانی سے طے کر لے گا ۔ اس یقین کی چند اہم صورتیں ہیں ۔
اللہ تعالیٰ کے امر پر یقین رکھنا:
انسان اپنے دل و دماغ میں یہ بات اچھی طرح بٹھا لے اور اس پر یقین کر لے کہ جو کچھ ہوتا ہے وہ اللہ کے حکم سے ہوتا ہے، نفع و نقصان کی مالک و مختار صرف اللہ کی ذات ہے ، کامیابی دلانا اور ناکامی سے بچانا اسی کے قبضہ قدرت میں ہے، اس کے چاہنے سے ہی عزت ملتی ہے اور وہی ذلت و رسوائی سے بچا سکتا ہے، رزق روزی اسی کے اختیار میں ہے دُکھ سُکھ اسی ذات کے ہاتھ میں ہے ، زمین و آسمان اور کائنات کے ذرے ذرے میں اسی کی بادشاہت کار فرما ہے۔ قرآن کریم اسی بات کو یوں سمجھایا گیا ہے:
وَ مَا تَشَآءُوۡنَ اِلَّاۤ اَنۡ یَّشَآءَ اللّٰہُ رَبُّ الۡعٰلَمِیۡنَ
سورۃ التکویر، رقم الآیۃ :29
ترجمہ: ”تمہاری چاہت اس وقت تک مکمل نہیں ہو سکتی جب تک دونوں جہانوں کے رب کی منشاء اس میں شامل نہ ہو جائے ۔“
یقین کیجئے کہ جس شخص میں یقین کا یہ درجہ پیدا ہو جائے اس کے دل سے مخلوق کا خوف نکل جاتا ہے اور حق بات کہنے میں کسی سے خوف زدہ اور مرعوب نہیں ہوتا۔
اللہ تعالیٰ کی قدرت پر یقین رکھنا:
انسان اللہ رب العزت کی قدرت کاملہ پر یقین رکھے اور اس عقیدے پر اپنی زندگی گزارے کہ جو اللہ تعالیٰ نے اس کے مقدر میں لکھ دیا ہے وہ اسے ضرور ملے گانہ اس سے کم اور نہ ہی اس سے ایک ذرہ زیادہ۔ اور جو مقدر میں نہیں لکھا وہ اسے کبھی بھی نہیں مل سکتا۔مال و دولت ، آل و اولاد کا ملنا ہو یااس کا ختم ہونا، رزق کی فراخی ہو یا قلت وتنگدستی، حوادثات زمانہ سےمحفوظ رہنا ہو یا مصائب میں الجھنا ۔ الغرض ہر بات میں اللہ کی قدرت کاملہ اس کی ساری تدابیر پر غالب رہتی ہے۔
جس شخص میں یقین کا یہ درجہ پیدا ہوجائے وہ دنیا کے حصول میں میانہ روی اختیار کر لیتا ہے اور غیر شرعی مصروفیات سے دور رہنے کی کوشش کرتا ہے ، خدانخواستہ کبھی نقصان ہو بھی جائے تو اس کا دل اللہ کی رضا پر راضی رہتا ہے ۔ صبر و شکر کا عادی بن جاتا ہے جو اسے ذہنی تکلیف سے نجات دلاتی ہے ۔
اللہ تعالیٰ کے علم پر یقین رکھنا:
انسان اپنا یہ عقیدہ بنائے کہ اللہ تعالیٰ کو میرے ہر عمل کا علم ہے، میرے قول و فعل اور ظاہر و باطن سے بخوبی واقف ہے، وہ ذات رات کے اندھیروں میں، دن کے اجالوں میں، آبادیوں اور ویرانوں میں، جنگلوں اور پہاڑوں میں ، زمینوں اور آسمانوں میں جو کوئی جو کچھ کر رہا ہے وہ اس کے احاطۂِ علم میں ہے۔ کوئی چیز بھی اس کے علم سے پوشیدہ نہیں۔قرآن کریم میں اسی بات کو یوں سمجھایا گیا ہے :
اَللہُ یَعۡلَمُ مَا تَحۡمِلُ کُلُّ اُنۡثٰی وَ مَا تَغِیۡضُ الۡاَرۡحَامُ وَ مَا تَزۡدَادُ ؕ وَ کُلُّ شَیۡءٍ عِنۡدَہٗ بِمِقۡدَارٍ عٰلِمُ الۡغَیۡبِ وَ الشَّہَادَۃِ الۡکَبِیۡرُ الۡمُتَعَالِ سَوَآءٌ مِّنۡکُمۡ مَّنۡ اَسَرَّ الۡقَوۡلَ وَ مَنۡ جَہَرَ بِہٖ وَ مَنۡ ہُوَ مُسۡتَخۡفٍۭ بِالَّیۡلِ وَ سَارِبٌۢ بِالنَّہَارِ۔
سورۃ الرعد، رقم الآیۃ:8 تا 10
ترجمہ: ”اللہ کے علم میں ہے وہ جو حمل والی خواتین کے پیٹ میں ہے اور جو کچھ رحم مادر میں بڑھتا یا سکڑتا ہے ، اور ہر چیز کے لیے اس کے ہاں ایک پیمانہ مقرر ہے وہ پوشیدہ کو بھی جانتا ہے اور ظاہر کو بھی ، وہ سب سے بڑا اور برتر ہے اس کے ہاں برابر ہے کوئی آہستہ بولے یا زور سے وہ سب سن لیتا ہے اس طرح اس کے لیے یہ بات بھی برابر ہے جو رات کو چھپ جائے یا دن کو ظاہر ہو کر پھرے ۔ “
جس شخص میں یقین کا یہ درجہ پیدا ہو جائے گا اس کےلیے ظاہر و باطن کی اصلاح کرنا آسان ہو جاتا ہے اور اس کے دل میں فکر پیدا ہوتی ہے جو فکر دونوں جہانوں کی ترقیوں کا زینہ بنتی ہے ۔وہ کھلے عام بھی برائیوں کو چھوڑ دیتا ہے اور چھپ کر بھی گناہ کرنے سےبچتا ہے تاکہ اس کا رب ناراض نہ ہو جائے۔
قیامت کے دن پر یقین رکھنا :
انسان یہ عقیدہ اپنائے کہ ایک دن ضرور اپنے رب کے پاس پہنچے گا جہاں اس کو اپنے اعمال کی جزا یا سزا ملے گی ، نیکیوں کا صلہ بھی ملے گا اور گناہوں کا عذاب بھی اس دن اس کا ہر عمل اس کے سامنے پیش کر دیا جائے گا۔ قرآن کریم میں اسی بات کو یوں سمجھایا گیا ہے :
فَمَنۡ یَّعۡمَلۡ مِثۡقَالَ ذَرَّۃٍ خَیۡرًا یَّرَہٗ وَ مَنۡ یَّعۡمَلۡ مِثۡقَالَ ذَرَّۃٍ شَرًّا یَّرَہٗ
سورۃ الزلزال، رقم الآیۃ: 8،7
ترجمہ: ”جس نے ذرہ برابر نیکی کی وہ اس کو دیکھ لے گا اور جس نے ذرہ برابر برائی کی وہ اس کو دیکھ لے گا ۔ “
جس شخص میں یقین کا یہ درجہ پیدا ہو جائے وہ عبادتِ خداوندی اوراطاعتِ نبوی پر چل پڑتا ہے اپنے نامۂِ اعمال سے گناہوں کو ختم کرنے کے لیے روزانہ توبہ کرنے لگ جاتا ہے مزید یہ کہ اس کا دل ہر وقت اللہ کی یاد میں رہنے لگتا ہے ۔
یقین کے یہ چار درجے حاصل کرنے کےلیے ہمیں سنجیدگی سے فکر کرنے کی ضرورت ہے ۔ اس کے بعد دوسری چیز جس پر کامیابی ملتی ہے وہ ہے زُہد۔
زُہدکیا ہے؟:
انسان دنیا میں رہتے ہوئے خالق اور مخلوق دونوں کے حقوق ادا کرنے کی بھرپور کوشش کرے۔ لوگوں سے میل جول رکھے ، اچھا لباس ، اچھی خوراک، عمدہ رہائش اگر میسر ہے تو اسے اللہ کی نعمت سمجھ کر استعمال کرے اس پر شکر ادا کرے اور اگر یہ چیزیں میسر نہ ہوں تو صبر سے کام لے شکوہ و شکایت کا مزاج نہ بنائے۔ اپنے دل کو دنیا سے بے نیاز رکھے اور ہر معاملے میں دنیا پر آخرت کو ترجیح دے تاکہ آخرت کے نقصان سے بچنے کےلیے دنیا کا نقصان برداشت کرنا اس کے لیے آسان ہو جائے ۔
یہاں ایک اہم بات کی وضاحت ضروری ہےوہ یہ کہ بعض لوگ کم علمی اور کم فہمی کی بنیاد پرغلط فہمی میں مبتلا ہو جاتے ہیں، وہ سمجھتے ہیں کہ زُہد کا معنیٰ پھٹا پرانا لباس اور بدحالی والی زندگی گزارنا ہے۔ حالانکہ یہ بات سراسر غلط ہے ۔
زہد امام سفیان ثوری ﷬ کی نظر میں:
امام سفیان ثوری رحمہ اللہ)المتوفیٰ : 161ھ( فرماتے ہیں:
لَيْسَ الزُّهْدُ فِي الدُّنْيَا بِلُبْسِ الْغَلِيظِ وَالْخَشِنِ وَأَكْلِ الْجَشِبِ إِنَّمَا الزُّهْدُ فِي الدُّنْيَا قَصْرُ الأَمَلِ۔
شرح السنۃ للبغوی، رقم الحدیث :4093
ترجمہ: ”زُہدکا معنیٰ یہ نہیں کہ کھانا روکھا سوکھا کھایا جائے، لباس پھٹا پراناپہنا جائے بلکہ زُہد کی حقیقت یہ ہے کہ دنیا کی امیدیں اور آرزوئیں کم کر دی جائیں ۔“
دنیاوی اسباب کو ترک کرنا زُہد نہیں :
شریعت میں جائز اور حلال چیزوں سے نفع حاصل کرنے کو ناجائز خیال کر کے رہنا زہد کی حقیقت نہیں بلکہ زہد کی حقیقت سےلا علمی ہے ۔ہمارے ہاں ایک المیہ یہ بھی ہے کہ بعض لوگ دنیاوی کام کاج چھوڑدیتے ہیں ، ملازمت سے مستعفی ہو جاتے ہیں ، رزق حلال کمانا بند کردیتے ہیں ، ذرائع آمدن کو ”دنیا“ تصور کر کے اس سے الگ تھلگ ہوکر گوشہ نشینی اختیار کر لیتے ہیں اور اسے ”زُہد“ سمجھتے ہیں حالانکہ یہ رہبانیت ہے جس سے اسلام نے سختی سے منع فرمایا ہے ۔
زہد امام مالک بن انس ﷬ کی نظر میں:
امام مالک رحمہ اللہ )المتوفیٰ:179ھ( زُہد کے بارےفرماتے ہیں :
طِيبُ الْكَسْبِ وَقِصَرُ الْأَمَلِ۔
شعب الایمان للبیہقی،رقم الحدیث :10293
ترجمہ: ”زرق حلال کمایا جائے اور دنیا کی لمبی آرزؤوں کو چھوڑ دینا چاہیے۔“
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہادی کامل ہیں۔ صرف کامیابی کے روشن راستوں تک رہنمائی نہیں کی بلکہ ناکامی کے راستوں کی نشان دہی بھی کر دی ہے تاکہ اس سے بچا جا سکے ۔ چنانچہ آپ نے بخل اورامل )دنیا کی لمبی امیدوں (کو ناکامیوں کے تاریک راستے قرار دیا۔ جس پر چل کر انسان دونوں جہانوں میں ناکام و نامراد رہتا ہے ۔
بُخل کیا ہے ؟:
خرچ کرنے کے مواقع پر بھی انسان خرچ نہ کرے ، اس سے دنیا کی محبت ، لالچ ، طمع اور حرص پیدا ہوتی ہے انسان ہر وقت پیسوں کو گن گن کر جوڑنے کی فکر میں رہتا ہے ، اپنے آپ پر ، آل اولاد پر ، عزیز واقارب پر اور ضرورت مندوں پر خرچ کرنا اور ان کے مالی حقوق ادا کرنا اس کے لیے بہت مشکل ہوتا ہے ، اس کی طبیعت اور مزاج میں سب رشتوں کی قدر مال و دولت سے کم ہوتی ہے ،اللہ کے راہ میں خرچ نہ کرنا ، واجبی صدقات زکوٰۃ ، عشر اور قربانی نہ کرنا اور یتیموں ،مسکینوں اور غریبوں سے انسانی ہمدردی ختم ہو جاتی ہے اس لیے وہ خالق اور مخلوق دونوں کی نظروں سے گر جاتا ہے ۔ اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بری صفت سے بچنے کا حکم دیا ہے اور اسے فساد امت کی جڑ قرار دیا ہے ۔
کفایت شعاری اور بخل میں فرق:
کفایت شعاری اور بخل میں فرق ہے ۔کفایت شعاری بہت ضروری چیز ہے اسے اپنانے کا حکم ہے جبکہ بخل ناپسندیدہ بات ہے اس سے بچنے کا حکم ہے ۔ کفایت شعاری یہ ہے کہ انسان فضول خرچی سے بچے لیکن ضرورت کے مواقع پر مناسب طریقے سے خرچ کرے ، اپنی حیثیت کے مطابق اپنے آپ پر ، اہل خانہ ، آل واولاد پر ، قریبی رشتہ داروں اور ضرورت مندوں پر خرچ کرے جبکہ بخل یہ ہے کہ انسان کا خون سفید ہو جائے اور اس کی نگاہ میں خونی رشتوں ، انسانی قدروں اور معاشرتی تقاضوں کی کوئی اہمیت باقی نہ رہے بس پیسہ ہی سب کچھ ہو ۔
امَلْ کیا ہے ؟:
دنیا کی لمبی لمبی امیدیں باندھنا اور ان امیدوں کی تکمیل میں آخرت کو بھول جانا ۔ آج ہماری حالت ایسی ہوتی جا رہی ہے کہ ہم اپنی دنیاوی امیدوں کو پورا کرنے کے لیے جائز وناجائز اور حلال و حرام کی پرواہ نہیں کرتے ، اپنی تمام تر توانائیاں فقط دنیاوی مال و متاع کے حصول میں لگا رہے ہیں، آخرت کو بھول چکے ہیں ، موت ،قبر، میدان محشر،جنت ،جہنم اوراخروی انعام و عذاب کو یکسر بھول بیٹھے ہیں ہر وقت اپنی دھن میں لگے ہوئے ہیں جبکہ ایک پل کا علم نہیں کہ کب جان نکل جائے؟اس لیے ہمیں شریعت کے مبارک تعلیمات پر چلنا ہوگا ورنہ دنیا و آخرت میں ہماری نجات ممکن نہیں ۔ اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق عطا فرمائیں ۔
آمین بجاہ النبی الکریم صلی اللہ علیہ وسلم
والسلام
محمدالیاس گھمن
جمعرات ،2 جولائی ،2020ء