دین خیرخواہی کا نام ہے

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
دین خیرخواہی کا نام ہے
اللہ تعالیٰ نے ہمیں جو دین عطا فرمایا ہے وہ سراسر ”نصیحت“ہے۔
عَنْ تَمِيمِنِالدَّارِيِّ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ الدِّينُ النَّصِيحَةُ قُلْنَا لِمَنْ قَالَ لِلهِ وَلِكِتَابِهِ وَلِرَسُولِهِ وَلِأَئِمَّةِ الْمُسْلِمِينَ وَعَامَّتِهِمْ۔
صحیح مسلم، رقم الحدیث : 82
ترجمہ: حضرت ابو رقیہ تمیم بن اوس الداری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ یہ بات ارشاد فرمائی کہ دین سراسر خیرخواہی کا نام ہے ۔ اس پر ہم )صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین(نے عرض کی: اے اللہ کے رسول!کس کے ساتھ خیرخواہی کرنا دین ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اللہ، اس کی کتاب )قرآن کریم(،اس کے رسول )حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم (، مسلم حکمرانوں اور عام مسلمانوں کے ساتھ خیرخواہی کرنا دین ہے ۔
فائدہ: حدیث مبارک جامعیت و معنویت کے اعتبار سے بہت اہم ہے اور محدثین کرام رحمہم اللہ نے اس کا شمار ان احادیث میں کیا ہے جن پر فقہ اسلامی کا مدار ہے ۔
1: اللہ تعالیٰ کے ساتھ خیرخواہی:
حدیث مبارک میں سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کے ساتھ خیرخواہی کا ذکر ہے ۔ جس کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بارے یہ بنیادی عقائد رکھے جائیں کہ

1.

وہ ذات بغیر ابتداء کے ہمیشہ سے موجود اور بغیر انتہاء کے ہمیشہ فنا سےمحفوظ ہے ۔

2.

وہ اپنی ذات اور صفات خاصہ میں اکیلی ہے اس کا کوئی شریک نہیں۔

3.

وہ ذات صمد ہے یعنی جس کا ہرکام مخلوق کے بغیر ہوجائے اور مخلوق کا کوئی کام اس کے بغیر نہ ہو۔

4.

وہ ذات ایسی ہے کہ جو نہ خود کسی کی اولاد ہے اور نہ ہی اس کی کوئی اولاد ہے۔

5.

وہ ذات ہر چیز پر قدرت اور مکمل اختیارات رکھنے والی ہے۔

6.

وہ ذات عالم الغیب والشہادۃ ہے۔ )غیب سے مراد وہ باتیں ہیں جو مخلوق کو بغیر اطلاع کے معلوم نہ ہوں اور شہادۃ سے مراد وہ باتیں جو مخلوق کو اطلاع کے ساتھ معلوم ہوجائیں (

7.

وہ ذات ہر جگہ حاضروناظر ہے ۔

8.

وہ ذات تمام مخلوقات کی خالق اور مالک ہے ۔

9.

وہ ذات جسم اور جسمانی اعضاء سے پاک ہے ۔

10.

وہ ذات ہی ہماری عبادت کے لائق ہے اس کے علاوہ کوئی نہیں

11.

وہ ذات چاہے تو اولاد دے دے اور چاہے تو نہ دے ۔

12.

وہ ذات زندگی، موت، عزت، ذلت،خوشی، غمی،سکھ اور دکھ دینے والی ہے
اللہ تعالیٰ نے ہمارے ذمے جتنے احکام لگائے ہیں ان کو اخلاص کے ساتھ ادا کیا جائے اور جن کاموں سےروکاہے ان سے رکنا چاہیے،اسی میں ہماری بھلائی ہے ۔
خیرخواہی کا عرفی معنیٰ مراد نہیں:
ہمارے عرف میں خیرخواہی کا معنیٰ ہوتا ہےدوسرے کا بھلا چاہنا اور اسے نقصان سے بچانے کےلیے مخلصانہ کوشش کرنا۔یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کر لی جائے کہ یہاں ”خیرخواہی“ کا لفظ اپنے اس عرفی معنیٰ میں نہیں ہے کیونکہ اس اعتبار سے خالق کے ساتھ خیرخواہی کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ ہاں البتہ خالق کےاوامر )احکامات(اور منہیات )جن باتوں سے روکا گیا ہے ( پر عمل کرنے سے خود مخلوق کو ضرور فائدہ پہنچتا ہے اللہ تعالیٰ کی ذات مخلوق کی طرف سے تمام خیر و شر اور ان کے فوائد و نقصانات ملنے سے پاک ہے۔
خالق سے خیرخواہی کب ہوگی؟
یہ بات اچھی طرح یاد رکھیں کہ اللہ تعالیٰ سے خیرخواہی )اوامر و نواہی پر عمل کرنا(اس وقت ہوگی جب انسان کےدل میں اللہ تعالیٰ کی محبت رچ بس جائے اور ہر وقت محض اللہ تعالیٰ کی رضا اس کے پیش نظر ہو ۔ یہی وہ چیز ہے جو انسان کو اللہ تعالیٰ کے احکامات پر چلاتی اور منہیات سے بچاتی ہے۔
دو غلاموں کی مثال:
فِي مَرَاسِيلِ الْحَسَنِ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: أَرَأَيْتُمْ لَوْ كَانَ لِأَحَدِكُمْ عَبْدَانِ فَكَانَ أَحَدُهُمَا يُطِيعُهُ إِذَا أَمَرَهُ، وَيُؤَدِّي إِلَيْهِ إِذَا ائْتَمَنَهُ، وَيَنْصَحُ لَهُ إِذَا غَابَ عَنْهُ وَكَانَ الْآخَرُ يَعْصِيهِ إِذَا أَمَرَهُ وَيَخُونُهُ إِذَا ائْتَمَنَهُ وَيَغُشُّهُ إِذَا غَابَ عَنْهُ كَانَا سَوَاءً؟ قَالُوا: لَا۔ قَالَ: فَكَذَاكُمْ أَنْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَزَّوَجَلَّ۔
جامع العلوم والحکم لابن رجب، الحدیث السابع
ترجمہ: حضرت حسن بصری رحمہ اللہ سے )مرسلاً( روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے فرمایا: اگر آپ میں سے کسی کے پاس دو غلام ہوں ان میں سے ایک تو اپنےمالک کی بات ماننے والا ہو، اس کی امانت میں خیانت نہ کرتا ہو اور اپنے مالک کی غیر موجودگی میں اس کے لیے خیرخواہی کرتا ہو جبکہ دوسرا غلام اپنے مالک کی بات نہ مانتا ہو، اس کی امانت میں خیانت کرتا ہو اور اپنے مالک کی عدم موجودگی میں اس کا بدخواہ ہو ۔ آپ لوگوں کا کیا خیال ہے کہ وہ دونوں )اپنے مالک کی نظر میں( برابر ہو سکتے ہیں؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی : بالکل نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہی معاملہ اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں کے ساتھ بھی ہے ۔
2:قرآن کریم سے خیرخواہی:
حدیث مبارک میں دوسرے نمبر پر اللہ کی کتاب یعنی قرآن کریم کے ساتھ خیرخواہی کا ذکر ہے ۔جس کا معنی یہ ہے کہ قرآن کریم کے حقوق ادا کیے جائیں ۔
قرآن کریم کے چند اہم حقوق:
عَنْ عُبَيْدَةَ الْمُلَيْكِيِّ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ وَكَانَتْ لَهُ صُحْبَةٌ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَا أَهْلَ الْقُرْآنِ لَا تَوَسَّدُوْا الْقُرْآنَ وَاتْلُوهُ حَقَّ تِلَاوَتِهِ آنَاءَ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَأَفْشُوهُ وَتَغَنَّوْهُ وَتَدَبَّرُوا مَا فِيهِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ وَلَا تَعْجَلُوْا تِلَاوَتَهُ فَإِنَّ لَهُ ثَوَابًا۔
شعب الایمان للبیہقی ، رقم الحدیث : 1852
ترجمہ: صحابی رسول حضرت عبیدہ مُلیکی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے قرآن کو ماننے والو!قرآن پر سہارا کر کے بیٹھ نہ جاؤ )کہ ہمارے پاس قرآن ہے اور ہم قرآن والے ہیں ( بلکہ

1.

دن رات اس کی تلاوت کیا کرو جیسا کہ اس کی تلاوت کا حق ہے۔

2.

اس کو پھیلاؤ۔

3.

اس کو مزے لے لے کر پڑھو ۔

4.

اس میں غور و فکر کرو۔

5.

کامیابی کےلیے پُرامید رہو۔

6.

اوراس کی تلاوت میں جلدی نہ مچاؤاس کا عظیم ثواب ملنے والا ہے ۔
مزید چند حقوق:

1.

اللہ احکم الحاکمین کا برحق کلام مانے۔

2.

تحریف اور تبدیلی سے پاک مانے۔

3.

ذریعہ ہدایت اور باعث نجات مانے ۔

4.

اللہ کی آخری کتاب مانے۔

5.

اس کی تعظیم اور قدر ومنزلت کو پہچانے اور مانے۔

6.

اس کومستند قراء اور علماء سے سیکھے اور دوسروں کو بھی سکھائے۔

7.

اس میں ذکر کیے گئے آدابِ زندگی اور اخلاقِ حسنہ کو اپنائے ۔

8.

اس کے قصص اور واقعات سے عبرت حاصل کرے۔

9.

جن آیات میں عذاب کا تذکرہ ہے ان سے پناہ مانگے اور جن میں ثواب کا تذکرہ ہے ان کے حصول کی دعا کرے ۔

10.

کفار کی طرف سے اس پر ہونے والے تمام شکوک و شبہات کا مدلل جواب دے اور اس کی صحیح تعبیر و تفسیر امت کے سامنے پیش کرے ۔
فائدہ: حدیث مبارک کے اس حصے میں خیرخواہی کا عرفی معنی مراد نہیں قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا کلام ہے جو مخلوق کی طرف سے خیر و شر سے پاک ہے۔
3: رسول اللہ ﷺ سے خیرخواہی:
حدیث مبارک میں تیسرے نمبر پر اللہ کے رسول حضور خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خیرخواہی کا ذکر ہے جس کا معنی یہ ہے کہ

1.

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کا برحق رسول اور نبی مانے۔

2.

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری نبی اور رسول مانے۔

3.

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ذات کے اعتبار سے انسان اور بشر مانے جبکہ صفت کے اعتبار سے نورہدایت مانے۔

4.

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوہر قسم کے گناہ سے معصوم مانے۔

5.

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام انبیاء ورسل علیہم السلام سے افضل مانے۔

6.

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے روضہ مبارکہ میں زندہ مانے ۔

7.

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کثرت کے ساتھ تحفہ درود و سلام بھیجے۔

8.

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کو کامل ومکمل مانے ۔

9.

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل اطاعت کرے۔

10.

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک سنتوں پر عمل کرے بلکہ آج کے دور میں تو سنتوں کو زندہ کرے ۔

11.

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کےدوستوں سےمحبت اور دشمنوں سے دشمنی رکھے ۔

12.

علوم نبوت کو حاصل کرے اور انہیں پھیلانے کی کوشش کرے۔

13.

روز محشر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کی امید رکھے اور وہ اعمال کرے جن سے آپ کی شفاعت نصیب ہوتی ہے ۔
فائدہ: حدیث مبارک کے اس حصے میں خیرخواہی کا عرفی معنی مراد نہیں کیونکہ اللہ کے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہماری خیرخواہی کے محتاج نہیں بلکہ ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خیرخواہی کی ضرورت ہے ۔
4: مسلم حکمرانوں کے ساتھ خیرخواہی:
حدیث مبارک میں چوتھے نمبر پر مسلم حکمرانوں کے ساتھ خیرخواہی کا ذکر ہے ۔ جس کا معنی یہ ہے کہ

1.

دائرہ شریعت میں رہتے ہوئے عدل و انصاف بلکہ تمام انتظامی امور میں مسلم حکمرانوں کا ساتھ دے ۔

2.

حکمت ومصلحت کے ساتھ غیر شرعی کاموں سے دور رکھنے کی کوشش کرے

3.

ان کے غلط فیصلوں پر متنبہ کرنے کےلیے وقت کے تقاضے کے مطابق مناسب وقت اور نرم لہجے کا انتخاب کرے۔
فائدہ: حدیث مبارک کے اس حصے میں خیرخواہی کا عرفی معنی مراد ہے کیونکہ مسلم حکمران ہماری اور ہم ان کی خیرخواہی کے محتاج ہیں۔
5:عام مسلمانوں کے ساتھ خیرخواہی:
حدیث مبارک میں پانچویں نمبر پر عام مسلمانوں کے ساتھ خیرخواہی کا ذکر ہے ۔ جس کا معنی یہ ہے کہ ان کے

1.

دینی ودنیاوی فوائد کی جانب صحیح رہنمائی کرے۔

2.

دشمنوں کے مقابلے میں ان کی مدد کرے ۔

3.

عیوب اور نقائص کو چھپائے

4.

ان کے لیے دعائیں کرے ۔

5.

ان سے حسن سلوک کرے۔

6.

انہیں لوگوں کے سامنے شرمندہ اور ذلیل نہ کرے۔

7.

ان سے دھوکہ، فراڈ ، کینہ حسد اور بغض نہ رکھے۔

8.

ان کے بارے غیبت،چغلی، تہمت اور بہتان نہ لگائے۔

9.

زبان اور دیگر اعضاء سے تکلیف نہ پہنچائے ۔

10.

انہیں نیکی کی باتوں کی ترغیب اور حکم جبکہ برائی کی باتوں سے روکے ۔
فائدہ: حدیث مبارک کے اس حصے میں خیرخواہی کا عرفی معنی مراد ہے ۔
اللہ تعالیٰ ہمیں ان تمام باتوں پرعمل کی توفیق دیں ۔
آمین بجاہ النبی الکریم صلی اللہ علیہ وسلم ۔
والسلام
محمدالیاس گھمن
جمعرات ،9 جولائی ،2020ء