خواب جو روٹھ گئے

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
خواب جو روٹھ گئے
ام محمد رانا
شہزاد کی شادی کو دس سال کا طویل عرصہ ہونے کوآیا تھا مگر ابھی تک گھر کے آنگن میں کوئی پھول نہیں کھلا تھا۔ شہزاد کی ماں زینب اور بہنیں ہاجرہ اور صغریٰ جب آس پاس کے گھروں میں ننھے منے بچوں کی قلقاریاں سنتیں اور پھوپھیوں دادیوں کو واری صدقے جاتے دیکھتیں تو دل مسوس کر رہ جاتیں۔ انہیں یہ حقیقت اچھی طرح معلوم تھی کہ رابعہ، شہزاد کی بیوی، ان کی اس خواہش کو حقیقت کا روپ نہیں دے سکتی کیونکہ کئی طبیبوں اور حکیموں نے یہ کہہ انکی اس خواہش کا گلا گھونٹ دیا تھا کہ رابعہ ماں بننے کے قابل نہیں۔
شہزاد اپنے والدین کا اکلوتا بیٹا اور دو بہنوں کا اکیلا بھائی تھا۔ اس کے باپ نیاز کا انتقال اس وقت ہوا جب اس نے ابھی بابا کہنا بھی نہیں سیکھا تھا، ہاجرہ اور صغریٰ شہزاد سے چند برس ہی بڑی تھیں۔ دونوں بہنیں بچپن کی توتلی زبان سے بھائی کی دعائیں مانگتے مانگتے لڑکپن تک آپہنچی تھیں کہ اللہ نے ان کی دعاﺅں کو قبولیت کا شرف بخشا۔
جس دن زینب کی خالہ ساس نے نیاز کو یہ خبر سنائی کہ اللہ نے تو تیرے نصیب جگا دیے ہیں اور تجھے چاند سا لعل دیا ہے تو نیاز اس وقت کھیتوں میں ہل چلاتے اپنے کامے فیقے کو دیکھنے آیا ہوا تھا۔ ”اوئے فیقے! جا یہ جوڑی بیچ کر جتنے پیسے ملیں انہیں سارے کاموں میں بانٹ دے اور انہیں کہہ دے کہ اس دفعہ گندم کی فصل میں سب کو ان کے حصے سے دوگنا ملے گا۔“
خالہ بولی ”اے ہے نیاز کیا باﺅلا ہو گیا ہے جو سارا کچھ لٹانے چلا ہے بیل بھی دے دےے اور فصل بھی دوگنی دے رہا ہے ارے اب تو اللہ خیر کرے تیرا وارث آگیا ہے۔ اس کے لیے جوڑ چپڑ کر رکھ تاکہ وہ بھی ناز کیا کرے کہ اللہ نے اسے کس بادشاہ کے گھر پیدا کیا ہے۔“
”اوہو خالہ کیسی باتیں کرتی ہو بھلا اللہ نے اتنی دیر کے بعد ایسی خوشی دی ہے یہ تو میں نے کچھ بھی نہیں کیا تو کیا جانے اس دن کے لیے میں نے کیسے کیسے خواب دیکھ رکھے تھے؟ خالہ دیکھ میں نے ابھی آنے والے مہمان کی شکل بھی نہیں دیکھی پر میرا دل خوشی سے بلیوں اچھل رہا ہے میرا دل تو کر رہا ہے کہ میں آج زینب کو سونے میں تول دوں کہ اس کی وجہ سے اللہ نے مجھے اتنی بڑی خوشی دی۔ آج تو میں ہاجرہ اور صغری کے سوالوں کا جواب بھی دینے کے قابل ہو گیا ہوں جو مجھے کہتی تھیں کہ ابا ہمیں بتائیں اللہ ہماری دعائیں کیوں نہیں قبول کرتا ہمیں بھائی کیوں نہیں دیتا۔“ نیاز کی زبان ہی نہیں رک رہی تھی
نیاز کے گھر میں داخل ہوتے ہی ہاجرہ اور صغری بھاگ کر اس کے سینے سے جا لگیں۔ عجیب منظر تھا خوشی اتنی تھی کہ زبان ساتھ نہیں دے رہی تھی کہ کچھ بولیں اور آنکھوں سے آنسو تواتر سے بہے جارہے تھے۔ تینوں باپ بیٹی کو ایک دوسرے کو بتانے کی ضرورت نہیں تھی کہ ان سے کیوں نہیں بولا جا رہا اور کیوںان کی آنکھوں میں ساون کی جھڑی لگی ہوئی ہے۔ دیکھنے والے بھی اس عجیب منظر سے متاثر ہوئے بنا نہ رہ سکے۔ نیاز نے اپنے وارث کا نام شہزاد رکھا تھا اور اکثر اسے شہزادہ کہہ کر پکارا کرتا تھا۔ زینب کو یہ نام بہت پسند تھا اس کی پسند کے پیش نظر ہی نیاز نے زینب کے بغیر کہے اس کے من کی مراد شہزاد نام رکھ کر پوری کر دی تھی۔
ابھی شہزاد دو سال کا بھی نہیں ہوا تھا کہ ان کی خوشیوں کو کسی کی نظر لگ گئی۔ نیاز گردن توڑ بخار کی وجہ سے صرف دو دن میں موت سے زندگی کی جنگ ہار گیا۔ پورے گھر میں قیامت کا سماں تھا۔ زینب تو ایسے پتھر کا بت بنی بیٹھی تھی کہ جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو، ہاجرہ اور صغریٰ رو رو کرہلکان ہو گئی تھیں کہ باپ تو انہیں بے آسرا چھوڑ کر چلا گیا۔ عورتوں نے زینب کو بہتیراہلایا جلایا اور جھنجھوڑا کہ زینب اپنے سرتاج کا آخری دیدار کر لو آج کے بعد یہ صورت تمہیں دیکھنے کو کہاں ملے گی؟ لیکن زینب کا سکتہ اس وقت ٹوٹا جب ننھا شہزاد اس قیامت صغریٰ سے بے خبر باپ کی چارپائی کے نیچے سے ماں کو”چاہ“ کر کے مسکرا یا۔ اس وقت زینب ہوش کی دنیا میں آئی اورپھر اتنا روئی کہ کوئی کیا رویا ہو گا۔ لیکن آنسو تھے کہ رکنے میں نہ آتھے۔ جب صغریٰ اور ہاجرہ ماں سے لپٹ کر روئیں تب زینب نے اپنا دل مضبوط کر کے اپنی بیٹیوں کو اپنی آغوش میں چھپالیا اور عزم کرلیا کہ آئندہ وہ ان معصوموں کی آنکھوں میں کبھی آنسو نہیں آنے دے گی۔
اس نے سوچ لیا تھا کہ اب میں نے انہیں صرف ماں والا پیار ہی نہیں دینابلکہ باپ کی طرح ان کے سروں پر سائبان بن کر بھی رہنا ہے۔ اب یہ وہ زینب نہیں تھی جو ایک چھپکلی کو دیکھ کر چیخ اٹھتی تھی بلکہ اب وہ ایک ایسی چٹان بن گئی تھی جو اپنی اولاد پہ آنے و الی ہر مصیبت کر اپنے اوپر سہہ لے گی لیکن ان کا بال تک بیکا نہیں ہونے دے گی۔ زینب نے اپنی زندگی اب اپنے بچوں کے لیے تج دی تھی، اس کا جینا مرنا صرف انہی کی خاطر تھا۔ زمینوں کی دیکھ بھال سے لے کر خاندانی معاملات تک ہر کام اس نے اپنے ذمے لے لیا۔شہزاد کی عمر ابھی تیرہ سال بھی نہ ہونے پائی کہ زینب اپنی دونوں بیٹیوں کے ہاتھ پیلے کر چکی تھی۔
ہاجرہ اور صغری کو جہاں باپ کی موت کا دکھ بہت تھا لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان کے دل میں یہ اطمینان بھی تھا کہ ان کا بھائی بڑا ہو رہا ہے جو کل ان کے باپ کی جگہ لے لے گا کیونکہ بڑے کہتے ہیں بھائی بڑا ہو یا چھوٹا لیکن بہنوں کا بڑا مان ہوتا ہے۔ دونو ں بہنیں اپنے گھروں میں بظاہرخوش باش تھیں اور زینب اللہ کا شکر ادا کرتے نہ تھکتی تھی کہ جس نے اس کی بیٹیوں کے نصیب اتنے اچھے لکھے تھے۔ لوگ بھی حیران ہوتے تھے کہ اسے اتنے اچھے گھرانے کہاں سے مل گئے آج کل تو باپ بھائیوں والیوں کو بھی اتنے اچھے رشتے نہیں ملتے۔ لیکن کسی کو کیا پتا تھا کہ یہ خوشی بھی اس بے کس کو زیادہ دن راس نہیں آئے گی۔ ہاجرہ شادی کے تیسرے مہینے ہی بیوہ ہو کر واپس میکے کی دہلیز پر آگئی اور ....[جاری ہے]