حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دورخلافت میں بھی تراویح بیس رکعت ہی پڑھی جاتی تھی،جیساکہ حضرت عمررضی اللہ عنہ کے دورمیں تھی۔ قراء حضرات دو دو سوآیات والی سورتیں پڑھتے تھے اورمقتدی شدت قیام کی وجہ سے تھک جاتے اورلاٹھیوں کاسہارالیتے۔ حضرت سائب بن یزید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
(السنن الكبرى للبیھقی ج2ص496 باب مَا رُوِىَ فِى عَدَدِ رَكَعَاتِ الْقِيَامِ فِى شَهْرِ رَمَضَانَ)
ترجمہ: حضرت عمر رضی اللہ عنہ(اورحضرت عثمان رضی اللہ عنہ)کے زمانہ میں(صحابہ کرام باجماعت)بیس رکعت تراویح پڑھاکرتے تھے اورقاری صاحب سو سوآیات والی سورتیں پڑھتے تھے اورلوگ لمبے قیام کی وجہ سے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دورمیں لاٹھیوں کاسہارالیتے۔
فائدہ: اس روایت کی سند بخاری ومسلم کی شرط کے مطابق صحیح ہے۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور خلا فت کی تراویح کی تعدادرکعت بیان کر نے والے چھ حضرات ہیں۔ یہ تمام حضرات بیس رکعات ہی روایت کرتے ہیں ( مضطرب وضعیف روایات کا کوئی اعتبار نہیں ) ذیل میں روایات پیش خد مت ہیں :
ترجمہ: حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمربن خطاب رضی اللہ عنہ نے مجھے حکم دیا کہ میں رمضان شریف کی رات میں نماز (تراویح) پڑھاؤں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایاکہ لوگ دن کوروزہ رکھتے ہیں اور (رات) قرأت(قرآن)اچھی نہیں کرتے۔ توقرآن مجید کی رات کو تلاوت کرے تو اچھاہے۔حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے فرمایا:’’اے امیر المومنین !یہ تلاوت کا طریقہ پہلے نہیں تھا ۔‘‘ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:’’ میں جانتا ہوں لیکن یہ طریقہ تلاوت اچھا ہے ‘‘تو حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو بیس رکعات نماز (تروایح) پڑھائی ۔
حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہ، حضوراکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی زندگی میں ہی حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی اس سنت پر عمل کرنے لگے تھے، مختلف جماعتوں میں یامتفرق ہوکرالگ الگ ٹولیوں میں بٹ کر تراویح پڑھتے رہتے تھے۔ حضورعلیہ السلام دیکھتے تھے لیکن کبھی اس پر ناپسندیدگی یاناگواری کااظہار نہیں کیابلکہ پسندیدگی کااظہارفرماکر رضامندی کی سندعطافرمائی۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ فرماتے ہیں:
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ایک رات تشریف لائے تودیکھا کہ لوگ مسجدکے ایک کونے میں نماز پڑھ رہے ہیں۔آپ علیہ السلام نے پوچھا: یہ لوگ کیاکررہے ہیں؟ جواب دیاگیاکہ یہ لوگ حافظ قرآن نہیں ہیں اس لیے ابی بن کعب کی اقتداء میں نماز (تراویح) اداکررہےہیں، تو نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:انہوں نے اچھا کیااورصحیح کیا۔
(مصنف ابن ابی شیبۃ ج2 ص284 باب كم يصلی فِی رَمَضَانَ مِنْ رَكْعَةٍ. المعجم الکبیر للطبرانی ج5 ص433 رقم 11934، المنتخب من مسند عبد بن حميد ص218 رقم 653، السنن الكبرى للبیھقی ج2 ص496 باب مَا رُوِىَ فِى عَدَدِ رَكَعَاتِ الْقِيَامِ فِى شَهْرِ رَمَضَانَ.)
ترجمہ: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم رمضان میں بیس رکعت تراویح اور وتر پڑھتے تھے۔
فائدہ: اس کی سند حسن ہے، امت کے تلقی بالقبول کی وجہ سے صحیح شمار ہو گی۔
رمضان شریف کا مہینہ عالمِ روحانیت کا موسم بہار ہے۔ دن کوفرض روزہ رکھنا اوررات کوسنت تروایح اداکرنااس مبارک مہینہ کی مخصوص عبادات ہیں۔ حدیث مبارک میں ارشاد ہے:
شَهْرٌکَتَبَ اللَّهُ عَلَيْكُمْ صِيَامَہٗ وَسَنَنْتُ لَكُمْ قِيَامَهُ۔ )سنن ابن ماجۃ: ص94، باب ما جاء فی قيام شهر رمضان(
ترجمہ:اس مہینہ کے روزے اللہ تعالیٰ نےتم پر فرض فرمائے ہیں اور میں نے اس کے قیام(تراویح) کو تمہارے لیے سنت قرار دیا ہے۔
اس ماہِ مبارک کی برکات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس میں ایک نفل کاثواب فرض کے برابر اورایک فرض کاثواب ستر فرائض کے برابرکردیاجاتاہے۔ )مشکوۃ المصابیح: ج1، ص173(
اس لیے ان مبارک گھڑیوں کوغنیمت سمجھا جائے اورایک لمحہ بھی ضائع نہیں ہونے دینا چاہیےشائد آئندہ ہمیں یہ مقدس گھڑیاں نصیب ہوں یانہ ہوں۔