حضرت اسماءبنت ابو بکر

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
حضرت اسماءبنت ابو بکر
اہلیہ نعیم خان
آپ حضرت ابو بکرصدیق رضی اللہ عنہ کی بیٹی ،حضرت عبداللہ بن زبیرؓ کی والدہ اور حضرت عا ئشہؓ کی سوتیلی بہن ہیں۔ مشہور صحا بیا ت میںسے ہیں، شر وع ہی میں مسلما ن ہو گئی تھیں۔ روایات میں آتا ہے کہ آپ سترہ لوگوں کے بعد مسلمان ہو ئی تھیں۔ ہجر ت سے ستا ئس سال پہلے پیدا ہو ئیں۔ اور جب حضور اقدس ﷺ اور حضرت ابو بکر ہجر ت کے بعد مدینہ طیبہ پہنچ گئے تو حضر ت زید وغیرہ کو بھیجا گیا کہ ان دونو ں حضرات کے اہل وعیال کو لے آئیں۔ان کے ساتھ ہی حضرت اسماءبھی چلی آئیں۔ جب قبا میں پہنچیں تو عبداللہ بن زبیر پید اہوئے اور ہجر ت کے بعدمہاجرین میں سب سے پہلی پید ائش انہی کی ہو ئی۔
اس زمانہ کی عام غر بت،تنگ ددستی فقر وفا قہ مشہو ر ومعر وف ہے اور اس کے سا تھ ہی اس زمانہ کی ہمت، جفا کشی، بہادری اور جرات ضر ب المثل ہیں۔ بخاری شریف میں حضر ت اسما ءکا طر ز زندگی خو دا ن کی زبانی نقل کیا گیاہے۔ فرماتی ہیں کہ جب میرا نکا ح زبیر سے ہوا تو ان کے پا س نہ مال تھا نہ جا ئدا د، نہ کو ئی خا دم کا م کر نے والا، نہ کو ئی اور چیز۔ ایک اونٹ پا نی لا دکر لانے ولا اور ایک گھوڑا۔ میں ہی اونٹ کے لیے گھا س وغیرہ لا تی تھی اور کھجو ر کی گٹھلیا ں کوٹ کر دانہ کے طور پر کھلا تی تھی۔
میں خود پانی بھر کر لاتی اور پانی کا ڈول پھٹ جا تا تو اس کو آپ ہی سیتی تھی اور خو دہی گھوڑے کی سا ری خدمت گھا س دانہ وغیرہ کر تی تھی اور گھر کا سا را کام کار بھی انجا م دیتی تھی مگر ان سب کامو ں میں گھوڑے کی خبر گیر ی اور خدمت میرے لئے زیادہ مشقت کی چیز تھی۔روٹی البتہ مجھے اچھی طر ح پکا نانہیں آتی تھی تو میں آٹا گوندھ کر اپنے پڑوس کی انصار عورتو ں کے یہا ں لے جاتی۔ وہ بڑی اچھی عورتیں تھیں میری روٹی بھی پکا دیتی تھیں۔
حضور ﷺنے مدینہ پہنچنے پر زبیرکو ایک زمین جا گیر کے طور پر دے دی جو دو میل کے قریب تھی میں وہاں سے اپنے سر پر کھجو ر کی گٹھلیاں لا د کر لایا کر تی تھی۔ میں ایک مر تبہ اسی طر ح آرہی تھی اور گٹھڑی میرے سر پر تھی کہ را ستہ میں حضور ﷺ مل گئے۔ آپ ﷺ اونٹ پر تشریف لارہے تھے اور انصا ر کی ایک جما عت سا تھ تھی۔ حضور ﷺنے مجھے دیکھ کر اونٹ ٹھیرا یا اور اسے بیٹھنے کا اشا رہ کیا تا کہ میں اس پر سوار ہو جاﺅں۔ مجھے مر دوں کے ساتھ جا تے ہو ئے شر م آئی اور یہ بھی خیا ل آیا کہ زبیر کو غیر ت بہت ہی زیا دہ ہے ان کو بھی یہ نا گوار ہو گا۔ حضور اقدس ﷺ میرے انداز سے سمجھ گئے کہ مجھے اس پر بیٹھتے ہو ئے شر م آتی ہے۔ حضور ﷺ تشریف لے گئے، میں گھر آئی اور زبیر کو قصہ سنا یا کہ اس طر ح حضور ﷺ ملے اور یہ ارشا د فرمایا مگرمجھے شرم آئی اور آپ کی غیرت کا خیال بھی آیا۔ زبیر نے کہا کہ خد اکی قسم تمہا را گٹھلیا ں سر پر رکھ کر لا نا میرے لئے اس بہت زیا دہ گرا ں ہے (مگر مجبوری یہ تھی کہ یہ حضرات خو د تو زیادہ تر جہا د میں اور دین کے دوسرے امو رمیںمشغو ل رہتے تھے اس لئے گھر کے کا روبا ر عام طور پر عورتوں ہی کرنا پڑتے تھے) اس کے بعد میرے با پ حضر ت ابو بکر نے ایک خادم جو حضور ﷺ نے ان کو دیا تھا میرے پا س بھیج دیا۔ اسکی وجہ سے گھوڑے کی خدمت سے مجھے خلا صی ملی، گویا میں بڑی قید سے آزاد ہوگئی۔
عر ب کا دستو ر پہلے بھی تھا اور اب بھی ہے کہ کھجو ر کی گٹھلیا ں کوٹ کر یا چکی میں دل کر پھر پانی میں بھگو کر جا نوروںکو دانہ کے طو رپر کھلا تے ہیں۔
حسن تدبیر کی عمدہ مثال:
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہجر ت فرما کر تشریف لے جا رہے تھے تو اس خیال سے کہ نہ معلوم راستہ میں کیا ضر ورت در پیش ہو کہ حضو ر ﷺ بھی سا تھ تھے۔اس لیے جو کچھ مال اس وقت موجود تھا جس کی مقدار پا نچ چھ ہزار درہم تھی وہ سب سا تھ لے گئے تھے۔ ان حضرا ت کے تشریف لے جا نے کے بعد حضر ت ابو بکر کے والد ابو قحا فہ جو نا بینا ہو گئے تھے اس وقت مسلمان نہیں ہوئے تھے، پوتیوں کے پاس تسلی کے لئے آئے اور افسوس سے کہنے لگے کہ میرا خیال ہے کہ ابو بکر نے اپنے جا نے کا صدمہ بھی تم کو پہنچا یا اورمال بھی شا ید سب لے گیا کہ یہ دوسری مشقت تم پر ڈالی۔ حضرت اسما ءفرماتی ہیں میں نے کہا دا دا ابا وہ تو بہت کچھ چھوڑگئے ہیں۔ یہ کہہ کر میں نے چھوٹی پتھریا ں جمع کر کے گھر کے اس طا ق میںبھر دیں جس میں حضر ت ابو بکر کے در ہم پڑے رہتے تھے او ران پر ایک کپڑا ڈا ل کر دا دا کا ہا تھ اس کپڑے پر رکھ دیا جس سے انہوں نے یہ اندازہ کیا کہ یہ درہم بھرے ہوئے ہیں۔ کہنے لگے :
خیر !یہ اس نے اچھا کیا تمہا رے گزارہ کی صور ت اس میں ہو جائے گی۔
حضرت اسما ءکہتی ہیںکہ خدا کی قسم کچھ بھی نہیں چھوڑا تھا مگر میں نے دا دا کی تسلی کے لئے یہ صو رت اختیا ر کی کہ ان کو اس کا صدمہ نہ ہو۔
یہ کوئی معمولی بات نہیں۔دا دا سے زیادہ ان لڑکیوں کو صدمہ ہو نا چا ہیے تھا اور جتنی بھی شکایت اس وقت دا دا کے سامنے کرتیں در ست تھا کہ اس وقت کاظا ہر ی سہا را وہ مال ہی تھا جو حضرت صدیق اکبر ساتھ لے گئے تھے۔ ایک تو با پ کی جدا ئی دوسرے گزارہ کی کو ئی ظاہری صورت ظاہر نہیں۔ پھر مکہ والے عام طو رسے دشمن اور بے تعلق، مگر اللہ نے ایک ایک ادا ان سب حضرات کو؛ مر د ہوں یا عورت؛ ایسی عطا فر مائی تھی کہ رشک آنے کے سوا ءاور کچھ بھی نہیں۔ حضرت ابو بکر صدیق اول میںنہا یت مالدا ر اور بہت بڑے تا جر تھے لیکن اسلام کی اور اللہ کی راہ میں یہا ں تک خر چ فرمایا کہ غزوہ تبو ک میں جو کچھ گھرمیں تھا لا کر آنجناب ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر کردیا۔
حضور اقدس ﷺ کا ارشا د ہے کہ مجھے کسی کے مال نے اتنا نفع نہیں پہنچا یا جتنا ابو بکر کے مال نے، میں ہر شخص کے احسانات کا بدلہ دے چکا ہو ں مگر ابو بکر ؓ کے احسانا ت کا بدلہ اللہ تعالیٰ ہی دیں گے۔
سخا وت و دریا دلی:
حضر ت اسما ءبڑی سخی تھیں اول جو کچھ خر چ کر تی تھیں اندا زہ سے نا پ تول کر خر چ کرتی تھی مگر جب حضور ﷺ نے ارشا د فرمایا کہ با ندھ کر نہ رکھا کر اور حسا ب نہ لگا یا کر جتنا بھی قدرت میں ہو خر چ کرلیا کر۔تو پھر خو ب خر چ کر نے لگیں اپنی بیٹیوں اور گھر کی عور تو ں کو نصیحت کیا کر تی تھیں کہ اللہ کے را ستہ میںخر چ کرنے اور صدقہ کرنے میں ضر ورت سے زیادہ ہونے اور بچنے کا انتظا ر نہ کیا کر و کہ اگرضر ورت سے زیا دتی کا انتظا ر کرتی رہو گی تویہ تو کبھی ہونے کا نہیں (کہ ضر ورت خو د بخود بڑھتی رہتی ہے ) اور اگر صد قہ کرتی رہو گی تو صد قہ میں خر چ کر دینے سے نقصان میں نہ رہو گی۔
ان حضرات کے پا س جتنی تنگی اور نا دا ری تھی اتنی ہی صدقہ وخیرا ت اور اللہ کے راستہ میں خر چ کرنے کی گنجا ئش او ر وسعت تھی آج کل مسلما نوں میں افلا س وتنگی کی عام شکا یت ہے مگر شا ید ہی کو ئی ایسافرد ملے جو پیٹ پر پتھر با ندھ کر گزر کرتا ہو یا اس پر کئی کئی دن کا مسلسل فا قہ ہوتا ہو۔ اس کے باوجود اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کرنے کو بہت کم لوگ تیار ہوتے ہیں۔