نبی کریم ﷺ کے بنیادی حقوق حصہ اول

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
نبی کریم ﷺ کے بنیادی حقوق)حصہ اول(
اللہ تعالیٰ کی اربوں کھربوں رحمتیں نازل ہوں اُس ذات پر جن کے سبب سے اِنسانیت کو وجودملا، جن کے صدقے انبیاء کرام علیہم السلام کو نبوت ملی، جن کے طفیل ہدایت ملی، جن کی بدولت نجات ملے گی اور جن کی وجہ سے رب کی سرمدی رضا نصیب ہوگی۔انسانیت کو اب تک جو کچھ خیر ملی ہے اور جو کچھ آئندہ ملے گی وہ سب آپ کے دم قدم سے ہے۔ اس لیےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بہت سارے حقوق ہیں۔ جن میں چند ایک درج ذیل ہیں۔
1: نبی کریم ﷺ پر ایمان لانا:
امت پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا پہلا حق یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے۔
قُلۡ یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اِنِّیۡ رَسُوۡلُ اللہِ اِلَیۡکُمۡ جَمِیۡعَۨاا الَّذِیۡ لَہٗ مُلۡکُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِۚ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ یُحۡیٖ وَ یُمِیۡتُ فَاٰمِنُوۡا بِاللہِ وَ رَسُوۡلِہِ النَّبِیِّ الۡاُمِّیِّ الَّذِیۡ یُؤۡمِنُ بِاللہِ وَ کَلِمٰتِہٖ وَ اتَّبِعُوۡہُ لَعَلَّکُمۡ تَہۡتَدُوۡنَ ﴿۱۵۸﴾
سورۃ الاَعراف، رقم الآیۃ: 158
ترجمہ: (اے میرے محبوب )آپ یہ بات فرما دیں کہ (دنیا جہان میں بسنے والے) لوگو !میں تم سب کی طرف اُس الله کا بھیجا ہوا (رسول( ہوں جس کی بادشاہی تمام آسمانوں اور زمین میں قائم ہے۔ اُس ذات کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، وہی زندگی عطا کرتا ہے اور وہی موت دیتا ہے اس لیے تم (ایسے) الله پر ایمان لاؤ اور اس کے (ایسے) نبی اُمّی پر (بھی) جو کہ (خود) الله پر اور ان کے احکام پر )دل و جان سے(ایمان رکھتا ہےاور اس (نبی) کا اتباع کرو تاکہ تم سیدھی راہ پر آجاؤ ۔
اِنَّاۤ اَرۡسَلۡنٰکَ شَاہِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیۡرًا ۙ﴿۸﴾لِّتُؤۡمِنُوۡا بِاللہِ وَ رَسُوۡلِہٖ
سورۃ الفتح، رقم الآیۃ: 9،8
ترجمہ: یقیناً ہم نے آپ )صلی اللہ علیہ وسلم (کو )ایمانیات وغیرہ پرسچی ( گواہی دینے والا، )اللہ تعالیٰ کی طرف سےملنے والے انعامات کی( خوشخبریاں دینے والا اور)اللہ تعالیٰ کی جانب سے آنے والے عذاب و ناراضگی سے( ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے۔ اس لیے کیا تاکہ تم لوگ اللہ اور اس کے رسول )حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم( پر ایمان لاؤ۔
اور جوشخص اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان نہ لائے ایسے شخص کے لیے اللہ تعالیٰ کا اعلان ہے ۔
وَ مَنۡ لَّمۡ یُؤۡمِنۡۢ بِاللہِ وَ رَسُوۡلِہٖ فَاِنَّاۤ اَعۡتَدۡنَا لِلۡکٰفِرِیۡنَ سَعِیۡرًا
سورۃ الفتح، رقم الآیۃ:13
ترجمہ: اور جو )بدبخت (شخص اللہ اور اس کے رسول )صلی اللہ علیہ وسلم (پر ایمان نہیں لائے گا تو )ایسے(کافروں کے لیے ہم نے دوزخ )کی دہکنے والی آگ) تیار کر رکھی ہے) جس میں ان کو ڈالا جائے گا(
2: نبی کریم ﷺ کو ذات کے اعتبار سے بشر ماننا:
امت پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا دوسرا حق یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کے بارے میں بشر ہونے کا عقیدہ رکھے ۔
قُلۡ اِنَّمَاۤ اَنَا بَشَرٌ مِّثۡلُکُمۡ یُوۡحٰۤی اِلَیَّ اَنَّمَاۤ اِلٰـہُکُمۡ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ فَمَنۡ کَانَ یَرۡجُوۡا لِقَآءَ رَبِّہٖ فَلۡیَعۡمَلۡ عَمَلًا صَالِحًا وَّلَا یُشۡرِکۡ بِعِبَادَۃِ رَبِّہٖۤ اَحَدًا ﴿۱۱۰﴾
سورۃ الکہف، رقم الآیۃ: 110
ترجمہ: )اے میرے محبوب پیغمبر(!آپ یہ بات فرما دیں کہ میں (ذات کے اعتبار سے تمہاری ہی جنس سے تعلق رکھنے والا(بشر)انسان/آدمی( ہوں )لیکن اس بشریت کے باوجود مجھے جو مقام و مرتبہ دیا گیا ہے وہ عام بشر کے برابر نہیں بلکہ سب سے بڑھ کر ہے وہ اس طرح کہ(میری طرف )اللہ کی جانب سے ( وحی نازل ہوتی ہے )جس میں بطور خاص یہ بات بھی موجود ہے)کہ )لوگو(تمہارا معبود صرف ایک ہی معبود ہے۔ تو ) تم میں سے( جو شخص اپنے رب سے ملاقات کی )تمنا اور(آرزو رکھتا ہو اُسےچاہیےکہ وہ نیک اعمال کرے اور اپنے رب کی عبادت میں کسی کوبھی شریک نہ ٹھہرائے۔
3: نبی کریم ﷺ کو سید البشر ماننا:
امت پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا تیسرا حق یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے محض بشر ہونے کا نہیں بلکہ سید البشر ہونے کا عقیدہ رکھے ۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَنَا سَيِّدُ وُلْدِ آدَمَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَأَوَّلُ مَنْ يَنْشَقُّ عَنْهُ الْقَبْرُ وَأَوَّلُ شَافِعٍ وَأَوَّلُ مُشَفَّعٍ.
صحیح مسلم ،رقم الحدیث: 4223
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں قیامت کے دن تمام اولادِآدم کا سردار ہوں گا، میں وہ پہلا انسان ہوں گا جس کی قبر کھلے گی، سب سے پہلے سفارش کرنے والا میں ہی ہوں گا اور میں ہی وہ پہلا انسان ہوں گا جس کی سفارش کو قبول کیا جائے گا۔
4: نبی کریم ﷺ کو نورِ ہدایت ماننا:
امت پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا چوتھا حق یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ذات کے اعتبار سے بشر مانتے ہوئے وصف کے اعتبار سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نور ہدایت ہونے کا عقیدہ رکھے ۔
اوصاف کے اعتبار سے آپ نور ہیں بلکہ نور علیٰ نور ہیں۔ منبع نور ہیں، مرکز نور ہیں۔ آپ کی وجہ سے کفر کی تاریکیاں ، ظلم کے اندھیرے ، ناانصافی کی ظلمتیں کافور ہوئیں ۔ آپ کے نورِ ہدایت سے اسلامی عقائد، اعمال، معاملات، اخلاقیات اور معاشرت روشن ہوئیں ۔ اس اعتبار سے آپ یقیناً نور ہیں۔
نمبر5: نبی کریم ﷺ کو نبی الانبیاء ماننا:
امت پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا پانچواں حق یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو محض نبی ہی نہیں بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نبی الانبیاء ہونے کا عقیدہ رکھے
وَ اِذۡ اَخَذَ اللہُ مِیۡثَاقَ النَّبِیّٖنَ لَمَاۤ اٰتَیۡتُکُمۡ مِّنۡ کِتٰبٍ وَّ حِکۡمَۃٍ ثُمَّ جَآءَکُمۡ رَسُوۡلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَکُمۡ لَتُؤۡمِنُنَّ بِہٖ وَ لَتَنۡصُرُنَّہٗ ؕ قَالَ ءَاَقۡرَرۡتُمۡ وَ اَخَذۡتُمۡ عَلٰی ذٰلِکُمۡ اِصۡرِیۡ ؕ قَالُوۡۤا اَقۡرَرۡنَا ؕ قَالَ فَاشۡہَدُوۡا وَ اَنَا مَعَکُمۡ مِّنَ الشّٰہِدِیۡنَ ﴿۸۱﴾
سورۃ اٰلِ عمران، رقم الآیۃ: 81
ترجمہ: اور جب اللہ تعالیٰ نے انبیاء کرام علیہم السلام سے اس بات کا عہد لیا کہ اگر میں تم کو کتاب و حکمت عطا کروں پھر تمہارے پاس ایک رسول آئے جو اس کتاب کی تصدیق کرے جو تمہارے پاس ہے تو تم اس پرضرور ایمان لانا اور ضرور اس کی مدد کرنا اللہ نے ان انبیاء کرام سے فرمایا کیا تم اس بات کا اقرار کرتے ہو ؟ اور میری طرف سے سونپی جانے والی ذمہ داری قبول کرتے ہو ؟اُن سب نے کہا : ہم اقرار کرتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تم ایک دوسرے کے اقرار کے گواہ بن جاؤ اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہی میں شامل ہو جاتا ہوں ۔
عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تَسْأَلُوا أَهْلَ الْكِتَابِ عَنْ شَيْءٍ فَإِنَّهُمْ لَنْ يَهْدُوكُمْ وَقَدْ ضَلُّوا فَإِنَّكُمْ إِمَّا أَنْ تُصَدِّقُوا بِبَاطِلٍ أَوْ تُكَذِّبُوا بِحَقٍّ فَإِنَّهُ لَوْ كَانَ مُوسٰى حَيًّا بَيْنَ أَظْهُرِكُمْ مَا حَلَّ لَهُ إِلَّا أَنْ يَتَّبِعَنِي۔
مسند احمد، رقم الحدیث: 14631
ترجمہ: حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سےروایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اہل کتاب سےکسی طرح کے )مسائل( نہ پوچھووہ خود گمراہ ہیں تمہیں سیدھی بات کیسے بتائیں گے؟ ہوسکتا ہے کہ تم کسی غلط بات کو سچا مان بیٹھو اور حق بات کو جھٹلا بیٹھو ۔ اگر حضرت موسیٰ علیہ السلام )اس دنیا میں( موجود ہوتے تو ان کے لیے بھی میری اتباع کے علاوہ کوئی اور راستہ نہ ہوتا ۔
فائدہ: اہل اسلام کا عقیدہ ہے کہ حضرت عیسیٰ بن مریم علیہ السلام قیامت کے قریب آسمان سے نازل ہوں گے اور باوجود خود نبی ہونے کے ہمارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت پر عمل کریں گے ۔
6: نبی کریم ﷺ کو افضل الانبیاء ماننا:
امت پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا چھٹا حق یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے افضل الانبیاء ہونے کا عقیدہ رکھے ۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: فُضِّلْتُ عَلَى الْأَنْبِيَاءِ بِسِتٍّ: أُعْطِيتُ جَوَامِعَ الْكَلِمِ وَ نُصِرْتُ بِالرُّعْبِ وَأُحِلَّتْ لِيَ الْغَنَائِمُ وَ جُعِلَتْ لِيَ الْأَرْضُ طَهُوْرًا وَ مَسْجِدًا وَأُرْسِلْتُ إِلَى الْخَلْقِ كَافَّةً وَخُتِمَ بِيَ النَّبِيُّونَ•
صحیح مسلم،رقم الحدیث:522
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اللہ تعالیٰ نے چھ چیزیں عطاکرکے مجھے باقی انبیاء کرام علیہم السلام پرفضیلت دی ہے:
1: اللہ نےمجھے جوامع الکلم) الفاظ کی مقدار کم اور معنویت بہت زیادہ( دیے۔
2: رعب عطافرماکے میری مددکی ہے ۔
3: مال غنیمت کو میرے لیے حلال کیا ہے۔
4: پوری زمین کومیرے لیے”طَھُوْر“)پاک کرنے کا ذریعہ(بنادیاہے۔
5: پوری زمین کو میرے لیے سجدہ گاہ بنا دیا ہے۔
6: مجھے پوری مخلوق کانبی بنادیا ہے۔
) ان کا خلاصہ یہ ہے کہ( مجھے اللہ نے آخری نبی بنادیا ہے۔
عَنْ عَائِشَةَ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا عَنْ رَسُوْلِ اللہِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ جِبْرِيْلَ قَالَ : قَلَّبْتُ مَشَارِقَ الْأَرْضِ وَمَغَارِبَهَا فَلَمْ أَجِدْ رَجُلًا أَفْضَلَ مِنْ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَمْ أَرَ بَيْتًا أَفْضَلَ مِنْ بَيْتِ بَنِي هَاشِمٍ.
المعجم الاوسط للطبرانی،رقم الحدیث: 6285
ترجمہ: صدیقہ کائنات ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اﷲ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مجھ سے جبریل امین نے کہا: میں نے تمام روئے زمین کو دیکھا ہے ، میں نے سب سے زیادہ فضیلت والا آپ ہی کو دیکھا ہے اور گھرانوں میں سب سے اچھا گھر انہ بنی ہاشم کا پایا ہے ۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ: خِيَارُ وَلَدِ آدَمَ خَمْسَةٌ: نُوْحٌ وَإِبْرَاهِيْمُ وَعِيْسَی وَمُوْسَی وَمُحَمَّدٌ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَخَيْرُهُمْ مُحَمَّدٌ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِمْ أَجْمَعِيْنَ وَسَلَّمَ.
مسند بزار ،رقم الحدیث: 9737
ترجمہ : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ پانچ نبی ایسے ہیں جو تمام انبیاء علیہم السلام کے سردار ہیں وہ یہ ہیں: حضرت نوح ، حضرت ابراہیم ، حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ اور حضرت محمد علیہم الصلوٰۃ والسلام۔ اور ان سب کے سردار حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔
7: نبی کریم ﷺ کو امام الانبیاء ماننا:
امت پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتواں حق یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے امام الانبیاء ہونے کا عقیدہ رکھے ۔
عَنْ أُبَيِّ بْنِ کَعْبٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : إِذَا کَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ کُنْتُ إِمَامَ النَّبِيِّيْنَ، وَخَطِيْبَهُمْ، وَصَاحِبَ شَفَاعَتِهِمْ غَيْرَ فَخْرٍ.
جامع الترمذی ،رقم الحدیث: 3546
ترجمہ: حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں قیامت والے دن میں تمام انبیاء)کرام علیہم السلام ( کا امام، ان کا ترجُمان اور شفیع ہوں گا اور میں اسے اپنا ذاتی کمال سمجھنے کے بجائے محض اللہ کا کرم سمجھتا ہوں ۔
فائدہ: معراج والی رات آپ نے تمام انبیاء کرام علیہم السلام کی امامت کرائی جس کی وجہ سے آپ عالم دنیا میں امام الانبیاء کہلائے اور آخرت میں بھی آپ انبیاء کرام علیہم السلام کے حق میں امامت کے درجے پر فائز ہوں گے۔
8: نبی کریم ﷺ کو خاتم الانبیاء ماننا:
امت پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کاآٹھواں حق یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خاتم الانبیاء ہونے کا عقیدہ رکھے ۔
مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنۡ رِّجَالِکُمۡ وَ لٰکِنۡ رَّسُوۡلَ اللّٰہِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَ ؕ وَکَانَ اللّٰہُ بِکُلِّ شَیۡءٍ عَلِیۡمًا ﴿٪۴۰﴾
سورۃ الاحزاب ،رقم الآیۃ: 40
ترجمہ: ) حضرت( محمد)صلی اللہ علیہ وسلم( تمہارے مردوں میں سے کسی کے والد نہیں ہیں لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں اورسلسلہ نبوت کو ختم کرنے والے ہیں اورا للہ تعالیٰ ہر چیز کو اچھی طرح جانتے ہیں ۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم قَالَ اِنّ مَثَلِیْ وَمَثَلَ الْاَنْبِیَائِ مِنْ قَبْلِیْ کَمَثَلِ رَجُلِ بَنٰی بَیْتَاً فَاَحْسَنَہٗ وَاَجْمَلَہٗ اِلَّا مَوْضِعَ لَبِنَۃٍ مِنْ زَاوِیَۃٍ فَجَعَلَ النَّاسُ یَطُوفُوْنَ بِہٖ وَیَتَعجَّبُوْنَ لَہٗ وَیَقُوْلُوْنَ ہَلَّا وُضِعَتْ ھٰذِہِ اللَّبِنَۃُ قَالَ فَانَا اللَّبِنَۃُ وَاَنَا خَاتَمُ النَّبِیِّیْنَ۔
صحیح البخاری،رقم الحدیث:3535
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسو ل اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے ہوئے سنا: میری اور مجھ سے پہلے انبیاء علیہم السلام کی مثال ایسے ہے جیسے ایک شخص نے بہت ہی خوبصورت مکان بنایا مگر اس کے کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی، لوگ اس کی خوبصورتی کو دیکھنے کے لیے اس کے گرد چکر لگانے لگے اور تعجب سے کہنے لگے کہ یہ ایک اینٹ بھی کیوں نہیں لگا دی گئی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں نبوت والے محل کے کونے میں چُھوٹی ہوئی آخری اینٹ ہوں اور نبیوں کے سلسلہ کو ختم کرنے والا ہوں۔
عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ عَنْ أَبِيهِ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خَرَجَ إِلَى تَبُوكَ وَاسْتَخْلَفَ عَلِيًّا فَقَالَ أَتُخَلِّفُنِي فِي الصِّبْيَانِ وَالنِّسَاءِ قَالَ أَلَا تَرْضٰى أَنْ تَكُونَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُوسٰى إِلَّا أَنَّهُ لَيْسَ نَبِيٌّ بَعْدِي۔
صحیح البخاری، رقم الحدیث:4416
ترجمہ: حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوۂ تبوک کی طرف تشریف لے جانے لگے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا کہ علی! آپ مدینہ میں رہیں ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عرض کی: یارسول اللہ کیا آپ مجھے عورتوں اور بچوں میں چھوڑ کر جائیں گے ؟تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے علی ! کیاآپ اس بات پہ راضی نہیں کہ آپ کا تعلق مجھ سے ایسے ہوجیسے حضرت ہارون علیہ السلام کاتعلق حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ تھا۔ )ہاں حضرت ہارون علیہ السلام نبی تھے (لیکن میرے بعد کوئی نیا نبی نہیں۔
9: نبی کریم ﷺ کو معصوم ماننا:
امت پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کانواں حق یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم معصوم عن الخطا ہونے کا عقیدہ رکھے ۔
وَ اِذَا تُتۡلٰی عَلَیۡہِمۡ اٰیَاتُنَا بَیِّنٰتٍ ۙ قَالَ الَّذِیۡنَ لَا یَرۡجُوۡنَ لِقَآءَنَا ائۡتِ بِقُرۡاٰنٍ غَیۡرِ ہٰذَاۤ اَوۡ بَدِّلۡہُ ؕ قُلۡ مَا یَکُوۡنُ لِیۡۤ اَنۡ اُبَدِّلَہٗ مِنۡ تِلۡقَآیِٔ نَفۡسِیۡ ۚ اِنۡ اَتَّبِعُ اِلَّا مَا یُوۡحٰۤی اِلَیَّ ۚ اِنِّیۡۤ اَخَافُ اِنۡ عَصَیۡتُ رَبِّیۡ عَذَابَ یَوۡمٍ عَظِیۡمٍ ﴿۱۵﴾
سورۃ یونس، رقم الآیۃ: 15
ترجمہ: اور جس وقت ان کافروں کے سامنے ہماری )قرآنی)آیات کی تلاوت کی جاتی ہے تو وہ کہتے ہیں کہ )اے محمد!)کوئی اور قرآن لے کر آؤ یا )پھر( اس میں )ہمارے عقائد و نظریات کی رعایت رکھتے ہوئے کچھ( تبدیلی کرو۔ اے پیغمبر! ان (کافروں(سے کہہ دو کہ مجھے یہ حق نہیں پہنچتا کہ میں اپنی طرف سے اس میں کوئی تبدیلی کرلوں، میں تو صرف اس وحی کی پیروی کرتا ہوں جو مجھ پر نازل کی جاتی ہے۔اور( تمہاری اس خواہش کی رعایت کر کے قرآن میں تبدیلی کرنے کے بارے میں ( میں اپنے رب سے بڑے عظیم دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں ۔
فائدہ: جب پیغمبر شریعت کے حکم کو بدلنے کے لیے راضی نہیں تو وہ شریعت کے حکم کی خلاف ورزی )گناہ (کیسے کر سکتا ہے؟یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے معصوم ہونے کی دلیل ہے۔
10: نبی کریم ﷺ کو مفروض الاتباع ماننا:
امت پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کادسواں حق یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مفروض الاتباع ہونے کا عقیدہ رکھے ۔
عَنْ أَبِي مُوسىٰ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِنَّ مَثَلِي وَمَثَلَ مَا بَعَثَنِيَ اللہُ بِهٖ كَمَثَلِ رَجُلٍ أَتَى قَوْمَهٗ۔ فَقَالَ: يَا قَوْمِ! إِنِّي رَأَيْتُ الْجَيْشَ بِعَيْنَيَّ وَإِنِّيْ أَنَا النَّذِيْرُ الْعُرْيَانُ فَالنَّجَاءَ فَأَطَاعَهٗ طَائِفَةٌ مِنْ قَوْمِهٖ فَأَدْلَجُوْا فَانْطَلَقُوْا عَلٰى مُهْلَتِهِمْ وَكَذَّبَتْ طَائِفَةٌ مِنْهُمْ فَأَصْبَحُوْا مَكَانَهُمْ فَصَبَّحَهُمُ الْجَيْشُ فَأَهْلَكَهُمْ وَاجْتَاحَهُمْ فَذٰلِكَ مَثَلُ مَنْ أَطَاعَنِيْ وَاتَّبَعَ مَا جِئْتُ بِهِ وَمَثَلُ مَنْ عَصَانِيْ وَكَذَّبَ مَا جِئْتُ بِهٖ مِنَ الْحَقِّ۔
صحیح مسلم: رقم الحدیث :2283
ترجمہ: حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری مثال اور میرے دین کی مثال جو اللہ نے مجھے دے کر بھیجا ہے، اس شخص کی طرح ہے جو اپنی قوم کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ اے میری قوم! میں نے لشکر )دشمن کی فوج(کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے اور میں صاف صاف ڈرانے والا ہوں،لہٰذا جلدی سے بھاگ نکلو۔ اب اس کی قوم میں سے بعض نے اس کا کہنا مان لیا اور وہ شام ہوتے ہی وہاں سے بھاگ نکلے اور آرام سے چلے گئے اور بعض نے جھٹلایا اور وہ صبح تک اسی جگہ رہے اور صبح ہوتے ہی )دشمن کا (لشکر ان پر حملہ آور ہوا اور ان کو تباہ کیا اور انہیں نیست و نابود کر دیا۔ یہی اس شخص کی مثال ہے جس نے میری اطاعت کی اور جو کچھ میں احکام شریعت لے کر آیا ہوں اس کی اتباع کی اور جس نے میرا کہنا نہ مانا اور سچے دین کو جھٹلایا۔اس کی مثال دوسرے تباہ ہونے والے شخص کی طرح ہے ۔
فائدہ: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع لازم اور ضروری ہے جو آپ کی پیروی کرے گا وہ کامیاب ہو گا اور جو نافرمانی کرے گا ناکام ہو گا ۔
11: نبی کریم ﷺ کو اپنے روضہ مبارکہ میں زندہ ماننا:
امت پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا گیارہواں حق یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات فی القبر کا عقیدہ رکھے ۔
عَن اَوْسِ بْنِ اَوْسٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: اِنَّ مِنْ اَفْضَلِ اَیَّامِکُمْ یَوْمَ الجُمُعَةِ فِیہِ خُلِقَ اٰدَمُ وَفِیْہِ قُبِضَ وَفِیْہِ النَّفْخَةُ وَفِیْہِ الصَّعْقَةُ فَاَکْثِرُوْاعَلَّیَ مِنَ الصَّلٰوةِ فِیْہِ فَاِنَّ صَلٰوتَکُمْ مَعْرُوْضَةٌ عَلَّیَ قَالَ قَالُوْا: یَا رَسُوْلَ اللہِ وَکَیْفَ تُعْرَضُ صَلاَ تُنَا عَلَیْکَ وَقَدْاَرَمْتَ قَالَ: یَقُوْلُوْنَ بَلَیْتَ فَقَالَ: اِنَّ اللہُ عَزَّوَجَلَّ حَرَّمَ عَلَی الاَرْضِ اَجْسَادَالْاَنْبِیَآئِ۔
سنن ابی داؤ د:رقم الحدیث:1049
ترجمہ: حضرت اوس بن اوس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دنوں میں سب سے بہترین دن جمعہ کاہے، اسی دن میں حضرت آدم علیہ السلام پیدا ہوئے، اسی دن اُن کا انتقال ہوا، اسی دن صُور پھونکا جائے گا، اسی دن دوبارہ اٹھنا ہے اس لئے تم جمعہ کے دن مجھ پر کثرت سے درود پڑھا کرو کیونکہ تمہاری طرف سے بھیجا ہوا درود میری خدمت میں پیش کیا جاتا ہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کی: یا رسول اللہ! ہمارا درود آپ پر کیسے پیش کیا جائے گا جب کہ آپ تو ریزہ ریزہ ہو چکے ہوں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے زمین پر حضراتِ انبیاءِ کرام علیہم السلام کے اجسام حرام کردیئے ہیں ۔ (عام انسانوں کی طرح ریزہ ریزہ نہیں ہوتے بلکہ قوی آثارحیات ہونے کی وجہ سے محفوظ رہتے ہیں )
12: نبی کریم ﷺ سے محبت کرنا :
امت پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کابارہواں حق یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سب سے زیادہ محبت کا عقیدہ رکھے ۔
قُلۡ اِنۡ کَانَ اٰبَآؤُکُمۡ وَ اَبۡنَآؤُکُمۡ وَ اِخۡوَانُکُمۡ وَ اَزۡوَاجُکُمۡ وَ عَشِیۡرَتُکُمۡ وَ اَمۡوَالُۨ اقۡتَرَفۡتُمُوۡہَا وَتِجَارَۃٌ تَخۡشَوۡنَ کَسَادَہَا وَ مَسٰکِنُ تَرۡضَوۡنَہَاۤ اَحَبَّ اِلَیۡکُمۡ مِّنَ اللہِ وَ رَسُوۡلِہٖ وَ جِہَادٍ فِیۡ سَبِیۡلِہٖ فَتَرَبَّصُوۡا حَتّٰی یَاۡتِیَ اللہُ بِاَمۡرِہٖ ؕ وَ اللہُ لَا یَہۡدِی الۡقَوۡمَ الۡفٰسِقِیۡنَ ﴿٪۲۴﴾
سورۃ التوبۃ، رقم الآیۃ:24
ترجمہ: (اے میرے محبوب پیغمبر!مسلمانوں سے)آپ فرما دیں اگر تمہارے والدین، تمہاری اولاد، تمہارے بھائی، تمہاری بیویاں، تمہارا خاندان اور وہ مال و دولت جو تم نے کمایا ہے، وہ کاروبار جس کے نقصان کا تمہیں اندیشہ ہے، اور وہ رہائشی مکان جو تمہیں پسند ہیں، تمہیں اللہ اور اس کے رسول)صلی اللہ علیہ وسلم( سےاور اس کے راستے میں جہاد کرنے سے زیادہ عزیز اور محبوب ہیں۔ تو انتظار کرو، یہاں تک کہ اللہ اپنا)عذاب کا( فیصلہ صادر فرما دے۔
عَنْ أَنَسٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى أَكُونَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ وَالِدِهِ وَوَلَدِهِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ۔
صحیح البخاری،رقم الحدیث:15
ترجمہ: حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کسی کا ایمان اس وقت تک کامل نہیں ہو سکتا جب تک میں اسے اس کے والدین، اولاد ااور باقی تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں ۔
محبت نبوی ﷺکا اہم تقاضا:
یوں تو محبت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے بے شمار تقاضے ہیں ۔ جن کو ان شاء اللہ قدرے تفصیل سے عرض کیا جائے گا ۔ سردست اتنی بات ضرور سمجھ لیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دوستوں سے قلبی محبت اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمنوں سے دلی نفرت رکھنا بھی انہی تقاضوں میں شامل ہے ۔
فرانس میں گستاخانہ خاکے:
حالیہ دنوں میں فرانس میں سرکاری سطح پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خاکے شائع کر کےمسلمانوں کے ایمانی جذبات کو مجروح کرنے کی ناپاک کوشش کی گئی ہے اور اسے”آزادی اظہار رائے“ کا نام دینے کی بھونڈی کوشش کی گئی۔اس موقع پردنیا بھر کےاہل اسلام کو کیا کرنا چاہیے؟کیا طرز عمل اور کون سی حکمت عملی اختیار کرنی چاہیے اس حوالے سے اختصار کے ساتھ چند تجاویز آپ کی خدمت میں پیش کی جاتی ہیں ۔
سیاسی رہنما کیا کریں؟
دنیا بھر کے تمام مسلم ممالک کے سیاسی رہنماؤں کو انفرادی طور پر یا اجتماعی طور پر اس کے خلاف بھرپور اور موثر احتجاج ریکارڈ کرانا چاہیے۔
1: سفارتی تعلقات ختم کریں:
فرانس سے سفارتی تعلقات بالکلیہ ختم کرنےچاہییں کیونکہ بین الاقوامی سطح پر سفارت کاشعبہ باہمی رواداری کے قیام کےلیےعمل میں لایا جاتا ہےلیکن جب کوئی ملک کسی دوسرے ملک کے باشندوں کی دشمنی اور ان کی دل آزاری پر اتر آئے اور باہمی رواداری کی دھجیاں بکھیرنے لگے تو دوسری جانب سے تعلقات کسی صورت برقرار نہیں رکھے جا سکتے۔
2: اقتصادی تعلقات ختم کریں:
اسی طرح معاشی اور اقتصادی تعلقات کو بھی یکسر ختم کیا جائے، اقتصادی تعلقات کی بنیاد ا س وقت ختم ہو جاتی ہے جب کوئی ملک دوسرے ملک سے دشمنی مول نہ لے۔ فرانس نے گستاخانہ خاکوں کا انعقاد کر کے دنیا بھر کے تمام اسلامی ممالک سے اپنے تعلقات از خود خراب کیے ہیں ان سے اقتصادی تعلقات ختم کر کے ہم بھوکے پیاسے نہیں مریں گے اور اگر بالفرض بھوکا پیاسا مرنا بھی پڑا تو مر جائیں گے لیکن کسی ایسے ملک سے اقتصادی تعلقات کوکسی صورت قبول نہیں کرسکتے جو ملک سرکاری سطح پر ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گستاخانہ خاکے بنائے ۔
3: بین الاقوامی اداروں میں توانا آواز اٹھائیں:
تمام دنیا کے اسلامی ممالک کے سیاسی رہنما فرانس سے سفارتی و اقتصادی تعلقات کو ختم کر یں۔ قیامِ امن کے لیے قائم بین الاقوامی اداروں بالخصوص اقوام متحدہ کے سامنےتشویش کا اظہار کریں اور مسئلے کی حساسیت پر انہیں اپنا کردار ادا کرنے کے لیے مجبور کیا جائے ۔
تاجر برادری کیا کرے؟
تجارت بین الاقوامی سطح پر تعلقات کا مضبوط ترین ذریعہ ہے ، اس لیے مسلم ممالک کی تاجر برادری فرانس کی تمام مصنوعات کا مکمل بائیکاٹ کرے۔ اس طرز عمل سے فرانس کے علاوہ دیگر ممالک کو بھی سبق ملے گا اور آئندہ کوئی ملک ایسی ناپاک جسارت نہیں کر سکے گا ۔
مسلمان تاجر برادی سےگزارش ہے کہ ہماری شفاعت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمانی ہے۔کیا ہم ان کی خاطر اپنے عارضی منافع نہیں چھوڑ سکتے؟مال کیا ہے؟ ان کی خاطر تو جان تک کو قربان کیا جا سکتا ہے اس لیے بالخصوص آپ پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ فرانس کی مصنوعات کا مکمل بائیکاٹ کریں ، اگر کوئی مسلمان تاجر ان کی مصنوعات سے اپنا کاروبار چلا رہے ہیں تو اس کے متبادل کا انتظام کریں۔
عوام کیا کرے؟:
زبانِ خلق نقارۂِ خدا ہوتی ہے، عوام کا احتجاج سب سے مؤثر ہوتا ہے اور جب عوام اپنے ساتھ اپنے سیاسی رہنماؤں کو بھی احتجاج میں شریک کر لے تو اپنے مطالبات منوا لیتی ہے ، اگر مسلمان عوام مہنگائی ، بے روزگاری ، کرپشن ، ناانصافی اور ظلم کے خلاف آواز بلند کرسکتی ہے سڑکوں پر نکل سکتی ہے تو کائنات کے سب سے بڑے ظلم گستاخانہ خاکوں کے بارے سڑکوں پر کیوں نہیں آ سکتی ؟
اس حوالے سے میری گزارش ہے کہ عوام ہر سطح پر اپنا احتجاج ریکارڈ کرائے یہاں تک کہ فرانس میں موجود مسلمان اپنے نبی کی عزت و ناموس کے لیے اور اپنے آزادی اظہار رائے کے حق کو پر امن طریقے سے حاصل کریں ، اگر سیاسی معاملات میں ریلیاں ، دھرنے اور احتجاج ہو سکتے ہیں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ناموس کی خاطر اس سے بڑھ کر ہو سکتے ہیں۔
میڈیا کیا کرے؟
رائے عامہ کی ہمواری میں میڈیا کا کردار بنیادی ہوتا ہے،میڈیا چوتھا ستون ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ناموس کے لیے اپنی اپنی بساط اور اختیارات کے مطابق اس کو استعمال میں لانا وقت کا اہم ترین تقاضا ہے۔سوشل میڈیا سے وابستہ افراد سوشل میڈیا پر اپنی صدائے احتجاج بلند کریں اور پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کے مالکان اس بارے مضبوط و مؤثر ترین لائحہ عمل کا اعلان کریں اور اس کے لیے عملی اقدامات بھی کریں۔ اخبارات میں خصوصی اشاعتوں کا اہتمام ،ٹی وی پر خصوصی پروگرامز کا انعقاد کیا جائے۔
اس حوالے سے میری گزارش یہ ہے کہ ایسے لوگوں کو لکھنے اور گفتگو کے لیے منتخب کیا جائے جواسلام کی روح کو سمجھتے ہوں، معاملے کی حساسیت کا ادراک رکھتے ہوں اور اس کےحل کےلیے سنجیدہ اور مؤثر تجاویز پیش کر سکتے ہوں ۔ فکری بے راہ روی کا شکار متجددین اور مستشرقین سے مرعوب نام نہاد دانشور قوم کی رہنمائی ہرگز نہیں کر سکتے بلکہ الٹا معاملہ کو غلط رخ دیتے ہیں۔
علماء کرام کیا کریں؟
مسلمان قوم اپنے مذہبی پیشواؤں کے حکم پر ہمیشہ لبیک کہتی ہے، یہ مسئلہ ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و ناموس کا ۔ اس بارے سب سے زیادہ حق ان لوگوں کا ہے جو انبیاء کرام علیہم السلام کے وراث ہیں ، نبی کے علم ، عمل ، تزکیہ اور منبر کے وارث ہیں ۔ اس حوالے سے میری گزارش یہ ہے کہ خطباتِ جمعہ اور دیگر مذہبی اجتماعات میں عوام کی دینی رہنمائی کا فریضہ انجام دیں اور قوتِ دلیل اور طاقتِ عشق سے اس فریضے کو ادا کریں۔درسِ قرآن، درسِ حدیث، درسِ فقہ،سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پروگرامز، عوامی اجتماعات ، کانفرنسز، سیمینارز، جلسے اور جلوسوں ، ریلیوں اور دھرنوں، اخبارات اور ٹی وی پروگراموں میں علماء کرام اس معاملے کو ترجیحی بنیادوں پر اٹھائیں۔ پُرامن طریقوں سے اسلامی تعلیمات کے عین مطابق ہر طبقے کو اس کا احساس دلائیں کیونکہ دین کی بنیاد محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ہے اور یہ نہ رہے تو خالی نقوش کسی کام کے نہیں رہتے ۔
فرانسیسی مصنوعات کی فہرست:
فرانس کی مصنوعات کی ایک فہرست درج ذیل ہے، ان کا بائیکاٹ کریں۔
1: LU کمپنی کے تمام بسکٹس- TUC, Bakeri, Orieo, Gala, Party, Prince, Candy وغیرہ
2: BIC کمپنی کی تمام اشیاء۔ شیونگ ریزر، سٹیشنری، لائٹر وغیرہ
3: Total کمپنی کے پٹرول پمپس، انجن آئل وغیرہ
4: Garnier کمپنی کی تمام مصنوعات۔ کریمیں، لوشن، ہئیر کلر وغیرہ
5: L’Oreal کمپنی کی تمام مصنوعات۔ شیمپو، کنڈیشنر، کاسمیٹکس وغیرہ
6: Chloe کمپنی کے پرفیومز ، کپڑے، جوتے وغیرہ
7: Ibis ہوٹلز
8: Carefour سپر مارکیٹ ۔
اگر کسی دکان یا مارکیٹ میں گستاخوں کی مصنوعات دیکھیں تو مالکان سے شکایت کریں، انہیں آمادہ کریں کہ یہ چیزیں شیلف سے ہٹا دیں۔ اور وہاں لکھ کرلگائیں کہ گستاخی کی وجہ سے یہ مصنوعات ہٹائی گئی ہیں۔
اللہ تعالیٰ ہمیں رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے حقوق ادا کرنے کی توفیق نصیب فرمائے ۔
آمین بجاہ النبی الامی الکریم صلی اللہ علیہ وسلم۔
والسلام
محمدالیاس گھمن
پیر ،26اکتوبر ، 2020ء