تراویح کےچند متفرق مسائل

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 

تراویح کےچند متفرق مسائل

 تراویح کی رکعات کا مسئلہ:

سوال : نماز تراویح کی رکعات کتنی ہیں ؟

جواب: تراویح کی 20 رکعات ہیں ، چند احادیث درج ذیل ہیں ۔

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ : أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُصَلِّي فِي رَمَضَانَ عِشْرِينَ رَكْعَةً وَالْوِتْرَ

(مصنف ابن ابی شیبۃ ج2 ص284 باب كم يصلي فِي رَمَضَانَ مِنْ رَكْعَةٍ. المعجم الکبیر للطبرانی ج5ص433 رقم 11934، المنتخب من مسند عبد بن حميد ص218 رقم 653)

ترجمہ: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  رمضان میں بیس رکعت (تراویح) اور وتر پڑھتے تھے۔

عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللّٰہِ قَالَ خَرَجَ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ذَاتَ لَیْلَۃٍ فِیْ رَمَضَانَ فَصَلَّی النَّاسَ اَرْبَعَۃً وَّعِشْرِیْنَ رَکْعَۃً وَاَوْتَرَ بِثَلَاثَۃٍ(تاريخ جرجان للسہمی ص317، فی نسخۃ 142)

ترجمہ: حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:نبی  صلی اللہ علیہ و سلم  رمضان میں ایک رات تشریف لائے اورلوگوں کوچار(فرض)بیس رکعت(تراویح) اورتین وترپڑھائے۔

عَنْ اُبَیِّ بْنِ کَعْبٍ اَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ اَمَرَ اُبَیَّ بْنَ کَعْبٍ اَنْ یُّصَلِّیَ بِاللَّیْلِ فِیْ رَمْضَانَ فَصَلّٰی بِھِمْ عِشْرِیْنَ رَکْعَۃً (مسند أحمد بن منيع بحوالہ اتحاف الخیرۃ المہرۃ ج2 ص424)

ترجمہ: حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمربن خطاب رضی اللہ عنہ نے مجھے حکم دیا کہ میں رمضان شریف کی راتوں میں نماز (تراویح) پڑھاؤں……تو  میں نے لوگوں کو بیس رکعات نماز (تروایح) پڑھائی ۔

عَنِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ قَالَ : كَانُوا يَقُومُونَ عَلٰى عَهْدِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِىَ اللّهُ عَنْهُ فِى شَهْرِ رَمَضَانَ بِعِشْرِينَ رَكْعَةً وَكَانُوا يَقْرَءُونَ بِالْمِئِينِ ، وَكَانُوا يَتَوَكَّؤنَ عَلَى عُصِيِّهِمْ فِى عَهْدِ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ رَضِىَ اللّهُ عَنْهُ مِنْ شِدَّةِ الْقِيَامِ. (السنن الكبرى للبیھقی ج2ص496 باب مَا رُوِىَ فِى عَدَدِ رَكَعَاتِ الْقِيَامِ فِى شَهْرِ رَمَضَانَ)

ترجمہ: حضرت سائب بن یزید فرماتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں(صحابہ کرام باجماعت)بیس رکعت تراویح پڑھاکرتے تھے اورقاری صاحب سو سوآیات والی سورتیں پڑھتے تھے اورلوگ لمبے قیام کی وجہ سے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دورمیں لاٹھیوں کاسہارالیتے۔

عَنْ زَیْدِ بْنِ عَلِیٍّ عَنْ اَبِیْہِ عَنْ جَدِّہٖ عَنْ عَلِیٍّ اَنَّہٗ اَمَرَ الَّذِیْ یُصَلِّیْ بِالنَّاسِ صَلَاۃَ الْقِیَامِ فِیْ شَہْرِ رَمْضَانَ اَنْ یُّصَلِیَّ بِھِمْ عِشْرِیْنَ رَکْعَۃً یُّسَلِّمُ فِیْ کُلِّ رَکْعَتَیْنِ وَیُرَاوِحَ مَابَیْنَ کُلِّ اَرْبَعِ رَکْعَاتٍ (مسند الامام زیدص158)

ترجمہ: امام زیدرحمہ اللہ اپنے والد امام زین العابدین رحمہ اللہ سے وہ اپنے والد حضرت حسین رضی اللہ عنہ سے روایت فرماتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جس امام کورمضان میں تراویح پڑھانے کاحکم دیا تھا اسے فرمایاکہ وہ لوگوں کوبیس رکعات پڑھائے، ہر دورکعت پر سلام پھیرے، ہرچاررکعت کے بعد آرام کا اتنا وقفہ دے کہ حاجت والافارغ ہوکر وضوکرلے اوریہ کہ سب سے آخر میں وتر پڑھائے۔

حضرت زید بن وھب فرماتے ہیں:کَانَ عَبْدُاللّٰہِ بْنُ مَسْعُوْدٍ یُصَلِّیْ بِنَا فِیْ شَہْرِ رَمْضَانَ فَیَنْصَرِفُ وَ عَلَیْہِ لَیْلٌ، قَالَ الْاَعْمَشُ:کَانَ یُصَلِّیْ عِشْرِیْنَ رَکْعَۃً وَیُوْتِرُ بِثَلَاثٍ(قیام اللیل للمروزی ص157)

ترجمہ: حضرت عبداللہ بن مسعود رمضان میں ہمیں تراویح پڑھاتے تھے اور گھر لوٹ جاتے توابھی رات باقی ہوتی تھی۔حدیث کےراوی امام اعمش رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ آپ رضی اللہ عنہ بیس رکعت تراویح اورتین رکعت وترپڑھتے تھے۔

اجماع امت:

1: ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:اَجْمَعَ الصَّحَابَۃُ عَلٰی اَنَّ التَّرَاوِیْحَ عِشْرُوْنَ رَکْعَۃً.  (مرقاۃ المفاتیح: ج3ص346 باب قیام شہر رمضان- الفصل الثالث)

ترجمہ: تمام صحابہ رضی اللہ عنہم کا اجماع ہے کہ  تراویح بیس رکعات ہے۔

2: محدث علامہ ابوزکریا یحیی بن شرف الدین نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

اِعْلَمْ اَنَّ صَلَاۃَ التَّرَاوِیْحَ سُنَّۃٌ بِاتِّفَاقِ الْعُلَمَاءِ وَھِیَ عِشْرُوْنَ رَکْعَۃً. (کتاب الاذکارص226 باب اذکار صلاۃ التراویح)

ترجمہ: نماز تراویح باتفاق علماء سنت ہے اوریہ بیس رکعتیں ہیں۔

تسبیح تراویح کا مسئلہ:

سوال: تراویح کی ہر چار رکعات کےبعد  تسبیح تراویح پڑھنا کیسا ہے ؟کیا اس کا کوئی ثبوت  بھی ہے؟

جواب: فقہ حنفی کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ دو ترویحہ کے درمیان نمازی کو اختیار ہے چاہے تو تسبیح کرے، چاہے حمد و ثناء کرے اور اگر چاہے تو سکوت اختیار کرے اور اگلی رکعات کا انتظار کرے۔ چند تصریحات ملاحطہ ہوں:

1: قَوْلُهُ : وَيَجْلِسُ بَيْنَ كُلِّ تَرْوِيحَتَيْنِ مِقْدَارَ تَرْوِيحَةٍ  وَذَلِكَ مُسْتَحَبٌّ وَهُمْ بِالْخِيَارِ فِي ذَلِكَ الْجُلُوسِ إنْ شَاءُوا يُسَبِّحُونَ أَوْ يُهَلِّلُونَ أَوْ يَنْتَظِرُونَ سُكُوتًا۔ )الجوہرۃ النیرۃ: ص385(

ترجمہ: تراویح کی چار رکعت کے بعد بیٹھنا: یہ مستحب ہے اور نمازیوں کو اختیار ہے چاہیں تو اس بیٹھنے کے دوران تسبیح کرتے رہیں، لا الہ الا اللہ کا ورد کرتے رہیں یا محض خاموش بیٹھے رہیں۔

2: والانتظار بين كل ترويحتين مستحب بقدر ترويحة عند أبي حنيفة رحمه الله. وعليه عمل أهل الحرمين، غير أن أهل مكة يطوفون بين كل ترويحتين أسبوعاً، وأهل المدينة يصلون بدل ذلك أربع ركعات، وأهل كل بلدة بالخيار يسبحون أو يهللون أو ينتظرون سكوتاً.المحیط البرہانی: ج2 ص181(

ترجمہ:       امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک چار رکعتوں کے بعد کچھ دیر انتظار مستحب ہے اور اسی پر اہل حرمین شریفین کا عمل ہے، فرق یہ ہے کہ مکہ والے اس دوران  سات چکر لگا لیتے اور مدینہ والے اس کے بدلے چار رکعت نفل پڑھ لیتے، باقی ہر شہر والوں کو اختیار ہے چاہیں تو اس بیٹھنے کے دوران تسبیح کرتے رہیں، لا الہ الا اللہ کا ورد کرتے رہیں یا محض خاموش بیٹھے رہیں۔

نوٹ:  ہر  چار رکعت کے بعد کچھ دیر انتظار و استراحت کرنا یہ محض فقہ حنفی کا مسئلہ نہیں بلکہ یہ خلیفہ راشد کے عمل سے ثابت ہے۔ چنانچہ روایت میں وارد ہے:

حدثنی زید بن علی عن ابیہ عن جدہ عن علی انہ امرالذی یصلی بالناس صلاۃ القیام فی شھر رمضان ان یصلی بھم عشرین رکعۃ یسلم فی کل رکعتین ویراوح مابین کاربع رکعات فیرجع ذوالحاجۃ ویتوضأالرجل وان یوتر بھم من آخر اللیل حین الانصراف۔                                 (مسند الامام زیدص158،159)

ترجمہ:       امام زیدرحمہ اللہ اپنے والد امام زین العابدین رحمہ اللہ سے وہ اپنے والد حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ سے روایت فرماتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جس امام کورمضان میں تراویح پڑھانے کاحکم دیا اسے فرمایاکہ وہ لوگوں کوبیس رکعات پڑھائے ہر دورکعت پر سلام پھیرے، ہرچاررکعت کے بعد اتنا آرام کاوقفہ دے کہ حاجت والافارغ ہوکر وضوکرلے اورسب سے آخر میں وتر پڑھائے۔

ماقبل کی وضاحت سے معلوم ہو گیا کہ اس دوران کوئی بھی تسبیح پڑھی جا سکتی ہے یا خاموش بیٹھا جا سکتا ہے۔ آجکل جو تسبیح کی جاتی ہے وہ بھی پڑھی جا سکتی ہے بشرطیکہ صرف اسی کو ضروری نہ سمجھا جائے۔ رہا اس کی فضیلت کا سوال تو  کتب احادیث میں اس کے الفاظ کا ثبوت اس صورت میں ملتا ہے:

إن لله بحرا من نور حوله ملائكة من نور على خيل من نور بأيديهم حراب من نور يسبحون حول ذلك البحر سبحان ذى الملك والملكوت سبحان ذى العرش والجبروت سبحان الحى الذى لا يموت سبوح قدوس رب الملائكة والروح فمن قالها فى يوم أو شهر أو سنة مرة أو فى عمره غفر الله له ما تقدم من ذنبه وما تأخر ولو كانت ذنوبه مثل زبد البحر أو مثل رمل عالج أو فر من الزحف (الديلمى عن أنس).          

) جمع الجوامع أو الجامع الكبير للسيوطي: رقم الحدیث 1587(

 امام نووی رحمہ اللہ نے  اللهم أجرنا من النار کے انکار کرنے والوں کا خوب رد کرتے ہوئے اسے ثابت بالسنۃ مانا ہے۔

)الاذکار للنووی: ص384(

فائدہ :        دعا کے الفاظ میں صیغے کی تبدیلی کی شرعا گنجائش موجود ہے ۔ جیسا کہ تلبیہ کے الفاظ میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی معمولی اضافے کا ثبوت کتب حدیث میں ملتا ہے ۔

تراویح میں ختمِ قرآن:

سوال :         تراویح میں قرآن مکمل کرنے کی کیاشرعاً حیثیت ہے ؟ آیا ایک سے زائد مرتبہ بھی تراویح میں  قرآن ختم کیا جا سکتا ہے ؟

جواب:

 تراویح میں ایک بار مکمل قرآن کریم ختم کرنا سنت ہے ، اس کو چھوڑنے والا تارک سنت کہلائے گا ۔ ہاں ایک سے زائد مرتبہ قرآن کریم ختم کرنا باعث سعادت و ثواب ہے ۔

عَنِ الْحَسَنِ قَالَ مَنْ اَمَّ النَّاسَ فِیْ رَمْضَانَ فَلْیَأْخُذْ بِھِمُ الْیُسْرَفَاِنْ کَانَ بَطِیْئَ الْقِرَاءَۃِ فَلْیَخْتِمِ الْقُرْآنَ خَتْمَۃً وَاِنْ کَانَ قِرَاءَۃً بَیْنَ ذٰلِکَ،  فَخَتَمَۃً وَنِصْفاً وَاِنْ کَانَ سَرِیْعَ الْقِرَاءَۃِ فَمَرَّتَیْنِ•                  (مصنف ابن ابی شیبۃ: ج 5ص222 باب فی صلاۃ رمضان)

ترجمہ:       حضرت حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جو  شخص رمضان میں لوگوں کو نماز تراویح پڑھائے وہ ان سے آسانی کامعاملہ کرے۔ اگر اس کی قرأت آہستہ ہو توایک قرآن کریم کاختم کرے، قرأت کی رفتار درمیانی ہو تو ڈیڑھ اور اگرتیزقرأت کرسکتاہو توپھر دوبار قرآن کاختم کرے۔

قَالَ الْاِمَامُ الْفَقِیْہُ مُحَمَّدُ بْنُ عَلِیٍّ الْحَصْکَفِیُّ رَحِمَہُ اللّٰہِ :( وَالْخَتْمُ)مَرَّۃً سُنَّۃٌوَمَرَّتَیْنِ فَضِیْلَۃٌ وَثَلَاثًا اَفْضَلُ (وَلَایُتْرَکُ) الْخَتَمُ (لِکَسْلِ الْقَوْمِ)

(الدرالمختار للحصکفی :ج2ص601 کتاب الصلاۃ، مبحث صلاۃ التراویح)

ترجمہ:       امام محمد بن علی الحصکفی فرماتے ہیں:تروایح میں ایک بار قرآن مجید ختم کرنا سنت،  دوبار فضیلت اورتین بار افضل ہے، قوم کی سستی کی وجہ سے چھوڑا نہ جائے۔

اَلسُّنَۃُ فِی التَّرَاوِیْحِ اِنَّمَا ہُوَالْخَتْمُ مَرَّۃً فَلَایُتْرَکُ لِکَسْلِ الْقَوْمِ

(فتاوی عالمگیر یہ ج1ص130 فصل فی التروایح)

ترجمہ:       تروایح میں ایک بار ختم قرآن کرنا سنت ہے، لوگوں کی سستی کی وجہ سے ترک نہ کیاجائے۔

تراویح میں قرآن مجید دیکھ کر پڑھنے کا مسئلہ:

سوال :       کیا تراویح میں قرآن کریم دیکھ کر پڑھنا جائز ہے ؟

جواب:        تراویح میں قرآن پاک دیکھ کر پڑھنا جائز نہیں ۔

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ : نَهَانَا أَمِيْرُ الْمُؤْمِنِيْنَ عُمَرُ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ أَنْ  نَؤُمَّ النَّاسَ فِي الْمُصْحَفِ•                          (کتاب المصاحف لابن ابی داؤد: ص711باب ہل یؤم القرآن (

ترجمہ:       حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: امیر المومنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ہمیں منع فرمایا کہ ہم امام بن کر قرآن پاک دیکھ کر پڑھائیں۔

عَنْ مُجَاهِدٍ أَنَّهُ كَانَ يَكْرَهُ أَنْ يَؤُمَّ الرَّجُلُ فِي الْمُصْحَفِ•

(مصنف ابن ابی شیبۃ: ج5ص89 باب من کرہہ [ای الامامۃ بالقراءۃ فی المصحف])

ترجمہ:       حضرت مجاہد رحمہ اللہ اس بات کو نا پسند فرماتے تھے کہ آدمی امام بنے اور قرآن دیکھ کر پڑھائے۔

نا بالغ کی امامت کا مسئلہ:

سوال :       کیا نابالغ بچے کے پیچھے تراویح ادا کی جا سکتی ہے ؟

جواب :       نابالغ بچے کے پیچھے تراویح ادا کرنا جائز نہیں ۔

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ : نَهَانَا أَمِيْرُ الْمُؤْمِنِيْنَ عُمَرُ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ أَنْ نَؤُمَّ النَّاسَ فِي الْمُصْحَفِ ، وَنَهَانَا أَنْ يَّؤُمَّنَاإِلَّا الْمُحْتَلِمْ•

(کتاب المصاحف لابن ابی داؤد: ص711باب ہل یؤم القرآن فی المصحف)

ترجمہ:       حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: امیر المومنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ہمیں منع فرمایا کہ ہم امام بن کر قرآن پاک دیکھ کر پڑھائیں اور ہمیں یہ حکم دیا کہ بالغ امامت کروائیں۔

عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ قَالَ: لَا يَؤُمُّ الْغُلَامُ حَتّٰى تَجِبَ عَلَيْهِ الْحُدُوْدُ

(نیل الاوطار للشوکانی:ج3ص176 باب ما جاء فی امامۃ الصبی)

ترجمہ:       حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ بچہ امامت نہ کرائے جب تک  اس قابل نہ ہو جائے کہ اس پر حدود لگ سکیں (یعنی بالغ ہو جائے)۔

تراویح کی اجرت کامسئلہ :

سوال:        کیا حافظ قرآن کے لیے تراویح کا معاوضہ لینا  جائز ہے؟ رقم طے کرکے تراویح پڑھانا کیسا ہے؟ اگر مقتدی اپنی خوشی سےہدیہ دیں توامام کے لیے لینا  جائز ہے یا ناجائز ؟

جواب:        ہمارے محققین اکابر اور دورِحاضر کے مستند مفتیان کرام کا فتویٰ یہی ہے کہ  تراویح کا معاوضہ لیناشرعاً جائز نہیں ہے اور رقم طے کر کے تراویح پڑھانا بھی جائز نہیں   ہاں اگر لوجہ اللہ تراویح پڑھانے والا کوئی حافظ نہ ملے تو تراویح پڑھانے والے کو ماہ رمضان میں نائب امام بنایا جائے ،اس کے ذمے ایک یا دو نماز مقرر کردی جائے اور معقول تنخواہ طے کر دی جائے ۔ اگر پہلے سے وہی امام مقرر ہے اور تراویح بھی اسی نے پڑھانی ہے تو اس کی تنخواہ میں خاطر خواہ اضافہ کر دیا جائے  تو جائز ہوگا، کیونکہ امام کی اجرت کو جائز قرار دیا گیا ہے۔امام کو چاہیے کہ اللہ کی رضا کی خاطر پڑھائے ۔ معاوضہ طے بھی نہ کرے ، لینے کی نیت بھی نہ  رکھے ،تاہم مقتدیوں میں سے کوئی امام صاحب کو ہدیہ دینا چاہے تو امام کے لیے ہدیہ لینے کی گنجائش ہے ۔