صبح کا بھولا

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
صبح کا بھولا
صبا خان
بہن !ذرا میری بات سنو یہ دیکھوتم نے کریب کا ڈوپٹہ اوڑھ رکھا ہے اور باز ار جارہی ہو۔
امی جان ایک تو آپ اس سردرد کومدرسے سے اٹھا لائی ہیں کسی وقت بھی چپ نہیں رہتی۔ ہما را کیا ہرکام ہی غلط ہوتاہے۔ ہروقت کی ٹوک میری برداشت سے باہر ہے، انٹر سے آگے گئی نہیں اور پتہ نہیں اپنے آپ کو کیا سمجھتی ہے !!
اب بس بی کرو ایسی بھی بری کیا با ت کہہ دی اس نے جو تم چپ کرنے میں ہی نہیں آرہیں۔ امی نے زنیرہ کی قنچی کی طرح چلتی زبان کو روکنے کے لئے کہا۔
ایک توامی ہمیشہ اسی کی حما یت کرتی ہیں۔ اس نے غصے سے کہا اور پا ﺅں پٹختی ہو ئی اپنی دوست کے گھر چلی گئی۔
واہ زنیرہ کیا کمال کا سوٹ پہنا ہے تم نے، یہ کس کی خرید ہے ؟ویسے شکر ہے کہ تم سا تھ کا دوپٹی لے آئیں ورنہ میں توسوچ رہی تھی کہ کہیں بہن جی کے کہنے پربڑی چادر نہ اوڑھ آئے اور پھرہمیشہ کی طر ح گروپ بی کی کوئی لڑکی دیکھ لیتی تو مذاق اڑاتی۔ نگینہ نے چہکتے ہوئے اسے سراہا تو زنیرہ گویا آپے سے باہر ہی ہو گئی۔
باتیں کرتے ہوئے نہ جانے کب با زار آگیا
ہیلو!کیسے ہیں عثمان بھائی؟ اس نے دوکان میںداخل ہوتے ہوتے ہی کہا
واہ!زنیرہ بہن آپ آئی ہیں!!
زنیرہ نے لاﺅنج میں قدم رکھا ہی تھا کہ اندر سے آتی کسی مقرر کی آواز نے اس کے قدم روک دئیے۔ بڑے پرسوز انداز میں بیان ہو رہا تھا۔ مولانا صاحب فرما رہے تھے:اپنی امت کی خواتین کی بے پردگیوں اور بےباکیوں کا شکوہ کس کے سامنے لے کر جائیں؟ وہ اتنا ہی سن پائی تھی کہ اس کی آنکھوں میں اپنا اور دوکاندار کامنظر گھوم گیااورساتھ ہی اسے اپنی آنکھوں میں نمی محسوس ہوئی۔ آگے بڑھ کر کمرے میں جھانکا تو دیکھا کہ باجی پتہ نہیں کن سوچوںمیں گم تھیں اورآنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ زنیرہ فو راًسمجھ گئی کہ وجہ میں ہی ہوں۔
اتنے میں ابو کی آواز کام میں پڑی، زنیرہ کہاں ہے؟
وہ اوپر چلی گئی ہے کم بخت ،فضول گھوم کر آئی ہے تھکن اتار رہی ہو گی۔خلاف معمول دادی نے کہا تو وہ سٹپٹا سی گئی
ذرا اور آگے بڑھی تو امی نے پھو لے ہو ئے منہ سے استقبال کیا۔ اس کے لیے یہ سب کچھ انو کھا اور عجیب تھا۔وہ اپنے کمرے میں چلی آئی۔ اس نے دیکھا کہ سامنے ٹیبل پر ایک کتا ب پڑی ہے۔جھک کر اٹھا یا، نام تھا’شر عی پردہ‘ مصنف کا نام تھا ’مفتی رشید احمد‘۔ وہ کتا ب بھی اس کے لیے کسی بو جھ سے کم نہ تھی۔ ورق الٹتی رہی اور آنسو خود بخود نکل کر اس کے ڈوپٹے میں جذب ہوتے رہے۔ یہ سلسلہ پتہ نہیں کب تک رہتا کہ با جی کھا نا لے آئیں۔زنیرہ نے پلکیں اٹھا کر باجی کی طرف دیکھا، با جی نے جب اس کو شر مندہ شرمندہ سا دیکھا تو با ہر جانے لگیں۔
”باجی مجھے آپ سے ایک با ت کرنی ہے“۔ زنیرہ کی بھر ائی ہوئی آواز نے باجی کے قدم روک لیے۔
”با جی !مم مم........مجھے معاف کر دیں“ باجی نے لپک کرزنیرہ کو سینے سے لگالیا۔
” کوئی بات نہیں میری بہن صبح کا بھولا شام کو گھر لوٹ آئے تو سمجھو کہ کچھ گیا ہی نہیں۔
امی ان کی آواز سن کر اندر آئیں تو وہ مسکرا دیں اور کیوں نہ مسکر اتیں کہ بہا ر جنت ان کے سامنے کھڑی مسکرا رہی تھی۔