نصیحت کا نرالا انداز

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
نصیحت کا نرالا انداز
خدیجہ جمشید گوجرانوالہ
شیخ جلال الدین کا شمار عراق کے معروف علماءمیں ہوتا تھا۔ سلاست بیان، حسن اخلاق اور موعظہ حسنہ کی بنا پر عوام و خواص میں بہت مقبول تھے۔ ایک مرتبہ شیخ بیمار پڑ گئے اور بغرض علاج آپ کو بغداد کے القادسیہ ہسپتال میں داخل کیا گیا۔ ہسپتال میں آپ کی دیکھ بھال پر جس خاتون ڈاکٹر کو مامور کیا گیا وہ شیخ کے علم، تقویٰ اور حسن اخلاق کی بنا پر ان کی بہت زیادہ تکریم کرتی تھیں اور ان کی خدمت کو اپنے لیے باعث شرف و اختیار سمجھتی تھیں۔ شیخ کے مشاہدہ میں یہ بات آئی کہ اس خاتون ڈاکٹر نے اکثر و بیشتر مغربی لباس زیب تن کیا ہوتا تھا جو اسلامی تعلیمات کے مطابق ستر پوشی کے تقاضوں پر پوری نہیں اترتا تھا۔ خصوصاً شارٹ سکرٹ کی وجہ سے ٹانگیں برہنہ رہتی تھیں۔ شیخ چاہتے تھے کہ اس خاتون کو اس لباس سے منع کریں لیکن کسی مناسب وقت اور مناسب انداز میں۔ ایک دن وہ خاتون بازار جا رہی تھیں، انہوں نے شیخ سے پوچھا کہ آپ کوکسی چیز کی ضرورت ہو تو بتلائیے تاکہ میں آپ کے لیے لیتی آﺅں۔شیخ نے فرمایا: بیٹا! بکری کی ایک سالم ران لیتی آنا لیکن ایک شرط ہے کہ کسی تھیلی یا شاپنگ بیگ میں ڈال کر نہیں بلکہ سرعام ہاتھ میں تھام کر۔ ڈاکٹر صاحبہ کہنے لگیں: حضرت! میں بکری کی سالم ران تو لے آﺅں گی لیکن جس طرح آپ فرما رہے ہیں اس طرح تو میرے لیے ممکن نہیں۔ شیخ نے پوچھا بیٹا کیوں ممکن نہیں؟ کہنے لگیں بغیر کسی تھیلی کے خالی ران کو تھامے دیکھ کر لوگ میرا مذاق اڑائیں گے اور یہ میرے لیے ناقابل برداشت ہے۔ شیخ نے موقع غنیمت جانا اور فرمانے لگے: بیٹا مسلمان خاتون کی ران بکری کی ران سے کہیں زیادہ چھپائے جانے کے لائق ہے۔ اتنے شفیق اور پر اثر انداز میں کی گئی نصیحت سن کر ڈاکٹر صاحبہ کی آنکھیں نم ہو گئیں۔ انہوں نے شیخ کو گواہ بنا کر اللہ تعالیٰ سے توبہ کی اور مستقبل میں کبھی بھی غیر شرعی
اور مغربی لباس نہ پہننے کا عہد کیا۔ سچ ہے کہ نصیحت اگر مناسب وقت پر مناسب انداز میں کی جائے تو ضرور اثر دکھاتی ہے۔ شیخ جلال الدین کی وفات 2006ءمیں بغداد میں ہوئی۔ اللہ تعالیٰ ان کی قبر پر بے پایاں رحمتیں نازل فرمائیں۔
بی بی مر غی پال لو
سرکار میرے لیے دعا کریںمیراشوہرمیری طرف توجہ ہی نہیں دیتا کو ئی ایسا طریقہ بتائیں کہ وہ میری طرف متوجہ ہو جائے بزرگ نے جو اب دیا۔بی بی مر غی لو ،اب وہ بڑی پر یشان کہ پیر صا حب کو کیا ہو گیا ،کل تک تو خو ب سنتے تھے اب اونچا سننے لگے ذرازور سے چیخ کر کہا حضرت صاحب میرے لیے دعا کیجئے !
میں بہت پر یشا ن ہو ں پیر صا حب نے آہستہ سے کہا بی بی میںکہہ رہا ہو ں مر غی پا ل لو اب وہ پر یشان کہ آج پیر صا حب کو کیا ہو گیا ہے میں تو ان سے دعا کے لئے کہتی ہو ں اور پیر صاحب مر غی پا لنے کو کہتے ہیں پھر عر ض کیا کہ حضر ت میں سمجھی نہیں ،آپ ذرا اچھی طر ح سمجھا دیں تو پیر صا حب نے فرمایا بی بی صا حبہ ایک قصہ ہے قصہ سے با ت خو ب سمجھ میں آجا ئے گی دو گھر قریب قریب تھے ایک امیر گھر تھا کھا تا پیتا اور اایک ذرا غریب گھر تھا بیچ میںایک دیو ار تھی اس دیو ار میں ایک کھڑکی تھی تو جب اس غریب گھر میں کوئی مہمان آتا تو غریب گھر والی پڑو س کے گھر منھ ڈال کر کہتی کہ مہما ن بے وقت آگئے ہیں کچھ انتظام ممکن نہیںایک انڈا دیدو تو کام چل جائے گا،ایک بار ہوا دو با ر ہو ااور جب با ر با ریہ وا قعہ پیش آیا تو جل کر کہنے لگی کہ بی بی ہمسا ئی ایک مر غی پا ل لو قصہ ختم ہو جا ئے فرصت ہو جا ئے گی تو بیگم صا حبہ میں تم سے وہی کہتا ہو ں کہ اللہ کے سا تھ تعلق کر لو اللہ سے دعا کرنا مانگنا سیکھ لو سب مشکلیں آسا ن ہو جا ئیں گی۔