اداریہ"پہلی بات

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
اداریہ"پہلی بات
متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن
یہ سب کچھ جو آپ دیکھ رہی ہیں ....دنیا کی نیرنگیاں ،زرق برق ملبوسات خوب صورت محلات ،ماڈرن بنگلے ،کانچ کے برتن ،رنگارنگ تقریبات ،جشن کے نام پر خوشیاں ،غم غلط کر نے کے لیے مئے نوشی مینا وجام وسبو،حسن کے مقابلے ،نام ونمود ،شہرت ،غیر فطری مزین راستے ،غلط خطوط پر منصوبہ بندیاں ،پھیکی مسکراہٹیں ، کھوکھلے دعوے ،بے حیثیت باتیں ،جھوٹی محبتیں وغیرہ۔ یہ کوئی نئی بات تھوڑی ہے یہ تو اسلام کے پہلے بہت پہلے معاشرہ کا قانون اور دستور تھیں۔
اس دور میں عورت کا وجود محض ایک کھلونے کے اور کچھ بھی نہیں تھا عورت معاشرہ میں نہ صرف یہ کہ مظلوم تھی بلکہ سماجی ومعاشرتی عزت وتوقیر اور ادب واحترام سے بھی محروم تھی۔عورت کا وجود دلہن کے سفید ماتھے پر سیاہ جھومر کے مترادف تھا۔یونانی ،ایرانی تہذیبیں اوررومانی ثقافتیں اس کو ثانوی حیثیت دینے کے لیے بھی تیار نہ تھیں۔
یہی وجہ تھی کہ یونانی فلاسفوں نے عورت کو ”شجرہ مسمومہ“یعنی ایک زہر آلود درخت قرار دے کر عام خیال میں مرد سے کئی گنا زیادہ معیوب ،بدکردار ،آوارہ اور ترش وتلخ گوباور کیا۔رومی تہذیب نے عورت کا کیا مقام بتلایا ہے ہسٹری کی بکس میں آج بھی دھندلے سے الفاظ گلکاریاں کررہے ہیں کہ ”عورت کے لیے کوئی روح نہیں بلکہ عذابوں کی صورتوں میں سے ایک صورت ہے۔‘ ‘فارسی تمدن بھی اس سے ملتا جلتاتھا اس میں بھی عورت کی وہی زبوں حالی تھی۔
بہنو!ہندی معاشرہ تو آپ سے دور نہیں ویدوں کے احکام کے مطابق:” عورت مذہبی کتاب کو چھو بھی نہیں سکتی۔“ویسٹر مارک ہندی معاشرے کی منظر کشی اپنی کتاب waves of the history of hindus میں یوں کرتا ہے :اگر کوئی عورت کسی متبرک بت کو چھو لے تو اس بت کی الوہیت اور تقدس تباہ ہوجاتا ہے لہٰذااس کو پھینک دینا چاہیے۔“
عیسائی تصورات اور نظریات عورت کے بارے میںکیا تھے ؟ایک جھلک دیکھےے : ”576ءمیں فرانسیسیوں نے ایک کانفرنس بلوائی جس میں پوپ اوربڑے بڑے پادریوں نے شرکت کی ،کانفرس کے انعقاد کا سبب یہ سوال تھا کہ ”عورت میں روح ہے یا نہیں “اسی کانفرس میں ایک پادری نے تو یہاں تک کہہ ڈالا کہ ”عورت کا شمار بنی نوع انسانی میں بھی نہیں بالآخر کانفرنس اس نتیجے تک جا پہنچی کہ ”عورت صنفِ انسانی سے تعلق رکھتی ہے مگر صرف دنیاوی زندگی میں مرد کی خدمت کرنے کے لیے روزِ آخرت تمام عورتیں غیر جنس جانداروں کی اشکال میں ظہور پذیر ہونگی
لیکن جب اسلام آیا اور ہدایت کا نیر تاباں جلوہ فگن ہوا ،قرآن کا آفتاب عالم تاب چمکاتو یونانی تہذیب سے لے کر نصرانی ثقافت تک تمام کلچر اور تمام تہذیبیں پاش پاش ہوگئےں سارے تمدن دھڑام سے نیچے آگرے۔اسلام ساری انسانیت کے لیے احترام کا دستور لایا عورت کو وہ مقام بخشا کہ جس کی مثال کسی مذہب اور کسی دین میں نہیں ملتی حتی کہ آپ ﷺ کا یہ ارشاد کہ ”بیٹی ،بیٹی ہوتی ہے خواہ کافر کی بھی کیوں نہ ہو۔“توقیر عورت کے لیے سب سے بڑا اعزاز ہے اسلام نے آکر عورت کو بے جا غلامی ،ذلت اور ہتک آمیز رویوں سے نجات دی اسلام صنف نازک کے لیے نوید صبح بن کر آیا اور عورت کے لیے احترام کا پیامبر ثابت ہوا اب اگر یہی عورت اگر ماں بن جائے تو اس کے قدموں میں جنت کو لاکر بسا دیا بیٹی ہوتو نعمت عظمیٰ اگر رشتہ بہن کا ہوتو احترام کا پیکر اور اہلیہ ہوتو اس کو جنت کی حوروں کی بھی سردار قرار دیا۔
بات دور نہ چلی جائے مختصراًیہ کہ اسلام نے عورت کو وقار بخشا ،عزت بخشی ، حیا بخشی،شرف بخشا۔اب ہمارے لیے دو راستے ہیں ایک خدا کی لازوال نعمتوں کا ،خوشیوں کا ، مسرتوں کا اور دوسرا اس کے برعکس قیامت کے دن کچھ چہرے خوب حسین تر ہونگے ،چمکدار ہوں گے ،ہنستے مسکراتے ہوں گے آپ ﷺ نے اس کی وضاحت فرمائی ہے کہ یہ چمکدار چہرے والے ”اھل السنہ “ہونگے۔
تو اے بنات ِاہل السنہ !تمہیں پھر وہی بھولاسبق یاد کرنا ہوگاجس کو پڑھ کر تم فضل وکمال کے اوجِ ثریا تک جاپہنچو۔ اللہ تعالیٰ تمہیں ازواج مطہرات اور بنات رسول ﷺ کے نقش قدم پر چلنے اور امت کی عظمت رفتہ کی بحالی میں اپنا کردار ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائیں۔ اس رسالے کو سامنے لانے کا مقصد اسلام کی بیٹیوں کے اخلاق و اعمال اور عقائد کی اصلاح اور آنے والی نسلوں کی تربیت کے لیے ان کو تیار کرنا اور ان کو اس عظیم ذمہ داری کا احساس دلانا ہے جو خلاق عالم نے ازل سے ان کی تقدیر میں لکھ دی تھی۔ اے بنات اہل السنة! اس عظیم مقصد کو آگے بڑھانے اور گھر گھر تک اس آواز کو پہنچانے کے لیے ہم سب کو مل کر اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ ماہنامہ بنات اہل السنة کی پوری ٹیم کو اپنی دعاﺅں میں یاد رکھنا اور اس کے پیغام کو ہر مسلمان بہن تک پہنچانے کی لیے ہمہ وقت تیاررہنااور جو بن پڑے اس سے دریغ نہ کرنا۔ اللہ تعالیٰ تمہارا حامی و ناصر ہو۔ والسلام