سُسرِ رسول سیدنا ابو سفیان

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
سُسرِ رسول سیدنا ابو سفیان
اللہ تعالیٰ نے جنہیں دولت اسلام سے نوازا وہ لوگ سب سے خوش نصیب افراد ہیں اور پھر ان خوش نصیبوں کے کیا کہنے کہ جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت نصیب ہوئی ۔ ایسے خوش نصیب مسلمانوں کو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کہا جاتا ہے اور پھر ان صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے بعض وہ خوش قسمت ترین افراد بھی ہیں جن کے گھرانے کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رشتہ داری قائم فرمائی۔ انہی خوش نصیب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے ایک نام سیدنا ابوسفیان رضی اللہ عنہ بھی ہیں جن کی صاحبزادی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اہلیہ محترمہ اور تمام مومنوں کی ماں ہیں ۔
نام ونسب اور کنیت:
حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ کا نسب مبارک چوتھی پشت میں جا کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مل جاتا ہے ۔ آپ کا نام صخر بن حرب بن امیہ بن عبدشمس بن عبدمناف ہے اور مشہور کنیت ”ابوسفیان “ہے ۔
خاندانِ نبوت سے رشتہ داری:
رشتہ داری کے اعتبار سے حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سسر ہیں ۔ آپ رضی اللہ عنہ کی ایک بیٹی حضرت رملہ اُمِ حبیبہ رضی اللہ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ ہیں ۔ دوسری بیٹی حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا ہیں جو حضرت حسین بن علی رضی اللہ عنہ کی ساس صاحبہ )خوش دامن(ہیں۔
اس طرح کہ حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کی بیٹی حضرت لیلیٰ بنت ابی مُرَّہ رضی اللہ عنہاہیں جو حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی زوجہ ہیں جن سے حضرت علی اکبر رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے جنہوں میدانِ کربلا میں اپنے والد حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ جامِ شہادت نوش کیا ۔
قبولِ اسلام:
فتح مکہ کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دس ہزار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی معیت میں مکہ سے کچھ پہلے ”مر الظہران“ نامی مقام پر پڑاؤ ڈالا، قریش کو اس کی خبر ہوئی تو اْنہوں نے ابو سفیان اور کچھ لوگوں کو بغرض تجسس بھیجا۔ابو سفیان سے ایک شخص نے کہا کہ شاید یہ بنو خزاعہ کے لوگ ہیں جو بدلہ لینے آئے ہیں۔
ابو سفیان نے کہانہیں ان کے پاس اتنے لوگ کہاں؟ جبکہ ادھر دوسری طرف معاملہ یہ تھا کہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں مسلمانوں اور ان کے لشکر کی حالت کو دیکھ کر سمجھ گیا کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ کے ساتھ مکہ کو فتح کیا تو قریش کی خیر نہیں۔ ہاں! اگر کسی طریقہ سے قریش کو خبر ہو جائے اور وہ آکر امن میں داخل ہوجائیں تو بہتر ہے۔ اسی فکر میں نکلا کہ چند آدمیوں کی آوازیں میرے کانوں میں پڑیں،یہ لوگ تجسس کی غرض سے آئے ہوئے تھے،جن میں ابو سفیان بن حرب بھی تھے، میں نے ان کو پہچان لیا،ابو سفیان نے مجھ سے لشکر کا حال معلوم کرنا چاہا تو میں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دس ہزار کے لشکر کے ساتھ تشریف لائے ہیں۔ ابوسفیان نے کہا کہ پھر مجھے کیا کرنا چاہیے؟
میں نے کہا کہ خدمت اقدس میں حاضر ہو کر امن حاصل کر لوچنانچہ میں ابوسفیان کو سواری پر بٹھا کرلے چلا، راستے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دیکھ لیا تو فرمانے لگے: الحمد للہ! آج ابوسفیان کسی معاہدہ کے بغیر ہی قابو میں آگئے، مگر میں نے بہت جلدی سے ابوسفیان کو خدمت نبوی میں حاضر کیا، پیچھے سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی تشریف لے آئے اور عرض کی: اجازت دیجیے! میں ابو سفیان کی گردن مار دوں۔ مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو امن عطا فرمایا۔ دوسرے دن ابو سفیان حاضر خدمت ہوئے اور صدق دل سے ایمان لا کر حلقہ بگوش اسلام ہو گئے۔
دارِ ابی سفیان دار الامن :
نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ابو سفیان رضی اللہ عنہ کو پہاڑ کی چوٹی پر لے جاؤ تاکہ وہ مجاہدین اسلام کے جاہ و جلال کا خوب اچھی طرح مشاہدہ کر سکیں، چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا اور ابوسفیان رضی اللہ عنہ کو پہاڑی کی چوٹی پر لا کھڑا کردیا۔ انہوں نے لشکر اسلام کی جاہ و جلال اور عسکری قوت کا مظاہرہ کیا۔ یہ جنگی حکمت عملی تھی کہ اپنی افرادی قوت کا پوری قوت سے اظہار کرو۔اس سے ابو سفیان رضی اللہ عنہ خوب سمجھ گئےکہ قریش اس لشکر اسلام کا مقابلہ ہرگز نہیں کرسکتے۔اس کے بعد حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! ابو سفیان سردارانِ مکہ میں سے ہیں، فخر کو پسند کرتے ہیں، لہٰذا اِن کے لئے کوئی قابل فخر اعلان ہونا چاہیے! تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ اعلان کرادو کہ جو شخص ابو سفیان کے گھر میں داخل ہوگا اسے امن ہے۔
غزوۂِ حنین میں:
فتح مکہ کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حنین کی طرف پیش قدمی فرمائی ، یہاں ایک زبردست معرکہ لڑا گیا اس جنگ میں حضرت ابو سفیان بنفس نفیس شریک ہوئے بلکہ آپ کے دونوں صاحبزادے حضرت یزید بن ابو سفیان اور حضرت معاویہ بن ابو سفیان بھی اس معرکہ میں بے جگری سے لڑے۔ اللہ تعالیٰ نے کفار کو شکست اور اہل اسلام کو فتح نصیب فرمائی ۔ دشمن کے چھ ہزار لوگ جنگی قیدی بنائے گئے کچھ عرصہ تک انہیں قید رکھا گیا اس نازک مرحلہ میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ کو ان کی دیکھ بھال اور حراستی امور کا نگران بنایا۔
غزوہ طائف میں:
اسی سال سن آٹھ ہجری میں غزوہ طائف پیش آیا اس میں حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ شریک ہوئے میدان کارزار میں خوب داد شجاعت دی ، جنگ کے دوران سعید بن عبید الثقفی نے نشانہ لگاکر آپ کو تیر مارا جس کی آپ کی آنکھ کا ڈھیلا باہر نکل آیا،آپ وہ ڈھیلا اٹھائے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااگر آپ چاہتے ہیں تو میں اللہ سے دعا کرتا ہوں آنکھ درست ہو جائے گی اور اگر آپ چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس کے بدلے جنت عطا فرمائیں گے۔ حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے عرض کی مجھے جنت چاہیے۔
بُت شکنی:
قبیلہ بنی ثقیف کا الطاغیہ نامی ایک بت تھا ان کے قبیلے کے بعض لوگوں کی خواہش تھی کہ اس بت کو نہ گرایا جائے لیکن اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم جاری فرمایا کہ اس بت کو پاش پاش کر دیا جائے چنانچہ حضرت ابوسفیان اور حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہما نے اس بت کو جا کر ٹکڑے ٹکڑے کر دیا ۔ اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےحضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ کو بھیجا کہ مقام قُدید میں منات نامی بت موجود ہے اس کو پاش پاش کر دو ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے اس بت کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیے۔
جنگِ یرموک:
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت میں شام کے علاقے یرموک میں ایک معرکہ لڑا گیا جسے” جنگِ یرموک “ کہا جاتا ہے ۔ اس میں اہل اسلام کے چوبیس ہزار شیردل مجاہد شریک جنگ ہوئے ان میں حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ بنفس نفیس شریک ہوئے آپ کی اہلیہ محترمہ سیدہ ہند بنت عتبہ رضی اللہ عنہا، آپ کی بیٹی جویریہ بنت ابو سفیان اور آپ کے صاحبزادے حضرت یزید بن ابو سفیان بھی شریک ہوئے ۔ اسی جنگ میں حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ کی دوسری آنکھ بھی شہید ہوگئی ۔
القاص کا عظیم منصب:
اسلامی لشکر اور فوج میں ایک ایسے خطیب کی ضرورت ہوتی ہے جواس لشکر کو اعلاء کلمۃ اللہ کےلیے ہر طرح کی قربانی کے لیے آمادہ کرتا رہے ۔ اسلامی لشکر کی ہمت افزائی بڑھاتا ہے اور دشمن پر غلبے کی تلقین کرتا ہے ۔ جنگ یرموک کے موقع پر حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ کو اسی عظیم منصب سے سرفراز کیا گیا ۔ اس موقع پر آپ نے جو خطبے ارشاد فرمائے ہیں اس میں مذکورہ بالا امور کو پرجوش اور احسن انداز میں بیان کیا گیا ہے ۔
وفات :
آپ رضی اللہ عنہ نے اپنی زندگی کا اکثر حصہ مکہ مکرمہ میں گزارا لیکن آخر عمر میں آپ مدینۃ الرسول تشریف لے آئے اور پھر ہمیشہ کے لیے ادھر ہی کے ہو کر رہ گئے ۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت میں آپ نے وفات پائی ہے ۔
اللہ تعالیٰ ہمیں تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے سچی عقیدت کرنے کی توفیق نصیب فرمائے۔
آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم۔
والسلام
محمدالیاس گھمن
پیر ،7ستمبر ، 2020ء