آسمان ہدایت کا روشن ستارہ سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہما

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
آسمان ہدایت کا روشن ستارہ سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہما
تحریر: مولانا محمد الیاس گھمن
امیر: عالمی اتحاد اہل السنت والجماعت
اِنسانیت کی رہنمائی کے لیے مُحسنِ انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو افراد تیار فرمائے ان میں ایک نام گلستانِ نبوت کے گُلِ سرسبد سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہما کا ہے۔
ولادت :
تاریخ الخمیس میں ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ کی ولادت 3ہجری رمضان المبارک کے وسط میں مدینہ طیبہ میں ہوئی۔
نام ونسب:
حسن بن علی بن ابی طالب۔ آپ کا نام حسن نبی اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا پسند فرمودہ ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ جناب نبی اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی لاڈلی صاحبزادی خاتون جنت سیدہ فاطمۃ الزہراکے بڑے فرزند ہیں۔ کنیت ابو محمد جبکہ آپ کے القاب سبط رسول ، ریحانۃ النبی اور شبیہ بالرسول ہیں۔
اذان :
بچےکی ولادت کے وقت اسلام میں حکم یہ ہے کہ بچے کے کان میں اذان کے کلمات کہے جائیں۔ چنانچہ امام ترمذی رحمہ اللہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام ابو رافع رضی اللہ عنہ کے حوالے سے حدیث نقل فرماتے ہیں کہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی ولادت پر نبی اقدس صلی اللہ علیہ وسلم خود تشریف لائے اور حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے کان میں اذان کہی۔
گھٹی:
بچے کی ولادت کے وقت اسلام کا ایک حکم یہ بھی ہے کہ نومولود کے منہ میں گُھٹی ڈالی جائے ، امام ابن کثیر رحمہ اللہ نے البدایہ والنہایہ میں لکھا ہے کہ جب سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کی ولادت ہوئی تو نبی اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مبارک لعاب دہن سے سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کو گھٹی دی۔
حلق:
بچے کی ولادت کے وقت اسلام کا ایک حکم یہ بھی ہے کہ زچگی کے ساتویں روز نومولود کے سر کے بالوں کو اتارا جائے۔ امام ذہبی رحمہ اللہ نے سیر اعلام النبلاء میں لکھا ہے کہ جناب سیدہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق اپنے شہزادوں کے بال اتروائے اور بالوں کے وزن کے برابر مقدار میں چاندی صدقہ و خیرات کی۔
عقیقہ:
بچے کی ولادت کے وقت اسلام کے احکام میں سے ایک حکم بال اتروانے کے بعد عقیقہ کرنا بھی ہے۔ قبل از اسلام زمانہ جاہلیت میں جب لوگ بچے کے لیے جانور ذبح کرتے تو اس جانور کا خون بچے کے سر پر لگا دیتے۔ امام عبدالرزاق رحمہ اللہ نے المصنف میں سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے حوالے سے حدیث نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حسنین کی طرف سے ساتویں روز بطور عقیقہ دو دو بکریاں ذبح کیں اور حکم دیا کہ ان حضرات کے سروں سے بال اتروانے کے بعد خوشبو لگائی جائے۔
مناقب احادیث کی روشنی میں :
جامع ترمذی میں خود حضرت علی کرم اﷲوجہہ سے مروی ہے:حضرت حسن رضی اﷲ عنہ کاجسم مبارک اوپر والے نصف حصہ میں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے جسم مبارک سے ملتاجلتا تھا جبکہ حضرت حسین رضی اﷲ عنہ نیچے والے نصف حصے کی ساخت پر داخت اﷲ کے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے جسم اقدس سے مشابہ تھی۔
اس مشابہت ِرسول اﷲ کااثر فقط جسم کے ظاہر ی اعضاء تک ہی محدود نہ تھابلکہ روحانی طور پر بھی اس کے گہرے اثرات تھےآپ کاچال چلن، گفتار رفتار،جلو ت خلوت،قول وعمل،ایثاروہمدردی، عادات واطوار، خوش خلقی،حسن سلوک،مروت رواداری،شجاعت وعزیمت ،دوراندیشی وفر است ،حکمت ودانائی ،علم وتقویٰ، زہدوورع ،خشیت وللٰہیت ، محبت ومعرفت ِخداوندی الغرض نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے اعلیٰ وعمدہ اوصاف کا کامل مظہر تھے۔ان اوصاف کو دیکھتے ہوئے حضرت حذیفہ رضی اﷲ عنہ سے مروی ایک حدیث میں ہے کہ باذن الہٰی ایک فرشتہ اﷲ کے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے دربارمیں حاضر ہوکر عرض کرنے لگا :’’حسن وحسین جنت کے نوجوانوں کے سردار بنائے جائیں گے۔‘‘فرشتے کی یہ بات خدائے ذوالجلال کی محبت کی عکاس ہے اﷲ کر یم اپنے ان دو اولیاء کو جنت کے نوجوانوں کے سرداربنائیں گے۔
امام محمد بن اسماعیل بخاری رحمہ اللہ نے اپنی الصحیح میں حضرت ابو بکرہ رضی اللہ عنہ)یہ نام اسی طرح ہے بعض لوگ غلطی سے ابوبکر پڑھتے ہیں (سے نقل کیا ہے کہ سردار دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تشریف فرما تھے آپ کبھی حاضرین کی طرف توجہ فرماتے اور کبھی جناب سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کی طرف شفقت بھری نظروں سے دیکھتے۔۔ اسی مجلس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :میرا یہ بچہ) سیدنا حسن رضی اللہ عنہ(سردار ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے مسلمانوں کے دو گروہوں کے درمیان صلح کرائے گا۔
امام ابو نُعیم اصفہانی نے حلیۃ الاولیاء میں ذکر کیا ہے،نُعیم کہتے ہیں کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے مجھے فرمایا: جب میں سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کو دیکھتا ہوں تو میری آنکھیں پُرنم ہو جاتی ہیں۔۔۔۔ پھر واقعہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ۔۔۔ ایک دن سیدنا حسن رضی اللہ عنہ دوڑ کر آئے اور جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی گود میں بیٹھ گئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی داڑھی مبارک کو پکڑ کر ”ازراہِ محبت“ کھیلنے لگے۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ”ازراہِ شفقت “اپنا لعاب مبارک حضرت حسن کے منہ میں ڈال رہے تھے اور ساتھ ہی ساتھ یہ فرما رہے تھے : اللہم انی احبہ فاحبہ۔ اے اللہ !میں حسن سے محبت کرتا ہوں تو بھی اس سے محبت فرما۔ )حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا تین مرتبہ ارشاد فرمائی(
عبادت:
امام ابن عساکر و دیگر محقق مورخین نے لکھا ہے کہ سیدنا حسن رضی اللہ عنہ فجر کی نماز باجماعت ادا کرنے کے بعد طلوع آفتاب تک اپنی جگہ بیٹھ کر ذکر اللہ میں مشغول رہتے پھر آپ کے پاس قوم کے اشراف لوگ آکر مجلس میں شرکت کرتے اور آپ رضی اللہ عنہ ان کو وعظ و نصیحت اور اسلامی احکامات کا درس دیتے یہ مجلس چاشت کے وقت تک لگی رہتی۔ چاشت کے نوافل ادا کرنے کے بعد آپ رضی اللہ عنہ امہات المومنین کے ہاں تشریف لے جاتے اور ان کی خدمت میں سلام عرض کرتے۔ کبھی کبھار امہات المومنین کی طرف سے آپ کو ہدیہ ملتا جسے آپ بخوشی قبول فرماتے۔ اس کے بعد آپ اپنے گھر تشریف لے جاتے۔ اور شام کو بھی آپ کا یہی معمول ہوتا۔
امام ذہبی رحمہ اللہ نے سیر اعلام النبلاء میں ذکر کیا ہے کہ آ پ رضی اللہ عنہ جب سونے کے لیے بستر پر تشریف لاتے تو سورۃ کہف کی تلاوت فرماتے ، امام ابن ابی شیبہ نے ام اسحاق بنت طلحہ کے حوالے سے ذکر کیا ہے کہ سیدنا حسن رضی اللہ عنہ رات کے ابتدائی حصے میں قیام اللیل میں مشغول ہوجاتے اور آخر شب میں سیدنا حسین رضی اللہ عنہ قیام اللیل تہجد ادا کرتے تھے۔
25 پیدل حج :
امام ذہبی رحمہ اللہ نے سیر اعلام النبلا ء میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے حوالے سے لکھا ہے کہ جوانی میں مجھ سے جو عمل خیر نہیں ہو سکے ان میں ایک عمل پیدل حج کرنا ہے۔ جبکہ سیدنا حسن رضی اللہ عنہ نے )مدینہ منورہ قیام کے دوران( 25پیدل حج ادا فرمائے۔
مروت و سخاوت :
امام ابن عساکر رحمہ اللہ نے اپنی مختصر تاریخ میں لکھا ہے کہ ابو ہارون نامی ایک شخص اپنا واقعہ بیان فرماتے ہیں کہ ہم نے حج کے لیے سفر کیا مدینہ طیبہ پہنچے تو ارادہ کیا کہ حضرت حسن کی خدمت میں بھی حاضری دیں چنانچہ ہم حاضر ہوئے اور اپنے سفر کا ارادہ ظاہر فرمایا۔ مجلس سے فارغ ہونے کے بعد ہم لوگ جب واپس ہوئے تو سیدنا حسن رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کی وساطت سے ہم سب کے لیے چار چار سو درہم بھیجے۔ ہم نے قاصد سے کہا کہ ہمیں ان کی حاجت نہیں قاصد نے کہا کہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے بابرکت مال کو واپس نہ کرو۔ اس کے بعد ہم خود سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ ہمیں ان کی چنداں ضرورت نہیں ہم مالدار لوگ ہیں تو آپ رضی اللہ عنہ نےفرمایا میرے نیک عمل کو واپس نہ کرو اگر میں اس سے زیادہ دیتا تو وہ بھی تمہارے لیے کم تھا میں نے تمہیں یہ زادراہ کے طور پر دیا ہے تاکہ تم سفر میں خرچ کرو۔
حلم و بردباری:
شیخ سید علی بن عثمان الہجویری رحمہ اللہ نے کشف المحجوب میں ایک واقعہ نقل فرمایا کہ ایک دیہاتی شخص جناب سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور آپ کو گالیاں دینے لگا۔ آپ رضی اللہ عنہ اس کی اس ناشائستگی کو برداشت فرماتے ہوئے اس سے کہا کہ شاید تم کو بھوک و پیاس نے ستایا ہے اور اپنے خادم سے کہا کہ دراہم کی تھیلی لائو خادم نے لا کر وہ تھیلی دیہاتی کے حوالے کی آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اگر اس سے زیادہ ہمارے گھر میں اس وقت مال ہوتا تو وہ میں آپ کو دے دیتا۔ دیہاتی نےآپ کے اعلیٰ اخلاق سے متاثر ہو کر کہا میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد ہیں میں آپ کے حلم و بردباری کا امتحان لینے آیا تھا۔
معاشی حالات:
مورخین نے لکھا ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ کے معاشی حالات بہت بہتر تھے۔ خلفاء راشدین بشمول آپ کے والد گرامی سیدنا علی المرتضیٰ آپ کے لیے مقرر کردہ وظائف دیتے تھے۔ امام ابن عساکر نے تاریخ بلدہ دمشق میں لکھا ہے کہ جناب سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ بھی سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کی خدمت میں سالانہ چار لاکھ دراہم پیش فرماتے۔
جذبہ خیر خواہی:
امام ابن عساکر نے اپنی تاریخ میں سیدنا زین العابدین رضی اللہ عنہ کے حوالے سے لکھا ہے کہ ایک بار سیدنا حسن رضی اللہ عنہ طواف کر رہے تھے اس دوران ایک شخص حاضر ہوا اور کہا کہ ابو محمد!میرے کام کے لیے فلاں شخص کے پاس تشریف لے چلیں چنانچہ آپ نے طواف کعبہ چھوڑ کر اس کے ساتھ ہو لیے۔ اسے دیکھتے ہوئے ایک شخص نے اعتراض کے طور پر کہا کہ آپ طواف کعبہ جیسی نیکی چھوڑ کر چلے گئے ؟ تو سیدنا حسن رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نقل فرمایا کہ جو شخص کسی مسلمان بھائی کی حاجت روائی کے لیے چلا جائے اور اس کا وہ کام ہو بھی جائے تو اللہ تعالیٰ اس شخص کو حج اور عمرے کا ثواب عطا فرماتے ہیں اور اگر کام پورا نہ ہو تو عمرے کا ثواب پھر بھی عطا فرماتے ہیں۔ پھر آپ نے فرمایا کہ میں نے حج اور عمرہ دونوں کا ثواب حاصل کر لیا ہے۔ اس طرح کے دیگر کئی واقعات آپ کی زندگی میں ملتے ہیں۔
ایک اہم خطبہ :
سیدنا حسن رضی اللہ عنہ اعلیٰ پائے کے خطیب بھی تھے چنانچہ امام ذہبی رحمہ اللہ نے سیر اعلام النبلاء میں حرمازی سے سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہ کا کوفہ میں دیا گیا خطبہ نقل کیا۔ جس کا مفہوم یہ ہے کہ
حلم و حوصلہ مندی انسان کو زینت بخشتی ہے۔
وقار؛ اخلاق حسنہ میں سے ہے۔
جلد بازی سے خفت اٹھانا پڑتی ہے۔
جہالت اور عدم برداشت )اخلاقی(کمزوری ہے۔
کمینوں کی صحبت ایک عیب ہے اور فاسقوں سے مل بیٹھنا باعث تہمت ہے۔
ایک خواب اور سانحہ ارتحال:
امام ابن کثیر رحمہ اللہ نے البدایہ والنہایہ میں لکھتے ہیں کہ ایک بار سیدنا حسن رضی اللہ عنہ نے خواب دیکھا کہ آپ کی پیشانی پر قل ھواللہ احد لکھا ہوا۔ جس پر آپ بہت خوش ہوئے بعد میں اس خواب کا تذکرہ مشہور تابعی سعید بن مسیب کے سامنے ذکر کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ اگر انہوں نے خود یہ خواب دیکھا ہے تو سیدنا حسن کی زندگی قلیل رہ گئی ہے۔ چنانچہ چند دنوں بعد بقول امام ذہبی آپ کی ایک زوجہ جعدہ بنت اشعث بن قیس کندی نے آپ کو زہر دیا جس کی وجہ سے آپ چالیس دن برابر اس زہر کے اثر سے بیمار رہے اور بالآخر 49 ہجری کواس دنیا سے کوچ کر گئے۔ آپ کی وصیت کے مطابق آپ کا جنازہ امیر مدینہ سعید بن العاص الاموی نے پڑھایا۔ امام ابن حجر مکی نے الصواعق المحرقہ میں لکھا ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ کو آپ کی دادی محترمہ جناب سیدہ فاطمہ بنت اسد کے پاس جنت البقیع میں دفن کردیا گیا۔
جنازہ میں خلق خدا کی کثرت:
امام ابن عساکر رحمہ اللہ ثعلبہ بن ابی مالک کے حوالے سے نقل کرتے ہیں کہ سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کے جنازہ پر اس قدر لوگوں کا ہجوم تھا کہ اگر کوئی سوئی بھی پھینکی جاتی تو وہ زمین کے بجائے کسی انسان کے سر پر گرتی۔
مقامِ فکر :
آج ہمارے لیے غور کرنے کا مقام ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بعد ہمیں کیسے عظیم رہنما عطا فرما ئے جن کی عملی زندگیوں سے ہمیں ایثار ، ہمدردی ، مروت ، رواداری ، اخلاص، للہیت ، جذبہ خیرخواہی اور امت کے اجتماعی مفاد میں اپنی انفرادی انا کی تسکین کو قربان کردینے کا سبق ملتا ہے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ان کی عملی زندگی کو اپنی عملی زندگی بنائیں۔