رحمتِ عالم ﷺ کا عالمی پیغام

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
رحمتِ عالم ﷺ کا عالمی پیغام
اللہ تعالیٰ نے ہمیں جو دین اسلام عطا فرمایا ہے وہ جینے سے پہلے اور مرنے کے بعد کے حالات کی جہاں خبر دیتاہے وہاں دنیا میں ہر عمر کے حساب سے زند گی گزارنے کے انسانی ،فطری ،اخلاقی ،قومی وملی قوانین بھی دیتاہے۔ اسلام؛ اتحادو اتفاق کاسب سے بڑا نا صرف علمبردار بلکہ گزشتہ ادوار میں عملاً نافذالعمل مذہب بھی رہا ہے۔
اسلام ؛ پو ری روئے زمین پر علمی ،عملی،قومی اور ملی فسادات کوختم کر کے امن و آتشی ،انصاف وعدل، راحت و چین کےساتھ مکمل آزادی کا حق دیتاہے۔ یہ محض تجاویز اور تھیوری پیش کرنے پر اکتفاء نہیں کرتا بلکہ عملی زندگی میں اپنا کردار اداکرتاہے۔ سابقہ اقوام کے عروج وزوال کی محض داستانیں ہی نہیں سناتابلکہ ان سے سبق اور عبرت حاصل کرنے کے لیے دعوت ِ فکر دیتاہے۔
1: انسان کارشتہ خالق سے جو ڑے رکھنے کے لیے عقائد ونظریات اور عبادات کاحکم دیتاہے۔
2: انسان کارشتہ بحیثیت امتی اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کےساتھ جوڑے رکھنے کےلیے ایمان بالنبی اور اطاعت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کاحکم دیتاہے۔
3: انسان کارشتہ انسان سےصحیح طور پر جوڑے رکھنے کے لیے اخلاقیات اور حسن سلوک کاحکم دیتاہے۔
4: انسان کارشتہ معاشرے سے جوڑے رکھنےکےلیےعمدہ معاشرت کا حکم دیتاہے۔
5: انسان کارشتہ ضروریات زندگی سے جوڑے رکھنے کے لیے صاف شفاف معاملات کاحکم دیتاہے۔
اگر مذکورہ بالاتمام فطری او ر انسانی اقدار کو اسلام کےاحکام کے مطابق تسلیم کر کےعمل کیاجائے توکر ۂِ ارض پر انسانوں کانہیں ”انسانیت“ کاراج ہو گا۔
لیکن زمینی حقائق یہ بتلاتے ہیں کہ جب تک اسلامی دستور العمل عملاً نافذ رہا تب تک تو یہ دنیا امن کاگہوراہ تھی اورجب خداتعالیٰ کے آفاقی احکامات کے بجائے انسانوں کی تدبیر پر اصول ہائے جہاں بانی کی بنیاد رکھی گئی توبد امنی ، لاقانونیت ،فتنے ، معاصی ،خود سری ،خود غرضی اور دیگر شیطانی محرکات نے جنم لیا۔نتیجہ آج انسان اتحاد کے بجائے اختلافات وافتراق کی دوزخ میں جل رہاہے۔
مذہبی ،سیاسی ،قومی ،خاندانی اور نسلی اختلافات نے اس کی روح ِآزادی کو نہ صرف زخمی کیا بلکہ اس کےسارے نظام کو عالمی سطح پر مفلو ج اور بے کار کر دیا ہے۔ محض انسانی تدابیر کی کوکھ سے جن سانحات وحادثات نے جنم لیا پھر اسی کو بار بار آزمانے کی مسلسل روش نے انسان کو آج تک امن وآزادی اور سکون وراحت نصیب نہیں ہونے دی۔
نظام ِ عالم پر متعددانسانی تجربات کو آزمایاگیا ،قیام ِامن کی تجاویز وآراء پرسنجیدگی سے کئی بار غورکیاگیا،نئے قوانین بھی وضع کیے گئے لیکن یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ بنیادی خامیوں کو دورکیے بغیر امن کے خواب کو شرمندہ ِ تعبیر کرنا خود ایک خواب بن گیا۔
جبکہ اسلام سارے عالم میں قیامِ امن کا محض مدعی ہی نہیں بلکہ حقیقتاً نظام ِامن نافذ بھی کرچکاہے۔جس کے فوائدو ثمرات اپنے پرائے، دوست دشمن، مسلم وکافر سبھی کے ہاں تسلیم شدہ ہیں۔انسانی تدابیر سے پیداہونے والے اس وقت جتنے بھی اختلافات ہیں بنیادی طور پرمندرجہ ذیل اختلافات میں منحصرہیں۔ مذہبی ،قومی ، سیاسی،نسلی ،علاقائی ،خاندانی اختلافات؛ ان سب کا حل ہمیں رسول اکر م صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂِ حسنہ اور آپ کی سیرت ِطیبہ میں ملتاہے۔
دور ِ حاضر میں باہمی اختلافات میں سے جو سب سے بڑا اختلاف ،افتر اق و انتشار بلکہ جنگ و جدال قتل و غارت اور منافر ت و دشمنی کاباعث ہے و ہ یہی مذہبی اختلاف ہے۔ ایک مذہب کے لو گ دوسرے مذاہب کے پیروکاروں کے لیے تنگ دل بلکہ سخت دل ہیں۔ مذہب کے نام پر کئی خاندانو ں کے خاندان کئی نسلوں کی نسلیں کئی قومو ں کی قومیں کئی ملکوں کے ملک صفحہ ہستی سے مٹ گئے۔
عدمِ برداشت ،عدم ِ رواداری وتحمل کی روش نے لاکھوں انسانو ں کو موت کی بھینٹ چٹرھادیاہے۔ اس وقت بھی بین الاقوامی سطح پر باہمی مصالحت ، اتحادو اتفاق قائم کرنےکےلیے مختلف منصوبوں پرعمل درآمد کرانے کےلیے کئی ممالک، ادارے،جماعتیں اور تنظیمیں اپنا کردار دکھانے میں سر توڑ محنت کر رہی ہیں۔ مذاکرات ، ڈائیلاگ ،مصالحت اور عسکری قوت کے زور پر الغرض تمام اسباب کو بارہا بروئے کار لایا بھی گیا لیکن حالات جوں کے توں ہیں۔
دنیامیں بسنے والی مختلف اقوام کے مزاجی اختلافا ت اسی گتھی کو مزید الجھا رہے ہیں عقلی طور پر جتنی صو رتیں بظاہر ممکن نظر آرہی ہیں حقیقت میں مذہبی اختلافات کو ختم کرنے کے لیے ناممکن ہیں۔
مثلاًکسی فرد کے بارے میں یہ تصور کر لیا جائے کہ فلاں شخصیت پر تمام اقوام اور افراد متفق ہوجائیں اور اسی ایک کی بات مان کر اختلافات کو ختم کر لیا جائے۔
ایسے شخص کے لیے دو بنیادی خوبیو ں کاہو نا بہت ضروری ہے۔
1: اس کاعلم وسیع تر ہووہ تمام اقوام کے فطری جذبات اور ضروریات اور اغراض سے واقف ہو۔
2: لوگوں کےمعاملات کی اصلاح بھی کرسکتاہو۔
یہ صورت عقلاً تو ممکن ہوسکتی ہے لیکن فی الواقع بہر طور ناممکن ہے کیونکہ انسانوں کے مزاج میں تفاوت ہے۔ یہ تفاوت ان کو ایک مرکزی نقطے پر متحدنہیں ہونے دیتا۔ دوسری صورت عقلی طور پر ممکن ہے کہ کسی ادارے کو تمام اقوام متفقہ طور پر حاکمیت سو نپ دیں پھر اس ادارے کے ہر حکم کو قبو ل بھی کریں لیکن فی الواقع اس میں بھی عمل کر نا ناممکن ہے کیونکہ ادارے میں جس قوم کے افرادکی تعداد زیادہ ہوگی وہی قو م اس ادارے سے اپنے مفادات سمیٹے گی، باقی اقوام پھر محرومی اور ناانصافی کاشکار ہوکر رہ جائیں گی۔
اس حوالے سے اسلام کی تعلیمات سیرت ِطیبہ علی صاحبہا الف الف تحیۃ و سلام کی روشنی میں یہ ہیں کہ کسی شخص یا ادارہ ،جماعت یاتنظیم کی حاکمیت ، تسلیم کرنے کے بجائے ان کے خالق ِ حقیقی کی حاکمیت کو تسلیم کیاجائے۔ جس کے ہر فیصلے پرمن وعن عمل کیاجائے۔ کیونکہ نوع انسانیت کاخالق وہی ہے، وہی ان کی تمام ضروریات کوبخوبی سن سکتاہے،جان سکتاہے اور ان کو حل بھی کرسکتا ہے۔ اس میں ظلم وجور کا شائبہ بھی نہیں اورمفاد پرستی کاتصور بھی نہیں۔ چونکہ وہ تمام مخلوقات کاخالق ہے اس لیے عقل کا مقتضاءبھی یہی ہے کہ صرف اسی ہی کو حاکم تسلیم کیا جائے۔ اسی ممکنہ و مشتر کہ پلیٹ فارم پر اللہ کے آخر ی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل کتاب کوخطاب کیا۔
قُلۡ یٰۤاَہۡلَ الۡکِتٰبِ تَعَالَوۡا اِلٰی کَلِمَۃٍ سَوَآءٍۢ بَیۡنَنَا وَ بَیۡنَکُمۡ اَلَّا نَعۡبُدَ اِلَّا اللہَ وَلَا نُشۡرِکَ بِہٖ شَیۡئًا وَّلَا یَتَّخِذَ بَعۡضُنَا بَعۡضًا اَرۡبَابًا مِّنۡ دُوۡنِ اللہِ ؕفَاِنۡ تَوَلَّوۡا فَقُوۡلُوا اشۡہَدُوۡا بِاَنَّا مُسۡلِمُوۡنَ ﴿۶۴﴾
سورۃاٰل عمران، رقم الآیۃ: 64
ترجمہ : اے اہل کتاب!آؤ ایک ایسی مشترکہ بات پر جمع ہو جائیں کہ ہم اللہ کے علاوہ کسی اور کو معبود نہیں مانیں گے اور ہم اس کی ذات و صفات )خاصہ( کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے اور اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی کسی اور کو رب نہ مانے۔ اگر وہ اس عہد و پیمان سے پھر گئے تو تم کہہ دو کہ گواہ رہو ہم تو ماننے والے ہیں۔
قرآن کریم میں ہے:
وَ اعۡتَصِمُوۡا بِحَبۡلِ اللہِ جَمِیۡعًا وَّ لَا تَفَرَّقُوۡا ۪
سورۃ اٰل عمرا ن، رقم الآیۃ:103
ترجمہ: اللہ کی رسی )قرآن ، توحید (کو مضبوطی سے تھامو اور باہم افتراق و انتشار کا شکار نہ بنو۔
تو حید ہی ایسی رسی ہے جس کو تھامنے سے اختلافات ختم ہو سکتے ہیں لیکن اس مقام پر مندرجہ ذیل تفصیل کو بطور خاص ملحو ظ رکھاجائے ورنہ اختلافات کے خاتمہ کاتصور ماند پڑ جائے گا۔ اس خدائی اصول کی تشریح ہر شخص اپنی طرف سے نہ کر ے ورنہ مختلف تشریحات کاملغوبہ نئی الجھن میں ڈال دے گا۔ بلکہ اس کی تشریح وہ معتبر کہلائے گی جو اس دل سے زبان کے راستے ظاہر ہو جس دل پر یہ اصو ل نازل کیاگیااور جس کی زبان مبارک کو یہ اعزازسو نپا گیا ہےکہ قرآن آپ پر نازل ہو گا اور اس کی تشریح آپ لوگوں کو سمجھائیں۔ قرآن کریم میں ہے :
وَاَنۡزَلۡنَاۤ اِلَیۡکَ الذِّکۡرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیۡہِمۡ وَلَعَلَّہُمۡ یَتَفَکَّرُوۡنَ ﴿۴۴﴾
سورۃ النحل، رقم الآیۃ:44
ترجمہ: اور ہم نے آپ کی طرف قرآن کریم نازل فرمایا تاکہ آپ لوگوں کو اس کی مراد سمجھائیں جس مقصد کے لیے ان کی طرف یہ نازل کیا گیا تاکہ وہ اس میں غور وفکر کر کے اس پر عمل کر سکیں۔
اس لیے قرآن کاوہ مطلب مراد لیا جائے جومطلب اللہ کے برحق نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کا وہ مطلب مراد لیا جائے جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بیان کیا۔
اسلام کے معتدل مذہب ہونے کی ایک وزنی دلیل یہ بھی ہے کہ اس میں سابقہ تمام سچے مذہبی پیشواؤں پر ایمان لانااور ان کی عزت و توقیر لازمی ہے۔ اس کے برخلاف آج کے یہودی حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ماننے کے مدعی تو ہیں لیکن حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور بالخصوص خاتم الانبیاء محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت و رسالت کا انکار کرتے ہیں۔
اسی طرح عیسائی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو نہ صرف نبی اور رسول بلکہ خدااور خدا کے بیٹے ماننے کے مدعی ہیں لیکن حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے پہلے کے انبیاء و رسل علیہم السلام مثلاً حضرت موسیٰ علیہ السلام وغیرہ اور بالخصوص حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بعد خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کو یکسر نہیں مانتے جبکہ اسلام تمام سچے انبیاء و رسل علیہم السلام پر ایمان لانے میں تفریق نہیں کرتا۔ قرآن کریم میں ہے :
لَا نُفَرِّقُ بَیۡنَ اَحَدٍ مِّنۡہُمۡ ۫ۖ
سورۃ البقرۃ، رقم الآیۃ:136
ترجمہ: ہم رسولوں پر ایمان لانے کے بارے میں فرق نہیں کرتے کہ بعض پر ایمان لائیں اور بعض پر ایمان نہ لائیں۔
البتہ ان کے فرق مراتب کو ضرور ملحوظ رکھتا ہے۔ قرآن کریم میں ہے:
تِلۡکَ الرُّسُلُ فَضَّلۡنَا بَعۡضَہُمۡ عَلٰی بَعۡضٍ
سورۃ البقرۃ، رقم الآیۃ:253
ترجمہ: ان رسولوں میں سے ہم نے بعض کو بعض پر زیادہ فضیلت عطا کی۔
ایمان لانے کا مطلب واضح ہے کہ وہ اپنے وقت میں اللہ کے برحق سچے نبی اور رسول تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے ساتھ ہی اب ان کی شریعت کو مجموعی طورپر خداوند کریم نے منسوخ فرما دیا ہے۔ اب تاصبح قیامت شریعت محمدیہ اللہ کے ہاں معتبر اور پسندیدہ و مقبول ہے۔
اللہ تعالیٰ اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
آمین بجاہ النبی الکریم صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم۔
 
 
 
والسلام
محمدالیاس گھمن
پیر ،19اکتوبر ، 2020ء