عباداتِ رمضان
رمضان المبارک کو دیگر تمام مہینوں پر فضیلت حاصل ہے۔ اس مہینہ میں اللہ رب العزت کی رحمتوں، عنایات اور کرم نوازیوں کی عجیب شان ہوتی ہے۔ انہی برکات کا یہ ثمرہ ہے کہ اس میں ایک نفل کا ثواب فرض کے برابر اورایک فرض کا ثواب ستر فرائض کے برابرکردیا جاتا ہے۔ (مشکوۃ المصابیح: ج1، ص173 کتاب الصوم- الفصل الاول)
اس مہینہ میں عبادات و ریاضات کا عالم کیسا ہونا چاہیے؟ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی اس حدیث پر نظر ڈالیے، فرماتی ہیں:
كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا دَخَلَ شَهْرُ رَمَضَانَ شَدَّ مِئْزَرَهُ ، ثُمَّ لَمْ يَأْتِ فِرَاشَهُ حَتّٰى يَنْسَلِخَ (شعب الایمان للبیہقی: ج3ص310فضائل شہر رمضان)
ترجمہ: جب رمضان کا مہینہ آتا تورسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کمر ِہمت کس لیتے اوراپنے بسترپرتشریف نہ لاتے یہاں تک کہ رمضان گزر جاتا۔
لیکن جب رمضان کی آخری دس راتیں آتیں توسیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا ہی فرماتی ہیں:
كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَجْتَهِدُ فِى الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ مَا لاَ يَجْتَهِدُ فِى غَيْرِهَا (صحیح مسلم: ج1، ص372، باب الاجتہاد فی العشر الاواخر الخ)
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم آخری دس دنوں میں جو کوشش فرماتے وہ باقی دنوں میں نہ فرماتے تھے۔
رمضان المبارک میں چونکہ اجر و ثواب کئی گنا بڑھ جاتا ہے اس لیے جتنی بھی عبادات انسان کر سکتا ہو ضرور کرے ۔ روز مرہ کی چند عبادات کو مستقل مزاجی اور اعتدال اور اطمینان سے کیا جائے تو ان شاء اللہ بہت فائدہ ہو گا ۔
1:تہجد کی فضیلت:
نماز تہجد کو اپنی پوری زندگی کا معمول بنانا چاہیے ، ورنہ کم از کم رمضان المبارک میں تو اسے ہر حال میں ادا کرنے کی کوشش کی جائے کیونکہ ان دنوں میں ہمارے پاس اس کو ادا کرنے کا کافی وقت ہوتا ہےاور انسان کے دل میں ہدایت و روحانیت کا نور پیدا ہوتا ہے ۔ چند احادیث مبارکہ پیش خدمت ہیں:
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اَفْضَلُ الصَّلَاۃِ بَعْدَالْفَرِیْضَۃِ صَلَاۃُ اللَّیْلِ۔ (جامع الترمذی ج 1 ص 99باب ما جاء فی فضل صلوۃ اللیل )
ترجمہ : فرض نمازوں کے بعد سب سے افضل نماز تہجد کی نماز ہے ۔
حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ۔
قَالَ رَسُوْلُ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اِنَّ فِی الْجَنَّۃِ غُرْفاً تُرَیٰ ظُھُوْرُھَا مِنْ بُطُوْنِھَا وَبُطُوْنُھَا مِنْ ظُھُوْرِھَا فَقَامَ اَعْرَابِیٌّ فَقَالَ لِمَنْ ھِیَ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ؟ فَقَالَ لِمَنْ اَطَابَ الْکَلَامَ وَاَطْعَمَ الطَّعَامَ وَاَدَامَ الصِّیَامَ وَصَلّٰی بِاللَّیْلِ وَالنَّاسُ نِیَامٌ۔ (جامع الترمذی ج 2ص19 باب ماجاء فی قول المعروف )
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جنت میں ایسے بالا خانے ہیں جن کا اندرونی حصہ باہر سے اور بیرونی حصہ اندر سے نظر آتا ہے ۔ تو ایک اعرابی کھڑا ہوا اور عرض کرنے لگا۔ اے اللہ کے رسول! یہ بالا خانے کن لوگوں کے لئے ہوں گے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس کے لئے جو اچھا کلام کرے، (مسکینوں کو)کھانا کھلائے ، ہمیشہ روزے رکھے اور رات کو نماز پڑھے جب دوسرے لوگ سو رہے ہوں۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ رات کے آخری تہائی حصہ میں آسمان سے دنیا کی طرف نزول کر کے فرماتا ہے کہ کون ہے جو مجھ سے مانگے اور میں اسے عطا کروں؟ کوئی ہے جو مجھ سے بخشش اور مغفرت طلب کرے کہ میں اسے بخش دوں؟“)صحیح بخاری(
ایک اور حدیث مبارک میں ہے: ”اللہ تعالیٰ رات کے آخری حصہ میں بندے سے زیادہ قریب ہوتا ہے۔ پس اگر ہو سکے تو تم ان بندوں سے ہو جاؤ جو اس مبارک وقت میں اللہ کو یاد کرتے ہیں۔“)جامع الترمذی (
وقت تہجد:
نماز تہجد کا وقت آدھی رات کے بعد شروع ہو جاتاہے۔ سنت طریقہ یہ ہے کہ عشاء پڑھ کر سو جائے ، پھر اٹھ کر نماز تہجد ادا کرے، جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں فرماتی ہیں۔
کَانَ یَنَامُ اَوَّلَہٗ وَیَقُوْمُ اٰخِرَہٗ فَیُصَلِّیْ ثُمَّ یَرْجِعُ اِلٰی فِرَاشِہٖ۔ (صحیح البخاری باب من نام اول اللیل و احیی آخرہ (
ترجمہ: آپ صلی اللہ علیہ وسلم رات کے شروع حصہ میں نیند فرماتے اور آخری حصہ میں بیدار ہوتے اور نماز ادا فرماتے ۔ پھر اپنے بستر پر واپس آجاتے ۔
تعداد رکعات تہجد:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارکہ تہجد کی رکعات کے بارے میں مختلف تھی۔ چار، چھ، آٹھ ، دس رکعات تک بھی منقول ہیں۔
عَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ اَبِیْ قَیْسٍ قَالَ سَأَلْتُ عَائِشَۃَ رضی اللہ عنہابِکَمْ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم یُوْتِرُ؟ قَالَتْ بِاَرْبَعٍ وَثَلَاثٍ وَسِتٍّ وَّثَلَاثٍ وَثَمَانٍ وَّ ثَلَاثٍ وَلَمْ یَکُنْ یُوْتِرُبِاَکْثَرَمِنْ ثَلٰثَ عَشْرَۃَ وَلَااَنْقَصَ مِنْ سَبْعٍ۔ (سنن ابی داؤد ج 1ص200 باب فی صلوۃ اللیل)
ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن ابوقیس رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاسے پوچھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کتنی رکعتوں کے ساتھ وتر پڑھتے تھے؟ تو آپ رضی اللہ عنہانے جواب دیا چار اور تین کے ساتھ ، چھ اور تین کے ساتھ، آٹھ اور تین کے ساتھ آپ کی وتر (مع تہجد) کی رکعتیں نہ تیرہ سے زیادہ ہوتی تھیں اور نہ سات سے کم۔
عَنْ عَائِشَۃَ رضی اللہ عنہاقَالَتْ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم یُصَلِّیْ مِنَ اللَّیْلِ تِسْعَ رَکْعَاتٍ فِیْھِنَّ الْوِتْرُ۔ (صحیح ابن خزیمۃ ج 1ص577 رقم الحدیث 1167)
ترجمہ : حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاسے روایت ہے ، فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو نو رکعت پڑھتے تھے، ان میں وتر بھی ہوتی تھی۔
حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ۔
اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم صَلّٰی بَعْدَالْعَتَمَۃِ ثَلَاثَ عَشَرَۃَ رَکْعَۃً۔ (صحیح ابن خزیمۃ ج 1ص576 رقم الحدیث 1165 (
ترجمہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عشاء کی نماز کے بعد تیرہ رکعت پڑھتے تھے۔
فائدہ : آپ صلی اللہ علیہ وسلم مندرجہ بالا رکعات مختلف اوقات میں پڑھتے تھے، لیکن اکثر معمول آٹھ رکعت تہجد کا تھا۔ چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں۔
مَاکَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم یَزِیْدُفِیْ رَمَضَانَ وَلَافِیْ غَیْرِہٖ عَلٰی اِحْدیٰ عَشَرَۃَ رَکْعَۃً۔ (صحیح البخاری ج 1ص154 باب قیام النبی باللیل فی رمضان و غیرہ(
ترجمہ :حضور صلی اللہ علیہ وسلم رمضان اور غیر رمضان میںگیارہ رکعت سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے (آٹھ رکعت تہجد اور تین رکعت وتر(
2:سحری کی فضیلت:
یہ اللہ تعالی کا کرم ہے کہ اس ذات نے ہمیں جسمانی ضروریات کو پورا کرنے پر اجر وثواب عنایت فرماتے ہیں ۔ سحری بھی ہماری ان جسمانی ضروریات میں سے ایک ہے جس پر اللہ تعالی نے انعام و اکرام اور برکت سے نوازتے ہیں ۔چنانچہ حدیث پاک میں ہے ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:تَسَحَّروا فَاِنَّ فی السَّحُورِ بَرکَۃٌ سحری کیا کرو ، کیونکہ سحری کرنے میں یقینا برکت ہے۔) متفق علیہ (
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:فَصلُ مَا بَینَ صَیِامنا و صَیِام اَھلِ الکِتابِ ؛ اَکلَۃ السَّحَرِ ہمارے اور اہلِ کتاب کے روزوں میں فرق کرنے والی چیز سحری کا کھانا ہے۔) صحیح مُسلم(
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سحری کے کھانے کے بارے میں فرمایا: اِنَّھَا بَرکَۃٌ اَعطَاکُم اللَّہ ُ اِیَّاھَا ، فَلا تَدعُوہُ)سحری والی( برکت جو اللہ نے تم لوگوں کو عطا کی ہے اسے چھوڑو نہیں۔) سُنن نسائی(
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا: تَسحَرُوا و لَو بِجُرعَۃِ مَاءٍ سحری ضرور کرو خواہ ایک گھونٹ پانی سے ہی کرو۔) صحیح ابن حبان(
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :اِنَّ اللَّہَ و الملائِکتہُ یَصَّلُونَ عَلیَ المُتسَحَرِینَ بے شک سحری کرنے والوں پر اللہ رحمت کرتا ہے اور اللہ کے فرشتے دُعا ان کے لیے کرتے ہیں۔ )صحیح ابن حبان(
3:روزہ کی فضیلت:
روزہ رمضان المبارک کی بہت اہم عبادت ہے اس کے فضائل پر مشتمل چند احادیث پیش خدمت ہیں :
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أُعْطِيَتْ أُمَّتِي خَمْسَ خِصَالٍ فِي رَمَضَانَ لَمْ تُعْطَهَا أُمَّةٌ قَبْلَهُمْ خُلُوفُ فَمِ الصَّائِمِ أَطْيَبُ عِنْدَ اللّهِ مِنْ رِيحِ الْمِسْكِ وَتَسْتَغْفِرُ لَهُمْ الْمَلَائِكَةُ حَتَّى يُفْطِرُوا وَيُزَيِّنُ اللّهُ عَزَّوَجَلَّ كُلَّ يَوْمٍ جَنَّتَهُ ثُمَّ يَقُولُ يُوشِكُ عِبَادِيَ الصَّالِحُوْنَ أَنْ يُلْقُوا عَنْهُمْ الْمَئُونَةَ وَالْأَذَىٰ وَيَصِيرُوا إِلَيْكِ وَيُصَفَّدُ فِيهِ مَرَدَةُ الشَّيَاطِينِ فَلَا يَخْلُصُوا إِلٰى مَا كَانُوا يَخْلُصُونَ إِلَيْهِ فِي غَيْرِهِ وَيُغْفَرُ لَهُمْ فِي آخِرِ لَيْلَةٍ قِيلَ يَا رَسُولَ اللّهِ أَهِيَ لَيْلَةُ الْقَدْرِ؟ قَالَ لَا وَلٰكِنَّ الْعَامِلَ إِنَّمَا يُوَفّٰى أَجْرَهُ إِذَا قَضٰى عَمَلَهُ (مسند احمد: ج8 ص30 رقم الحدیث7904)
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:
میری امت کو رمضان شریف میں پانچ چیزیں خاص طور پر دی گئیں ہیں جو پہلی امتوں کو نہیں دی گئیں:
(۱)ان کے منہ کی بو اللہ کے نزدیک مشک سے زیادہ پسندیدہ ہے۔
(۲)ان کیلئے فرشتے دعا کرتے رہتے ہیں حتیٰ کہ افطار کے وقت تک دعا کرتے ہیں۔
(۳)جنت ہر روز ان کیلئے سجا دی جاتی ہے۔ پھر اللہ رب العزت فرماتے ہیں کہ عنقریب میرے نیک بندے مشقتیں اپنے اوپر سے ہٹا کر تیری طرف آئیں گے۔
(۴) اس مہینہ میں سرکش شیاطین قید کر دیے جاتے ہیں اور لوگ رمضان میں ان برائیوں کی طرف نہیں پہنچ سکتے جن کی طرف غیر رمضان میں جا سکتے ہیں۔
(۵)رمضان کی آخری رات میں روزہ داروں کی مغفرت کی جاتی ہے۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی:کیایہ شب قدرہے؟ ارشادفرمایا: نہیں، بلکہ دستور یہ ہے کہ مزدور کو مزدوری کام ختم ہونے کے وقت دی جاتی ہے ۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ مَنْ أَفْطَرَ يَوْمًا فِي رَمَضَانَ مِنْ غَيْرِ رُخْصَةٍ رَخَّصَهَا اللّهُ لَمْ يَقْضِ عَنْهُ صِيَامُ الدَّهْرِ(مسند احمد: ج9 ص346، رقم الحدیث9870)
ترجمہ: آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے: جو شخص بغیر کسی شرعی عذر کے ایک دن رمضان کا روزہ چھوڑ دے اور پھر تمام عمر کے روزے بھی رکھے تو اس ایک روزے کا بدل نہیں ہو سکتا ۔
قَالَ أَبُو عُبَيْدَةَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللّهِ صَلَّى اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ الصَّوْمُ جُنَّةٌ مَا لَمْ يَخْرِقْهَا (سنن نسائی: ج1 ص311باب فضل الصیام)
ترجمہ: حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: روزہ انسان کے لئے ڈھال ہے جب تک اس کو پھاڑ نہ ڈالے۔
فائدہ: ڈھال ہونے کا مطلب یہ ہے کہ جیسے آدمی ڈھال سے اپنی حفاظت کرتا ہے اسی طرح روزہ سے بھی اپنے دشمن یعنی شیطان سے حفاظت ہوتی ہے اور روزہ پھاڑ ڈالنے کا مطلب یہ ہے کہ روزہ کی حالت میں جھوٹ، غیبت اور اس قسم کے ناجائز کام کیے جائیں۔ لہذا روزہ کے حقیقی فوائد اور ثمرات اس وقت حاصل ہوں گے جب انسان ان گناہ کی چیزوں اور لایعنی کاموں سے بچا رہے۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَلَاثَةٌ لَا يُرَدُّ دُعَاؤُهُمْ؛ اَلْإِمَامُ الْعَادِلُ وَالصَّائِمُ حَتّٰى يُفْطِرَ وَدَعْوَةُ الْمَظْلُومِ يَرْفَعُهَا اللّهُ فَوْقَ الْغَمَامِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَيَفْتَحُ لَهَا أَبْوَابَ السَّمَاءِ وَيَقُولُ الرَّبُّ عَزَّ وَجَلَّ بِعِزَّتِي لَأَنْصُرَنَّكَ وَلَوْ بَعْدَ حِينٍ(مسند احمد بن حنبل: ج9 ص298 رقم الحدیث9703)
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ تین آدمیوں کی دعا رد نہیں ہوتی؛ ایک روزہ دار کی جب وہ روزہ افطار کرتے وقت مانگتا ہے، دوسرے عادل بادشاہ کی، تیسرے مظلوم انسان کی جس کواللہ تعالیٰ بادلوں سے اوپر اٹھا لیتے ہیں اور آسمان کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور ارشاد ہوتا ہے کہ (اے بندے!) میں تیری ضرور مدد کروں گا ، گو (کسی مصلحت کی وجہ سے) کچھ دیر ہو جائے ۔
عَنْ كَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: اُحْضُرُوا الْمِنْبَرَ فَحَضَرْنَا، فَلَمَّا ارْتَقٰى دَرَجَةً قَالَ: آمِينَ ، فَلَمَّا ارْتَقَى الدَّرَجَةَ الثَّانِيَةَ قَالَ: آمِينَ ، فَلَمَّا ارْتَقَى الدَّرَجَةَ الثَّالِثَةَ قَالَ: آمِينَ ، فَلَمَّا فَرَغَ نَزَلَ مِنَ الْمِنْبَرِ قَالَ: فَقُلْنَا لَهٗ يَا رَسُولَ اللهِ لَقَدْ سَمِعْنَا الْيَوْمَ مِنْكَ شَيْئًا لَمْ نَكُنْ نَسْمَعُهُ قَالَ: إِنَّ جِبْرِيلَ عَلَيْهِ السَّلَامُ عَرْضَ لِي فَقَالَ: بَعُدَ مَنْ أَدْرَكَ رَمَضَانَ فَلَمْ يُغْفَرْ لَهُ فَقُلْتُ: آمِينَ فَلَمَّا رَقِيتُ الثَّانِيَةَ قَالَ: بَعُدَ مَنْ ذُكِرْتَ عِنْدَهُ فَلَمْ يُصَلِّ عَلَيْكَ فَقُلْتُ: آمِينَ، فَلَمَّا رَقِيتُ الثَّالِثَةَ قَالَ: بَعُدَ مَنْ أَدْرَكَ وَالِدَيْهِ الْكِبَرَ عِنْدَهُ أَوْ أَحَدَهُمَا، فلَمْ يُدْخِلَاهُ الْجَنَّةَ - أَظُنُّهُ قَالَ- فَقُلْتُ: آمِينَ (شعب الایمان للبیہقی: ج2 ص214باب فی تعظیم النبی صلی اللہ علیہ و سلم الخ)
ترجمہ: کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ منبر کے قریب ہو جاؤ۔ ہم لوگ (قریب قریب) حاضر ہو گئے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے منبر کے پہلے زینہ پر قدم رکھا تو فرمایا :آمین۔ جب دوسرے زینہ پر قدم رکھا توپھر فرمایا: آمین، جب تیسرے پر قدم رکھا توپھر فرمایا آمین۔ جب آپ علیہ السلام خطبہ سے فارغ ہو کر نیچے تشریف لائے تو ہم نے عرض کیا کہ ہم نے آج آپ سے ایسی بات سنی ہے جو پہلے کبھی نہیں سنی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس وقت جبرئیل میرے پاس آئے تھے۔ جب میں نے پہلے درجہ پر قدم رکھا تو انہوں نے کہا: ہلاک ہوجائے وہ شخص جس نے رمضان کا مبارک مہینہ پایا اور پھر بھی اس کی مغفرت نہیں ہوئی، میں نے کہا :آمین، پھر جب میں دوسرے زینے پر چڑھا تو انہوں نے کہا: ہلاک ہو جائے وہ شخص جس کے سامنے آپ کا ذکر مبارک ہو اور وہ درود نہ بھیجے، میں نے کہا:آمین،جب میں تیسرے درجہ پر چڑھا تو انہوں نے کہا: ہلاک ہو جائے وہ شخص جس کے سامنے ا س کے والدین یا ان میں سے کوئی ایک بڑھاپے کی حالت میں آئیں اور وہ اس کو جنت میں داخل نہ کرائیں،میں نے کہا:آمین ۔
عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ: ذَاكِرُ اللهِ فِيْ رَمَضَانَ یُغْفَرُ لهٗ وَسَائِلُ اللهِ فِیْہِ لَا يَخِيْبُ (شعب الایمان للبیہقی: ج3ص311فضائل شہر رمضان)
ترجمہ: حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشادفرماتے ہوئے سنا: ”رمضان میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے والا بخشا جاتا ہے، اور اس مہینے میں اللہ تعالیٰ سے مانگنے والا بے مراد نہیں رہتا۔“
عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُهَنِىِّ عَنِ النَّبِىِّ صَلَّى اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَنْ فَطَّرَ صَائِمًا أَوْ جَهَّزَ غَازِيًا فَلَهُ مِثْلُ أَجْرِهِ(السنن الکبریٰ للبیہقی: ج4 ص240)
ترجمہ: حضرت زید بن خالد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے روزہ دار کا روزہ اِفطار کرایا یا کسی غازی کو سامانِ جہاد دیا، اس کو بھی اتنا ہی اجر ملے گا۔“
4:فرض نمازوں کی پابندی:
نماز اہم العبادات ہے ، اس کی پابندی ضروری ہے ، بے شمار آیات قرآنیہ اور احادیث نبویہ اس کی فضیلت ثابت ہے چند احادیث پیش خدمت ہیں :
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :’’ جس نے نماز کی پابندی کی تو نماز اس کے لئے قیامت کے دن نور، حجت اور نجات کا سبب بنے گی‘‘ ( مشکوٰۃ شریف(
آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ پت جھڑ کے موسم میں باہر تشریف لے گئے اور ایک درخت کی دو ٹہنیوں کو پکڑ کر ہلایا جس کی وجہ سے درخت سے پتے جھڑنے لگے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے ابو ذر! ابو ذر نے عرض کی یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہوں، آپ نے فرمایا دیکھو جب کوئی مسلمان نماز پڑھتا ہے اور اس کے ذریعہ اﷲ کی خوشنودی اور رضا کا طالب بنتا ہے تو اس کے گناہ اسے طرح جھڑ جاتے ہیں جس طرح اس درخت کے پتے جھڑ رہے ہیں ۔ (مسند امام احمد(
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بتاؤ تو کسی کے دروازے پر نہر ہو وہ اس میں ہر روز پانچ بار غسل کرتا ہو کیا اس کے بدن پر میل کچیل رہ جائے گی ؟ عرض کیا نہیں۔ فرمایا یہی مثال پانچ نمازوں کی ہے کہ ا ﷲ تعالیٰ ان نمازوں کے سبب خطاؤں کو مٹا دیتا ہے۔ (صحیح بخاری (
فقیہ امت حضرت عبد اﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا : اے اللہ کے رسول !اﷲ تعالیٰ کو بندے کا کون سا عمل سب سے زیادہ پسند ہے؟آپ نے فرمایا: وقت پر نماز پڑھنا۔
5:تلاوت قرآن:
قرآن کریم کو رمضان المبارک سے بہت نسبت ہے ۔ اسی مبارک مہینے میں قرآن کریم نازل ہوا ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس مہینے میں حضرت جبرئیل امین سے قرآن کریم کا دَور )سننا اور سنانا(فرمایا کرتے تھے ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :إقرؤا القرآن فإنہ یأتی یوم القیامۃ شفیعا لأصحابہ۔قرآن مجید پڑھو کیونکہ وہ قیامت کے دن اپنے پڑھنے والے کے لیے سفارش کرےگا۔ )صحیح مسلم(
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص قرآن میں ماہر ہے وہ معزز فرشتوں کے ساتھ ہوگا اور جو شخص قرآن اٹک اٹک کر مشقت کے ساتھ پڑھتا ہے اس کے لیے دوہرا اجر ہے۔ (متفق علیہ (
حدیث پاک ہے کہ صاحب قرآن سے قیامت کے روز کہاجائےگا: قرآن مجید کی تلاوت اس طرح کرو جیسے دنیا میں ترتیل) ٹھہر ٹھہر کر ( سے کرتے تھے اور بلند منازل طے کرتے جاؤ۔ جنت میں تمہارے لیے وہ جگہ متعین ہوگی جس جگہ آخری آیت کی تلاوت پر تمہاری سانس رکےگی۔ (جامع الترمذی (
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: لا تجعلوا بیوتکم مقابر، إن الشیطان ینفر من البیت الذی یقرأ فیہ سورۃ البقرۃ. اپنے گھروں کو قبرستان نہ بناؤ، بےشک شیطان اس گھر سے بھاگ جاتا ہے جس میں سورۃ البقرۃ کی تلاوت کی جاتی ہے۔(صحیح مسلم (
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے اللہ کے ہاں سب سے زیادہ پسندیدہ عمل وہ ہے جو دائمی ہو اگرچہ مقدار میں تھوڑا ہی کیوں ناہو ۔ حدیث مبارک کے پیش نظر آپ کی سہولت کے لیےتلاوت کلام پاک کے حوالے سے ایک نقشہ پیش کیا جا رہا ہے
وقت | تلاوت کی مقدار | 30 دنوں میں |
30 منٹ )آدھ گھنٹہ (روزانہ | ایک پارہ | ایک ختم قرآن |
60 منٹ )ایک گھنٹہ (روزانہ | دو پارے | دو ختم قرآن |
90 منٹ)ڈیڑھ گھنٹہ (روزانہ | تین پارے | تین ختم قرآن |
120 منٹ )دو گھنٹے (روزانہ | چار پارے | چار ختم اورآٹھ سپارے |
150منٹ)اڑھائی گھنٹے( روزانہ | پانچ پارے | چھ ختم قرآن |