قتل اور اس کی سنگینی

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 

قتل اور اس کی سنگینی

اللہ تعالیٰ نے انسانی بالخصوص اسلامی معاشرے میں قتل وقتال کو حرام، مُوجبِ جہنم، مُوجبِ غضبِ ، مُوجبِ لعنت اور مُوجبِ عذابِ عظیم قرار دیا ہے۔ مزید یہ کہ اس سے متعلقہ احکام قصاص و دِیت وغیرہ کا قرآن کریم میں ذکر فرمایا ہے تاکہ لوگ قتل جیسے بڑے اور بُرے جرم سے باز رہیں اور فتنہ و فساد نہ پھیلنے پائے۔
قتل کی چار سزائیں:
وَمَنۡ یَّقۡتُلۡ مُؤۡمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُہٗ جَہَنَّمُ خٰلِدًا فِیۡہَا وَ غَضِبَ اللّٰہُ عَلَیۡہِ وَ لَعَنَہٗ وَ اَعَدَّ لَہٗ عَذَابًا عَظِیۡمًا ﴿۹۳﴾
سورۃ النساء، رقم الآیۃ: 93
ترجمہ: اور جو شخص کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کر ڈالے تو اس کی سزا جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور اس پر الله تعالیٰ غضب ناک ہوں گے اس کو اپنی رحمت سے دور کردیں گے اور اسے سخت ترین سزا دیں گے۔
آیت مبارکہ میں جان بوجھ کر قتل کرنے والے کی سزا کے طور پرچار باتیں ذکر فرمائی گئی ہیں:
1: دائمی جہنم ) تفصیل فائدہ کے عنوان سے ذیل میں ذکر کی جا رہی ہے (
2: اللہ کا غضب
3: اللہ کی لعنت) رحمت سے دوری)
4: سخت ترین عذاب (یعنی عام جہنمیوں کی نسبت زیادہ سخت عذاب ہوگا(
فائدہ: آیت مبارکہ میں ہےجان بوجھ کر قتل کرنے کی سزا جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا۔ اس کے تحت قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:چونکہ ایمان سے وہ نفرت کرتا ہے یا قتل کو جائز سمجھتا ہے اس لیے کافر ہو گیا اور کفر کی سزا ہمیشہ کی جہنم ہے یا پھر اس سے لمبی مدت مراد ہے۔
ایک ناحق قتل ساری انسانیت کا قتل ہے:
ناحق قتل انہی گھناؤنے کاموں میں سےایک ہے جس کی وجہ سے معاشرہ تباہ ہوتا ہےاس لیے ناحق قتل کو گناہ کبیرہ قرار دےکر اسے پوری انسانیت کے قتل کے مترادف ٹھہرایا گیا ہے۔ قرآن کریم نے واضح لفظوں میں یہ اعلان کیا ہے:
مَنۡ قَتَلَ نَفۡسًۢا بِغَیۡرِ نَفۡسٍ اَوۡ فَسَادٍ فِی الۡاَرۡضِ فَکَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیۡعًا ؕ
سورۃ المائدۃ، رقم الآیۃ: 32
ترجمہ: جس نے کسی ایک بے گناہ کو قتل کیا یا زمین میں فساد برپا کیا گویا اس نے پوری انسانیت کا قتل کیا۔
عبادالرحمٰن کی پہچان:
اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں کے اوصاف میں ایک وصف ”ناحق قتل سے اجتناب“ہے۔ وہ ہر ایسے کام سے دور رہتے ہیں جس کی وجہ سے معاشرے میں فساد اور بگاڑ پیدا ہوتا ہو۔
وَ لَا یَقۡتُلُوۡنَ النَّفۡسَ الَّتِیۡ حَرَّمَ اللہُ اِلَّا بِالۡحَقِّ
سورۃ الفرقان،رقم الآیۃ:68
ترجمہ: اور وہ ایسی جان کو ناحق قتل نہیں کرتے جسے اللہ نے حرمت بخشی ہے ۔
رجم ، قصاص اور ارتداد :
شریعت نے معاشرے سے جرائم کے خاتمے کےلیے قتل کی درج ذیل چند صورتیں جائز قرار دی ہیں۔ جن کا اختیار اربابِ اقتدار کو سونپا ہے۔
نمبر1: رجم… یعنی جب کوئی شادی شدہ مرد اورشادی شدہ عورت زنا کریں اور ان کا یہ جرم چار مردوں کی )فقہ اسلامی میں مقرر کردہ شرائط کے مطابق( گواہوں سے یا زنا کرنے والے مردو عورت کے اعتراف وغیرہ سے ثابت بھی ہو جائے تو قاضی / جج ان کے بارے میں شرعی سزا رجم کی صورت میں نافذ کرے گا اور وہ یہ ہے کہ انہیں پتھر مار مار کر ہلاک کر دیا جائے۔
نمبر2: قصاص … یعنی جب کوئی شخص جان بوجھ کر کسی کو )ناحق (قتل کر دے تو ایسی صورت میں اس قاتل کو اس قتل کے بدلے میں قتل کر دیا جائے گا۔ یہ شرعی سزا ہے جو قاضی/ جج نافذ کرے گا۔ ہاں مگر یہ کہ مقتول کے ورثا اس قاتل کو معاف کر دیں ۔
نمبر3: ارتداد… جب کوئی شخص اسلام کو چھوڑ دےتو ایسا شخص شریعت کی نگاہ میں واجب القتل قرار پاتا ہے۔ قاضی / جج اسے شرعی قانون کے مطابق قتل کرا دے گا ۔
مومن کی عزت و حرمت کعبہ سے بھی زیادہ ہے:
عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا قَالَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَطُوفُ بِالْكَعْبَةِ وَيَقُولُ: مَا أَطْيَبَكِ وَأَطْيَبَ رِيحَكِ مَا أَعْظَمَكِ وَأَعْظَمَ حُرْمَتَكِ! وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ لَحُرْمَةُ الْمُؤْمِنِ أَعْظَمُ عِنْدَ اللهِ حُرْمَةً مِنْكِ مَالِهِ وَدَمِهِ وَأَنْ نَظُنَّ بِهِ إِلَّا خَيْرًا۔
سنن ابن ماجہ، رقم الحدیث:3932
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس حالت میں دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کعبۃ اللہ کا طواف فرما رہے تھےاسی دوران آپ نے کعبہ کو مخاطب کر کے فرمایا: اے کعبہ!تو کتنا اچھا ہے! تجھ سے مہکنے والی خوشبو کتنی ہی اچھی اور عمدہ ہے! تیری عظمت و مرتبت کس قدر بلند ہے! تیری عزت و حرمت کس قدر زیادہ ہے! )لیکن تیری ان تمام تر عظمتوں کے باوجود(اس ذاتِ برحق کی قسم! جس کے قبضہ قدرت میں محمد کی جان ہےاللہ تعالیٰ کے ہاں مومن کی جان و مال کی حرمت تیری حرمت سے کہیں زیادہ ہے۔ ہمیں مومن کے بارے میں ہمیشہ نیک گمان ہی رکھنا چاہیے۔
اسلحہ سے اشارہ کرنا بھی منع ہے:
عَنْ هَمَّامٍ رَحِمَہُ اللہُ سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: لَا يُشِيرُ أَحَدُكُمْ عَلَى أَخِيهِ بِالسِّلَاحِ فَإِنَّهُ لَا يَدْرِي لَعَلَّ الشَّيْطَانَ يَنْزِعُ فِي يَدِهِ فَيَقَعُ فِي حُفْرَةٍ مِنَ النَّارِ۔
صحیح البخاری، رقم الحدیث:7072
ترجمہ: حضرت ہَمَّام رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نےحضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان سنا: تم میں سے کوئی شخص اپنے )مسلمان( بھائی کی طرف اسلحہ سے اشارہ نہ کرےاس لیے کہ تم میں سے کوئی شخص یہ نہیں جانتا کہ شیطان اس کے ہاتھ کو ڈگمگا دے،وہ ناحق قتل کرنے کی وجہ سے جہنم میں جا پڑے۔
فرشتے لعنت بھیجتے ہیں:
عَنِ ابْنِ سِيرِينَ رَحِمَہُ اللہُ سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ يَقُولُ: قَالَ أَبُو الْقَاسِمِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ أَشَارَ إِلَى أَخِيهِ بِحَدِيدَةٍ فَإِنَّ الْمَلاَئِكَةَ تَلْعَنُهُ حَتَّى يَدَعَهُ وَإِنْ كَانَ أَخَاهُ لأَبِيهِ وَأُمِّهِ۔
صحیح مسلم، رقم الحدیث:6759
ترجمہ: معروف تابعی حضرت امام ابن سیرین رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان سنا: جو شخص اپنے کسی مسلمان بھائی کی طرف ہتھیار سے اشارہ کرتا ہے اس پر فرشتے اس وقت تک لعنت کرتے رہتے ہیں جب تک وہ اس اشارہ کرنے کو چھوڑ نہیں دیتا اگرچہ وہ اس کا حقیقی بھائی ہی کیوں نہ ہو۔
قاتل کی عبادات قبول نہیں:
عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ أَنَّهُ سَمِعَهُ يُحَدِّثُ عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: مَنْ قَتَلَ مُؤْمِنًا فَاعْتَبَطَ بِقَتْلِهِ لَمْ يَقْبَلِ اللهُ مِنْهُ صَرْفًا وَلَا عَدْلًا۔
سنن ابی داؤد، رقم الحدیث: 4272
ترجمہ: حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا : جس شخص نے کسی مومن کو (ناحق) قتل کیا پھر اس قتل پر خوش بھی ہوا تو اﷲ تعالیٰ اس کی نفل اور فرض عبادت قبول نہیں فرمائیں گے۔
ناحق قتل کے مقابلے میں پوری دنیا کا مٹنا آسان:
عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: لَزَوَالُ الدُّنْيَا أَهْوَنُ عَلَی اللہِ مِنْ قَتْلِ رَجُلٍ مُسْلِمٍ.
جامع الترمذی، رقم الحدیث: 1315
ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کسی مسلمان کے )ناحق(قتل ہونے سے پوری دنیا کا تباہ ہوجانا اللہ تعالیٰ کے ہاں معمولی حیثیت رکھتا ہے ۔
عَنِ الْبَرَائِ بْنِ عَازِبٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللہ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَزَوَالُ الدُّنْيَا جَمِيْعًا أَهْوَنُ عَلَی اللہِ مِنْ دَمٍ یُسْفَکُ بِغَيْرِ حَقٍّ.
شعب الایمان للبیہقی، رقم الحدیث: 4960
ترجمہ: حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اللہ تعالیٰ کے ہاں کسی شخص کے ناحق قتل ہونے سے پوری کائنات کا ختم ہو جانا معمولی حیثیت رکھتا ہے ۔
حقوق العباد میں پہلا سوال :
عَنْ شَقِیْقٍ رَحِمَہُ اللہُ سَمِعْتُ عَبْدَ اللهِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَوَّلُ مَا يُقْضٰی بَيْنَ النَّاسِ فِي الدِّمَاء.
صحیح البخاری، رقم الحدیث:6533
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت کے دن لوگوں کےمابین سب سے پہلے خون خرابے )قتل و قتال( کا فیصلہ سنایا جائے گا۔
قاتلوں کے سہولت کار:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:مَنْ أَعَانَ عَلَى قَتْلِ مُؤْمِنٍ وَلَوْ بِشَطْرِ كَلِمَةٍ لَقِيَ اللهَ عَزَّوَجَلَّ مَكْتُوبٌ بَيْنَ عَيْنَيْهِ: آيِسٌ مِنْ رَحْمَةِ اللهِ۔
سنن ابن ماجہ، رقم الحدیث:2620
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص کسی مسلمان کے ناحق قتل میں سہولت کار بنا اگرچہ وہ معاونت بالکل معمولی درجے کی)ایک بات کی حد تک( بھی ہو تو وہ شخص )قیامت والے دن ( اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملے گا کہ اس کی آنکھوں کے درمیان )پیشانی پر ) لکھا ہوا ہوگا کہ یہ شخص اللہ کی رحمت سے مایوس رہے گا۔
شرک اور قتل کے علاوہ تمام گناہوں کی معافی:
عَنْ أُمِّ الدَّرْدَاءِ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا تَقُوْلُ سَمِعْتُ أَبَا الدَّرْدَاءِ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ يَقُولُ سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: كُلُّ ذَنْبٍ عَسَى اللهُ أَنْ يَغْفِرَهُ إِلاَّ مَنْ مَاتَ مُشْرِكًا أَوْ مُؤْمِنٌ قَتَلَ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا۔
سنن ابی داؤد، رقم الحدیث:4272
ترجمہ: حضرت ام الدرداء رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میرے خاوند ابوالدرداء رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان سنا: اللہ تعالیٰ اگر چاہیں تو ) گناہ گاروں کے (تمام گناہوں کو معاف فرما دیں سوائے اس گناہ گار کے جس نے شرک کیا یا کسی مومن کو جان بوجھ )اور بغیر شرعی اجازت کےحلال اور جائز سمجھ کر( کر قتل کیا۔ یعنی مشرک اور ایسے قاتل کو اللہ کبھی بھی معاف نہیں فرمائیں گے۔
ناحق قتل کے سب شرکاء جہنمی :
عَنْ أَبِی الْحَكَمِ الْبَجَلِيِّ رَحِمَہُ اللہُ قَال سَمِعْتُ أَبَا سَعِيدِنِالْخُدْرِيَّ وَأَبَا هُرَيْرَةَ رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا يَذْكُرَانِ عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَوْ أَنَّ أَهْلَ السَّمَائِ وَأَهْلَ الْأَرْضِ اشْتَرَکُوْا فِي دَمِ مُؤْمِنٍ لَأَکَبَّهُمُ اللہُ فِي النَّارِ.
جامع الترمذی، رقم الحدیث: 1318
ترجمہ: حضرت ابو الحکم البَجلی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابو سعید خدری اور حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہما سے سنا دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نقل کرتے ہیں کہ اگر )بالفرض (تمام آسمان اور زمین والے کسی ایک مومن کے قتل میں شریک ہو جائیں تو یقینی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سب کو جہنم میں ڈالیں گے ۔

1.

ناحق قتل کرنا شریعت میں حرام ہے اگر کوئی شخص شرعا ً ناحق قتل کو حلال سمجھتا ہے تو فقہاء کرام رحمہم اللہ کی تصریحات کے مطابق کافر ہو جاتا ہے ۔

2.

ناحق قتل کی چار سزائیں : دائمی جہنم ، اللہ کا غضب، اللہ کی لعنت اور سخت ترین عذاب کی صورت میں قرآن کریم میں مذکور ہیں ۔

3.

ایک ناحق قتل پوری انسانیت کو قتل کرنے کے برابر گناہ ہے۔

4.

اللہ کےنیک بندوں کی صفت یہ ہے کہ وہ ناحق قتل نہیں کرتے۔

5.

اربابِ اقتدار کےلیےقتل کی تین صورتیں جائز ہیں :رجم، قصاص، ارتداد ۔

6.

اللہ تعالیٰ کے ہاں مومن کی عزت کعبۃ اللہ سے بڑھ کر ہے ۔

7.

ہتھیار سے اشارہ کرنا جائز نہیں جو یہ کام کرتا ہے اس پر فرشتے لعنت بھیجتے ہیں ۔

8.

قاتل کی عبادات اللہ کی بارگاہ میں قبول نہیں ہوتیں۔

9.

ناحق قتل کے مقابلے میں ساری دنیا کا مٹ جانا آسان ہے۔

10.

قیامت کے دن حقوق العباد میں سب سے پہلے قتل ناحق کا حساب ہوگا۔

11.

قاتلوں کےسہولت کار روزِقیامت اللہ کی رحمت سے مایوس کر دیے جائیں گے ۔

12.

شرک اور قتل کے علاوہ تمام گناہوں کی معافی کا امکان ہے۔

13.

اور اگر کسی کو ناحق قتل کرنے میں تمام آسمان و زمین والے مل کر شریک ہوجائیں تو اللہ تعالیٰ ان سب کو جہنم میں ڈالیں گے۔
اللہ تعالیٰ ہمارے پورےمعاشرے کوبالخصوص وطن عزیز پاکستان کو دہشت گردی، قتل وقتال اور فتنہ و فساد جیسی لعنت سے محفوظ فرمائے۔
آمین بجاہ النبی الکریم صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم
 
والسلام
محمدالیاس گھمن
پیر ،12اکتوبر ، 2020ء