کون اپنی جنت بچائے گا

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
کون اپنی جنت بچائے گا؟
ام محمد رانا
اے سلمیٰ تو ہو تی کو ن ہے.... میرے وقاص کے کپڑوں پر.... ہائے کر نے والی .... تومجھے یہ تو بتا ....میں نے کبھی تیرے گھر جا کر.... تیر ے آٹھ بیٹو ں پہ.... کبھی ہا ئے کی ہے.... تو کیوں میرے بچے ....کے کپڑے دیکھ کر جل گئی.... توہے ہی ایسی.... تیری نظرسے تو پتھر پھٹ جائے ....یہ توپھرمیرے وقاص کے کپڑے تھے.... ہا ئے.... میں نے کتنی محنت سے ....مل مل کر ....دودھ جیسی سفیدی لائی تھی.... کہ میراچاند ان کپڑوںمیں.... چاندکوبھی مات کرتا ہے.... اور تونے.... ہا ئے اتنے سفیدکپڑے کس کے ہیں.... کہا اور جھٹ رسی ٹوٹ گئی .... کپڑے مٹی میں بھرگئے... . تو پتہ نہیں کہا ں سے آجا تی ہے.... کالی زبان والی ....میں اپنے بیٹے کواپنے سینے.... میںچھپالوں....میرابس چلے تو ....میں اپنے وقاص کی پر چھائی پر....بھی اپنی جان واردوں.... میں توکبھی اس کی پرانی چیز ....بھی نہیں پھینکتی.... اسے بھی سنبھال کر رکھتی ہوں....کہ اس کو میرے وقاص.... نے استعمال کیاہے۔
آج عر صے بعد جب مجھے پتہ چلا کہ وقاص کو اللہ نے تیسرے بیٹے سے نوازا ہے تو میرا دل خوشی اور دکھ کی کیفیت کی تمیز سے قاصررہاکہ وہ خوش زیادہ ہے یادکھی؟ خوش تو اس لیے کہ ہمارے کزن وقاص کو اللہ تعالیٰ نے تیسرابیٹا دیاہے۔مال و دولت کے معاملے میں بھی وقاص قسمت کا بہت دھنی ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ میرا دکھی دل اس ماںکو یاد کر کے رو رہا تھا جو وقاص کے بچپن میں کسی کااس کے کپڑوں کو میلی نظر سے دیکھنا بھی گوارانہ کرتی تھی اور اس کی استعمال شدہ چیزوںاور کپڑوں کو بھی سنبھال سنبھال کررکھتی تھی، آج وہ دربدربھٹکتے ہوئے موت کاانتظار کر رہی تھی اوراپنے پوتوںکامنہ دیکھنے کو ترستے ہوئے زاروقطار رو رہی تھی۔ اسکاقصور صرف یہ تھاکہ یہ وقاص کی ماںتھی اور یہ کہ وہ وقاص کے صدقے واری جاتی تھی۔ اب یہ سادہ لوح بڑھیا وقاص کے گھر میں بھلا کیسے سجتی؟ گھرمیں اسکے لیے گنجائش نہ تھی کہ بہو کہتی تھی ساری عمر کا ٹھیکہ ہم نے نہیں اٹھارکھا۔بہتیر ی عمر گذار لی۔ کبھی کہتی بھتیجے بھی تو بیٹے ہوتے ہیں وہاںرہ لے۔ وقاص بیوی کی فرمانبرداری میں کپڑوں کاتھیلا اٹھائے اسے باہر رکھ آیا۔ وقاص کی ماں کے جھریوں زدہ چہرے پر آنسوﺅں کی برسات دیکھ کرمیرا کلیجہ منہ کو آرہا تھا۔
میں نے مظلوم ماں کا ہاتھ تھاما اور اپنے گھر لے آئی۔ رات ہم صحن میں بیٹھے تھے کہ وہ اچانک بول اٹھیں ”ما ں کے قدموں تلے جنت ہے ناں“؟
میں نے کہا ہاںماں جی، یہ تو ہمارے نبی ﷺ کافرمان ہے۔ یہ سننا تھا کہ مظلوم مامتا نے میرے گلے میں با نھیں ڈال کر زار وقطار رونا شر وع کر دیا۔ شدت غم سے ان کا سارا بدن تھر تھر کانپ رہا تھا۔میں نے ان کے آنسو صا ف کرتے ہو ئے پوچھا کیا ہوا ماں جی؟ توماں جی سسک کر بولیں: مجھے وقاص بہت پیا را ہے میں نے سا ری عمر اس گھر میں گزاری، مجھے توان در و دیوار سے محبت نہیں عشق ہے۔ مجھے تویہاں کی ہر چیز عزیز ہے، یہاںمیراجگرکاٹکڑارہتاہے مگر وقاص کی بیوی کہتی ہے کہ بڑھیا کا ساری عمرکاہم نے ٹھیکہ نہیں لیا۔
بیٹا! وقاص جب مجھے بیوی کے کہنے پرمارتاہے تومیرے دل اللہ کے خوف سے کانپ اٹھتاہے۔ میں تواس کے کپڑوںپہ مٹی گوارانہیں کرتی تھی اب میں یہ کیسے گوراکروں کہ وہ اپنی آخرت بربادکرلے۔ اگر میں یہاںسے چلی جاﺅں گی تو پھر وہ مجھے نہ مارکرے گاتوبیٹی پھروقاص کوجنت مل جائے گی.... پھر عذاب نہیں ملے گا....میرے وقاص کوجنت مل جائے گی ناں؟ وہ یہ کہے جارہی تھیں اورمیری آواز سسکیوںسے رندھ گئی۔ میرادل کہہ رہاتھاکہ وقاص اپنی ماںکی محبت والی جنت کے ساتھ ساتھ آخرت کی جنت کوبھی داﺅ پر لگائے جارہاتھا۔ ادھرمیرا دل یہ دہائی رہاتھاکہ آج ایک وقاص کی ماں نے تووقاص کی جنت بچانے کی اپنی سی کوشش کی مگر کیا کل وقاص کی بیوی اپنے تینوںبیٹوںکی جنت بچاپائے گی؟؟؟