حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے تعدادِ رکعاتِ تراویح

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 

حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے تعدادِ رکعاتِ تراویح

حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور خلا فت کی تراویح کی تعدادرکعت بیان کر نے والے چھ حضرات ہیں۔ یہ تمام حضرات بیس رکعات ہی روایت کرتے ہیں ( مضطرب وضعیف روایات کا  کوئی اعتبار نہیں ) ذیل میں روایات پیش خد مت ہیں :

1:حضرت ابی بن کعب:

عَنْ اُبَیِّ بْنِ کَعْبٍ اَنَّ عُمَرَ اَمَرَ اُبَیًّا اَنْ یُّصَلِّیَ بِالنَّاسِ فِیْ رَمْضَانَ فَقَالَ اِنَّ النَّاسَ یَصُوْمُوْنَ النَّھَارَوَ لَایُحْسِنُوْنَ اَنْ یَّقْرَأُ وْا فَلَوْقَرَأتَ الْقُرْآنَ عَلَیْھِمْ بِاللَّیْلِ فَقَالَ: یَااَمِیْرَ الْمُؤمِنِیْنَ! ہٰذَا شَیْیٌٔ لَمْ یَکُنْ۔ فَقَالَ؛ قَدْعَلِمْتُ وَلٰکِنَّہٗ اَحْسَنُ۔ فَصَلّٰی بِھِمْ عِشْرِیْنَ رَکْعَۃً۔ (مسند أحمد بن منيع بحوالہ اتحاف الخیرۃ المہرۃ ج2 ص424 باب في قيام رمضان)

ترجمہ: حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمربن خطاب رضی اللہ عنہ نے مجھے حکم دیا کہ میں رمضان شریف کی رات میں نماز (تراویح) پڑھاؤں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایاکہ لوگ دن کوروزہ رکھتے ہیں اور (رات) قرأت(قرآن)اچھی نہیں کرتے۔ توقرآن مجید کی رات کو تلاوت کرے تو اچھاہے۔حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے فرمایا:’’اے امیر المومنین !یہ تلاوت کا طریقہ پہلے نہیں تھا ۔‘‘ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:’’ میں جانتا ہوں لیکن یہ طریقہ تلاوت اچھا ہے ‘‘تو حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو بیس رکعات نماز (تروایح) پڑھائی ۔

فائدہ: اس روایت کی سند صحیح اور راوی ثقہ ہیں۔

اعتراض :

آ ل حدیث نے لکھا: ’’یہ روایت اتحا ف الخیرۃ المہرۃ للبوصیری میں بغیر کسی سند کے احمد بن  منیع کے حوالے مذکور ہے۔ سر فرازصفدر دیوبندی لکھتے ہیں کہ ’’بے سند  با ت حجت نہیں ہو سکتی ۔‘‘ (مقدار رکعات قیا م رمضا ن ص74)

غلام مصطفیٰ ظہیر غیر مقلد نے با زاری  زبان استعمال کرتے ہو ئے لکھا:’’بے سند روایات وہی  پیش کرتے ہیں جنکی اپنی کوئی سند نہ ہو ۔‘‘

(آٹھ رکعت نما ز تراویح ص8)

جواب:

اللہ تعا لی جنا ب کو اخلا ق حسنہ عطا فرمائے ، الاحادیث المختارہ للمقدسی میں یہ روایت سند کے ساتھ موجود ہے۔ جناب کی ’’تسلی‘‘ کےلئے سند پیشِ خدمت ہے :

أخبرنا أبو عبدالله محمود بن أحمد بن عبدالرحمن الثقفي بأصبهان أن سعيد بن أبي الرجاء الصيرفي أخبرهم قراءة عليه أنا عبدالواحد بن أحمد البقال أنا عبيدالله بن يعقوب بن إسحاق أنا جدي إسحاق بن إبراهيم بن محمد بن جميل أنا أحمد بن منيع أنا الحسن بن موسى نا أبو جعفر الرازي عن الربيع بن أنس عن أبي العالية عن أبي بن كعب أن عمر أمر أبيا أن يصلي بالناس في رمضان الحدیث. [الاحادیث المختارۃ للمقدسی ج3ص367 رقم 1161]

تنبیہ:۔۔۔۔علامہ ابن تیمیہ حضرت ابی بن کعب کے بیس رکعت پڑھا نے کو ثابت مانتے ہیں ،چنانچہ لکھتے ہیں:

” قد ثبت ان ابی بن کعب کان یقوم بالناس عشرن رکعۃ ویوتر بثلاث فرأی اکثر من العلماء ان ذلک ھو السنۃ لانہ قام بین المہا جر ین والانصار ولم ینکرہ منکر“۔ (فتاویٰ ابن تیمیہ قدیم ص186/ج1،فتاویٰ ابن تیمیہ جدیدص112ج23)

ترجمہ: یہ بات ثا بت ہے کہ حضرت ابی بن کعب لوگو ں کو بیس رکعت تراویح اور تین رکعت وتر پڑھاتے تھے۔ اس لئے علماء کی اکثریت کی رائے میں بیس ہی سنت ہیں  کیونکہ حضرت ابی بن کعب نے بیس رکعت مہاجرین اور انصار صحابہ کے سامنے پڑھی ہیں اور کسی نےبھی(بیس ترا ویح کے سنت ہو نےکا ) انکار نہیں کیا۔ (بحوالہ تجلیات صفدر ج3ص317تا318)

2:حضرت سائب بن یزید﷜:

1: عَنْ يَزِيْدِ بْنِ خُصَيْفَةَ عَنِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ قَالَ : كَانُوا يَقُومُونَ عَلَى عَهْدِ عُمَرَ فِى شَهْرِ رَمَضَانَ بِعِشْرِينَ رَكْعَةً وَ اِنْ كَانُوا لَيَقْرَءُونَ بِالْمِئِينِ مِنَ الْقُرْآنِ ، (مسند ابن الجعد ص413 رقم الحدیث 2825)

ترجمہ: حضرت سائب بن یزید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام حضرت عمر رضی اللہ عنہ[اورحضرت عثمان رضی اللہ عنہ]کے زمانہ میں بیس رکعت تراویح پڑھاکرتے تھے اورقاری صاحب سو سوآیات والی سورتیں پڑھتے تھے۔

فائدہ: اس روایت کی سند بخاری کی شرط کے مطابق صحیح ہے۔

2: عن يزيد بن خصيفة عنِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ قَالَ : كَانُوا يَقُومُونَ عَلَى عَهْدِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِىَ اللَّهُ عَنْهُ فِى شَهْرِ رَمَضَانَ بِعِشْرِينَ رَكْعَةً وَكَانُوا يَقْرَءُونَ بِالْمِئِينِ ، وَكَانُوا يَتَوَكَّؤنَ عَلَى عُصِيِّهِمْ فِى عَهْدِ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ رَضِىَ اللَّهُ عَنْهُ مِنْ شِدَّةِ الْقِيَامِ.(السنن الكبرى للبیھقی ج2ص496 باب مَا رُوِىَ فِى عَدَدِ رَكَعَاتِ الْقِيَامِ فِى شَهْرِ رَمَضَانَ)

ترجمہ: حضرت سائب بن یزید رضی اللہ عنہ صحابہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ[اورحضرت عثمان رضی اللہ عنہ]کے زمانہ میں[صحابہ کرام رضی اللہ عنہم  باجماعت] بیس رکعت تراویح پڑھاکرتے تھے اورقاری صاحب سو سوآیات والی سورتیں پڑھتے تھے اور لوگ لمبے قیام کی وجہ سے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دورمیں لاٹھیوں کا سہارا لیتے ۔

فائدہ: اس روایت کی سند بخاری و مسلم کی شرط کے مطابق صحیح ہے۔

3: روی مالک من طریق یزید بن خصیفۃ عن السائب بن یزید عشرین رکعۃ۔ (نیل الاوطارللشوکانی ج2ص514)

ترجمہ: امام مالک نے یزید بن خصیفہ کے طریق سے سائب بن یزید سے روایت کی ہے کہ (عہدفاروقی میں) بیس رکعت تروایح تھیں۔

تنبیہ: یہ طریق صحیح البخاری ج1ص312پرموجودہے۔

4: عن السائب بن یزید قال…القیام علی عہد عمر ثلاثۃ وعشرین رکعۃ۔ (مصنف عبدالرزاق ج4ص201،حدیث نمبر7763)

حضرت سائب بن یزید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمررضی اللہ عنہ کے دورمیں تین رکعت(وتر)اوربیس رکعت(تراویح) پڑھی جاتی تھی۔

5: عن السائب بن یزید قال: کنا نقوم فی زمان عمر بن الخطاب بعشرین رکعۃ والوتر۔ (معرفۃ السنن والآثار للبیہقی ج2ص305 باب قیام رمضان رقم الحدیث 1365)

ترجمہ: حضرت سائب بن یزید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم حضرت عمر کے زمانے میں بیس رکعت تروایح اوروترپڑھتے تھے۔

تصحیح روایت سائب بن یزید:

1: امام نووی نے اس کی سند کوصحیح کہا ہے ۔ (مرقات ج2ص194)

 2: علامہ نیموی نے فرمایا:یہ حدیث صحیح ہے. (التعلیق الحسن علی آثار السنن ص222)

بعض شبہات کا ازالہ:

بعض لوگوں نے اس پر مضحکہ خیز شبہات کئے ہیں مثلاً:

1: اس روایت  میں قیام کرنے والو ں کا تعا رف نامعلوم ہے۔۔۔ ان لوگوں کے نام بتا ئیں۔۔۔ وغیرہ وغیرہ ۔( تعداد رکعات قیام رمضان: ص77، 78)

جواب : روا یت میں واضح موجود ہے کہ یہ لوگ حضرت عمر بن خطاب  اور حضرت عثمان  رضی اللہ عنہما کے دور  کے لوگ ہیں ۔ ظا ہر ہے یہ صحابہ وتا بعین ہی ہیں ،کوئی  غیر مسلم  نہیں ۔  کیونکہ معرفۃ السنن للبیہقیمیں  ہے کہ سا ئب بن  یزید خود فر ما تے ہیں: ” کنا نقوم فی زمان عمر بن الخطاب “[ حوالہ  سابقہ]

کہ ’’ہم ‘‘ حضرت عمر رضی اللہ عنہ  کے زمانے میں  الخ اور سائب بن یزید صغا ر صحا بہ میں سے ہیں ۔ (تقریب التہذیب: ص263)

جو اپنے ہم عصر اصحاب یعنی کبا ر صحا بہ کرا م رضی اللہ عنہم وتا بعین رحمہم اللہ کی  ترا ویح کا ذکر فر ما رہے ہیں۔ اگر بعض النا س کو حضرت سا ئب بن یزید رضی اللہ عنہ اور اس دور کے دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم کاتعا رف نہ ہو اپنی” تحقیق“ کو داد دیں  اور اس اثرصحیح پر لایعنی اعتراض سے با ز رہیں ۔

2: آل حدیث نے لکھا :یہ روایت شاذ ہے ۔ (تعداد رکعات قیام ص16)

جواب : آل حدیث  کا یہ قول بلا دلیل ہو نے کی وجہ سے مردود ہے ۔سائب بن یزید کا یہ اثر شاذ نہیں اس لیے کہ یہ ابی بن کعب ، یزید بن رومان ، عبد العزیز بن رفیع ،یحی بن سعید ،محمد بن کعب القرظی کی روایات کے مطابق ہےجن میں بیس رکعات کاذکر ہے۔ (تفصیل آگے آرہی ہے )

3: حضرت محمد بن کعب القرظی:

قال محمد بن کعب القرظی کان الناس یصلون فی زمان عمر بن الخطاب فی رمضان عشرین رکعۃ۔ (قیام اللیل للمروزی ص157)

ترجمہ: محمد بن کعب القرظی(جوجلیل القدر تابعی ہیں)فرماتے ہیں کہ لوگ حضرت عمررضی اللہ عنہ کے دورمیں بیس رکعت(تروایح)پڑھتے تھے۔

شبہ : یہ روایت مرسل ومنقطع ہے، کیو نکہ محمد بن کعب القرظی کی حضرت  عمر بن الخطاب سے  ملاقات  ثا بت  نہیں ۔

جواب : محمد بن کعب القرظی [م 120ھ] خیر القرو ن کے ثقہ  محد ث ہیں۔ (تقریب التہذیب ص534)

جمہور محدثین خصوصا ً احناف وموالک کے ہاں خیر القرون کا ارسال وانقطاع مضر صحت نہیں ۔ (قواعد فی علوم الحدیث للعثما نی ص138وغیرہ)

پس روایت صحیح و قابل استدلال ہے۔

4: حضرت یزید بن رومان:

عَنْ يَزِيدَ بْنِ رُومَانَ أَنَّهُ قَالَ كَانَ النَّاسُ يَقُومُونَ فِي زَمَانِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فِي رَمَضَانَ بِثَلَاثٍ وَعِشْرِينَ رَكْعَةً۔ (موطا امام مالک: ص98)

ترجمہ: یزید بن رومان کہتے ہیں کہ لوگ(صحابہ وتابعین) حضرت عمررضی اللہ عنہ کے زمانہ میں تئیس رکعتیں پڑھتے تھے(بیس تراویح اورتین وتر)

اس حدیث کی سند بخاری ومسلم کی شرط کے مطابق صحیح ہے۔

شبہ :

بعض غیر مقلدین  شبہ کرتے ہیں کہ یزید بن رومان نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا زمانہ  نہیں پا یا  ، اس لئے یہ سند منقطع ہے ۔ (تعداد رکعات قیام  رمضا ن ص77)

جواب نمبر1:

یہ اثر موطا امام مالک (ص98) میں موجود ہے اور موطا امام مالک کے متعلق محدثین کی رائے یہ ہے :

قال الشافعي : أصح الكتب بعد كتاب الله موطأ  مالك ، واتفق أهل الحديث على أن جميع ما فيه صحيح على رأي مالك  ومن وافقه ، وأما على رأي غيره فليس فيه مرسل ولا منقطع إلا قد اتصل  السند به من طرق أخرى ، فلا جرم أنها صحيحة من هذا الوجه ، وقد صنف  في زمان مالك موطآت كثيرة في تخريج أحاديثه ووصل منقطعه ، مثل كتاب  ابن أبي ذئب وابن عيينة والثوري ومعمر۔

(حجۃ اللہ البا لغۃ:  ص281، باب طبقات كتب الحديث)

تر جمہ: امام شا فعی رحمہ اللہ فر ما تے ہیں : کتاب اللہ کے بعد سب سے  صحیح کتاب موطا امام مالک ہے اور محدثین کا اتفاق ہے کہ اس میں جتنی روایتیں ہیں سب امام مالک اور ان کے موافقین کی را ئے پر صحیح ہیں ۔(اس لئے کہ وہ لوگ مرسل کو بھی صحیح ومقبو ل ما نتے ہیں )اور دوسرو ں  کی را ئے پر اس میں کوئی مرسل یا منقطع ایسا نہیں ہے کہ دوسرے طرق سے اس کی سند متصل نہ ہو ، اور امام ما لک کے زمانے میں موطا کی حدیثوں کی تخریج کے لیے اور اس کے منقطع کو متصل ثا بت کر نے کے لیے بہت سے موطا تصنیف ہو ئے جیسے ابن ابی ذئب ، ابن عیینہ ، ثوری اور معمر کی کتا بیں ۔

پس لا علم لوگوں کا اعترا ض با طل ہے ۔

جواب  نمبر2:

یزید بن رو مان م 130ھ ثقہ راوی  ہیں ۔(تقریب التہذیب ص632)

اور پہلے وضا حت سے گز ر چکا ہے کہ خیر القرو ن کا انقطاع وارسال عند المحدثین خصوصاًاحناف و مالکیہ  کے ہاں صحت حدیث کے منا فی نہیں ۔ پس روایت صحیح وقابل استدلال ہے ۔پس اعترا ض باطل ہے ۔

جواب نمبر3:

حافظ ابن حجر عسقلانی  لکھتے ہیں :

وقال الشافعي: يُقْبَلُ إن اعْتَضَد بمجيئه مِن وجهٍ آخرَ يُبايِنُ الطريقَ الأُولى، مسنَداً أو مرسَلاً۔ (نزہۃ النظر فی توضیح نخبۃ الفکر: ص101)

تر جمہ: امام شافعی فر ما تے ہیں کہ مرسل کی تا ئید جب کسی دوسرے طریق  سے ہو جائے جو طریق اول کے مباین ہی کیو ں نہ ہو تو مقبو ل ہو تی ہے  چا ہے وہ دوسرا طریق مسند ہو یا مرسل ۔ اور یزید بن رو مان کے اثر کو دیگر کئی مرسلوں سے تا ئید حاصل ہے ( جن کا بیان آگے آرہا ہے) پس یہ اثر  با لاتفاق مقبو ل ہے ۔

5:حضرت یحیٰ بن سعید:

عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ  أَمَرَ رَجُلاً يُصَلِّي بِهِمْ عِشْرِينَ رَكْعَةً.(مصنف ابن ابی شیبۃ: ج2ص285، باب كم يصلی في رمضان من ركعۃ)

ترجمہ: یحیی بن سعید کہتے ہیں کہ حضرت عمررضی اللہ عنہ نے ایک آدمی کوحکم دیاکہ لوگوں کوبیس رکعت پڑھائے۔

شبہ : بعض آل حدیث نے لکھا : یحی بن سعید نے عمر رضی اللہ تعا لیٰ عنہ کو نہیں پایا،  لہذا یہ روا یت منقطع ہے ۔ (ملخصاً مقدار قیام رمضا ن ص76)

جواب : امام یحی بن سعید م 144ھ خیر القرو ن کے ثقہ ونیک محد ث ہیں۔ ( تقریب التہذیب ص622)

 اور پہلے وضا حت سے  گزرچکا ہے کہ خیر القرو ن کا انقطاع و ارسال عند الجمہور خصوصاً عند الاحنا ف صحت حدیث کے منا فی نہیں ۔پس اثرصحیح ہے ۔

6:حضرت عبد العزیز بن رفیع:

آپ رحمہ اللہ مشہور تابعی ہیں۔ حضرت انس، حضرت ابن زبیر، حضرت ابن عباس، حضرت ابن عمر اور دیگر صحابہ کے شاگرد ہیں، صحاح ستہ کے راوی ہیں۔ (تہذیب التہذیب: ج4 ص189، 190)

آپ فرماتے  ہیں:كَانَ أُبَيّ بْنُ كَعْبٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ  يُصَلِّي بِالنَّاسِ فِي رَمَضَانَ بِالْمَدِينَةِ عِشْرِينَ رَكْعَةً وَيُوتِرُ بِثَلاَثٍ. (مصنف ابن ابی شیبہ ج2ص285 کم یصلی فی  رمضا ن من رکعۃ)

ترجمہ: حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ رمضان میں لوگوں کوبیس رکعت تراویح اورتین رکعت وتر پڑھاتے تھے۔

اس کی سند صحیح ہے اورتمام راوی ثقہ اورقابل اعتماد ہیں۔

فائدہ: مشہور قول کے مطابق حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی وفات حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں ہوئی۔ (تہذیب التہذیب: ج1 ص178)

گویا عبد العزیز بن رفیع نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے دور خلافت کی تراویح کو ذکر کیا ہے، اس لیے ہم ان کی روایت اس باب میں لائے ہیں۔

شبہ : بعض غیر مقلدین  نے لکھا: عبد العزیز بن رفیع کی حضرت ابی بن کعب سے ملا قات ثا بت نہیں ، لہذا یہ روایت منقطع ہے ۔

جواب : امام عبد العزیز بن رفیع  م 130ھ صحا ح ستہ کےراوی ہیں اور خیر القرو ن کے ثقہ راوی ہیں ۔ (تقریب التہذیب ص389)

اور جمہور محدثین  خصوصاً عند الاحناف خیر القرو ن کا ارسال وانقطا ع  مضر صحت نہیں۔ (تفصیل گزر چکی ہے) پس اعترا ض با طل ہے  اور روایت ٹھیک ہے۔

7: حضرت حسن بصری:

عنالحسن ان عمر بن الخطاب جمع الناس علی ابی بن کعب فی قیام رمضان فکان یصلی بھم عشرین رکعۃ۔  (سنن ابی داؤد ج1ص211 باب القنوت فی الوتر)

ترجمہ: حضرت حسن بصری سے روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کوحضرت ابی بن کعب کی امامت پر جمع فرمایا۔وہ لوگوں کوبیس رکعت نماز تراویح پڑھاتے تھے۔

فائدہ: اس روایت کے راوی ثقہ ہیں۔

شبہ :

 بعض لوگوں نے لکھا : ”عشرین رکعۃ“ کے الفاظ دیو بندی تحریف ہے۔ محمود الحسن دیوبندی (1268۔1339) نے یہ تحریف کی ہے ، ”عشرین لیلۃ“بیس راتیں کی بجا ئے ”عشرین رکعۃ“ بیس رکعتیں کردیا ۔ (آٹھ رکعت نماز تراویح ص9)

بعض نے یو ں لکھا: یہ بات سفید جھوٹ ہے ۔ (مقدار رکعات قیام رمضا ن ص30)

جواب :

اولاً :۔۔۔۔ حضرت اوکاڑوی  رحمہ اللہ ایک غیر مقلد سلطان محمود جلالپوری کے جواب میں فر ما تے ہیں :’’ابو داؤد کے دو نسخے ہیں، بعض نسخو ں میں عشرین رکعۃ اور بعض میں عشرین لیلۃ ہے۔ جس طرح قر آ ن پاک کی دو قرأتیں  ہو ں تو دونوں کوماننا چا ہیے،  ہم دونو ں نسخو ں کو تسلیم کرتے ہیں، لیکن حیلہ بہا نے سے  انکا ر حد یث کے عا دی سلطان محمود جلا لپوری نے اس حدیث کا انکار کر دیا  اور الٹا الزا م علماء دیوبند پر لگا دیا ۔‘‘ (تجلیا ت صفدر ج3ص316)

ثانیاً:۔۔۔۔جلیل القدر محدثین  و محققین نے اس روا یت کو نقل کیا اور ”عشرین رکعۃ“ ہی نقل کیا ہے ، مثلاً:

1: علامہ ذہبینے  ابوداؤد کے حوالے سے ”عشرین رکعۃ“ نقل کیا۔

(سیر اعلام النبلاء ج3ص176، 177،  تحت تر جمہ ابی بن کعب  رقم الترجمہ :223)

2: علامہ ابن کثیر ۔(جامع المسانید والسنن ج1ص55)

3: الشیخ محمد علی الصابونی ۔(الھدی النبوی الصحیح فی صلوۃ التراویح ص56)

4: شیخ الہند مولانا محمود حسن ۔ (سنن ابی داؤدبتحقیق شیخ الہند ج1ص211)

5: نسخہ مطبوع عر ب۔ ( ص1429 بحوالہ تجلیا ت صفدر ج3ص316)

یہ 5حوالہ جات لاعلم لوگو ں کو چپ کرا نے کے لیے کا فی ہیں ۔

فائدہ : حضرت عمر کے زمانے میں پڑھی جا نے والی تراویح کے چھ راوی گزر چکے ہیں  جو ”عشرین رکعۃ“ نقل کرتے ہیں ، یہ زبر دست تا ئید ہے کہ ”عشرین رکعۃ“ والا نسخہ ابی داؤد بھی صحیح وثا بت ہے ۔

خلاصہ روایات:

ان روایات سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں قولاً، فعلاً اورتقریراً بیس رکعت تراویح پر مواظبت ثابت ہوگئی اوریہ عمل حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے تمام مہاجرین اورانصار صحابہ  رضی اللہ عنہم کی موجودگی میں شروع فرمایاجس کا کسی نے بھی انکار نہیں کیا۔ چنانچہ علامہ ابن تیمیہ لکھتے ہیں:قد ثبت ان ابی بن کعب کان یقوم بالناس عشرین رکعۃ فی قیام رمضان ویوتر بثلات فرای کثیرمن العلماء ان ذلک ھو السنۃ لانہ اقامہ بین المھاجرین والانصا، ولم ینکرہ منکر۔ (فتاوی ابن تیمیہ ج23ص122)

ترجمہ:  یہ بات ثابت ہے کہ حضرت ابی بن کعب لوگوں کوبیس رکعت تراویح اورتین وتر پڑھاتے تھے اس لیے علماء کی اکثریت کی رائے میں بیس ہی سنت ہیں کیونکہ حضرت ابی بن کعب نے مہاجرین اورانصار کوبیس ہی پڑھائیں۔اورکسی نے بھی(بیس تراویح کے سنت ہونے کا)انکار نہیں کیا۔